خداوند عالم عادل ھے يعني كسي پر ظلم نھيں كرتا اور اس سے كوئي بُرا كام صادر نھيں ھوتا ھے بلكہ اس كے تمام كام ميں حكمت اور مصلحت پائي جاتي ھے اچھے كام كرنے والوں كو بھترين جزا دے گا كسي چيز ميں جھوٹ اور وعدہ خلافي نھيں كرتا ھے، كسي كو بے گناہ اور بے قصور جھنم ميں نھيں ڈالے گا، اس مطلب پر دو دليل پيش خدمت ھے ۔
پھلي دليل
جو شخص ظلم كرتا ھے يا برے كام كو انجام ديتا ھے اس كي صرف تين صورتيں پائي جاتي ھيں:(۱)يا وہ اس كام كي اچھائي اور برائي سے واقف نھيں ھے اس وجہ سے ظلم و زيادتي انجام ديتا ھے۔ (۲) ياوہ اس كام كي اچھائي اور برائي سے واقف و آگاہ ھے ليكن جو چيزيں دوسروں كے ھاتھوں ميں ديكھتا ھے چونكہ اس كے پاس وہ شي نھيں ھوتي اس لئے اس كو لينے كے لئے ان پر ظلم كرتا ھے تا كہ ان كے اموال كو لے كر فائدہ اٹھائے اپنے عيب و نقص (كمي) كو پورا كرے اس كا مطلب يہ ھے كہ اپنے كام كرنے والوں (كارگروں) پر ستم كرتا ھے اور ان كے حقوق كو ضائع و برباد كرتا ھے اور خود قوي ھے اس لئے كمزوروں اور مجبوروں پر ظلم كرتا ھے، اور ان كے اموال و اسباب سے چاھتا ھے كہ اپني كمي كو برطرف اور اپنے نقص كو پورا كرے (۳)يا ظلم و زيادتي سے آگاھي ركھتا ھے اس كو ان كي ضرورت بھي نھيں ھے، بلكہ انتقام اور بدلہ يا لھو و لعب كے لئے ايسا كام انجام ديتا ھے۔
عموما ًھر ظلم و ستم كرنے والے انھيں اسباب كي وجہ سے ان كاموں كے مرتكب ھوتے ھيں، ليكن خداوند عالم كي ذات اس سے منزہ اور پاكيزہ ھے، وہ ظلم و ستم نھيں كرتا اس لئے كہ جھالت و ناداني اس كے لئے قابل تصور نھيں ھے، اور وہ تمام چيزوں كي اچھائي اور برائي كي مصلحتوں سے خوب واقف ھے وہ ھر چيز سے مطلقا بے نياز ھے، اس كو كسي كام اور كسي چيز كي ضرورت و حاجت نھيں ھے، اس سے لغو و بےھودہ كام بھي صادر نھيں ھوتا اس لئے كہ وہ حكيم ھے در نتيجہ اس كے پاس صرف عدالت ھي عدالت موجود ھے ظلم و ستم كا شائبہ بھي نھيں پايا جاتا ھے ۔
دوسري دليل
ھماري عقل، ظلم و ستم كو ناپسند اور برا كھتي ھے اور تمام عقلمندوں كا بھي اس پر اتفاق ھے كہ خداوند عالم نے اپنے بھيجے ھوئے انبياء كو بھي لوگوں پر ظلم و ستم نيز برے كاموں كے انجام دينے سے منع فرمايا ھے، اس بناء پر كيسے ھو سكتا ھے كہ جس چيز كو تمام عقلمندافراد برا اور ناپسند كريں اور خدا اپنے بھيجے ھوئے خاص بندوں كو ان كاموں سے منع كرے اور خود ان غلط كاموں كو انجام دے ؟!
البتہ سماج اور معاشرے ميں ديكھنے كو ملتا ھے كہ تمام لوگ ھر جھت سے برابر نھيں ھيں، بلكہ بعض ان ميں فقير اور بعض غنى، بد صورت و خوبصورت، خوش فھم و نا فھم، سلامت و بيمار وغيرہ ان كے درميان فرق پايا جاتا ھے ۔
بعض اشخاص پريشانيوں ميں مبتلا رھتے ھيں يہ تمام كي تمام چيزيں بعض اسباب اور علتوں كي بناء پر انسان كے اوپر عارض ھوتي ھيں جس سے فرار اور چھٹكارا ممكن ھے، كبھي يہ اسباب طبعي علتوں كي بنياد پر اور كبھي خود انسان ان ميں دخالت ركھتا ھے ليكن ان تمام چيزوں كے باوجود خدا كے فيض كا دروازہ كھلا ھوا ھے اور ھر شخص اپني استعداد و استطاعت كے مطابق اس سے فيض حاصل كرتا ھے خداوند عالم كسي بھي شخص كو اس كي قدرت و طاقت سے زيادہ تكليف و ذمہ داري نھيں ديتا، انسان كي كوشش اور محنت كبھي رائگاں نھيں ھوتى، ھر فرد بشر كي ترقي كے لئے تمام حالات و شرائط ميں راستے كھلے ھوئے ھيں ۔
حوالہ:
۱۔سورہ مؤمنون۔
۲۔آيت ۱۱۵" اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنَاكُم عَبَثًا وَ اَنكُّم اِلَينَا لَا تُرجَعُونَ " كيا تم يہ گمان كرتے ھو كہ ھم نے تم كو بے كار پيدا كيا ھے اور تم ھمارے حضور ميں لوٹا كر نھيں لائے جاؤگے ۔
۳۔آيت ۱۱۵" اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنَاكُم عَبَثًا وَ اَنكُّم اِلَينَا لَا تُرجَعُونَ " كيا تم يہ گمان كرتے ھو كہ ھم نے تم كو بے كار پيدا كيا ھے اور تم ھمارے حضور ميں لوٹا كر نھيں لائے جاؤگے ۔
(سبھی کے جاننے کی باتیں،آیت اللہ ابراھیم امینی)