www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد امت کے درمیان پیدا ہونے والا پہلا اختلاف، مسئلہ امامت وخلافت تھا جس نے امت مسلمہ کو دوحصوں میں تقسیم کردیاتھا۔ ایک گروہ حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہٴ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تسلیم کرتا تھا جب کہ دوسرا گروہ دوسرے خلفاء کا حامی اور انھیں کی خلافت کو قبول کرنے والا تھا۔ یھیں سے مسلمان دو حصوں ،شیعہ اور سنی میں تقسیم ہوگئے تھے۔
اختلاف شیعہ وسنی کی غلط تصویر کشی
اکثرافراد یہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ امامت میں شیعہ۔سنی اختلاف اس وجہ سے ہے کہ شیعوں کے نظریے اوراعتقاد کے مطابق پیامبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امور جامعہ کی انجام دہی کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو بطور خلیفہ اپنا جانشین مقررفرما دیا تہاجب کہ اہل سنت کے نظریے وعقیدے کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کو بھی اپنا خلیفہ نصب و مقرر نہیں کیاتھا بلکہ امت رسول نے اپنی صوابدید اور تشخیص کے مطابق اپنے خلیفہ وحاکم کا انتخاب کر لیا تھا۔انھوں نے اپنا جانشین خود ہی مقرر کیا تھا او تیسرے مرحلے میں یہ انتخاب چہ نفری شوریٰ کے حوالے کردیا گیاتھا۔ خلیفہٴ چہارم ایک بار پھر عوامی انتخاب کے ذریعہ منتخب ہوئے۔
اس مذکورہ نقطہٴ نگاہ سے شیعہ ۔سنی اختلاف فقط اور فقط ایک تاریخی مسئلہ ہے کہ آیا رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے واقعی حضرت علی علیہ السلام کو بطور خلیفہ وجانشین مقرر فرمایا تھا یا نہیں۔ شیعہ کہتے ہیں : ہاں اور اہل سنت کہتے ہیں: نہیں۔ بہرحال، اس بات پر سب متفق ہیں کہ تاریخ اسلام میں جو کچھ واقع ہو، وہ یہ تھا کہ ابوبکر، عمر، عثمان، علی علیہ السلام نے بالترتیب خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔
پس اگر واقعاً رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو امامت وخلافت کے لئے نصب ومقرر فرمایا تھا تو آپ کے حکم کی تعمیل نہیں ہوئی اوردیگر افراد غاصبانہ طورپراس عہدے پر قابض ہوگئے۔
حقیقت یہ ہے کہ شیعہ ۔سنی اختلاف مذکورہ نظریے سے کہیں زیادہ عمیق ،وسیع اوردقیق ہے۔ کسی دوسری شئی سے زیادہ شیعہ ۔سنی اختلاف اس میں ہے کہ آیا امامت ایک منصب دینی اور تابع تشریع ونصب الٰہی ہے ؟ یا ایک سلطنت دنیاوی اوراجتماعی عوامل واسباب کا تابع؟
امامت: اہل سنت کے نقطہٴ نظرسے
اہل سنت حضرات اس بات کے معتقد ہیں کہ امامت وخلافت یعنی مسلمانوں پر حکومت کرنا۔ امام کا وظیفہ وذمہ داری بھی وہی ہوتی ہے جو معاشرے سے متعلق ایک عام حاکم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان حضرات کے مطابق اسلام میں تعیین خلیفہ وامام کے لئے کوئی خاص روش موجود نہیں ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ خلیفہ ، گذشتہ خلیفہ کی وصیت کے ذریعہ معین ہوجائے یا انتخاب شوریٰ کے ذریعے حتی عام بغاوت اور فوجی غلبہ کی بنیاد پر بھی خلیفہ معین کیا جاسکتا ہے۔
امامت : شیعی نقطہٴ نظر سے
شیعی نظریے کے مطابق امامت یعنی اسلامی معاشرے کے تمام دینی ودنیوی امورمیں مکمل اور وسیع وعریض حاکمیت ۔یہ حاکمیت فقط اس صورت میں شرعی اور قابل قبول ہے جب خدا وند عالم کی طرف سے معین شدہ ہو حتی رسول خدا نے بھی اپنے جانشین کا تعین اپنی ذاتی حیثیت ومقام کی وجہ سے نہیں بلکہ حکم خدا کے مطابق کیا ہو۔
اس طرح امامت بھی نبوت کی طرح ایک منصب الٰہی ہے اور جس طرح نبی صرف اور صرف خدا کی جانب سے معین ہوتا ہے اسی طرح امام بھی منصب امامت کے لئے خدا ہی کی طرف سے منتخب ومعین ہوتا ہے۔
شیعی عقیدے کے مطابق امامت فقط ایک ظاہری حکومت نہیں ہے بلکہ ایک معنوی و روحانی اعلیٰ منصب ومقام ہے۔ امام امور جامعہ کی انجام دہی کے علاوہ دین ودنیا میں امت کی چہار جانبہ ہدایت کا بھی ذمہ دار ہے۔ امام لوگوں کی روح و فکر کو بالیدگی وہدایت عطا کرتا ہے۔ ساتھ ہی شریعت پیامبر کو ہر طرح کی تحریف ،تبدیلی ا ورتغیر سے محفوظ رکھتا ہے نیز ان اہداف کی پیروی و ترویج بھی کرتا ہے جن کے لئے رسول مبعوث ہوئے تھے۔
شیعی عقیدے کے مطابق اگر کوئی اصالتاً اور ذاتاً ( نہ بعنوان نیابت)اس منصب و مقام پر فائز ہو تووہ تمام حقائق ومعارف دینی پر تسلط رکھتا ہے۔ احکام و معارف دینی کے بیان وتفسیر میں ہرگز کسی بھی قسم کی غلطی یا اشتباہ نہیں کرتا نیز ہر طرح کے گناہ سے پاک و معصوم ہوتا ہے۔
شیعی نقطہٴ نگاہ سے ، امام معصوم، نبوت کے علاوہ ان تمام عہدوں اور مناصب کا حقدار ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تھے۔ حقائق، قوانین واحکام اسلامی سے متعلق اس کا کلام حجت اور مختلف حکومتی امور میں اس کے فرمان وحکم کی اطاعت واجب ہے۔
تقابل منصب امامت ونبوت
اگر نبوت کو خداکی راہنمائی فرض کرلیں توامامت الٰہی رہبری ہے۔ نبی کی شان یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کے لئے راہ وروش معین کرے جب کہ امام لوگوں کو اس راہ پرچلنے کے لئے آمادہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے مقام ومنصب امامت، نبوت سے کہیں برتر واعلیٰ ہے اور یہی وجہ تھی کہ حضرت ابراہیم خلیل الله علیہ السلام نبوت کے حصول کے برسوں بعد نیز متعدد امتحانوں میں کامیاب ہونے کے بعد اس مقام تک پہونچ سکے تھے۔
“وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ”
اور ( اس وقت کو یاد کرو) جب خدا نے چند کلمات کے ذریعہ ابراہیم کا امتحان لیا اور انھوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں انھوں نے عرض کیا کہ میری ذریت ؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدہ ظالمین تک نہیں جائے گا۔(۱﴾
اس آیہٴ کریمہ سے تین نکات واضح ہوتے ہیں:
۱۔ مقام امامت ،مقام نبوت سے برتر ہے۔
۲۔ مقام امامت ،ایک الٰہی منصب ہے۔
۳۔ یہ منصب کسی غیر معصوم تک نہیں پہونچ سکتا کیونکہ غیر معصوم مرتکب گناہ ہوتا ہے اور ارتکاب گناہ ،ظلم اور مرتکب گناہ، ظالم ہوتا ہے۔
البتہ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ مقام امامت کے مقام نبوت سے اعلیٰ ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ ذات امام، ذات نبی سے برتر ہے کیونکہ بہت سے انبیاء ایسے گذرے ہیں جو نبی ہونے کے ساتہ امام بھی تھے جیسے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔
مسئلہ امامت میں اختلاف کے اصلی اورحقیقی محور
اختصار کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ مسئلہ امامت میں شیعہ وسنی نظریات میں اختلاف کے اسباب یہ ہیں کہ شیعہ نظریے کے مطابق:
۱۔ امام اور جانشین رسول، صرف خدا کی طرف سے نصب ومعین ہوتا ہے۔
۲۔ امام ،علم لدنی کا حامل اور ہرخطا و غلطی سے پاک ہوتا ہے۔
۳۔ امام گناہ سے مبرا وپاک ہوتا ہے۔
لیکن اہل سنت ، امامت کے لئے مذکورہ تینوں شرائط کو لازم اور ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔
حوالہ جات
۱۔بقرہ: ۱۲۴

 

Add comment


Security code
Refresh