www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

371595
فرقہ مالکی اپنی قدمت کے اعتبار سے اھل سنت کا دوسرا اور وسعت کے اعتبار سے تیسرا فرقہ ہے۔
اس مکتب کے بانی مالک بن انس اصبحی ہیں جو تابعین کے تیسرے طبقہ کے فقھاء میں سے تھے۔
ابن انس سنہ ۹۰ سے ۹۷ کے درمیان مدینہ میں پیدا ھوئے مالک نے اپنی زیادہ تر زندگی مدینہ میں گزاری اور ربیعہ بن فروغ ، ابن شھاب زھری، نافع مولی عبد اللہ بن عمر بن ھرمز ، ابو الزناد اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس فقہ کی تعلیم حاصل کی۔
مالک نے خلفاء وقت کے ساتھ نرمی اور خاموشی سے کام لیا لیکن نفس زکیہ کے قیام کے سلسلے میں ان کی خاموشی نے حاکم مدینہ کو ان سے بدگمان کر دیا۔ لھذا حاکم نے انھیں سزا دی۔
منصور نے حاکم مدینہ کی بغیر اجازت کے انھیں سزا دینے کی وجہ سے مالک سے معذرت طلب کی۔ نیز ھارون رشید نے سنہ ۱۷۹ میں اپنے سفر حج کے دوران مالک بن انس سے ملاقات کی۔
ان تمام چیزوں کے باوجود یہ کھا جا سکتا ہے کہ مالک بنی عباس سے راضی نھیں تھے چنانچہ ان کی یھی عدم ریاضت اس بات کا باعث بنی کہ اندلس میں موجود بنی امیہ کے نزدیک ان کی محبت میں اضافہ ھو گیا اور ان کے نزدیک مالک کا مقام مزید اونچا ھو گیا۔
مالک حدیث شناسی کے میدان میں کافی مھارت رکھتے تھے۔
مالک بن انس کا اھم ترین فقھی اثر " الموطا" ہے جو منصور کی درخواست سے مرقوم ھوا۔
ان کی دوسری کتاب" رسالۃ الی الرشید" ہے۔
مکتب مالکی، شافعی کے وجود پانے سے پھلے حجاز، مصر افریقی ممالک، اندلس اور سوڈان کے علاقوں میں کافی شھرت کا حامل تھا اور بغداد میں بھی کافی جلوہ گر تھا یھاں تک کہ ۴۰۰ سال کے بعد مصر میں مکتب شافعی کے سامنے آنے سے اس نے زوال کی طرف رخ کر لیا صرف مشرقی افریقہ کے علاوہ دیگر تمام ممالک میں مکتب مالکی کو دوسرا درجہ حاصل ھوا۔
آج اس مکتب کے ماننے والے شمالی افریقہ، الجزائر، تونس، مصر کے پھاڑی علاقے، کویت ، سوڈان ، قطر، اور بحرین میں اکثریت سے پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فلسطین اور عربستان میں بھی کچھ محدود علاقوں میں مکتب مالکی رائج ہے۔

Add comment


Security code
Refresh