www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

بے جا توقعات کی ایک وجہ " کفو " کے صحیح مفھوم سے نا واقفیت ہے بھت سے لوگ بھت ساری چیزوں کو اپنی شان کی خصوصیت سمجھتے ہیں

 جن کی حیثیت تکلفات سے زیادہ نھیں ہے وہ کھتے ہیں کہ ھم اپنی لڑکی کی شادی کس طرح کریں ابھی تک ھمیں کوئی آئیڈیل لڑکا نھیں مل سکا یعنی مالدار ھو ، بڑا خاندان ھو ،زندگی کے جملہ وسائل فراھم ھوں ۔
بعض افراد اس طرح کے قیود سے عاجز آچکے ہیں اور معاشرہ کو قصور وار قرار دیتے ہیں اور وہ خود اس بات سے غافل ہیں کہ اس طرح کا سماج خود انھیں نے تشکیل دیا ہے ۔
اسلام میں کفو کا مطلب مال و دولت ، جاہ و منصب اور مادیت کی برابری نھیں ہے بلکہ اگر وہ افراد دینی اور اخلاقی اعتبار سے برابر ہیں تو وہ ایک دوسرے کے کفو ہیں ۔
"جویبر" یمامہ کے رھنے والے تھے مدینہ میں رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ھوئے اور اسلام قبول کیا ۔ کوتاہ قد تھے ۔ محتاج و برھنہ تھے اور کسی قدر کریہ المنظر تھے ۔ پیغمبر اسلام(ص) آپ کو کافی تسلی دیتے تھے اور آنحضرت کے حکم کے مطابق جویبر رات کو مسجد میں سوتے تھے ۔
اور اس طرح رفتہ رفتہ ان مھاجروں اور غریبوں کی تعداد میں اضافہ ھو گیا جن کا ٹھکانہ بس مسجد تھی ۔
پیغمبر اسلام(ص) پر وحی نازل ھوئی کہ ان لوگوں کو مسجد کے باھر جگہ دی جائے ۔ رسول خدا (ص) نے خدا کے حکم پر عمل کرتے ھوئے حکم دیا کہ پناہ گزینوں کے لئے ایک الگ جگہ معین کی جائے بعد میں اس جگہ کا نام "صفّہ " قرار پایا ۔ جو لوگ وھاں رھتے تھے ان کو اسی مناسبت سے اصحاب صفہ کھا جاتا تھا ۔
ایک دن پیغمبر اسلام(ص) نے شفقت بھری نگاہ سے جویبر کو دیکھا اور شادی کرنے کی پیش کش کی ۔
جویبر نے کھا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ! کون لڑکی مجھ سے شادی کرنے پر تیار ھو گی خدا کی قسم میرا نہ کوئی حسب و نسب ہے نہ دولت ہے اور خوبصورت بھی تو نھیں ھوں ۔
پیغمبر اسلام (ص)نے فرمایا : اسلام نے جاھلیت کی رسموں کو ختم کر دیا ہے وہ لوگ جو اس زمانے میں پست تھے اسلام لانے کے بعد با عزت ھو گئے وہ لوگ جو جاھلیت میں( دولت ، ثروت ، جاہ و منصب کی بنا پر )اپنے کو با عزت سمجھتے تھے آج وہ ( احکام خدا کی نافرمانی کرنے کی بنا پر ) اسلام کی نگاہ میں ذلیل ھو گئے ہیں ۔
جویبر! تمام انسان، گورے کالے ،عرب عجم سب فرزند آدم ہیں اور خدا نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا ، قیامت میں وھی شخص سب سے بھتر ہے جو سب سے زیادہ احکام الٰھی کی پیروی کرنے والا اور پرھیز گار ھو ۔ اس بناء پر کسی بھی انسان کو تم پر فوقیت حاصل نھیں ہے مگر تقویٰ اور پرھیز گاری کی بنیاد پر ۔
اسکے بعد فرمایا : زیاد بن بشیر اپنے قبیلہ کی محترم شخصیت ہے اس کے پاس جاؤ اور کھو رسول خدا(ص) نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ سے آپ کی بیٹی " ذلفا" کی خواستگاری کروں ۔
پیغمبر اسلام (ص)کے حکم کے مطابق جویبر زیاد بن بشیر کے گھر گئے اجازت طلب کی ، داخل ھوئے اور پیغمبر(ص) کا پیغام پھونچایا ۔
زیاد نے تعجب سے پوچھا کیا پیغمبر اسلام (ص)نے تمھیں بس اسی کام سے بھیجا ہے ۔
جویبر نے کھا : ھاں میں رسول خدا (ص) کی طرف غلط نسبت نھیں دونگا ۔
زیاد نے کھا : ھم اپنی لڑکیوں کی شادی صرف انھیں سے کرتے ہیں جو ھمارے برابر ھوں اور انصار سے ھوں تم جاؤ۔ میں خود رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ھو کر معذرت کر لوں گا ۔
جویبر یہ کھتے ھوئے واپس چلے آئے کہ آپ کا یہ طریقہ قرآن اور حدیث پیغمبر کے مطابق نھیں ہے ۔
زیاد کی بیٹی ذلفا کنارے کھڑی جویبر کی گفتگو سن رھی تھی اس نے باپ کو بلایا اور دریافت کیا آپ نے جویبر کو کیا جواب دیا ؟
زیاد نے کھا : جویبر تمھاری خواستگاری کے لئے آیا تھا اور کھہ رھا تھاکہ پیغمبر اسلام (ص)کے حکم کے مطابق تمھاری شادی اس کے ساتھ کر دوں ۔
ذلفا نے کھا کہ اس کو جلدی واپس بلائیے خدا کی قسم وہ پیغمبر(ص) کی طرف غلط نسبت نھیں دے سکتا۔
زیاد نے جویبر کو واپس بلایا اور خود پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں حاضر ھوئے اور کھا میرے والدین آپ پر قربان ۔ آپ کی جانب سے جویبر اس طرح کا پیغام لایا تھا آپ تو جانتے ھی ہیں کہ ھم اپنی لڑکیوں کی شادی اپنے برابر والوں کے علاوہ کسی اور سے نھیں کرتے ۔
پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا :
جویبرمومن ہے اور مرد مومن زن مومنہ کا کفو ہے اور مسلمان مرد مسلمان عورت کا کفو ہے :" المومن کفو للمومنة و المسلم کفو للمسلمة " جویبر کو اپنا داماد بنا لو اور اس کو اپنے سے دور کرنے کے لئے بھانہ مت تلاش کرو ۔
زیاد واپس ھوئے جو باتیں رسول خدا (ص) سے ھوئی تھیں ذلفا سے بیان کر دی ۔
ذلفا نے نھایت ایمان و اطمینان سے اپنے والد سے کھا رسول خدا (ص) کے حکم پر عمل کیجئے اگر آپ نا فرمانی کریں گے تو کافر ھو جائیں گے ۔
زیاد نے دیکھا کہ اس کی بیٹی اس شادی پر راضی ہے ۔ جویبر کو اپنے رشتہ داروں کے درمیان بلایا اور ذلفا سے شادی کر دی ۔ چونکہ جویبر کے پاس گھر نھیں تھا لھذا ایک گھر بھی دیا تاکہ جویبر اور ذلفا آسانی کے ساتہ اپنی زندگی کا آغاز کر سکیں ۔ (۱)
یہ بات بھی قابل توجہ ہے یہ لوگ جو تحصیل علوم کی طولانی مدت کو شادی کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتے ہیں وہ اشتباہ کرتے ہیں کیونکہ شادی صرف تحصیل علوم کو متاثر نھیں کرتی بلکہ شادی کے بعد وہ سکون ملتا ہے کہ جس کی بنا پر مزید ذوق و شوق سے پڑھائی کی جا سکتی ہے ۔ جو لوگ یہ کھتے ہیں کہ جب تک جوان ڈگری حاصل نہ کر لے ،اس کی مالی حیثیت درست نہ ھو جائے اس وقت تک شادی نھیں کرنا چاھئے یہ نظریہ بالکل بے بنیاد ہے ۔ کیونکہ یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ اقتصادی پریشانی زیادہ تر غلط رسم و رواج کی بنا پر ہے ۔ اگر گھرانے اسلامی قوانین پر عمل کرنے لگیں اور اپنی توقعات کم کر دیں، خرافات اور اندھی تقلید سے دست بردار ھو جائیں تو وہ شادی جو ایک ھیولیٰ بنی ھوئی ہے اور خطرناک نظر آتی ہے نھایت آسان ھو جائے گی ۔
دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اگر طالب علم اپنی توقعات کم کریں اور واقعی ضرورتوں کو خیالی ضرورتوں سے جدا کریں اور لڑکی کے والدین اسلامی احکام سے واقفیت کی بنا پر غلط رسم و رواج سے دست بردار ھو جائیں تو طالب علم کی شادی کے لئے راہ خود بخود ھموار ھو جائے گی اور آسانی سے شادی ھو سکے گی ۔

حوالہ:
۱۔فروع کافی ج۵ ص ۳۴۱۔

Add comment


Security code
Refresh