حضرت زینب سلام اللہ علیھا علی(ع) و فاطمہ (س) کی بیٹی اور پیغمبر اکرم (ص) کی نواسی ہیں۔ آپ نھایت ھی بافضیلت خاتون تھیں۔
اس کا اندازہ یھاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ امام علی زین العابدین(ع )آپ کو عالمہ غیر معلمہ (ایسی عالمہ جس نے کسی سے اکتساب علم نھیں کیا) کے نام سے یاد کرتے تھے۔ آپ کے کمالات صرف علم تک ھی محدود نھیں بلکہ زندگی کے مختلف حصوں میں آپ کی شخصیت کے مختلف پھلو منظر عام پر آئے۔ جیسا کہ ھم کربلا اور اس کے بعد والے واقعات میں آپ کی شجاعت اور فن خطابت کا مشاھدہ کرتے ہیں۔
آپ کی ولادت:
حضرت زینب (س) کی تاریخ ولادت کے بارے میں مختلف روایات پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے معتبر ترین روایت کے مطابق آپ کی ولادت ۵ جمادی الاول سن ۶ ھجری کو مدینہ میں ھوئی۔
آپ کیلئے نام کا انتخاب:
روایات میں ملتا ہے کہ جب حضرت زینب (س) پیدا ھوئیں تو پیغمبر اکرم (ص) مدینہ میں نھیں تھے۔ لھذا حضرت فاطمہ زھرا(س) نے امام علی(ع) کو کھا کہ آپ اس بچی کیلئے کوئی نام انتخاب کریں۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول خدا (ص) کے واپس آنے کا انتظار کر لیا جائے۔ جب پیغمبر اکرم (ص) سفر سے واپس آئے تو حضرت علی (ع) نے انھیں یہ خوشخبری سناتے ھوئے کھا کہ اس بچی کا نام آپ انتخاب کریں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ اس کا نام خدا انتخاب کرے گا۔ اسی وقت جبرئیل نازل ھوئے اور خدا کی طرف سے یہ پیغام پھنچایا کہ "خدا نے اس بچی کا نام زینب رکھا ہے"۔
رسول خدا (ص) کا گریہ کرنا:
جب رسول خدا (ص) حضرت زینب (س) کی ولادت کے موقع پر علی (ع) و فاطمہ (س) کے گھر تشریف لائے تو آپ نے نومولود بچی کو اپنی آغوش میں لیا۔ اس کو پیار کیا اور سینے سے لگایا۔ اس دوران علی (ع) و فاطمہ (س) نے دیکھا کہ رسول خدا(ص) اونچی آواز سے گریہ کر رھے ہیں۔ جناب فاطمہ (س) نے آپ (ص) سے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ (ص) نے فرمایا: "بیٹی، میری اور تمھاری وفات کے بعد اس پر بھت زیادہ مصیبتیں آئیں گی"۔
حضرت زینب (س) کے القاب:
تاریخی کتابوں میں آپ کے ذکر شدہ القاب کی تعداد تقریباً ۶۱ ہے۔ ان میں سے کچھ مشھور القاب درج ذیل ہیں:
۱- عالمہ غیر معلمہ، ۲- نائبۃ الزھراء، ۳- عقیلہ بنی ھاشم، ۴- نائبۃ الحسین، ۵- صدیقہ صغری، ۶- محدثہ، ۷- زاھدہ، ۸- فاضلہ، ۹- شریکۃ الحسین، ۱۰- راضیہ بالقدر والقضاء
حضرت زینب( س)کا بچپن اور تربیت:
انسان کی زندگی کا اھم ترین زمانہ اس کے بچپن کا زمانہ ھوتا ہے کیونکہ اس کی شخصیت کا قابل توجہ حصہ اس دور میں معرض وجود میں آتا ہے۔ اس سے بھی اھم وہ افراد ھوتے ہیں جو اس کی تربیت میں موثر واقع ھوتے ہیں۔
حضرت زینب (س) کی خوش قسمتی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کرنے والی خاتون سیدہ نساءالعالمین حضرت فاطمہ (س) ہیں اورآپ امام علی (ع) جیسے باپ کی زیر نگرانی پرورش پاتی ہیں۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم (ص)، جو تمام انسانوں کیلئے "اسوہ حسنہ" ہیں، نانا کی حیثیت سے آپ کے پاس موجود ہیں۔
لھذا یہ آپ کے افتخارات میں سے ہے کہ آپ نے رسول خدا(ص)، امام علی (ع) اور فاطمہ زھرا (س) جیسی بے مثال شخصیات کی سرپرستی میں پرورش پائی۔
حضرت زینب (س) کی شادی:
آپ کی شادی ۱۷ ھجری میں اپنے چچا کے بیٹے عبداللہ ابن جعفر ابن ابیطالب سے ھوئی۔ عبداللہ حضرت جعفر طیار کے فرزند تھے اور بنی ھاشم کے کمالات سے آراستہ تھے۔ آپ کے چار فرزند تھے جنکے نام محمد، عون، جعفر اور ام کلثوم ہیں۔
حضرت زینب (س) واقعہ کربلا کے بعد:
کربلا کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک بے مثال واقعہ ہے۔ لھذا اس کو تشکیل دینے والی شخصیات بھی ایک منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں نے ایک مقدس اور اعلی ھدف کی خاطر یہ عظیم قربانی دی۔ لیکن اگر حضرت زینب (س) اس عظیم واقعے کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا نھیں کرتیں تو بلاشک وہ تمام زحمتیں ضائع ھو جاتیں۔ لھذا یہ کھا جا سکتا ہے کہ اگر ھم آج شھدائے کربلا کے پیغام سے آگاہ ہیں اور ان کی اس عظیم قربانی کے مقصد کو درک کرتے ہیں تو یہ سب حضرت زینب (س) کی مجاھدت اور شجاعانہ انداز میں اس پیغام کو دنیا والوں تک پھنچانے کا نتیجہ ہے۔ شاید اسی وجہ سے انھیں "شریکۃ الحسین (ع)" کا لقب دیا گیا ہے۔
اگر امام حسین (ع) اور انکے ساتھیوں نے اپنی تلواروں کے ذریعے خدا کے رستے میں جھاد کیا تو حضرت زینب (س) نے اپنے کلام کے ذریعے اس جھاد کو اپنی آخری منزل تک پھنچایا۔
کربلا میں سرور شھیدان امام حسین (ع) اور انکے ساتھیوں کو شھید کرنے کے بعد دشمن یہ سوچ رھا تھا کہ اس کو ایک بے نظیر فتح نصیب ھوئی ہے اور اسکے مخالفین کا ھمیشہ کیلئے خاتمہ ھو گیا ہے۔ لیکن حضرت زینب (س) کے پھلے ھی خطبے کے بعد اس کا یہ وھم دور ھو گیا اور وہ یہ جان گیا کہ یہ تو اسکی ھمیشہ کیلئے نابودی کا آغاز ہے۔
حضرت زینب (س) کے خطبات:
حضرت زینب (س) کے خطبات میں ان کے والد امام علی (ع) کی فصاحت اور بلاغت کی جھلک نظر آتی ہے۔ لھذا جس طرح امیرالمومنین علی (ع) کے کلام کو بزرگ علماء نے قیمتی موتیوں کی طرح جمع کیا ہے اسی طرح حضرت زینب (س) کے خطبات کو بھی بڑے بڑے محققین اور تاریخ دانوں نے اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے۔ ان میں مرحوم محمد باقر مجلسی کی کتاب "بحارالانوار"، مرحوم ابومنصور احمد ابن علی طبرسی کی کتاب "احتجاج"، شیخ مفید( رہ )کی کتاب "امالی" اور احمد ابن ابی طاھر کی کتاب "بلاغات النساء" شامل ہیں۔
۱۔ بازار کوفہ میں حضرت زینب(س) کا خطبہ:
کوفہ کے زن و مرد جو ھزاروں کی تعداد میں یہ نظارہ دیکھنے کے لئے وھاں جمع تھے آلِ رسول (ص) کو اس تباہ حالت میں دیکھ کر زار و قطار رونے لگے۔ امام زین العابدین (ع)نے نحیف و نزار آواز کے ساتھ فرمایا: "تنوحون وتبکون من ذاالذی قتلنا"اے کوفہ والو! یہ تو بتاؤ ھمیں قتل کس نے کیا ہے؟
اسی اثنا میں ایک کوفی عورت نے چھت سے جھانک کر دیکھا اور پوچھا کہ تم کس قوم اور قبیلہ سے تعلق رکھتے ھو؟۔ آپ نے فرمایا: "نحن اساری آلِ محمد (ص)"۔ ھم خاندانِ نبوت کے اسیر ہیں۔
یہ سن کر وہ نیک بخت عورت نیچے اتری اور کچھ برقعے اور چادریں اکٹھی کر کے ان کی خدمت میں پیش کیں۔
اس وقت عقیلہ بنی ھاشم حضرت زینب(س) نے خطبہ ارشاد فرمایا۔ لوگوں کی آہ و زاری اور شور کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نھیں دیتی تھی۔ لیکن راوی بتاتے ہیں کہ جونھی شیر خدا کی بیٹی نے لوگوں کو ارشاد کیا کہ "انصتوا" [خاموش ھو جاؤ]، تو کیفیت یہ تھی کہ "ارتدت الانفاس و سکنت الاجراس"، آتے ھوئی سانسیں رک گئیں اور جرس کارواں کی آوازیں خاموش ھو گئیں۔ اس کے بعد دختر علی (ع) نے خطبہ شروع کیا تو لوگوں کو حضرت علی (ع) کا لب و لھجہ یاد آ گیا۔
جب ھر طرف مکمل خاموشی چھا گئی تو امّ المصائب نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:
"سب تعریفیں خدا وند ذوالجلال و الاکرام کے لئے ہیں اور درود و سلام ھو میرے نانا محمد (ص) پر اور ان کی طیب و طاھر اور نیک و پاک اولاد پر۔ اما بعد! اے اھلِ کوفہ! اے اھل فریب و مکر! کیا اب تم روتے ھو؟ خدا کرے تمھارے آنسو کبھی خشک نہ ھوں اور تمھاری آہ و فغان کبھی بند نہ ھو۔ تمھاری مثال اس عورت جیسی ہے جس نے بڑی محنت و جانفشانی سے مضبوط ڈوری بانٹی اور پھر خود ھی اسے کھول دیا اور اپنی محنت پر پانی پھیر دیا تم منافقانہ طورپر ایسی جھوٹی قسمیں کھاتے ھو جن میں کوئی صداقت نھیں۔ تم جتنے بھی ھو، سب کے سب بیھودہ گو، ڈینگ مارنے والے ، پیکر فسق و فجور اور فسادی، کینہ پرور اور لونڈیوں کی طرح جھوٹے چاپلوس اور دشمنی کے غماز ھو۔ تمھاری مثال کثافت[گندگی] پر اگنے والے سبزے یا اس چاندی جیسی ہے جو دفن شدہ عورت (کی قبر) پر رکھی جائے۔
آگاہ رھو! تم نے بھت ھی برے اعمال کا ارتکاب کیا ہے۔ جس کی وجہ سے خدا وند عالم تم پر غضب ناک ہے۔ اس لئے تم اس کے ابدی عذاب و عتاب میں گرفتار ھو گئے۔ اب کیوں گریہ و زاری کرتے ھو؟ ھاں بخدا البتہ تم اس کے سزاوار ھو کہ روؤ زیادہ اور ھنسو کم۔ تم اپنے امام علیہ السلام کے قتل میں ملوث ھو چکےھو اور تم اس داغ کو کبھی دھو نھیں سکتے اور بھلا تم خاتم نبوت اور معدن رسالت کے سلیل (فرزند) اور جوانان جنت کے سردار، جنگ میں اپنے پشت پناہ، مصیبت میں جائے پناہ، منار حجت اور عالم سنت کے قتل کے الزام سے کیونکر بری ھو سکتے ھو۔ لعنت ھو تم پر اور ھلاکت ہے تمھارے لئے۔ تم نے بھت ھی برے کام کا ارتکاب کیا ہے اور آخرت کے لئے بھت برا ذخیرہ جمع کیا ہے۔ تمھاری کوشش رائیگاں ھو گئی اورتم برباد ھو گئے۔ تمھاری تجارت خسارے میں رھی اور تم خدا کے غضب کا شکار ھو گئے۔ تم ذلت و رسوائی میں مبتلا ھوئے۔ افسوس ہے اے اھل کوفہ تم پر، کچھ جانتے بھی ھو کہ تم نے رسول خدا (ص) کے کس جگرگوشہ کو پارہ پارہ کر دیا ؟ اور ان کا کون سا خون بھایا ؟ اور ان کی کون سی ھتک حرمت کی؟ اور ان کی کن مستورات کو بے پردہ کیا ؟ تم نے ایسے پست اعمال کا ارتکاب کیا ہے کہ آسمان گر پڑیں، زمین پھٹ جائے اور پھاڑ ریزہ ریزہ ھو جائیں۔ تم نے قتلِ امام (ع) کا سنگین جرم کیا ہے جو وسعت میں آسمان و زمین کے برابر ہے۔ اگر اس قدر بڑے گناہ پر آسمان سے خون برسے تو تعجب نہ کرو۔ یقیناً آخرت کا عذاب اس سے کھیں زیادہ سخت اور رسوا کن ھو گا۔ اور اس وقت تمھاری کوئی امداد نہ کی جائے گی۔ تمھیں جو مھلت ملی ہے اس سے خوش نہ ھو کیونکہ خدا وندِ عالم بدلہ لینے میں جلدی نھیں کرتا اور اسے انتقام کے فوت ھو جانے کا خدشہ نھیں ہے۔ یقیناً تمھارا خدا اپنے نا فرمان بندوں کی گھات میں ہے'۔
۲ ۔ دربار یزید میں حضرت زینب (س) کا خطبہ:
"بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ھوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پراور ان کی پاکیزہ عترت و اھل بیت (ع) پر۔ اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنھوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاھی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا۔ اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ھم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے[زمین و آسمان] تنگ کر دئیے ہیں اور کیا آلِ رسول (ص) کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز اور ھم رسوا ھوئے ہیں؟۔ کیا تیرے خیال میں ھم مظلوم ھو کر ذلیل ھو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ھوا ہے؟۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ھم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ھو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاھری فتح کی خوشی میں سرمست ہے اور ناک بھوں چڑھاتا ھوا مسرت و شادمانی سے سرشار ھو کر اپنے غالب ھونے پر اترا رھا ہے۔ اور زمامداری[خلافت] کے ھمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے۔
اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ھو اور ذرا دم لے۔
کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ھم نے انھیں جو مھلت دی ہے وہ ان کے لئے بھتر ہے۔ بلکہ ھم نے انھیں اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناھوں میں اضافہ کر لیں۔اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین و مقرر کیا جا چکا ہے۔
اے طلقاء کے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراھم کر کے پردے میں رکھا ھوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برھنہ در بدر پھرا رھا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ھوا۔ تیرے حکم پر اشقیاء نے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شھر بہ شھر پھرایا۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اھل بیت رسول (ص) کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ھجوم میں لے آئے۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رھے ہیں اور دور و نزدیک کے رھنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رھے ہیں۔ ھر شریف و کمینے کی نگاھیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں۔
آج رسول زادیوں کے ساتھ ھمدردی کرنے والا کوئی نھیں ہے۔
آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نھیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں۔
آج آلِ محمد ص کا معین و مددگار کوئی نھیں ہے۔
اس شخص سے بھلائی کی توقع ھی کیا ھو سکتی ہے جو اس خاندان کا چشم و چراغ ھو جس کی بزرگ خاتون (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر چبا کر تھوک دیا۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ھو سکتی ہے جس کا گوشت پوست شھیدوں کے خون سے بنا ھو۔
وہ شخص کس طرح ھم اھل بیت پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ھوئے دل کے ساتھ ھمیں دیکھتا ہے۔
اے یزید ! کیا تجھے شرم نھیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباھات کرتا ھوا یہ کھہ رھا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ھوتے تو ان کے دل باغ باغ ھو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ھوئے کھتے کہ اے یزید تیرے ھاتھ شل نہ ھوں۔
اے یزید ! کیا تجھے حیا نھیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی (ع) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رھا ہے۔
اے یزید، تو کیوں خوش نہ ھو اور فخر و مباھات کے قصیدے نہ پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے ھمارے دلوں کے زخموں کو گھرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناؤنے جرم کا مرتکب ھوا ہے۔
تو نے اولاد رسول (ص) کے خون میں اپنے ھاتھ رنگین کئے ہیں۔
تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تھہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ھوئے ہیں۔
آج تو آلِ رسول (ص) کو قتل کر کے اپنے بد نھاد[برے] اسلاف کو پکار کر انھیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منھمک ہے۔
تو عنقریب اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اُس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ھو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ھاتھ شل ھو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ھوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کھا اس سے میں باز رھتا۔
اس کے بعد حضرت زینب(س) نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰھی میں عرض کی !
اے ھمارے کردگارِ حق، تو ھمارا حق ان ظالموں سے ھمیں دلا دے اور تو ھمارے حق کا بدلہ ان سے لے۔
اے پردگار تو ھی ان ستمگروں سے ھمارا انتقام لے۔
اور اے خدا تو ھی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ھمارے عزیزوں کو خون میں نھلایا اور ھمارے مددگاروں کو تھہ تیغ کر دیا۔
اے یزید ! تو نے جو ظلم کیا ہے اپنے ساتھ کیا ہے۔ تو نے کسی کی نھیں بلکہ اپنی ھی کھال چاک کی ہے۔ اور تو نے کسی کا نھیں بلکہ اپنا ھی گوشت کاٹا ہے۔ تو رسولِ خدا(ص) کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناؤنے جرم کی پوچھ تاچھ ھو گی کہ تو نے اولادِ رسول (ص) کا خونِ ناحق کیوں بھایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا۔ نیز رسول (ص) کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا۔
اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول (ص) کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انھیں دلائے گا۔ اور انھیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر مٹ چکے ہیں۔ بلکہ وہ ھمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰھی سے روزی پا رھے ہیں۔
اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد (ص) پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا (ص) عدالتِ الٰھی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول (ص) کی گواھی دیں گے۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعے تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ اور یھی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے۔
عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پھنچ جائیں گے جنھوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اھل اسلام پر مسلط کر دیا۔ ان لوگوں کو بھت جلد معلوم ھو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ھوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں۔
اے یزید ! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنھاد[برے انسان] سے ھمکلام ھونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رھی ھوں۔ لیکن یاد رکھ میری نظر میں توُ ایک نھایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توھین ہے۔ میری اس جرأت سخن پر توُ مجھے اپنے ستم کا نشانہ ھی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ھوئے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بد سلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نھیں ھو سکتی۔
اے یزید ! آج ھماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رھے ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ھمنواؤں اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاھیوں اور پاکباز لوگوں کو تھہ تیغ کرڈالا ہے۔ اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ھاتھوں سے ھمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رھے ہیں۔ ان کے ناپاک دھن ھمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑئے ان پاکباز شھیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رھے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رھے ہیں۔
اے یزید ! اگر آج تو ھماری مظلومیت پر خوش ھو رھا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رھا ہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باھر ھو گا۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نھیں کرتا۔ ھم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اور ھر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ھمارا بھروسہ ہے۔
اے یزید ! تو جتنا چاھے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تمھیں معلوم ھونا چاھیئے کہ تو نہ تو ھماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ھی وحی الٰھی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے۔
تو یہ خیال خام اپنے دل سے نکال دے کہ ظاھر سازی کے ذریعے ھماری شان و منزلت کو پا لے گا۔
تو نے جس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نھیں دھو پائے گا۔ تیرا نظریہ نھایت کمزور اور گھٹیا ہے۔
تری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ تیرے پاس اس دن کے لئے حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نھیں بچے گا۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لئے خدا کی لعنت ہے ۔
ھم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ھمارے خاندان کے پھلے فرد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سعادت و مغفرت سے بھرہ مند فرمایا اور ھمارے آخر (امام حسین علیہ السلام) کو شھادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا۔ ھم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ھمارے شھیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ھم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے، بے شک خدا ھی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مھربان ہے۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ھمیں کچھ مطلوب نھیں اور ھمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لئے کہ اس سے بھتر کوئی سھارا نھیں ہے"۔
مراجع:
۱- اخبار الزینبات، عقیلۃ الوحی۔
۲- فاطمۃ الزھرا، بہجۃ قلب مصطفی۔
۳- زینب کبری۔