جناب زینب عقیلہ بنی ھاشم سلام اللہ علیھا کی دردناک رحلت کے موقع پر تمام عزاداران اھلبیت(ع) کی خدمت میں تعزیت عرض کرتے ہیں۔
زینب سلام اللہ علیھا اس باعظمت خاتون کانام هے جن کا طفولیت فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گذرا هے جو اپنی تمام جھتوں سے کمالات میں گھرا هوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کاسایہ ھر وقت موجود تھا اور اس پر ھر سمت نورانی اقدار محیط تھیں رسول اسلام (ص)نے انھیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھیں علم و حکمت کی غذا سے سیر کیا عصمت کبریٰ فاطمہ زھرا(س) نے انھیں فضیلتوں اور کمالات کی ایسی گھٹی پلائی جس سے زینب(س) کی تطهیر و تزکیہ نفس کا سامان فراھم هوگیا اسی کے ساتھ ساتھ حسنین شریفین نے انھیں بچپن هی سے اپنی شفقت آمیز مرافقت کا شرف بخشا یہ تھی زینب(س) کے پاکیزہ تربیت کی وہ پختا بنیادیں جن سے اس مخدومہ اعلیٰ کا عھد طفولیت تکامل انسانی کی ایک مثال بن گیا.
وہ زینب جو قرة عین المرتضیٰ جو علی مرتضیٰ (ع)کی آنکھوں کی ٹھنڈک هو جو علی مرتضیٰ (ع)کی آنکھوں کانور هو وہ زینب جو علی مرتضیٰ کی قربانیوں کو منزل تکمیل تک پھنچانے والی هو وہ زینب جو”عقیلة القریش“هو جو قریش کی عقیلہ و فاضلہ هو وہ زینب جو امین اللہ هو اللہ کی امانتدار هو گھر لٹ جائے سر سے چادر چھن جائے بے گھر هو جائے لیکن اللہ کی امانت اسلام پر حرف نہ آئے، قرآن پر حرف نہ آئے،انسانیت بچ جائے، خدا کی تسبیح و تھلیل کی امانتداری میں خیانتداری نہ پیدا هو، وہ هے زینب جو "آیة من آیات اللہ"آیات خدا میں ھم اھلبیت خدا هیں ھم اللہ کی نشانیوں میں سے ھم اللہ کی ایک نشانی هیں وہ زینب جو مظلومہ وحیدہ ہے جو مظلوموں میں سے ایک مظلومہ "ملیکة الدنیا"وہ زینب جو جھان کی ملکہ هے جو ھماری عبادتوں کی ضامن هے ۔زینب اس بلند پائے کی بی بی کا نام جس کا احترام وہ کرتا جس کا احترام انبیاء ما سبق نے کیا هے جس کو جبرائیل نے لوریاں سنائی هیں کیونکہ یہ بی بی زینب ثانی زھرا سلام اللہ علیھا هے اور زھرا کا احترام وہ کرتا تھا جس کا احترام ایک لاکھ چوبیس ھزار انبیاء کرتے تھے ۔جس رحمة للعالمین کے احترام میں ایک لاکھ انبیاء کھڑے هوتے هو ئے نظر آئے عیسیٰ نے انجیل میں نام محمد(ص) دیکھا احترام رحمة للعالمین میں کھڑے هوگئے موسیٰ نے توریت میں دیکھا ایک بار اس نبی کے اوپر درود پڑھنے لگے تو مددکے لئے پکارا احترام محمد(ص) میں سفینہ ساحل پہ جا کے کھڑاهوگیا (یعنی رک گیا ) جس رحمت للعالمین کے احترام میں ایک کم ایک لا کھ چوبیس ھزار انبیا ء کا، کارواں کھڑا هو جائے تو وہ رحمت للعالمین بھی تو کسی کے احترام میں کھڑا هوتا هو گا اب تاریخ بتاتی هے کہ جب بھی فاطمہ سلام اللہ علیھا محمد (ص) کے پاس آئیں محمد مصطفیٰ کھڑے هو گئے تو اب مجھے بتائے کہ استاد کھڑا هو اور شاگرد بیٹھا رهے سردار کھڑا هو سپاهی بیٹھے رهیں تو اب بات واضح هو گئی کہ محمد(ص)اکیلے نهیں فاطمہ(س) کے احترام میں کھڑے هوئے بلکہ یوں کھنا چاھیے کہ ایک لاکھ چوبیس ھزار انبیاء کا کارواں احترام فاطمة الزھرا سلام اللہ علیھا میں کھڑا هوا اب زینب هیں ثانی زھرا اگران کے تابوت و ان کے حرم کے سامنے احترام میں اگر شیعہ کھڑا هو جائے تو سمجھ لینا کہ وہ سنت پیغمبر ادا کررھا هے ۔
کائنات کی سب سے محکم و مقدس شخصیتوں کے درمیان پرورش پانے والی خاتون کتنی محکم و مقدس هوگی اس کا علم و تقویٰ کتنا بلند و بالا هوگا یهی وجہ هے کہ روایت کے جملہ هیں کہ آپ عالمہ غیر معلمہ هیں آپ جب تک مدینہ میں رهیں آپ کے علم کا چرچہ هوتا رھا اور جب آپ مدینہ سے کوفہ تشریف لائیں تو کوفہ کی عورتوں نے اپنے اپنے شوھروں سے کھا کہ تم علی(ع) سے درخواست کرو کہ آپ مردوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کافی هیں لیکن ھماری عورتوں نے یہ خواھش ظاھر کی هے کہ اگر هو سکے تو آپ اپنی بیٹی زینب(س) سے کھہ دیں کہ ھم لوگ جاھل نہ رہ جائیں ایک روز کوفہ کی اھل ایمان خواتین رسول زادی کی خدمت میں جمع هو گئیں اور ان سے درخواست کی کہ انھیں معارف الٰهیہ سے مستفیض فرمائیں حضرت زینب(س) نے مستورات کوفہ کے لئے درس تفسیر قرآن شروع کیا اور چند دنوں میں هی خواتین کی کثیر تعداد علوم الٰهی سے فیضیاب هونے لگی آپ روز بہ روز قرآن مجید کی تفسیر بیان کرتی تھیں اور روز بہ روز تفسیر قرآن کے درس میں خواتین کی تعداد میں کثرت هو رهی تھی درس تفسیر قرآن عروج پر پھنچ رھا تھا اور ساتھ هی کوفہ میں آپ کے علم کا چرچہ روز بروز ھر مردو زن کی زبان پر تھا اور ہر گھر میں آپ کے علم کی تعریفیں هو رهی تھیں اور لوگ علی(ع) کی خدمت میں حاضر هو کر آپ کی بیٹی کے علم کی تعریفیں کیا کرتے تھے یہ اس کی بیٹی کی تعریفیں هو رهی هے جس کا باپ "راسخون فی العلم " جس کا باپ باب شھر علم هے جس کا باپ استاد ملائکہ هے ۔
یہ تھی عظمت صدیقہ طاھرہ زینب کبریٰ ،لیکن، وہ و قت بھی قریب آیا کہ جب زمانہ نے رخ موڑ لیا ،جس در سے لوگ نجات حاصل کرتے تھے اسی در کو مسمار کرنے کی تیاریاں هونے لگیں حسین مظلوم(ع) نے ایک چھوٹا سا کارواں بنایا اوربحکم الٰهی نانا کے مدینہ کو خیر باد کھہ کر راہ کربلا اختیار کیا ایک روز راہ میں زینب نے دیکھا کہ دنیائے انسانیت کو منزل سعادت پھونچانے کا ذمہ دار امام محراب عبادت میں اپنے معبود کے ساتھ راز و نیاز کرنے میں مصروف هے بامعرفت بھن بھائی کے قریب بیٹھ گئی جب امام اپنے وظیفہ عبادت سے فارغ هوئے تو زینب(س) نے کھا بھیا میں نے آج شب میں ایک صدائے غیبی کو سنا هے گویا کوئی یہ کھہ رھا تھا کہ
الا یا عین فاحتفظی
علی قوم تسوم قھم امنایا۔
ومن یبکیٰ اعلیٰ الشھد اء بعدی
بمقدار الیٰ انجاز وعدی
ان اشعار کا ترجمہ اردو زبان کے منظومہ انداز میں پیش خدمت هے۔
اشکبار دل حزیں هے ، میرا ساتھی یھاں کوئی نهیں هے
میرا عھد وفا پورا هوا هے ،مصیبت میں مصیبت آفریں هے
شهیدوں پر نهیں روئے گا کوئی،یهی احساس دل میں آتشیں هے
غم و کرب وبلا اور درد پیھم ، یہ سب اور ایک جسم نازنیں هے
زینب نے جب اپنے بھائی کو صحرائے کربلا میں تڑپتا دیکھا تو کھا ھائے میرے نانا محمد(ص) ھائے میرے بابا علی(ع)ہائے میرے چچا جعفر ھائے حمزہ سید الشھداء دیکھو میراغریب حسین(ع) صحرائے کربلا پر خون میں لت پت پڑا هے کاش آج آسمان گرجاتا یہ منظر زینب نہ دیکھتی لیکن ایک بار راوی کھتا هے کہ زینب نے کلیجے کو سنبھالا اور اس کے بعد بھائی کا کٹا هوا گلا چوم کر صبرو رضا کا دامن تھامے هو ئے خیام کی طرف چلیں زینب نے اتنی عظیم مصیبت پر صبرو استقامت اختیار کر کے عظمت انسانیت کو معراج بخشی اور پیام حسینی کی ھدایت نواز تاثیر سے دنیائے بشریت کو حیات جاویداں کا راستہ دکھایا۔ یهی وجہ هے کہ آج تک ھر صاحب بصیرت انسان زینب کے جذبہ استقامت کے سامنے سرِ ادب خم کئے هوئے هے کربلا کی شیر دل خاتون زینب کبریٰ نے مصیبت دائم کی گھڑی میں صبرو تحمل کے ایسے نمونے پیش کئے جو آج تک ھر اھل درد کے لئے مثال بن چکے هیں حضرت علی علیہ السلام کی باعظمت بیٹی نے اپنی ھر مصیبت میں رضائے الٰهی کو مد نظر رکھا اور اپنے صبرکا اجر بارگاہ خدا سے طلب کیا۔ یهی وجہ هے کہ بھائی کی لاش پر آکر خدا کے حضور میں قربانی آل محمد علیھم السلام کی قبولیت کی دعا کرنا زینب کے مقام تقویٰ کا بے مثال نمونہ سمجھا جاتا هے اور حقیقت بھی یهی هے کہ اتنے عظیم بھائی کی لاش پر بھنیں عموماً اپنے حواس کھو بیٹھتی هیں لیکن زینب کے اخلاص صبر کی عظمتیں نمایاں هوئیں اور غم و اندوہ کی اس حالت میں رضائے الٰهی کے حصول کی دعائیں مانگتی رهیں عقیلہ بنی ھاشم زینب کبریٰ نے کربلا کی غم واندوہ فضاء میں عظمت و کردار کے جو نمونے پیش کئے وہ نہ فقط یہ کہ پوری کائنات کے لئے معیار عمل بنے بلکہ شھادت امام کے عظیم مقصد کی تکمیل بھی هوئی اور رھتی دنیا تک فطرت کی اعلیٰ اقدار کے تحفظ کی ضمانت بھی فراھم هو گئی حق و باطل کی پھچان کے راستے واضح هوگئے اور شھدائے کربلا کی عظیم قربانیوں کے پاکیزہ اسرار بھی نمایاں هوگئے۔
سیدہ زینب(س) نے اپنے پر جوش خطاب میں اموی خاندان کی بربریت اور ارباب اقتدار کی طاغوتیت کو بے نقاب کردیا اور لوگوں کو ان کے جرائم کے خلاف قیام کرنے پر آمادہ کیا ۔
اے زینب کبریٰ تیرے خطبوں کے ذریعہ
شبیر کا پیغام زمانہ نے سنا هے
دیتے هیں جو ھر روز مسلمان آذانیں
در اصل تیرے درد بھرے دل کی صدا هے
شاعر نے حضرت زینب(س) کے خطبوں کی حقیقت پر یوں روشنی ڈالی هے کہ:
ایمان کی منزل کف پا چوم رهی هے
ملت کی جبیں نقش وفا چوم رهی هے
اے بنت علی عارفہ لھجہ قرآں
خطبوں کو تیرے وحی خدا چوم رهی هے
ایک روایت بتاتی هے کہ جس وقت قیدیوں کو دمشق میں لایا گیا تھا تو اس وقت ایک عورت یزید کی بیوی ھند کے پاس آئی اور اس سے کھا کہ اے ھند ابھی ابھی کچھ قیدی آئے هیں انھیں دیکھ کر دل دھل اٹھتا هے آؤ چلیں وهیں دل بھلائیں۔ ھند اٹھی اور اس نے عمدہ لباس زیب تن کیا اور اپنی سر تا پا چادر اوڑھی اور دوپٹہ سر کرکے اس مقام پر آئی اور اس نے خادمہ کو حکم دیا کہ ایک کرسی لائی جائے جب وہ کرسی پر بیٹھ گئی تو زینب کی نظر اس پر پڑی آپ نے غور سے اس کی طرف دیکھا تو اسے پھچان لیا اور اپنی بھن ام کلثوم سے کھا بھن کیا آپ نے اس عورت کو پھچان لیا هے؟ ام کلثوم نے جواب دیا کہ نهیں میں نے اسے نهیں پھچانا، زینب نے فرمایا یہ ھماری کنیر ھند بنت عبداللہ هے جو ھمارے گھر میں کام کاج کرتی تھی، زینب(س) کی بات سن کر ام کلثوم(س) نے اپنا سر نیچے کر لیا اور اسی طرح جناب زینب(س) نے بھی اپنا سر نیچے کر لیا تاکہ ھند ان کی طرف متوجہ نہ هو لیکن ھند ان دونوں بیبیوں کو غور سے دیکھ رهی تھی اس نے آگے بڑھ کر پوچھا آپ نے آپس میں کیا گفتگو کر کے پر اسرار طور پر اور خاص انداز میں اپنے سر جھکا لئے هیں کیا کوئی خاص بات هے ؟ جناب زینب(س) نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموش کھڑی رهیں۔ ھند نے پھر پوچھا بھن آپ کس علاقے سے هیں ؟
اب زینب(س) خاموش نہ رہ سکیں اور فرمایا: ھم مدینہ کے رھنے والے هیں ،ھند نے مدینہ منورہ کا نام سنا تو اپنی کرسی چھوڑ دی اور احترام سے کھڑی هو گئی اور پوچھنے لگی بھن کیا آپ مدینے والوں کو جانتی هیں ؟جناب زینب(س) نے فرمایا: آپ کن مدینہ والوں کے بارے میں دریافت کرنا چاھتی هیں؟ ھند نے کھا: میں اپنے آقا امام علی(ع) کے گھرانے کے متعلق پوچھنا چاھتی هوں، علی(ع) کے گھر انے کانام لےکر ھندکی آنکھوں سے محبت کے آنسوں جاری هو گئے اور خود کھنے لگی میں اس گھرانے کی خادمہ تھی اور وھاں کام کیا کرتی تھی مجھے اس گھرانے سے بھت محبت هے۔ زینب(س) نے پوچھا تو اس گھرانے کے کن افراد کو جانتی هے اور کس کے متعلق دریافت کرنا چاھتی هے ؟ ھند نے کھا کہ امام علی(ع) کی اولاد کا حال معلوم کرنا چاھتی هوں میں آقاحسین(ع) اور اولاد حسین (ع)اور علی (ع)کی پاکیزہ بیٹیوں کا حال معلوم کرنا چاھتی هوں۔ خاص طور پر میں اپنی آقا زادیوں زینب و کلثوم کی خیریت دریافت کرنا چاھتی هوں اور اسی طرح فاطمہ زھرا(س) کی دوسری اولاد کے متعلق معلوم کرنا چاھتی هوں۔ زینب(س) نے ھند کی بات سن کر اشکبار آنکھوں کے ساتھ جواب دیا، تونے جو کچھ پوچھا هے میں تفصیل سے تجھے بتاتی هوں تو نے علی(ع)کے گھر کے متعلق پوچھا هے تو ھم اس گھر کو خالی چھوڑ کر آئے تھے، تو حسین(ع)کے متعلق دریافت کرتی هے تو یہ دیکھو تمھارے آقا حسین(ع) کا سر تمھارے شوھر یزید کے سامنے رکھا هے۔ تو نے اولاد علی علیہ السلام کے متعلق دریافت کیا هے۔
تو ھم ابو الفضل العباس سمیت سب جوانوں کو کربلا کے ریگزار پر بے غسل و کفن چھوڑ آئے هیں۔ تو نے اولاد حسین (ع)کے متعلق پوچھا هے تو ان کے سب جوان مارے گئے هیں۔ صرف ایک علی ابن الحسین(ع) باقی هیں۔ جو تیرے سامنے هیں اور بیماری کی وجہ سے اٹھ بیٹھ نهیں سکتے هیں اور جو تو نے زینب کے متعلق دریافت کیا هے تو دل پر ھاتھ رکھ کر سن کہ میں زینب هوں اور یہ میری بھن ام کلثوم هے۔ جناب زینب کا دردناک جواب سن کر ھند کی چیخ نکل گئی اور منہ پیٹ کر کھنے لگی ھائے میری آقا زادی یہ کیا هو گیا هے۔ ھائے میرے مولا کا حال کیسا هے۔ ھائے میرے مظلوم آقا حسین! کاش میں اس سے پھلے اندھی هو جاتی اور فاطمہ کی بیٹیوں کو اس حال میں نہ دیکھتی، روتے روتے ھند بے قابو هوگئی اور ایک پتھر اٹھا کر اپنے سر پر اتنے زور سے مارا کہ اس کا سارا بدن خون خون هو گیا اور وہ گر یہ کر کے بے هوش هو گئی جب هوش میں آئی تو جناب زینب اس کی طرف متوجہ هو کر فرمانے لگیں: اے ھند تم کھڑی هو جاؤ اور اب اپنے گھر چلی جاؤ کیونکہ تمھارا شوھر یزید، بڑا ظالم شخص هے ممکن هے تمهیں اذیت و آزار پهونچائے۔ ھم اپنی مصیبت کا وقت گزار لیں گے ھم یہ نهیں چاھتے کہ ھماری وجہ سے تمھارا سکون تباہ هو جائے ھند نے جواب دیا،کہ خدا مجھے اپنے آقا و مولا حسین سے زیادہ کوئی چیز عزیز نهیں هے۔ میری زندگی کا سکون ختم هو چکا هے اور اب میں اپنی زندگی کے باقی لمحات اسی طرح روتے هوئے گزاروں گی ۔
نوحہ
بے کفن شبیر ہے تو بے ردا ھمشیر ہے
فاطمہ تیرے جگر پاروں کی یہ تقدیر ہے
اک نشیبی سی جگہ بیٹے کے استقبال کو
گود پھیلائے ھوئے یہ فاطمہ دلگیر ہے
جس کو ماری ہے سناں کچھ ہے خبر وہ کون ہے
کلمہ گو تیرے نبی کی ھو بھو تصویر ہے
قاری قرآں چلے قرآں کو نیزے پر لیے
ننگے سر محمل پہ جبکہ وارثِ تطھیر ہے
دے دیئے عون و محمد،اصغر و اکبر سبھی
کیوں نہ ھو بنتِ نبی کے شیر کی تاثیر ہے
جو اُٹھاتا ہے غم شاہِ شھیداں میں قلم
نام نقوی دفتر شبیر میں تحریر ہے
نوحہ
بے ردا شھر کی گلیوں سے گذر زینب کا
پشتِ عابد پہ ہے تحریر سفر زینب کا
گرپڑا خاک پہ عباس کا سر مقتل میں
نوک نیزہ سے نہ دیکھا گیا سر زینب کا
خون شبیر کی ھر بوند کا مقروض بشر
خون شبیر ہے مقروض مگر زینب کا
رات لگتی ہے مجھے بنتِ پیمبر کی ردا
چاند لگتا ہے مجھے دیدۂ تر زینب کا
یہ الگ بات کہ محفوظ رھا دین رسول
یہ الگ بات کہ لوٹا گیا گھر زینب کا
لاش اکبر پہ حسین ابن علی کھتے تھے
کس نے چھلنی کیا برچھی سے جگر زینب کا
جس جگہ شامِ غریباں کی ھو مجلس برپا
ذکر ھوتا ہے وھاں تا بہ سحر زینب کا