حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کا شمار تاریخ انسانیت کی ان عظیم خواتین میں ھوتاھے جنھوں نے انسانیت کی بقاء اور انسانوں کی فلاح و بھبود کے لئے اپنی زندگی قربان کر دی ۔
تاریخ بشریت گواہ ھے کہ جب سے اس زمین پر آثار حیات مرتب ھونا شروع ھوئے اور وجود اپنی حیات کے مراحل سے گزرتا ھوا انسان کی صورت میں ظھور پذیر ھوا اور ابوالبشر حضرت آدم
علیہ السلام اولین نمونہ انسانیت اور خلافت الھیہ کے عھدہ دار بن کر روئے زمین پر وارد ھوئے اور پھر آپ کے بعد سے ھر مصلح بشریت جس نے انسانیت کے عروج اور انسانوں کی فلاح و بھبود کیلئے اس کو اس کے خالق حقیقی سے متعارف کرانے کی کوشش کی،کسی نہ کسی صورت میں اپنے دور کے خودپرست افراد کی سر کشی اور انانیت کا سامنا کرتے ھوئے مصائب وآلام سے دوچار ھوتا رھا دوسری طرف تاریخ کے صفحات پران مصلحین بشریت کے کچہ ھمدردوں اور جانثاروں کے نام بھی نظر آتے ھیں جو ھر قدم پر انسانیت کے سینہ سپر ھوگئے اور در حقیقت ان سرکش افراد کے مقابلے میں ان ھمدرد اورمخلص افراد کی جانفشانیوں ھی کے نتیجے میں آج بشریت کا وجود برقرار ھے ورنہ ایک مصلح قوم یا ایک نبی یا ایک رسول کس طرح اتنی بڑی جمعیت کا مقابلہ کرسکتا تھا جوھر آن اس کے در پئے آزارھو یھی مٹھی بھر دوست اور فداکار تھے جن کے وجود سے مصلحین کے حوصلے پست نھیں ھونے پاتے تھے۔
مرور ایام کے ساتھ پرچم اسلام آدم (ع)و نوح (ع)و عیسیٰ وابراھیم علیھم السلام کے ھاتھوں سربلندی وعروج حاصل کرتا ھوا ھمارے رسول کے دست مبارک تک پھونچااورعرب کے ریگزار میں آفتاب رسالت نے طلوع ھوکر ھر ذرہ کو رشک قمر بنا دیا،ھرطرف توحید کے شادیانے بجنے لگے از زمین تا آسمان لا الھٰ الا الله کی صدائیں باطل کے قلوب کو مرتعش کرنے لگیں ،محمد رسول الله کا شور دونوں عالم پر محیط ھوگیا اور تبلیغ الٰھی کا آخری ذریعہ اور ھدایت بشری کے لئے آخری رسول رحمت بن کر عرب کے خشک صحرا پر چھاتا ھوا سارے عالم پر محیط ھوگیا دوسری طرف باطل کا پرچم شیطان ونمرود ،فرعون وشداد کے ھاتھوں سے گذرتا ھوا ابولھب ،ابو جھل اور ابوسفیان کے ناپاک ھاتھوں بلند ھونے کی ناپاک کاوشوں میں مصروف ھوگیا ۔رسول کے کلمہ توحید کے جواب میں ایذا رسانی شروع ھوگئی اور حق وباطل کی طرح برسر پیکار ھوگئے ایسے عالم میں کہ ایک طرف مکہ کے خاص وعام تھے اور دوسری طرف بظاھر ایک تنگ دست اور کم سن جوان جس کے اپنے اس کے مخالف ھو چکے تھے ۔ لیکن پیغام الٰھی کی عظمت، مصائب کی کثرت پر غالب تھی اور ھر اذیت کے جواب میں رسول الله کا جوش تبلیغ اور زیادہ ھوتا جاتا تھا ۔
ایسے کسمپر سی کے عالم میں جھاں ایک طرف آپ کے چچا ابوطالب نے آپ کی ھر ممکنہ مدد کی وھیں دوسری طرف آپ کی پاک دامن زوجہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا نے آپ کی دلجوئی اور مدارات کے ذریعہ آپ کو کفار مکہ سے پھچنے والی تمام تکالیف کو یکسرہ فراموش کرنے پرمجبورکردیا ۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا نے آپ کی زبان سے خبر بعثت سنتے ھی اٰمنا وصدقنا کھہ کر آپ کی رسالت کی پھلے ھی مرحلے میں تائید کردی ۔جناب خدیجہ سلام اللہ علیھاکا یہ اقدام رسول اکرم کیلئے بھت حوصلہ افزاء ثابت ھوا ۔آپ کی اسی تائید وتعاون کو رسول اکرم(ص) آپ کی وفات کے بعد بھی یاد فرماتے رھتے تھے اور اکثر وبیشتر آپ کی زبان اقدس پر حضرت خدیجہسلام اللہ علیھا کا تذکرہ رھتا تھا (۱(
عائشہ نے جب آپ کے اس فعل پر اعتراض کرتے ھوئے کھا کہ خدیجہ ایک ضعیفہ کے سوا کچہ نھیں تھی اور خدا نے آپ کو اس سے بھتر عطا کردی ھے (عائشہ کا اشارہ اپنی طرف تھا )تو حضور ناراض ھو گئے (۲ )۔
اور غضب کے عالم میں فرمایا کہ خدا کی قسم خدا نے مجھکو اس سے بھتر عطا نھیں کی وللٰہ لقد اٰمنت بی اذکفر الناس واٰوتینی اذرفضنی الناس و صدقتنی اذکذبنی الناس (۳) خدا کی قسم وہ (خدیجہ )اس وقت مجھ پر ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ھو ئے تھے اس نے مجھے اس وقت پنا ہ دی جب لوگوں نے مجھے ترک کردیا تھا اور اس نے میری اس وقت تصدیق و تائید کی جب لوگ مجھے جھٹلا رھے تھے۔
خاندان و نام ونسب
شجر اسلام کی ابتدائی مراحل میں آبیاری کرنے والی اور وسطی مراحل میں اس کی شاخوں کو نمو بخشنے والی یہ خاتون قریش کے اصیل و شریف گھرانے میں پید ا ھوئی ۔روایات میں آپ کی ولادت عام الفیل سے پندرہ سال قبل ذکر ھوئی اور بعض لوگوں نے اس سے کم بیان کیا ھے ۔آپ کے والد خویلد ابن اسد بن عبد العزی بن قصی کا شمار عرب کے دانشمند وں میں ھوتا تھا ۔اور آپکی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن رواحہ ھیں (۴)آپ کا خاندان ایسے روحانی اور فداکار افراد پر مشتمل تھا جو خانہ کعبہ کی محفاظت کے عھد یدار تھے ۔ جس وقت بادشاہ یمن ”تبع “نے حجر اسود کو مسجد الحرام سے یمن منتقل کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت خدیجہ کے والد ذات تھی جنھوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جس کے نتیجہ میں مجبور ھوکر ”تبع “کو اپنے ارادہ سے منصرف ھو نا پڑا ۔(۵)
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کے جد اسد بن عبد العزی پیمان حلف الفضول کے ایک سرگرم رکن تھے یہ پیمان عرب کے بعض با صفا وعدالت خواہ افراد کے درمیان ھو ا تھا جس میں متفقہ طور پر یہ عھد کیا گیا تھا کہ مظلومین کی طرف سے دفاع کیا جائے گا اور خود رسول اکرم بھی اس پیمان میں شریک تھے (۶)”ورقہ بن نوفل “(حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی )عرب کے دانشمند ترین افراد میں سے تھے اور انکا شمار ایسے افراد میں ھوتا تھا جو بت پرستی کو نا پسند کرتے تھے ی(۷)اور حضرت خدیجہ کو چندین بار اپنے مطالعہ کتب عھدین کی بنا پر خبر دار کرچکے تھے کہ محمد اس امت کے نبی ھیں ۔(۸)خلاصہ یہ کہ اس عظیم المرتبت خاتون کے خاندان کے افراد، متفکر ،دانشمنداوردین ابراھیم کے پیرو تھے ۔
تجارت
ایسے با عظمت افراد کی آغوش عاطفت کی پروردہ خاتون کی طبیعت میں اپنے آبا و اجداد کی طرح رفق ودانشمندی کی آمیزش تھی جس کے سبب آپ نے اپنے والد کے قتل کے بعد ان کی تجارت کو بطریقہ احسن سنبھال لیا اور اپنے متفکر اور زیرک ذھن کی بنا پر اپنے سرمایہ کوروز افزوں کرنا شروع کردیا ۔ آپ کی تجارت با تجربہ اور با کردار افراد کے توسط سے عرب کے گوشہ وکنارتک پھیلی ھوئی تھی روایت کی گئی ھے کہ ”ھزاروں اونٹ آپ کے کار کنان تجارت کے قبضہ مین تھے جو مصر ،شام اور حبشہ جیسے ممالک کے اطراف میں مصروف تجارت تھے“(۹) جن کے ذریعہ آپ نے ثروت سرشار حاصل کر لی تھی ۔
آپ کی تجارت ایسے افراد پر موقوف تھی جو بیرون مکہ جاکر اجرت پر تجارت کے فرائض انجام دے سکیں چنانچہ حضرت ختمی مرتبت کی ایمانداری ،شرافت ،اوردیانت کے زیر اثر حضرت خدیجہ نے آپ کو اپنی تجارت میں شریک کرلیا اور باھم قرار داد ھوئی اس تجارت میں ھونے والے نفع اور ضرر میں دونوں برابر شریک ھوں گے ۔(۱۰) اور بعض مورخین کے مطابق حضرت خدیجہ نے آپ کو اجرت پر کاروان تجارت کا سربراہ مقرر کیا تھا ۔ (۱۱)لیکن اس کے مقابل دوسری روایت ھے جس کے مطابق رسول الله اپنی حیات میں کسی کے اجیر نھیں ھوئے ۔ (۱۲)بھر کیف حضرت کاروان تجارت کے ھمراہ روانہ شام ھوئے حضرت خدیجہ کا غلام میرہ بھی آپ کے ساتھ تھا ۔(۱۳)بین راہ آپ سے کرامات سرزد ھوئیں اور راھب نے آپ میں علائم نبوت کا مشاھدہ کیا اور ”میسرہ“کوآپ کے نبی ھونے کی خبر دی ۔ (۱۴)تمام تاجروں کو اس سفر میں ھر مرتبہ سے زیادہ نفع ھوا جب یہ قافلہ مکہ واپس ھوا تو سب سے زیادہ نفع حاصل کرنے والی شخصیت خود پیام اکرم کی تھی جس نے خدیجہ کو خوش حال کردیا اس کے علاوہ میسرہ (غلام خدیجہ )نے راستے میں پیش آنےوالے واقعات بیان کئے جس سے حضرت خدیجہ آنحضرت کی عظمت و شرافت سے متاثر ھوگئیں۔
ازدواج
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی زندگی میں برجستہ و درخشندہ ترین پھلو آپ کی حضرت رسالت مآب کے ساتھ ازدواج کی داستان ھے ۔جیسا کہ سابقہ ذکر ھوا کہ ”حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی تجارت عرب کے ا طراف واکناف میں پھیلی ھوئی تھی اور آپ کی دولت کا شھرہ تھا “ چنانچہ اس بنا پر قریش کے دولت مند طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد چندین بار پیغام ازدواج پیش کرچکے تھے ،لیکن جنکو زمانہ جاھلیت میں ”طاھرھ“کھا جاتاتھا(۱۵)اپنی پاکدامنی اور عفت کی بنا پر سب کو جواب دے چکی تھیں ۔حضرت جعفر مرتضیٰ عاملی تحریر فرماتے ھیں ”ولقد کانت خدیجہ علیھا السلام من خیرة النساء القریش شرفا واکثر ھن مالا واحسنھن جمالا ویقال لھا سیدةالقریش وکل قومھا کان حریصا ًعلی الاقتران بھا لو یقدر علیھا (۱۶)الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج۲/ص۱۰۷)
”حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا قریش کی عورتوں میں شرف و فضیلت ،دولت وثروت اور حسن وجمال کے اعتبار سے سب سے بلند و بالاتھیں اور آپ کو سیدہ قریش کھا جاتا تھا اور آپ کی قوم کا ھر افراد آپ سے رشتئہ ازدواج قائم کرنے کا خواھاں تھا“
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کو حبالئہ عقد میں لانے کے متمنی افراد میں ”عقبہ ابن ابی معیط “”صلت ابن ابی یعاب “”ابوجھل “اور ”ابو سفیان “جیسے افراد تھے جن کوعرب کے دولتمند اورباحیثیت لوگوں میں شمار کیاجاتاتھا(۱۷)لیکن حضرت خدیجہ باوجود یکہ اپنی خاندانی اصالت ونجابت اورذاتی مال وثروت کی بناپر بے شمار ایسے افراد سے گھری ھوئی تھیں جو آپ سے ازدواج کے متمنی اوربڑے بڑے مھردیکر اس رشتے کے قیام کوممکن بنانے کیلئے ھمہ وقت آمادہ تھے ھمیشہ ازدواج سے کنارہ کشی کرتی رھتی تھیں ۔کسی شریف اورصاحب کردار شخص کی تلاش میں آپ کاوجود صحراء حیات میں حیران وسرگرداں تھا۔ایسے عالم میں جب عرب اقوام میں شرافت ودیانت کاخاتمہ ھوچکاتھا،خرافات وانحرافات لوگوں کے دلوں میں رسوخ کرکے عقیدہ ومذھب کی شکل اختیار کرچکے تھے خود باعظمت زندگی گذارنااوراپنے لئے کسی اپنے ھی جیسے صاحب عزوشرف شوھر کاانتخاب کرناایک اھم اورمشکل مرحلہ تھا ،ایسے ماحول میں جب صدق وصفاکافقدان تھاآپ کی نگاہ انتخاب رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر آکر ٹھھر گئی جن کی صداقت ودیانت کاشھرہ تھا،حضرت خدیجہ نے کم ظرف صاحبان دولت واقتتدار کے مقابلے میں اعلی ظرف ،مجسمہ شرافت ودیانت اورعظیم کردار کے حامل رسول کو جو بظاھر تنگ دست ،یتیم اوربے سھاراتھے ترجیح دے کر قیامت تک آنے والے جوانوں کو درس عمل دے دیاکہ دولت وشھرت اوراقتدار کی شرافت ،عزت اور کردار کے سامنے کوئی حیثیت نھیں ھے۔المختصر برسر اقتدار افراد کومایوس کرنے والی ”خدیجہ “نے باکمال شوق وعلاقہ ازطرف خود پیغام پیش کردیا(۱۸)اورمھر بھی اپنے مال میں قراردیاجس پر حضرت ابوطالب نے خطبئہ نکاح پڑھنے کے بعد فرمایا”لوگوںگواہ رھنا“”خدیجہ “نے خود کومحمدصلی الله علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کیااورمھر بھی اپنے مال میںقرار دیاھے اس پربعض لوگوں نے ابوطالب علیہ السلام پرطنز کرتے ھوئے کھا یاعجباھ!المھر علی النساء للرجل (تعجب ھے مرد عورت کے مال سے مھر کی ادائیگی کرے )جس پرحضرت ابوطالب نے ناراضگی کااظھار کرتے ھوئے غضب کے عالم میں فرمایا،”اذاکانوا مثل ابن اخی ھذاطلبت الرجل باغلی الاثمان وان کانوا امثالکم لم یزوجوا الابالمھر الفالی“(۱۹)(اگرکوئی مردمیرے اس بھتیجے کے مانند ھوگاتوعورت اس کوبڑے بھاری مھر دے کرحاصل کرینگی لیکن اگر وہ تمھاری طرح ھوا تواسکو خود گراںو بھاری مھر دیکر شادی کرناھوگی )ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت نے اپنامھر (جو بیس بکرہ نقل ھواھے)خود ادا کیاتھا(۲۰)اور ایک روایت کے مطابق آپ کے مھر کی ذمہ داری حضرت علی نے قبول کرلی تھی ،حضرت کی عمر کے سلسلے میں تمام مورخین کااس پراتفاق ھے کہ حضرت خدیجہ سے آپ نے پھلی شادی ۲۵/سال کی عمر میںکی لیکن خود حضرت خدیجہ کی عمر کے بارے میںکثیر اختلاف وارد ھواھے چنانچہ ۲۵،۲۸،۳۰/اور۴۰سال تک بھت کثرت سے روایات وارد ھوئی ھیں (۲۱)لیکن معروف ترین قول یہ ھے کہ آپ کی عمر شادی کے وقت ۴۰سال تھی۔ (۲۲)
کیاحضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا رسول(ص) سے قبل شادی شدہ تھیں ؟
اس مسئلہ میں کہ کیارسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے حبالہ عقد میں آنے سے قبل حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا دوسرے افراد کے ساتھ بھی رشتہ مناکحت سے منسلک رھ چکی تھیں یانھیں تاریخ کے مختلف اوراق پر متعدد راویوں کے اقوال میں کثیر اختلاف واقع ھواھے چنانچہ بعض راویوں کے نزدیک رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے شادی کرنے سے قبل حضرت خدیجہ شادی شدہ تھیں اور سابقہ شوھرو ں سے آپ کی اولاد یں بھی ھوئیں تھیں۔
تاریخ کے مطابق آپ کے سابق شوھروں کے نام بالترتیب ”عتیق بن عایذبن عبد اللهفخروی “اور”ابوھالہ تمیمی“ھیں (۲۳)اس کے علاوہ خود آنحضرت کے بارے میں روایت وارد ھوئی ھے کہ ”عائشھ“کے علاوہ آپ نے کسی کنواری خاتون سے شادی نھیں کی تھی (۲۴)لیکن یہ تمام روایات جویہ ثابت کرتی ھیں کہ حضرت خدیجہ شادی شدہ تھیں اوررسول سے قبل بھی دوسرے کی شریک حیات رہ چکی تھیں ،دلائل اوردوسری روایات معتبرہ کی روشنی میں صحیح نظرنھیں آتیں ،بلکہ تمام تاریخ کوسیاست کے ھاتھوں مسخ کئے جانے کی ناکام کوششوں میںسے ایک کانتیجہ ھیں ۔
تجزیہ وتحلیل
۱۔ابن شھر آشوب کابیان ھے کہ ”مرتضیٰ شامی میں اورابوجعفرتلخیص میں رقم طراز ھیں کھ”ان النبی تزوج وکانت عذراء“(۲۵)نبی نے آپ سے شادی کی درحالیکہ آپ کنواری تھیں“۔
اس کے علاوہ اسی مطلب کی تائید اس روایت سے بھی ھوئی ھے جو ثابت کرتی ھے”ان رقیہ وزینب کانتاابتی ھالةاخت خدیجہ (۲۶)رقیہ اور زینب خدیجہ کی بھن ھالہ کی بیٹیاں تھیں(نہ کہ خدیجہ کی)۔
۲۔ ابوالقاسم کوفی کابیان ھے کہ ”خاص وعام اس بات پر متفق ھیں کہ تمام اشراف سربرآور دہ افراد حضرت خدیجہ سے ازدواج کے آرزومند تھے لیکن خدیجہ کے بلند معیار کے سامنے ان کی دولت کی فراوانی اورشان وشوکت ھیچ نظر آتی تھی یھی وجہ تھی کہ حضرت خدیجہ نے سب کے رشتوں کوٹھکرادیاتھالیکن زمانے کی حیرت کی اس وقت کوئی انتھا نہ رھی جب اسی خدیجہ نے عرب کے صاحبان مال وزراورفرزندان دولت و اقتدار کوٹھکراکر حضرت رسالت مآب سے رشتہ ازدواج قائم کرلیاجن کے پاس مال دنیامیں سے کچہ نہ تھا اسی لئے قریش کی عورتیں خدیجہ سے تحیر آمیز ناراضگی کااظھار کرتے ھوئے سوال کربیٹھیں کہ اے خدیجہ !تو نے شرفاوامراء قریش کوجواب دے دیااورکسی کوبھی خاطر میں نہ لائی لیکن یتیم ابوطالب کوجو تنگ دست وبے روزگار ھے انتخاب کرلیااس روایت سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ حضرت خدیجہ نے مکہ کے صاحبان دولت وثروت کو رد کردیاتھااورکسی سے بھی شادی کرنے پر آمادہ نھیں تھیں ،دوسری طرف اس روایت کی رد سے جوسابقا ذکر ھوئی آپ کے ایک شوھر کانام ”ابوھالہ تمیمی “ھے جوبنی تمیم کاایک اعرابی تھا،عقل انسانی اس بات پر متحیر ھوجاتی ھے کہ کس طرح ممکن ھے کہ کوئی اشراف کے پیغام کوٹھکرادے اورایک اعرابی کواپنے شریک حیات کے طور پرانتخاب کرلے ،علاوہ برایں اس سے بھی زیادہ تعجب کا مقام یہ ھے کہ خدیجہ کے اشراف کونظر انداز کرکے رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو (جو خاندانی اعتبار سے بلند مقام کے حامل تھے )انتخاب کرنے پر توقریش کی عورتیں انگشت نمائی کرتی نظر آئیں لیکن ایک اعرابی سے شادی کے خلاف عقل فعل پر، پر سخن زمانہ ساکت رہ جائے (الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/۲ص/۱۲۳)اس دلیل کی روشنی میں یہ واضح ھوجاتاھے کہ حضرت خدیجہ نے رسول سے قبل کوئی شادی نھیں کی تھی اوراگر کی ھوتی توزمانے کے اعتراضات تاریخ میں محفوظ ھوتے۔
۳۔ بعض لوگوں نے حضرت خدیجہ کے شادی شدہ ھونے پر ا س روایت سے استدلال کیاھے کھ”راہ اسلام کااولین شھید حارث بن ابی ھالہ فرزند حضرت خدیجہ ھے(۲۷(
مذکورہ بالاروایت کے مقابلے میں دوسری روایات جن کی سند یں معتبر ھیں ”ابو عمار اور ام عمار“کو اسلام کے پھلے شھید کی صورت میں پیش کرتے ھیں ”ان اول شھید فی الاسلام سمیہ والدہ عمار “(۲۸)(اسلام کی راہ میں پھلی شھید ھونے والی سمیہ والدہ عمار ھیں )اورابن عباس اورمجاھد کی روایت کے مطابق ”قتل ابوعماروام عماراول قتیلین قتلا من المسلمین“( ۲۹)
اسلام کی راہ میں شھید ھونے والے پھلے افراد ابوعمار اورام عمار ھیں ۔
ان روایات سے کاملاًردھوتی ھےکہ یہ شخص جسکو حضرت خدیجہ کے بیٹے کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات پر مرقوم کردیاگیاھے اسلام کی راہ میں قربان ھونے والاپھلاشھید تھا،لھذامعلوم نھیںھے کہ اس شخص کاوجود خارجی تھا بھی یانھیںچہ جائیکہ حضرت خدیجہ کافرزند ھوناپائے ثبوت کوپھنچے۔
۴۔ روایات سے معلوم ھوتاھے کہ حضرت خدیجہ کی ایک بھن تھیں جن کانام ’ھالۂتھااس ھالہ کی شادی ایک فخروی شخص کے ساتھ ھوئی جس سے ایک بیٹی پیداھوئی جس کانام ”ھالھ“تھا،پھراس ھالہ اولی (خواھرخدیجہ (ع))سے ایک بنی تمیم سے تعلق رکھنے والے شخص نے شادی کرلی جوابوھند کے نام سے معروف ھے۔اس تمیمی سے ھالہ کے ایک بیٹاپیداھوا جس کانام ھند تھااوراس شخص ابوھند تمیمی(شوھر خواھرخدیجہ )کی ایک اور بیوی تھی جسکی دوبیٹیاں تھیں "رقیھٔ "اور”زینب“کچہ عرصے کے بعد ابو ھند کی پھلی بیوی جورقیہ اورزینب کی ماں تھی فوت ھوگئی اورپھر کچہ ھی مدت کے بعد ”ابوھند “بھی دنیاسے رخصت ھوگیااوراس کابیٹا”ھند “جوھالہ سے تھا اوردوبیٹیاں جو اس کی پھلی بیوی سے تھیں جن کا نام تاریخ ،رقیہ اورزینب ذکر کرتی ھے ”خدیجہ “کی بھن کے پاس باقی رہ گئے جن میں سے ھند اپنے باپ کی موت کے بعد اپنی قوم بنی تمیم سے ملحق ھوگیااور”ھالہ “(حضرت خدیجہ کی بھن )اوراس کے شوھرکی دونوں بیٹیاں حضرت خدیجہ کے زیر کفالت آگئے ،اور آنحضرت سے آپ کی شادی کے بعد بھی آپ ھی کے ساتھ رھیں اورآپ ھی کے گھر میں دیکھاگیاتھا اس لئے عرب خیال کرنے لگے کہ یہ خدیجہ ھی کی بیٹیاں ھیں اورپھر ان کوحضرت سے منسوب کردیاگیا لیکن حقیقت امریہ تھی کہ رقیہ اورزینب حضرت خدیجہ کی بھن ”ھالہ “کے شوھر کی بیٹیاں تھیں۔ (الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/۲ص/۱۲۶)
مذکورہ بالادلائل کی روشنی میںیہ بات پائے ثبوت کو پھنچی ھے کہ حضرت خدیجہ رسول کے حبالئہ عقد میں آنے سے قبل غیر شادی شدہ تھیں اورآپ کے شوھروں اورفرزندوں کے نام جوتاریخ میں نظر آتے ھیں یاتوکسی غلط فھمی کانتیجہ ھیں یاسیاست کے ھاتھوں عظمت رسول کو کم کرنےکی ایک ناکام کوشش ،مذکورہ دلائل کے علاوہ بھی حلّی اورنقضی جوابات دئے گئے ھیں جو تاریخ کی اس حقیقت سے پردہ اٹھانے والے ھیں لیکن یہ مختصر مضمون ان تمام دلائل اورروایات کامتحمل نھیںھوسکتاھے،آپ کی اولاد میں حضرت فاطمہ زھرا کے علاوہ کوئی فرزند زندہ نھیں رھا۔
رسول (ص)کی بعثت اورحضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کاایمان لانا
حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث بہ رسالت ھونے کے بعد عورتوں میں جس شخصیت نے سب سے پھلے آپ کی تصدیق کی اورآپ پر ایمان لائی وہ حضرت خدیجہ کی ذات گرامی ھے (۳۰)طبری نے واقدی سے روایت کی ھے کہ ”اجتمع اصحابنا علی ان اول اھل القبلة استجاب لرسول الله خدیجہ بنت خویلد (۳۱)علماء کااس بات پر اتفاق ھے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر سب سے پھلے لبیک کھنے والی حضرت خدیجہ کی ذات گرامی ھے )خود رسول اکرم صلی یللہ ع لیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ھے ”والله لقد امنت بی اذ کفر الناس واویتنی اذ رفضنی الناس وصدقتنی اذکذبنی الناس (۳۲)خداکی قسم وہ (خدیجہ )مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ھوئے تھے اس نے مجھے اس وقت پناہ دی جب لوگوں نے مجھے ترک کردیاتھااوراس نے ایسے موقع پر میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلارھے تھے)۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں :۔لم یجمع بیت واحد یومئیذ فی الاسلام غیر رسول الله وخدیجہ واناثالثھا (۳۳)وہ ایسا وقت تھاجب روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ تھابجز اس خاندان کے جو رسول اور خدیجہ پر مشتمل تھا اور میں ان میںکی تیسری فرد تھا )ابن اثیر کابیان ھے :۔اول امراء ةتزوجھا واول خلق اللہ اسلم بالاجماع المسلمین لم یتقد مھاوجل ولاامراء ة“(۳۴)حضرت خدیجہ پھلی خاتون ھیں جن سے آنحضرت نے رشتئہ ازدواج قائم کیااوراس امر پر بھی مسلمانوں کا اجماع ھے کہ آپ سے پھلے نہ کوئی مرد ایمان لایا اورنہ کسی عورت نے اسلام قبول کیا)۔
آنحضرت(ص) کی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا سے محبت وعقیدت
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی آنحضرت کی نگاہ میں محبت و عقیدت اورقدرومنزلت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاھے کہ آپکی زندگی میں آنحضرت نے کسی بھی خاتون کو اپنی شریک حیات بناناگوارہ نھیں کیا(۳۵)آپ کے بارے میں حضرت کاارشاد ھےکہ ”خدیجہ اس امت کی بھترین عورتوں میںسے ایک ھے(۳۶)آپ کی وفات کے بعد بھی ھمیشہ آپ کو یاد فرماتے رھے (۳۷)عائشہ کابیان ھے کہ مجھے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی زوجہ سے اتناحسد نھیںھواجتناخدیجہ سے ھواحالانکہ خدیجہ کی وفات مجھ سے قبل ھوچکی تھی اوراس حسد کاسبب یہ تھاکہ آنحضرت آپ کاتذکرہ بھت زیادہ فرماتے تھے(۳۸)چنانچہ یھی سبب ھے کہ دوسر ی جگہ عائشہ سے روایت نقل ھوئی ھے کہ ”ایک روز رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم خدیجہ کی تعریف فرمارھے تھے مجھے حسد پیداھوااورمیں نے عرض کی یارسول اللہ خدیجہ ایک ضعیفہ کے علاوہ کچہ بھی نھیں تھی جو مرگئی اورخدانے آپ کواس سے بھتر عطا کردی ھے (عائشہ کااشارہ اپنی طرف تھا)رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم یہ سن کرناراض ھوگئے(۳۹)اورغضب کے عالم میں فرمایا”لاوالله ماابد لنی اللھ خیر امنھااٰمنت بی اذکفر الناس وصدقتنی اذکذبنی الناس وواستنی بھالھااذحرمنی الناس ورزقنی منھاالله ولدادون غیرھامن النساء“(۴۰)خدا کی قسم خدانے مجھکو اس سے بھتر عطانھیں کی وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ھوئے تھے اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھکو جھٹلارھے تھے اوراس نے اپنے مال کے ذریعہ میری اس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھے ھر چیز سے محروم کردیاتھا اورخدانے صرف اسی کے ذریعہ مجھے اولاد عطافرمائی اورمیری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نھیں کیارسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اس جواب سے آنحضرت کی حضرت خدیجہ کیلئے محبت اورعقیدت واحترام کااندازہ ھوتاھے ۔خدیجہ کااسلام کیلئے اپنااورسب کچہ قربان کرکے بھی اسلام کی نشرواشاعت کاجذبہ ھی تھاجس نے اسلام کودنیاکے گوشہ وکنار تک پھنچنے کے مواقع فراھم کئے اوریھی سبب تھاکہ ”حضرت نے آپ کوخداکے حکم سے جنت کی بشارت دیدی تھی “عائشہ سے مسلم نے روایت نقل کی ھے کہ ”بشر رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم بنت خویلد ببیت فی الجنة “(حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے خدیجہ سلام الله علیھاکو جنت کی بشارت دی تھی )(۴۱)حضرت خدیجہ اور ابوطالب رسول کے دو ایسے مدافع تھے جنکی زندگی میں کفار قریش کی طرف سے آپ کو کوئی گزند نھیں پھنچا لیکن رسول کے یہ دونوں جانثار ایک ھی سال بھت مختصر وقفہ سے یکے بعد دیگرے دنیاسے رخصت ھوگئے اورروایات کے مطابق رسول پر دونوں مصیبتیں ھجرت سے تین سال قبل اورشعب ابی طالب سے باھر آنے کے کچہ روز بعد واقع ھوئیں (۴۲)رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا(۴۳)اوریہ مصیبت رسول کیلئے اتنی سخت تھی کہ رسول خانہ نشین ھوگئے اورآپ نے حضرت خدیجہ اورابوطالب کی وفات کے بعد باھر نکلنابھت کم کردیاتھا(۴۴)ایک روز کسی کافر نے آپ کے سر پر خاک ڈال دی رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں گھر میں داخل ھوئے آپ کی زبان پر یہ کلمات تھے”مانالت منی قریش شیا اکرھہ حتی مات ابوطالب“(۴۵) قریش ابوطالب کی زندگی میں مجھکوکوئی گزند نھیں پھنچا سکے)آپ حضرت ابوطالب اورخدیجہ کی زندگی میں اطمینان سے تبلیغ میں مصروف رھتے تھے ۔خدیجہ گھر کی چھار دیواری میں اور ابوطالب مکہ کی گلیوں میں آپ کے مدافع تھے ۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا جب تک زندہ رھیں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اطمینان وسکون کا سبب بنی رھیں دن بھر کی تبلیغ کے بعد تھک کر چور اورکفار کی ایذارسانیوں سے شکستہ دل ھوجانے والارسول جب بجھے ھوئے دل اورپژمردہ چھرے کے ساتھ گھر میں قدم رکھتاتو خدیجہ کی ایک محبت آمیز مسکراھٹ رسول کے مرجھائے ھوئے چھرے کوپھر سے ماہ تمام بنادیاکرتی تھی ،خدیجہ کی محبتوں کے زیر سایہ کشتی اسلام کاناخدا عالمین کیلئے رحمت بنکر دنیاکی ایذارسانیوں کو بھلاکر ایک نئے جوش و جذبے اورولولے کے ساتھ ڈوبتے ھوئے ستاروں کاالوداعی سلام اورمشرق سے سرابھارتے ھوئے سورج سے خراج لیتاھواایک بار پھر خانہ عصمت وطھارت سے باھر آتا اورباطل کو لرزہ براندام کرنے والی لاالہ الاالله کی بلند بانگ صداؤں سے مکہ کے درودیوارھل کررہ جاتے کفارجمع ھوتے رسول پر اذیتوں کی یلغار کردیتے لیکن انسانیت کی نجات اورانسانوں کی اصلاح کاخواب دل میں سجائے رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم خوشاآیند مستقبل کے تصور میں ھر مصیبت کاخندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے رھے اورآپ کے اسی صبر وتحمل اورآپ کی پاکدامن زوجہ کے تعاون اورجانثاری سے آج ھم مسلمانان جھان پرچم توحید کے علمبردار رسول کے اس خواب اصلاح کوشرمندہ تعبیر کرنے کے لئے آپ کے اس آخری جانشین کے انتظار میںسرگرداں ھیں جوزمین کوعدل وانصاف سے پر کردیگا ۔
حوالےجات:
۱۔ صحیح مسلم /۴۴/۷۶/۲۴۳۵، ترمذی کتاب مناقب حدیث /۳۹۰۱، کنز العمال ح/ ۱۳/ص/۶۹۳۔
۲۔ اسد الغابہ ج/۵ ص / ۴۳۸ ، مسلم فضائل صحابہ / ۳۴۳۷ ، البدایہ و النھایہ ج/ ۳ ص / ۱۵۸ ۔
۳۔ بحار ج/ ۱۶ ص/ ۱۲ ، اسد الغابہ ج/ ۵ ص / ۴۳۹۔
۴۔ طبقات ابن سعد ج/ ۱ ص /۸۸ ۔
۵۔سیرة ھشام ج/ ۴ ص / ۲۸۱ ، الاصابہ ج / ۴ ص / ۲۸۱،طبری ج / ۳ ص / ۳۳ ۔
۶۔البدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۲۶۲ ۔
۷۔ سیرة حلیہ ج / ۱ ص / ۱۳۱ ، طبقات ابن سعد ج/ ۱ ص / ۸۶ ، حیات النبی و سیرتہ ج / ۱ ص / ۶۰ ۔
۸۔ سیرة ھشام ج/ ۱ ص / ۲۵۹ ۔
۹۔ البدایہ و النھایہ ج/ ۲ ص / ۳۶۲ ، سیرة ھشام ج / ۱ ص / ۳۳۸ ۔
۱۰۔ بحار ج / ۱۶ ص / ۲۲ ۔
۱۱۔ البدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۲۵۸ ۔
۱۲۔ البدء و التاریخ ج / ۲ ص / ۴۷ ۔
۱۳۔ تاریخ یعقوبی ج / ۱ ص / ۳۷۶ ۔
۱۴۔ بدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۳۵۸ ، طبری ج / ۲ ص / ۲۰۴ ۔
۱۵۔ الکامل فی التاریخ ج/ ۱ ص / ۴۷۲ ، دلائل النبوة ج / ۲ ص / ۶۶ ۔
۱۶۔ سیرة حلبیہ ج / ۱ ص / ۱۳۵ ، البدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۳۵۸ ، الکامل فی التاریخ ج / ۱ ص / ۴۷۲ ۔
۱۷۔ السیرة النبویہ (دحلان ) ج / ۱ ص/ ۹۲ ۔
۱۸۔بدایہ والنھایہ ج/ ۲ ص / ۳۵۸، بحار الانوار ج/ ۱۶ ص / ۲۲۔
۱۹۔بحار الانوار ج/ ۱۶ ص / ۲۲۔
۲۰۔ سیرة حلبیہ ج / ۱ ص /۱۴۰ ، طبری ج/ ۲ ص / ۲۰۵ ۔
۲۱۔ الصحیح من سیرة النبی ج / ۲ ص / ۱۱۲ ۔۱۱۳ ، بحار الانوار ج / ۱۶ ص / ۱۴ ۔
۲۲۔سیرہ ھشام ج / ۱ ص ۲۲۷ ۔
۲۳۔البدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۳۶۰ ، البدء و التاریخ ج/ ۲ ص / ۴۸۔
۲۴۔سیرہ حلبیہ ج / ۱ ص /۱۴۰، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/ ۲ ص / ۱۱۵ ۔
۲۵۔فروغ ابدیت ج/ ۱ ص / ۱۹۸ ۔
۲۶۔ سیرہ حلبیہ ج / ۱ ص/ ۱۴۰۔
۲۷۔ طبری ج / ۳ ص / ۳۶ ۔
۲۸۔مناقب آل ابیطالب ج / ۱ ص / ۲۰۶ ، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج / ۲ ص / ۱۲۲۔
۲۹۔مناقب آل ابیطالب ج / ۱ ص / ۲۶ ۔
۳۰۔ الاصابہ ج / ۱ ص / ۲۹۳ ۔
۳۱۔ الاصابہ ج / ۴ص /۳۳۵ ، اسد الغابہ ج / ۵ ص / ۴۸۱ ، حیاة النبی ج /۱ ص / ۱۲۱۔
۳۲۔ الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/ ۲ ص ۱۲۵۔
۳۳۔ الانساب الاشراف ج / ۲ ص / ۲۳ ، الاصابہ ج / ۸ ص /۹۹ ، سیرة ھشام ج / ۱ ص / ۲۷۷، طبری ج/ ۲ ص / ۲۳۲ ۔ ۲۲۱۔
۳۴۔ تاریخ طبری ج / ۲ ص / ۲۳۲۔
۳۵۔بحار الانوار ج / ۱۶ ص / ۱۲ ، اسد الگابہ ج / ۲ ص / ۴۳۹ ۔
۳۶۔ نھج البلاغہ ( خطبہ قاصعہ ( ۔
۳۷۔ اسد الغابہ ج / ۵ ص / ۴۳۴ ۔
۳۸۔ البدء و التاریخ ج / ۲ ص / ۴۸ ، اسد الغابہ ج/ ۵ ص / ۳۶۰ ۔
۳۹۔ الاصابہ ج / ۸ ص /۱۰۱ ، اسد الغابہ ج/ ۵ ص / ۴۳۱ ، سنن ترمذی کتاب مناقب / ۳۸۸۶۔