www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

دوسری جگہ پیغمبر اکرم (ص) کو حکم ھوتا ھے کہ کفار (مشرکین اور منافقین) سے شدت کے ساتھ مقابلہ کریں اور ان سے جنگ کریں، اور شدت پسندی کو ان کے حق میں جائز جانتا ھے، ارشاد ھوتا ھے:
( یَااٴَیُّھا النَّبِیُّ جَاھدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْھمْ وَمَاٴْوَاھمْ جَھنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ )(4)
”اے رسول کفار کے ساتھ (تلوار سے)اور منافقوں کے ساتھ (زبان سے) جھاد کرواور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکا نا تو جھنم ھی ھے اور وھ( کیا)جگہ ھے “
ایک دوسری جگہ خداوندعالم اپنے پیغمبر (ص) کوحکم دیتا ھے کہ جو لوگ مسلمانوں کی جان اور مال کے لئے خطرہ بنے ھوئے ھیں ان کے سات شدت پسندی سے برتاؤ کریں، اور جیسے وہ کریں ان کو ویسا ھی جواب دیں، اور بھت زیادہ شدت کے ساتھ جنگ کریں، ارشاد ھوتا ھے:
( وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَاقْتُلُوھمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوھمْ وَاٴَخْرِجُوھمْ مِنْ حَیْثُ اٴَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَةُ اٴَشَدُّ مِنْ الْقَتْلِ وَلاَتُقَاتِلُوھمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیہ فَإِنْ قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوھمْ کَذَلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِینَ ) (5)
”اور جو لوگ تم سے لڑیں تم (بھی) خدا کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو (کیونکہ ) خدا زیادتی کرنے والوں کو ھرگز دوست نھیں رکھتا ۔اور تم ان مشرکوں ) کو جھاں پاوٴ مار ھی ڈالو اور ان لوگوں نے جھاں (مکہ سے)سے تمھیں شھر بدر کیا ھے تم بھی انھیں باھر نکال دو۔اور فتنہ پر دازی (شرک) خونریزی سے بھی بڑہ کے ھے اور جب تک وہ لوگ (کفار) مسجد حرام (کعبھ) کے پاس تم سے نہ لڑیں تم بھی ان سے اس جگہ نہ لڑو پس اگر وہ تم سے لڑیں تو (بے کھٹک) تم بھی ان کو قتل کرو۔کافروں کی یھی سزا ھے۔“
7۔ الٰھی اقدار کی حفاظت اور مغربی کلچر سے روک تھام ضروری ھے
دشمنوں سے مقابلہ اور جھاد، شجاعت، غیرت، حمیت، دینی تعصب، دین سے رغبت، فداکاری اور ایثار وغیرہ بھترین اور عظیم ترین اسلامی اقدار ھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں میں دینی پھچان، حیات، استقلال اور آزادی وجود میں آتے ھیں لیکن اس کے مقابلہ میں مغربی کلچر (والے) یہ چاھتے ھیں کہ کچھ جھوٹے اور خود ساختہ اقدار جیسے مطلق طور پر شدت پسندی کو منع کرنا (وغیرھ) کے ذریعہ ھماری سلامی اقدار کو ھم سے چھینا چاھتے ھیں؛ اسی وجہ یہ کھتے ھیں کہ شدت پسندی مطلق طورپر مذموم اور محکوم ھے!!
جی ھاں ھم بھی مانتے ھیں کہ ابتداء میں کسی کے ساتھ شدت پسندی مذموم اور محکوم ھے ، لیکن کیا شدت پسندی کے مقابلہ میں شدت پسندی یا ظلم وستم، قتل وغارت، جان و مال اورناموس پر تجاوز ، اور ان سب سے مھم اسلام (جس کے لئے مسلمانوں کی جان بھی قربان ھے) ؛ سے خیانت کرنے والوں کے مقابلہ میں بھی شدت پسندی بری اور محکوم ھے؟ مسلّم طور پر اس طرح کی شدت پسندی نہ صرف یہ کہ مذموم اور محکوم نھیں ھے بلکہ ضروری اور ھر مسلمان کی خواھش ھے۔
تو پھر کیوں ھم سے یہ چاھتے ھیں کہ ھم اپنے دینی اقدار کو پامال ھوتے ھوئے دیکھیں جو کہ ھمیں جان سے بھی زیادہ عزیز ھے ان کو تمھارے ھاتھوں برباد ھوتا ھوا دیکھیں اور اپنے منہ پر ھاتہ رکہ لیں اور کچھ نہ کریںاور ان کے ساتھ بیٹہ کر مسکرائیں؛ پس خداوندعالم نے انسان میں غضب کو کس لئے پیدا کیا ھے؟ کس لئے ھمارے اندر قھر وغضب کے احساس کو پیدا کیا؟ آیا کچھ شدت پسند، خائن اور زر خرید غلاموں کے مقابلہ میں کچھ بھی اقدام نہ کریں یھاں تک کہ اگر ھمارا دین بھی خطرہ میں پڑ جائے کچھ بھی نہ بولیں اور شدت پسندی کو نہ اپنائیں؛ بلکہ آرام سے بیٹھے ھوئے مسکراتے رھیں، پس یہ آیت کریمہ کس کے لئے ھے:
( وَاقْتُلُوھمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوھمْ )
کس لئے خداوندعالم نے یہ ارشاد فرمایا ھے:
(مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِینَ مَعَہ اٴَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَھمْ )(6)
”محمد (ص) اللہ کے رسول ھیں اور جو لوگ انکے ساتھ ھیںوہ کفار کے لئےسخت ترین اور آپس میں انتھائی رحم دِل ھیں “
کھتے ھیں کہ اسلام تشدد اور شدت پسندی کا مخالف ھے، توآپ حضرات کھیں کہ اسلام کس شدت پسندی کا مخالف ھے؟ بعض مبھم چیزوں کو مطلق اقدار کے عنوان سے پیش کرتے ھیںتاکہ حقیقت کو چھپاسکیں، تاکہ شھادت طلبی، ایثار اور شجاعت وغیرہ کو لوگوں سے چھین لیں، اور ان کی جگہ بے توجھی، دین سے لاابالی اور دینی اور ملّی غیرت وغیرہ جیسے چیزوں کو عوام الناس میں رائج کریں۔
ھمیشہ تساھل(سستی) اور تسامح (ذو معنیٰ باتیں کرنا)کی باتیں کرتے ھیں ، کیا جو شخص ھماری جان کے لئے خطرہ ھو اس کے مقابلہ میں تساھل اور تسامح سے کام لیا جاسکتا ھے؟! کیا وہ شخص جو انسانی ناموس میں خیانت کرے اس کے ساتھ تساھل اور تسامح سے کام لیا جاسکتا ھے؟ کیا وہ شخص جو ھمارے دین کو جو ھماری جان سے بھی زیادہ عزیز ھے ؛ ھم سے چھین لینا چاھتا ھو اس کے مقابلہ میں تساھل اور تسامح سے کام لیا جاسکتا ھے؟!
اس بنا پر ، اسلامی حکومت کی تشکیل سے پھلے عوام الناس کی ھدایت کرنا ضروری ھے ، اور اس مرحلہ میں عوام الناس سے سخت لھجہ میں گفتگو نھیں ھونا چاھئے، اور سختی اور طاقت کے بل بوتے پر اسلامی حکومت کے تحقق کے لئے قدم نہ اٹھایا جائے اسی طرح اس مرحلہ میں لوگوں سے جھوٹے وعدے، فریب کاری اور گمراہ کنندہ وسائل کے ذریعہ عوام الناس کی صحیح ھدایت میں مانع ھونا صحیح نھیں ھے اس مرحلہ میں بھر پور سنجیدگی، بردباری، حوصلہ، صبر اور بھرپور وضاحت ، صداقت اور منطق اور عقل کی بنیاد پر عوام الناس سے گفتگو کی جائے تاکہ وہ حقیقت تک پھونچ جائیں اور غفلت وجھالت سے نجات پیدا کرلیں البتہ اس سلسلہ میں پیش آنے والی تمام تر رکاوٹوں کو راستہ سے ھٹایا جائے، اور جو لوگ عوام الناس کی ھدایت میں مانع ھوتے ھوں ان سے مقابلہ کیا جائے تاکہ عوام الناس کے لئے حق وحقیقت کے راستے کو انتخاب کرنے کا راستہ فراھم ھوجائے۔
جس وقت عوام الناس کا ایک گروہ حق کی طرف ھدایت پاجائے تو پھر اس حق کے پیروکاروں میں اضافہ کرنے کے لئے اور ااسلامی اور الٰھی معاشرہ کی وسعت کے لئے عوام الناس میںثقافتی کارکردگی اور راھنمائی صبر وتحمل کے ساتھ ھوتی رھیں؛ جیسا کہ خداوندعالم بھی اپنے پیغمبر کو قرآن کریم میں اپنی رسالت کے پھونچانے میں صبر وتحمل کی طرف دعوت دیتا ھے اور آپ سے یہ چاھتا ھے کہ سختیوں، بری بھلی باتوں، گالیوں، سخت برتاؤ اور اذیتوں کے مقابلہ میں صبر وتحمل سے کام لیں تاکہ عوام الناس ھدایت یافتہ ھوجائیں:
( فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اٴُوْلُوا الْعَزْمِ مِنْ الرُّسُلِ ) (7)
” اے رسول )پیغمبروں میں سے جس طرح اولوالعزم (عالی ھمت)صبر کرتے رھے تم بھی صبر کر۔
8۔ قوانین کو جاری کرنے اور دشمن نظام سے بھر پور مقابله
قارئین کرام ! جس وقت خداوندعالم کی مرضی کے مطابق اسلامی حکومت تشکیل پائے، تو معاشرہ میں اسلامی احکام اور قوانین جاری ھوں اور دوسری حکومتوں کی طرح اس میں قوہ قھریہ (پولیس یا فوج) سے استفادہ کیا جائے، نیز حکومت کے پاس خلاف ورزی کرنے والوں سے مقابلہ کے لئے کافی اسباب و وسائل موجود ھوں، اور مجرموں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے زندان، جرمانہ اور دوسری سزائیں معین کی جائیں، اور بیرونی دشمنوں نیز اندرونی فتنہ وفساد سے روک تھا م کے لئے پولیس اور فوج کا انتظام کیا جائے؛ کیونکہ حکومت صرف اخلاقی طور پر وعظ ونصیحت سے اپنا کام نھیں چلا سکتی وہ حاکم جس کے پاس طاقت اور قدرت نہ ھو اور فقط وعظ ونصیحت اور تذکر پر اکتفاء کرے وہ اخلاقی معلم تو ھوسکتا ھے حاکم نھیں ھو سکتا!!
پس جس قوت اسلامی حکومت اور قانونی حکومت تشکیل ھوجائے اور عوام الناس اس حکومت کو قبول کرلیں اور اس کی بیعت کرلیں، نیزحکومت بھی اسلامی قوانین اور احکام کو جاری کرنے اورملکی مسائل میں رسیدگی کرنے میںمشغول ھوجائے، تو اگر کوئی گروہ فتنہ وفساد اور آشوب برپا کرے تو اس سے مقابلہ ضروری ھے جیسا کہ ھماری اسلامی فقھی کتابوں میں وارد ھواھے کہ فتنہ وفساد اور آشوب برپا کرنے والوں (جن کو اصطلاحاً ”اھل بغی“ (بغاوت کرنے والے) کھا جاتا ھے) سے جھاد واجب ھے جس طرح حضرت علی علیہ السلام نے فتنہ وفساد پھیلانے والوں سے مقابلہ کیا ھے اور ان کو اپنی جگہ بٹھا دیا ھے۔
حضرت رسول اکرم (ص) کی وفات غم ناک کے بعد عوام الناس حضرت علی علیہ السلام کی بیعت پر آمادہ نھیں ھوئی جس کے نتیجہ میں حکومت دوسروں کے ھاتھوں میں چلی گئی، (اس وقت بھی) حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں کی ھدایت فرمائی اور ان کی راھنمائی کی ھے ، اور حضرت نے 25/ سال سے اپنے اس وظیفہ کو انجام دیا اور حکومت (وقت) سے کنارہ کشی اختیار کرلی لیکن جس وقت اسلامی ممالک مثل مصر، عراق اور مدینہ منورہ کے ایک بڑے مجمع نے آپ کی خدمت میں حاضری دی اور آپ کی بیعت کی ، اور آپ کو اپنا امام اور مقتدا تسلیم کرلیا، اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اوپر حجت تمام دیکھی اور عوام الناس پر حکومت کرنے کا اپنا فریضہ سمجھا کیونکہ اس عظیم مجمع کی بیعت کے پیش نظر جس کا وجود تاریخ میں بے نظیر ھے ؛ حکومت سے دور رھنے کی کوئی دلیل باقی نھیں رھی ، لھٰذا آپ حکومت قبول کرنے پر مجبور ھوگئے؛ حالانکہ آپ کو حکومت سے ذرا بھی دلچسپی نہ تھی ، اور صرف عوا م الناس کی بیعت کے ذریعہ الٰھی وظیفہ کا احساس کرتے ھوئے حکومت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں سنبھالی، جیسا کہ آپ نھج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ھیں:
”اَمَا وَ الَّذِی فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَاٴ الْنَسَمَةِ لَولٰا حُضُورُ الْحَاضِرِ وَ قَیَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُوْدِ النَّاصِرِ، وَمَا اَخَذَ اللّٰہ عَلَی الْعُلَمَاءُ اَنْ لٰا یُقَارُّوْا عَلٰی کَظَّةِ ظَالِمٍ وَلاٰ سَغَبِ مَظْلُوْمٍ لَاَلْقَیْتُ حَبْلَھا عَلَی غَارِبِھا وَلَسَقِیْتُ آخِرَھا بِکَاْسِ اَوَّلِھا وَلَاَلْفَیْتُمْ
دُنْیَاکُمْ ھٰذِہ اَزْھدَ عِنْدِیْ مِنْ عَفَطَةِ عَنْز “ (8)
دیکھو! اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں ،اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ھو گئی ھوتی ، اور خدا وندعالم نے علماء سے یہ عھد و پیمان نہ لیتا کہ وہ ظالم کی شکم پری اورمظلوم کی گرسنگی پر سکون وقرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو پھلے والے کے کاسہ سے سیراب کرتا اور میری نظر میںتمھاری دنیا کی قیمت بکری کی ناک سے بھتے پانی کی طرح ھے۔
لیکن ابھی حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کو صرف چند ھی دن گذرے تھے کہ دنیا پرست اور تبعیض اور بے عدالتی چاھنے والوں نیز اپنے کو دوسروں سے بھتر جاننے والے حضرت علی علیہ السلام کی عدالت کو برداشت نہ کرسکے اسی طرح وہ لوگ جو حضرت علی علیہ السلام کی حکومت میں اپنی شیطانی تمناؤں اور غاصب اور غیر قانونی حکومت کو خطرہ میں دیکہ رھے تھے ، اسی طرح وہ سادہ لوح مسلمان جو صحیح اسلامی نظریہ کو سمجھنے سے قاصر تھے نیز ان کی فکر پست اور ھٹ دھرمی کی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام کی عظیم حکمت عملی کو نھیں سمجھ رھے تھے، یہ تمام لوگ ایک کے بعد ایک فتنہ وفساد اور آشوب برپا کرنے لگے ، چنانچہ جنگ جمل، جنگ صفین اور آخر کار جنگ نھروان رونما ھوئیں اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام ایک اسلامی حاکم کے عنوان سے ؛ جب آپ نے الٰھی اور اسلامی قوانین و احکام کو خطرہ میں دیکھا تو آپ کا کیا وظیفہ تھا؟ کیا آپ ھاتہ پر ھاتہ رکھے تماشا دیکھتے رھتے!! اور فتنہ وفساد اور آشوب کی روک تھام نہ کرتے؟! کیونکہ تشدد اور شدت پسندی محکوم اور مذموم ھے؟!!
لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اس وقت اسلامی حکومت اور اس کے ارکان کی حفاظت کے خاطر تلوار اٹھالی اور باغی اور سرکش لوگوں کے ساتھ جنگ کی ، جنگ جمل میں بھت سے صحابی رسول یھاں تک کہ طلحہ و زبیر جو مدتوں تک رسول اکرم (ص) کے ساتھ مل جھاد کرتے تھے؛ کو قتل کیا حالانکہ زبیر آپ کا پھوپھی زاد بھائی تھا اور اس کی جانفشانی اور آنحضرت (ص) کے بزم میں اپنے صلاحیت کی وجہ سے آنحضرت (ص) نے اس کے لئے دعا فرمائی ھے، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے نھیں فرمایا: کہ اے زبیر ! تو میرا پھوپھی زاد بھائی ھے اور دونوں دوستی کرلیں، اور میں تجھ سے نرم رویہ اختیار کروں گا اور تیری چاھتوں کو پورا کردو ں گا بلکہ آپ نے اس عقیدہ کے ساتھ کہ چونکہ میری حکومت حق ھے لھٰذا جو لوگ اس کے مقابلہ میں سرکشی کریں گے ان کو پسپا کردیا جائے لھٰذا آپ نے پھلے ان کو وعظ اور نصیحت فرمائی لیکن جب انھوں نے نہ مانا تو پھر تلوار کا سھارا لیا اور ان کو پسپا کردیا اور بھت سے لوگوں کو قتل کر ڈالا کیونکہ آپ کی نظر میں خدا اور مسلمانوں کا حق ذاتی مفاد سے کھیں بالاتر تھا اور اسلامی نظام کو باقی رکھنے کے لئے تشدد اور شدت پسندی کو ضروری سمجھا؛ کیونکہ اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے تشدد اور شدت عمل کو واجب سمجھتے تھے۔
9۔ سازش کرنے والوں اور زر خرید غلاموں کے مقابلہ میں عوام الناس کی ھوشیاری
قارئین کرام ! اسلامی انقلاب سے پھلے جب اسلامی حکومت تشکیل نھیں ھوئی تھی حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ اپنی تقاریر اور مکاتبات کے ذریعہ عوام الناس کی ھدایت اورراھنمائی کرتے تھے اور حکومت کو نصیحت فرمایا کرتے تھے؛ لیکن جس وقت لوگوں نے امام خمینی (رہ) کی بیعت کی اور اسلام پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ھوگئے اور اسلام دشمن طاقتوں کو ملک سے باھر نکالنا چاھتے تھے اور اس ملک میں اسلامی و الٰھی حکومت کے خوھاں تھے، اس وقت حضرت امام خمینی (رہ) نے حکومت کی ذمہ داری قبول کی اور فرمایا:
”میں اس ولایت کی مشروعیت کی بنا پر جس کو خداوندعالم نے مجھے عطا فرمائی ھے نیز آپ حضرات کی مدد اور کمک کے ذریعہ اس حکومت کا جنازہ نکال دونگا اور خود حکومت بناؤں گا۔“
یعنی امام خمینی (رہ)ولی فقیہ کے عنوان سے عوام الناس پر حکومت کا حق رکھتے تھے اور آپ کی ولایت الٰھی مشروعیت اور قانونیت رکھتی تھی، لیکن جب تک عوام الناس میدان میں نہ آئی اور آپ کی بیعت نہ کی ، اس وقت تک اس ولایت نے عینی تحقق پیدا نہ کیا؛ لیکن عوام الناس کے میدان میں آنے اور انقلابی صحنوں کم نظیر حاضر ھونے اور راہ اسلام و رھبری کی اتباع کرنے میں وفاداری اور جانفشانی کے اعلان کے بعد ، وہ الٰھی ولایت عینی تحقق موجود ھوگئی اور اسلامی حکومت تشکیل ھوگئی۔
بے شک کہ اس اسلامی حکومت کو لاکھوں شھیدوں کا خون دینا پڑا ھے جس کی وجہ سے آج بھی باقی ھے اور بھت عظیم فدارکار اور انقلاب کے فداکاروں کے ذریعہ اس ملک کی سر حد اور انقلابی اقدار کی حفاظت میں مشغول ھیں لھٰذا چند زر خرید غلاموں کے ذریعہ اس کو کوئی نقصان نھیں پھونچنا چاھئے ھمارے عوام الناس اس چیز کی کبھی اجازت نھیں دیں گے کہ چند خود فروش مزدوروں کے ذریعہ ؛ اسلامی مصالح، لوگوں کی جان ومال اور ناموس خطرہ میں پڑ جائیں جو لوگ اس مرحلہ میں (18 تیر ماہ 1378ھجری شمسی کے بعد سے(9) کچھ آشوب بپا کرنے والے مزدوروں اور دوسروں کی روٹیوں پر پلنے والے سڑکوں پر نکل کر آشوب بپا کرنے لگے اور لوگوں کے گھروں، دکانوں وغیرہ کو آگ لگائیں اور بھت زیادہ لوٹ مار کریں، لوگوں کی ناموس اور عزت کو پامال کریں ، تو کیا ان تمام لوگوں کا سختی کے ساتھ مقابلہ نہ کیا جائے؟!! اور کیا اسلام تشدد کی اجازت نھیں دیتا؟! یا یہ کہ ان لوگوں نے اسلام کو نھیں پھچانا ، یا پھر وہ مسلمانوں کے ساتھ خیانت کرنا چاھتے ھیں!!
ھنسی اور لوریاں دے کر تو آشوب گری سے روک تھام نھیں کی جاسکتی، ان کے مقابلہ میں پولیس، تشدد اور شدت عمل کے ذریعہ برتاؤ کیا جائے اور طاقت کے بل بوتے پر ان کی روک تھام ھوسکتی ھے، جس کے بعد پھر کبھی ملک میں اس طرح کے درد ناک حوادث رونما نہ ھونے پائیں کیونکہ ھمارے برادران ان لوگوں کے فریب میں نھیں آئیں گے جو کھتے ھیں کہ تشدد اور شدت پسندی ھمیشہ اور مطلقاً ممنوع ھے، ان کی باتوں کو نھیں مانیں گے اور اگر آج تک صبر کیا اور خون جگر پیا ھے تو وہ مقام معظم رھبری حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای مد ظلہ کی طاعت اور فرمانبر داری کی وجہ سے ھے، ورنہ تو جب ھمارے فداکار لوگوں کو یہ احساس ھوجائے کہ مقام معظم رھبری فلاں کام پر دل سے راضی نھیں ھیں تو پھر ان کی مرضی کے لئے اپنی جان کی بازی بھی لگاسکتے ھیں چنانچہ پوری دنیا نے دیکھا کہ جب مقام معظم رھبری نے ساکت رھنے اور آرام سے رھنے کے لئے کھا تو سبھی لوگ آپ کی اطاعت اور عمومی مصالح کی بنا پر سب بیٹھے دیکھتے رھے اور خون جگر پیتے رھے اور جب تک آپ کا اشارہ نہ ھوا سڑکوں پر نہ آئے اور مظاھرے نہ کئے، لیکن جیسے ھی انقلاب سے وفاداری کے اعلان کا وقت آپھنچا تو دشمنوںکو دکھادیا کہ ھم ھمیشہ اسلام اور انقلاب سے دفاع کرنے کے لئے حاضر ھیں، پورے ملک میں وہ عظیم مظاھرے ھوئے جن پردنیا بھر کے لوگوں اور خود دشمنوں نے تعجب کیا۔
حوالے:
(1)سورہ شعراء آیت 3 تا 4 .
(2) سورہ توبہ آیت 12 .
(3)سورہ آل عمران آیت 159 .
(4) سورہ توبہ آیت 73
(5) سورہ بقرہ آیت 1950 تا 191 .
(6) سورہ فتح آیت 29 .
(7)سورہ احقاف آیت 35 .
(8( نھج البلاغہ خطبہ نمبر 3 .
(9)یہ تھران یونیورسٹی میں ھونے والے حادثہ کی طرف اشارہ ھے جس کی آگ وھاں سے شروع ھوکر شھر کے مختلف مقامات تک پھنچی اور جس میں امریکہ غلاموں نے قتل وغارت اور بربریت کا وہ کھیل کھیلا جس سے انسانیت لرز اٹھی یھاں تک کہ عبادت گاھوں اور مساجد میں آگ لگادی گئی (مترجم( .

Add comment


Security code
Refresh