www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

10۔ تشدد ، اسلامی سزائی قوانین میں محدود نھیں ھے
ایک مقالہ نگار نے اپنے مقالہ میںیہ بیان کیا کہ ” اسلام نے جن قوانین میں تشدد کو جائز قرار دیاھے وہ جزائی اور سزائی قوانین ھیں اور ھم بھی اس بات کو مانتے ھیں کہ اسلام نے فتنہ گروں اور تباہ کارو ں کے لئے جو سزائیں معین کی ھیں ان میں کم و بیش تشدد پائی جاتی ھے لیکن جس تشدد کے بارے میں ھماری بحث ھے اور ھم جس کو محکوم کرتے ھیں، وہ اسلام کے سزائی قوانین سے متعلق نھیں ھے اور اصولی طور پر سزائی قوانین ھماری تشدد کی بحث سے متعلق نھیں ھیں۔“
اور یہ لکھا کہ میں موضوع سے ھٹ کر گفتگو کرتا ھوں اور اسی بات کو کئی اخباروں نے سرخی بنایا کہ کیوں فلاں صاحب موضوع سے ھٹ کر گفتگو کرتے ھیں! لھٰذا ھم عرض کرتے ھیں کہ ھمارا موضوع معاشرہ میں ھونے والے ثقافتی کج روی ھے ، جیسا کہ اخباروں نے لکھا تھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا قتل ھونا ؛ آپ کے جد (رسول اللہ (ص)) کی جنگ بدر میں تشدد کا عکس العمل تھا!!
ھم اس مقالہ نگار کی خدمت میں عرض کرتے ھیں کہ اے قاضی اور حقوقدان آپ ھمارے بارے میں لکھتے ھیں کہ فلاں صاحب موضوع سے ھٹ کر گفتگو کرتے ھیں ، لیکن کیا آپ کو معلوم ھے کہ جو بات حضرت امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بارے میں کھی گئی ھے اس میں کس تشدد کی بات ھے اور کس طرح کی تشدد کی نفی کی گئی ھے؟ ھم تو معاشرہ میں پیدا ھونے والی انھیں چیزوں کے بارے میں گفتگو کرتے ھیں ھم تشدد، آزادی اور میل جول جیسے الفاظ سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے بارے میں گفتگو کرتے ھیں، یھاں تک یہ بھی کھہ دیا گیا کہ ”جنگ بدر ایک تشدد تھی“ لھٰذا اسلام تشدد کادین ھے! لھٰذا ھم اپنے موضوع سے خارج نھیں ھوئے ھیں۔
ھوسکتا ھے کوئی شخص یہ کھے: ”ھم اس طرح کے ناجائز فائدہ اٹھانے والی فکر کو ردّ کرتے ھیں اور اسلام کو تشدد کا دین نھیں مانتے۔“ ھمارا اس سے کھنا یہ ھے کہ حکومتی قوانین ، سزائی قوانین اور وہ عدالت جس میں سزائی احکام بنائے جاتے ھیں ان تمام چیزوں سے صرف نظر کرتے ھوئے ؛کیا عوام الناس بھی تشدد کا برتاؤ کرسکتے ھیں، اور وارد میدان ھوسکتے ھیں اور کیا حکومتی اداروں سے ھٹ کر خود عوام الناس تشدد سے کام لے سکتی ھے؟ ھم یہ سوال کرتے ھیں کہ تم لوگ اسلامی انقلاب کو تشدد سمجھتے ھو یا نھیں؟ جن لوگوں کو 17/ شھریور 1357ئہ شمسی اور اس کے بعد کے حادثات یاد ھیں وہ جانتے ھیں کہ ھمارے غیرت مند جوانوں اور بھارد قوم نے شاہ پھلوی کے خلاف کیا کیا اقدامات کئے تو کیا شاہ پھلوی کے خلاف مظاھرے اور اقدامات تشدد تھا، یا نھیں؟ کیا یہ کام صحیح تھے یا نھیں؟ اور کیا اسلام اس طرح کے اقدامات پر راضی ھے یا نھیں؟ اگر اسلام نے اس طرح کے اقدامات کو جائز قرار نھیں دیا ھے تو آپ کا یہ انقلاب غیر قانونی ھے، کیونکہ (آپ کے نظریہ کے مطابق تو) اسلام میں تشدد نھیںپائی جاتی اور اسلام تشدد آمیز اقدامات کو جائز ھی نھیں مانتا! اسی طرح وہ مقدس کارنامے جو مرحوم نواب صفوی اور فدائیان اسلام نے شاہ کی حکومت کے خلاف کئے ،( جن کے مھم کارناموں کی بنا پر ان کا نام ھمیشہ ھمارے ملک میں زندہ رھے گا، اور ھم ان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ھیں، اور آج کل تھران اور دوسرے شھروں کی بھت سی سڑکوں کا نام انھیں حضرات کے ناموں پر ھے)تو کیا ان کے یہ اقدامات صحیح تھے یا نھیں؟ اسی طرح ”ھیئت موٴتلفہ اسلامی“ کے اعضاء ؛ یعنی شھید محمد بخارایی اور ان کے ساتھی جنھوں نے شاہ پھلوی کے جلاّد وزیر اعظم کو واصل جھنم کیا۔
ھوسکتا ھے کہ کوئی شخص یہ کھے کہ واقعاً اس طرح کے تشدد والے اقدامات نھیں کرنا چاھئے تھے ، بلکہ قانونی طور پر صلح و صفائی کی ایک پارٹی بنانا چاھئے تھی جس کے ذریعہ شاہ پھلوی کے سامنے اپنے مطالبات کو رکھا جاتا اور اس سے گفتگو کی جاتی“ لیکن کیا ان کی باتوں کو سنا جاتا اور وہ حساب شدہ باتوں کو سنتے تویہ لوگ اس طرح کے غیظ وغضب کے ساتھ قدم نہ اٹھاتے، جب انھوں نے دیکہ لیا کہ ان کی جائز باتیں اس طرح گفتگو کے ذریعہ نھیں سنی جاتی تب جاکے انھوں نے اس طرح کے اقدامات شروع کئے۔
ممکن ھے وہ قاضی صاحب فرمائیں: ھماری نظر میں وہ اقدامات محکوم او رمذموم ھیں ، ان کو چاھئے تھا کہ آرام و سکون اور مکمل حوصلہ کے ساتھ برتاؤ کرتے، اور اپنی مشکلات کو حل کرنے نیز اپنے مطالبات کوپورا کرانے کے سلسلہ میں کوشش کرتے!
ھم ان کی خدمت میں عرض کرتے ھیں کہ :
جب 18 تیر ماہ 1378ئہ شمسی اور اس کے بعد بعض فسادی اور بد معاش لوگوں نے بیت المال، عمومی اموال ، بینک، ذاتی اور سرکاری گاڑیوں یھاں تک کہ مسجدوں میں بھی آگ لگادی اور عورتوں کو بے آبرو کےا عورتوں کے سروں سے چادر چھین لیں اور اسلام کے خلاف نعرہ لگائے، تو کیا آپ نے ان لوگوں کے ساتھ پیار ومحبت اور ھنسی خوشی سے اپنی آغوش میں بٹھاکر ان کو خاموش کردیا ، یا یہ کام ھمارے ان بسیجیوں نے انجام دیا جو اپنے جان کو ھتھیلی پر رکہ کر آگے بڑھے اور تمام تر خطرات سے نپٹنے کے لئے میدان عمل میں وارد ھوئے اور ان کو کچل دیا،( بھت افسوس کے ساتھ یہ عرض کرتے ھیں کہ ان مظلوم بسیجیوں کے حق کو آج تک نھیں پھنچانا گیا اور اس کا شکریہ ادا نھیں کیا جاتا؛ جبکہ یہ جوان انقلاب اور اسلام کے دفاع کے لئے قربة الی اللہ حاضر ھوئے تھے اور خدا ھی ان کو بھترین اجر و ثواب عنایت کرے گا۔)
ممکن ھے وہ جناب کھیں: کہ ھم فتنہ وفساد پھیلانے والوں کے سلسلہ میں بسیجیوں کے اقدامات کو محکوم کرتے ھیں ، اور ان کو اس طرح کا اقدام نھیں کرنا چاھئے تھا، کیونکہ ان کو لوگوں کو بھی یہ حق تھا کہ وہ اپنی بات کھیں اور اعتراض کریں وہ بھی آزاد ھیں جیسا کہ امریکائیوں کا کھنا ھے: جن لوگوں نے قیام کیا اور مظاھرے کئے اور مساجد میں آگ لگائی یہ آزادی خواہ تھے لھٰذا ان لوگوں کو یہ کھنے کاحق تھا کہ ھم آزادی چاھتے ھیں، اور دین نھیں چاھتے! (جیسا کہ ایک صاحب اپنی تقریر میںکھتے ھیں کہ لوگوں کو خدا کے خلاف مظاھرے کرنے کا بھی حق ھے۔ (
لیکن اگر وہ یہ کھیں : جب ان لوگوں نے دیکہ لیا کہ اگر خوش رفتاری سے اپنی بات کو علی الاعلان کھتے ھیں کہ ھمیں دین و اسلام نھیں چاھئے تو حکومت ان کی بات کو نہ مانتی؛ اسی وجہ سے یہ لوگ مجبور ھوگئے کہ ذاتی اور سرکاری عمارتوں اور مساجد میں آگ لگادیں اور اسلام کے خلاف نعرے لگائیں، تاکہ وہ کسی نتیجہ پر پھنچ پائیں؛ اوریہ لوگ ایسا کرنے میں حق بجانب تھے، نہ کہ ان لوگوں کو کچلنے والے ۔
ھم اس کے جواب میں صرف اتنا عرض کرتے ھیں: آخر کار تم لوگ بھی تشدد اور شدت پسند ی کو مانتے ھو کیونکہ اس حادثہ کے سلسلہ میں دو باتوں میں سے کسی ایک کو تو ضرور قبول کروگے، یا فتنہ فساد برپا کرنے والوں اور مساجد میں آگ لگانے والوں کا اقدام صحیح تھا ؛ اس صورت میں تم خود تشدد کی تائید کر رھے ھو، چونکہ ان کا اقدام تشدد پر مبنی تھا، یا تم یہ کھوکہ بسیجی، عوام الناس اور پولیس کا رویہ صحیح تھا؛ تو اس صورت میں بھی تم نے تشدد کی تائید کی ، لھٰذا آپ بتائیں کہ کس تشدد کو جائز قرار دیتے ھو؟
ھم اس طرح کے لوگوں کی باتوں کو نھیںمانتے بلکہ ھمارے لئے معیار بانی انقلاب حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کا کلام ھے ھم انھیں کے تابع ھیں ھم نے حکومتی اور ولایتی احکام انھیں سے سیکھے ھیں چنانچہ موصوف نے فرمایا:

” اگر ھمارے جوان اور حزب اللٰھی عوام الناس نے اس چیز کا مشاھدہ کیا کہ بعض تبلیغات، مقالات ، تقاریر، کتابوں اور جرائد میں اسلام اور حکومتی مصالح کے خلاف قدم اٹھایا جارھا ھے، تو ان کا وظیفہ ھے کہ وہ اس سلسلہ میں متعلقہ اداروں کو رپورٹ دیں اور ان اداروں کی ذمہ داری ھے کہ اس سلسلہ میں قدم اٹھائیں لیکن اگر متعلقہ اداروں نے کوتاھی کی اور قانونی طریقہ سے اس طرح کے انحرافات اور فاسد تبلیغات کا سد باب نہ کیا تو اس کے علاوہ کوئی راستہ نھیں ھے کہ ھمارے دیندار جوان میدان عمل میں گود پڑیں اور ھر مسلمان پر واجب ھے کہ اس سلسلہ میں اپنا قدم آگے بڑھائے۔“(10)
تمام لوگ اس بات کے گواہ ھیں کہ جس مرتد سلمان رشدی نے ”شیطانی آیات“ نامی کتاب لکھی جس میں قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (ص) کی توھین کی گئی، توحضرت امام خمینی (رہ) نے اس کے قتل کا فتویٰ صادر کردیا،” اور ھر مسلمان پر واجب قرار دیدیا کہ اگر کوئی سلمان رشدی کو قتل کرسکتا ھے تو اس پر قتل کرنا واجب ھے“ اور یہ فتویٰ صرف امام خمینی (رہ) ھی کا نھیں تھا بلکہ تمام اسلامی فقھاء نے اسی طرح کا فتویٰ دیا اور تمام اسلامی ملکوں نے اس فتویٰ کی تائید کی اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا امام خمینی (رہ) کا یہ فتویٰ تشدد پر مبنی نھیں تھا؟ (کیوں نھیں) لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے بھی اس شخص کے بارے میں تشدد کا رویہ اختیار کیا جس نے ضروریات دین اور اسلامی مسلم اصول کی توھین کی اور اسلامی مقدسات کو حرمت کو پامال کرنا چاھا ، امام خمینی (رہ) نے اس طرح کی تشدد کو جائز قرار دیا بلکہ ضروری سمجھا اور ایسے شخص کو مرتد اور واجب القتل قرار دیا۔
11۔ ھر موقع پر علمی شبھات اور اعتراضات کا جواب دیا جائے (اسلامی نظر یہ)
لیکن اگر کوئی شخص سازش یا کسی نقصان پھنچانے کا قصد نہ رکھتا ھو اور دین، ضروریات دین اوراحکام اسلام کے بارے میں کوئی شبہ یا اعتراض اس کے ذھن میں ھو تو وہ اس کو بیان کرسکتا ھے، بھر پور ادب و احترام کے ساتھ اس کی باتوں کو سنا جائے گا اور منطق و استدلال کے ساتھ اس کو جواب دیا جائے گا، کیونکہ دین اسلام دین منطق ھے ، اس کی بنیاد استدلال اور برھان پر قائم ھے، اور جب مسلمانوں اور علماء اسلام سے جب بھی کسی نے کسی اعتراض کا جواب طلب کیا ھے تو انھوں صبر و بردباری اورکشادہ دلی کے ساتھ بھترین دلائل پر مبنی عقلی اور شرعی جوابات پیش کئے ھیں اور اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا ھے اسی وجہ سے قرآن مجید کا حکم ھے کہ اگر کوئی شخص اگرچہ میدان جنگ میں دشمن کا سپاھی کیوں نہ ھو؛ سفید پرچم کو اٹھائے ھوئے اسلام کی حقانیت کے بارے میں تحقیق وجستحو کرنے کے لئےمسلمانوں کے پاس آئے اور اپنے سوالات کا جواب تلاش کرے، تواس وقت مسلمانوں کو چاھئے کی اس کو تحفظ دیں حفاظت کریں اور اس کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہ پھنچائیں، آرام وسکون اور پیار محبت سے اس کی باتوں کو سنیں،اور اسلام کی حقانیت اور بر حق ھونے کو دلیل اور برھان کے ذریعہ ثابت کریں؛ اس کے بعد اس کو تمام تر حفاظت کے ساتھ دشمن کے لشکر میں واپس کردیں۔
خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:
( وَإِنْ اٴَحَدٌ مِنْ الْمُشْرِکِینَ اسْتَجَارَکَ فَاٴَجِرْہ حَتَّی یَسْمَعَ کَلَامَ اللهِ ثُمَّ اٴَبْلِغْہ مَاٴْمَنَہ ذَلِکَ بِاٴَنَّھمْ قَوْمٌ لاَیَعْلَمُونَ ) (11)
” اور اگر مشرکین میں کوئی تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو تاکہ وہ کتاب خدا سنے اس کے بعد اسے آزاد کرکے جھاں اس کی پناہ گاہ ھو وھاں تک پھونچا دو اور یہ مراعات اس لئے ھے کہ یہ جاھل قوم حقائق سے آشنا نھیں ھے۔ “
قرآن کا حکم ھے کہ اگر کوئی شخص اسلام کی حقانیت کے بارے میں سوال اور تحقیق کے لئے آتا ھے، لیکن تحقیق کے بعد بھی مسلمان نہ ھو تو اس کو مکمل حفاظت کے ساتھ اس امن کی جگہ پھونچادو اور کسی کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ اس کو کسی طرح کا کوئی گزند پھونچائے؛ کیونکہ وہ اپنے سوالات کا جواب لینے کے لئے آیا تھا لھٰذا اس کی حفاظت ضروری ھے، اس کے سوالات کا جواب دیدیا گیا ھے۔
قارئین کرام! اب ھم سوال کرتے ھیں کہ دنیا کے کس گوشہ اور کس مذھب میں اسلام کی طرح اس بلندترین برتاؤ پر زور دیا گیا ھے؟
لیکن اگر کوئی شخص عناد و دشمنی اور سازش کے تحت ، نظام اسلام کو نقصان پھنچانے کے لئے کوئی شبہ یا اعتراض کرتا ھے اور مسلمانوں کے عقائد، اصول اور اسلامی اقدار میں شک و تردید ایجاد کرنا چاھتا ھے تو پھر اس کا مقابلہ کرنا ضروری ھے ، اور اس شخص کا مسئلہ اس مسئلہ سے الگ ھے جو اپنے سوالات کا جواب چاھتاھو اور اس کے دل میں اسلام کو نقصان پھنچانے کا کوئی ارادہ نھیں ھو۔
12۔ دشمن کی سازشوں سے مقابلہ کی ضرورت
ھمیں ثقافتی امور میں وسیع پیمانے پراسلامی اصول اور عقائد کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے مقابلہ میں خاموش نھیں رھنا چاھئے ، اوراسیی طرح ان لوگوں کے سامنے جو اندرون ملک زر خرید قلم کے ذریعہ اسلام کو نقصان پھنچانے کے درپے ھیں؛ خاموش بیٹھے تماشا نھیں دیکھنا چاھئے واقعاً ان لوگوں نے سازش کا پروگرام بنا رکھا ھے جبکہ بعض لوگ اس کو ثقافتی ردّ وبدل کا عنوان دیتے ھیں،اور اخباروں میں لکھتے ھیں کہ کسی طرح کی کوئی سازش نھیں ھے ، اور سازشوں کے دعویٰ کو خیال خام قرار دیتے ھیں ، لیکن کچھ مدت پھلے ھوئے حادثہ نے ان سازشوں سے پردہ اٹھادیا ۔
وہ سب اسلامی نظام کے خلاف مظاھرے اور عمومی اور سرکاری اموال پر حملہ اور فتنہ وفساد؛ یہ سب اسی بات کی عکاسی کرتے ھیں کہ واقعاً اسلامی نظام کے خلاف ایک بھت بڑی سازش تھی، جیسا کہ مقام معظم رھبری (حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی)نے بھی بیان فرمایا کہ اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے اسلامی نظام کے خلاف سازش تھی اور اسی حقیقت کے پیش نظر جب فتنہ گروں کو اپنے جگہ بٹھادیا گیا اور فتنہ کی لگائی ھوئی اس آگ کو فدا کار بسیجیوںنے بجھادیا تو اس وقت ان کی حمایت اور اسلامی نظام کی محکومیت میں دنیا میں شور ھونے لگا یھاں تک کہ خود امریکہ کے ممبر آف پارلیمنٹ نے یہ نعرہ لگایا کہ اسلامی جمھوری ایران کو محکوم ھونا چاھئے اور اس کے خلاف قوانین بنائیں جائیں؛ کیونکہ اسلامی حکومت نے بیرونی زر خرید نوکروں کو فتنہ وفساد پھیلانے کی اجازت نھیں دی!!
دنیا بھر میں ھر روز ھڑتال ، مظاھرے اور توڑ پھوڑ ھوتی رھتی ھے اور بھت سے لوگ قتل اور زخمی ھوتے رھتے ھیں ھم ھر روز یہ دیکھتے ھیں کہ صھیونیزم بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کا خون بھاتے ھیں جو صرف اپنے پامال شدہ حقوق کا مطالبہ کر رھے ھیں، یھاں تک کہ امریکہ سے وابستہ حکومتوں کے ذریعہ سینکڑوں لوگوں کا قتل ھوتا ھے لیکن کوئی کچھ نھیں کھتا ، کھیں سے یہ آواز نھیں اٹھتی کہ یہ حقوق بشر کی پامالی ھے، یا ان لوگوں کا کچلنا آزادی کے خلاف ھے بلکہ اس حکومت کی حمایت کی جاتی ھے اور کھتے ھیں کہ یہ قانونی حکومت کے خلاف قیام تھا اور حکومت کو بھی اپنے دفاع کا حق ھے لیکن جب ایران کی کسی یونیورسٹی میں مشکوک طریقہ سے کسی کا قتل ھوجاتا ھے جس کا قاتل بھی ابھی تک پتہ نہ چل سکا (اگر چہ یہ بھی دشمن کے زر خرید نوکروں اور فساد پھیلانے والوں کا کام ھے) یا کسی شخص کی کسی حادثہ میں موت ھوجاتی ھے ، اسی طرح جب فتنہ وفساد پھیلانے والوں کے ذریعہ مساجد میں آگ لگائی جاتی ھے، ناموس پر حملہ کیا جاتا ھے ، اور بسیجی ان کا مقابلہ کرتے ھیں ؛ تو اس وقت مغربی ممالک خصوصاً امریکہ میں ھمارے ملک کے خلاف ھنگامہ ھوتا ھے، اور ھماری حکومت کو محکوم کیا جاتا ھے، اور ھمارے ملک کو آزادی اور ڈیموکریسی کا مخالف قرار دیا جاتا ھے دعویٰ یہ کیا جاتا ھے کہ مظاھرہ کرنے والے اپنے حقوق اور آزادی کے خواھاں تھے، لیکن ایرانی حکومت نے ان کو کچل دیا ، جس کے نتیجے میں ایرانی حکومت کو محکوم کرنے کے علاوہ کوشش یہ ھوتی ھے کہ اسلامی جمھوری ایران سے مقابلہ کے لئے قوانین بنائے جائیں!
13۔ دشمنان اسلام سے مقابلہ اور اعلان برائت ضروری ھے (قرآن کریم)
قارئین کرام ! نتیجہ یہ ھوا کہ جس خدا کی پھچان قرآن کریم نے فرمائی ھے وہ خدا صاحب رحمت بھی ھے اور صاحب غضب بھی، اگرچہ اس کی رحمت اس کے غضب سے کھیں زیادہ ھے، اور اس کے غضب سے آگے آگے رھتی ھے ، اور یہ کہ خدا کی رحمت اس کے غضب کی نفی نھیں کرتی، جیسا کہ خداوندعالم نے گناھوں پر اصرار کرنے والی بعض گذشتہ اقوام پر اپنا غیظ وغضب کا مظاھر ہ کیا، اور ان پر اپنا عذاب نازل کیا ھے۔
دوسرے یہ کہ اسلام نے ؛ اپنے سے دشمنی اور عداوت رکھنے والوں کے لئے سخت سے سخت قوانین مرتب کئے ھیں اور مسلمانوں کو حکم دیا ھے کہ اسلام دشمن افراد سے واضح طور پر برائت اور نفرت کا اعلان کریں۔
اس سلسلہ میں آپ حضرات سورہ ممتحنہ کی تلاوت کریں جس میں کفار اور مشرکین سے مسلمانوں کے طور طریقہ کو بیان کیا گیا ھے اور جو لوگ دشمنان خدا سے دوستی کا نقشہ پیش کرتے ھیں ان کی سخت مذمت کی گئی ھے ، نیز خداوندعالم دشمنان اسلام سے مخفی طور پر دوستی کرنے سے ڈراتا ھے۔ اس سورہ مبارکہ میں خداوندعالم مسلمانوں کو حکم دیتاھے کہ ابراھیم علیہ السلام اور ان کے اصحاب سے پند حاصل کریں اور دشمنان خدا کے مقابلہ میں ان کے رویہ کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں، نہ یہ کہ جو لوگ اسلام اور مسلمین کی نابودی کے لئے ظاھری اور مخفی طریقہ سے فعالیت کرتے ھیں؛ ان کے سامنے بیٹھے مسکراتے رھیں!
چنانچہ ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اٴَوْلِیَاءَ تُلْقُونَ إِلَیْھمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَائَکُمْ مِنَ الْحَقِّ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ اٴَنْ تُؤْمِنُوا بِاللهِ رَبِّکُمْ إِنْ کُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِھادًا فِی سَبِیلِی وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِی تُسِرُّونَ إِلَیْھمْ بِالْمَوَدَّةِ وَاٴَنَا اٴَعْلَمُ بِمَا اٴَخْفَیْتُمْ وَمَا اٴَعْلَنْتُمْ وَمَنْ یَفْعَلْہ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیل ) (12)
” ایمان والوں خبر دار ! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا کہ تم ان کی طرف دوستی کی پیش کش کرو جب کہ انھوں نے اس حق کا انکار کردیا ھے جو تمھارے پاس آچکا ھے اور وہ رسول کو او رتم کو صرف اس بات پر نکال رھے ھیں کہ تم اپنے پروردگار (اللھ) پر ایمان رکھتے ھو، اگر واقعاً ھماری راہ میں جھاد اور ھماری مرضی کی تلاش میں گھر سے نکلے ھو تو ان سے خفیہ دوستی کس طرح کر رھے ھو؟ جب کہ میں تمھارے ظاھر و باطن سب کو جانتا ھوں، اور جو بھی تم میں سے ایسا اقدام کرے گا وہ یقینا سیدھے راستہ سے بھک گیا ھے۔“
( قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِی إِبْرَاھیمَ وَالَّذِینَ مَعَہ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِھمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِکَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ اٴَبَدًا حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللهِ وَحْدَہ)(13)
” تمھارے لئے بھترین نمونھٴ عمل ابراھیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی ھے جب انھوں نے اپنے قوم سے کھہ دیا کہ ھم تم سے اور تمھارے معبودوں سے بےزار ھیں ھم نے تمھارا انکار کردیا ھے اور ھمارے تمھارے درمیان بغض اور عداوت بالکل واضح ھے یھاں تک کہ تم خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لے آؤ “
ھم سے کھا جاتا ھے کہ زندگی کی باتیں کیجئے اور ”امریکہ مردہ باد“ کے نعروں کو چھوڑئیے، جی نھیں، ”امریکہ مردہ باد“ کے نعرے پورے زور وشور سے لگائے جائیں گے ، اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کی طرح ان سے یہ بات واضح طور پر کھہ دی جائے کہ جب تک حق کے سامنے سر تسلیم نہ کروگے، خدا کے سامنے اپنا سر نہ جھکائیں اور دوسروں پر اپنی حکومت جتانا نھیں چھوڑتے اور استکبارکی حالت سے اپنے کو نھیں نکالتے اور اپنے اپنائے ھوئے راستہ کو نھیں بدلتے،دنیا بھر کے لوگوں کے منافع کو پامال کرنا نھیںچھوڑتے اور آزاد ملتوںپر ستم کرنا ترک نھیں کرتے، ھم تمھارے دشمن ھیں۔
حالانکہ ان لوگوں نے ھمارے اور دوسرے اسلامی ملکوں کے منافع کو غارت کیا اور بھت زیادہ نقصانات پھنچائے، ھماری عزت و آبرو کو پامال کیااور ھمارے بھت سے رشتہ داروں کا خون بھایا، ھم بھلا کس طرح ان سے دوستی اور محبت کا مظاھرہ کریں؟ کیا دنیا بھر میں سیکڑوں بار کا تجربہ ھمارے لئے کافی نھیں ھے کہ ھم یہ سمجھ لیں کہ ان کے اندر مفاد پرستی اور استکبار کے علاوہ کچھ نھیں ھے، ھم پھر ان کے مکر وفریب کے جال میں پھنس جائیں؟!
قارئین کرام! قرآن مجید نے ھمیں یہ حکم دیا ھے کہ خدا ورسول اور اسلام کے دشمنوںکے سامنے واضح طور پر برائت اور دشمنی کا اظھار کریں اور اگر ھم اسی اسلام اور قرآن کے ماننے والے ھیں جو کروڑوں کی تعداد میں ھر مسلمان کے پاس موجود ھے اور دشمنان خدا سے برائت پر زور دیتا ھے، اور یہ برائت اور دشمنی کا اعلان صرف جزائی (سزائی) قوانین کے تحت نھیں ھے بلکہ اس سے بھی آگے ھے؛ تو پھر یہ کس طرح کھا جاسکتا ھے کہ سب کے سامنے بیٹھے مسکراتے رھیں اور سب کے ساتھ مھربان رھیں؟
حوالے:
(1)وصیت نامہ سیاسی الٰھی امام خمینی (رہ) ، بند دوم .
(2)سورہ آل عمران آیت4 .
(3)سورہ سجدہ آیت22 .
(4) سورہ بقرہ آیت90 .
(5) سورہ انعام آیت 12. 
(6( سورہ توبہ آیت12 .
(7( سورہ توبہ آیت73،سورہ تحریم آیت نمبر 9 .
(8)سورہ توبہ آیت123 .
(9 ) سورہ انفال آیت60 .
(10( وصیت نامہ حضرت امام خمینی (رہ)، بند دوم .
(11)سورہ توبہ آیت6 .
(12) سورہ ممتحنہ آیت نمبر 1 .
(13) سورہ ممتحنہ آیت نمبر 4 . 

Add comment


Security code
Refresh