7۔ خداوندعالم کی رحمت اور غضب کے بارے میں اسلامی تصویر کشی
اسلام اور قرآن کے سلسلہ میں مغربی افراد کے شبھات اور اعتراض میں سے ایک یہ بھی ھے کہ مسلمانوں کا خدا جیسا کہ قرآن میں بیان ھوا ھے ،بد خُلق، غصہ والا، اھل غضب اور انتقام لینے والا ھے، جبکہ خدائے انجیل بخشنے والا، مھربان، سعہ صدر(کشادہ دل) والا، تحمل کرنے والا اور بھت زیادہ مھربان اورلوگوں سے اس قدر دلسوزی کرنے والا ھے کہ نغوذ باللہ اس نے اپنے بیٹے (عیسیٰ) کو قربانی کے لئے بھیج دیا تاکہ تمام لوگوں کی بخشش ھوسکے اور اس کا خون تمام لوگوں کے گناھوں کا کفارہ بن جائے!! تو کیا قرآن مجید میں بیان شدہ خدا غصہ ور اور بد خلق ھے یا رحیم اور رؤف ھے؟
قارئین کرام! گذشتہ اعتراض کا جواب یہ ھے کہ ھمارا خدا صفت رحمت بھی رکھتا ھے اور صفت غضب بھی، وہ ”ارحم الراحمین“ (بھت زیادہ رحم کرنے والا) بھی ھے اور ”اشد المعاقبین (سخت عذاب دینے والا)بھی، قرآن مجید کے 114 سوروں میں سے 113 سورے (بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) سے شروع ھوتے ھیں جس میں خداوندعالم کی دو صفات یعنی ”رحمن“ اور ”رحیم“ کا ذکر ھوتا ھے اور صرف ایک سورہ کی شروعات ”بسم اللھ“ سے نھیں ھوئی ھے، جبکہ سورہ نمل میںشروع کے علاوہ خود سورہ کے اندر بھی (بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) تکرار ھوئی ھے؛ جب ملکہ سبا (بلقیس) حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کو اپنی قوم کے سامنے پڑھتی ھے تو اس کا آغاز (بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ)سے ھوتا ھے، بھر حال پورے قرآن مجید میں 114 بار (بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) کی تکرار ھوئی ھے جس میں خداوندعالم کی دو رحمتی صفات کا ذکر ھے لیکن قرآن مجید میں خداوندعالم کی اسی رحمت واسعہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ خدا کے خشم (غصھ) اور غضب بھی ذکر ھوا ھے؛ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:
) وَاللهُ عَزِیزٌ ذُو انْتِقَامٍ )(2)
” اور خدا سخت انتقام لینے والا ھے “
( إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِینَ مُنتَقِمُونَ )(3)
”ھم یقینا مجرمین سے انتقام لینے والے ھیں “
( فَبَاءُ وْا بِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ مُھینٌ ) (4)
” ا ب یہ غضب بالائے غضب کے حقدار ھیں اور ان کے لئے رسوا کن عذاب بھی ھے “
اگر یورپی لوگ (اپنے الفاظ میں) اپنے خدا کو صرف مھربان اور رحیم بتاتے ھیں اور کھتے ھیں کہ ھمارا خدا غصہ وغضب والانھیں ھے، لیکن حقیقت یہ ھے کہ جس طرح قرآن نے خدا کی توصیف کی ھے ، ان لوگوں نے اس کو صحیح طریقہ سے بیان نھیں کیا ھے؛ کیونکہ جس خدا پر ھم اعتقاد رکھتے ھیں وہ صرف اھل غضب ھی نھیں ھے بلکہ صاحب رحمت اور مھربان بھی ھے اور صاحب قھر و غضب بھی، لیکن اس کی رحمت اس کے غضب پر چھائی ھوئی ھے، اسی وجہ سے ارشاد ھوتا ھے:
"کَتَبَ عَلَی نَفْسِہ الرَّحْمَةَ " (5)
” اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم قرار دے لیا ھے “
اور یہ معنی سنی شیعہ متواتر روایات میں بیان ھوئے ھیں، جیسا کہ ھماری دعاؤں میں وارد ھوا ھےیا مَنْ سَبَقَتْ رَحْمَتُہ غَضَبَہ اے وہ جس کی رحمت اس کے غضب پر مقدم ھے۔
یعنی خدا کی رحمت اس کے غضب کی نفی نھیں کرتی بلکہ اس کی رحمت اس کے غضب پر مقدم ھے اور جھاں تک اس کا لطف وکرم اور اس کی حکمت تقاضا کرے وھاں تک بندوں پر اپنے لطف وکرم اور رحمت کی بارش کرتا ھے اور اپنے غضب کا مظاھرہ نھیں کرتا؛ مگر یہ کہ اس کی ضرورت ھو اور خداوندعالم کچھ لوگوں کو قھر وغضب میں گرفتار کرے اسی وجہ سے ھم دیکھتے ھیں خداوندعالم نے بعض گذشتہ اقوام جیسے قوم نوح، قوم عاد اور قوم ثمود پر اپنا غضب نازل کیا ھے اور اپنا عذاب بھیج کر ان کو نیست و نابود کردیا ھے (جیسا کہ ان اقوام کے مفصل واقعات قرآن مجید میں بیان ھوئے ھیں) لیکن اس کی وجہ یہ ھے کہ ان کی قوم میں بھیجے گئے انبیاء (ع) ھمیشہ ان کو راہ ھدایت کی دعوت دیتے تھے اور راہ ھدایت کو واضح اور روشن کرنے کے لئے معجزات اور الٰھی نشانیاںدکھاتے رھتے تھے ؛ لیکن ان لوگوں نے ان تمام چیزوں کے باوجود بھی کفر وضلالت کا راستہ اختیار کیا اور ان کی رفتار و گفتار میں ذرا بھی تبدیلی واقع نہ ھوئی، اور یھی نھیں بلکہ پھلے سے زیادہ فتنہ و فساد، گناہ عصیان اور احکام الٰھی کی مخالفت میں جری ھوتے چلے گئے تو اس موقع پر خداوندعالم کی حکمت او راس کی مشیت کا تقاضا تھا کہ ان کو اپنے غیظ و غضب اور عذاب میں گرفتار کرے تاکہ فتنہ و فساد پھیلانے والوں، لجاجت کرنے والوں، خدا سے دشمنی کرنے والوں، اور متکبرین کے لئے بھترین عبرت حاصل ھوجائے۔
لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ قرآن کریم میں ذکر شدہ خدا غیظ وغضب والا نھیں ھے بلکہ خدائے رحمت و لطف وکرم ھے، اور صرف بعض مقامات پر جب اس کی حکمت اور مشیت کا تقاضا ھوتا ھے،اپنے غیظ وغضب کا اظھار کرتا ھے۔
لھٰذااس سوال( کہ کیا اسلام میں رحمت ومھربانی پائی جاتی ھے یا غیظ وغضب اور شدت پسندی؟)؛ کے جواب میں ھم عرض کرتے ھیں: اسلام میں رحمت اصل چیز ھے اوراس کی بنا یھی ھے کہ معاشرہ میں رحمت ومحبت کا رواج ھو، لیکن خاص موارد میں (جیسا کہ قرآن مجید نے بھی اشارہ کیا ھے) پیار محبت اور مھربانی سے کام نھیں لینا چاھئے بلکہ وھاں پر غیظ وغضب ، تشدد اور شدت پسندی کا مظاھرہ ھونا چاھئے خداوندعالم صفت رحمت بھی رکھتا ھے، اور صفت غیظ وغضب اور انتقام بھی۔
8۔ ھدایت کے موانع کو بر طرف کرنے ،دشمنوں اور منافقین سے مقابلہ کی ضرورت
اسلام ، اس کی نشر واشاعت اور اس کے دفاع سے متعلق عرض کرتے ھیں کہ اسلام پھلے مرحلہ میں انسانوں کو ھدایت کی دعوت دیتا ھے، لیکن اگر کوئی دعوت انبیاء (ع) کی نشر واشاعت میں رخنہ ڈالنا چاھے تو پھر قرآن حکم دیتا ھے کہ ان سے جنگ کی جائے، اور ھدایت کے راستے میں بچھے کانٹوں کو ھٹا پھینک دیا جائے اسی وجہ سے خود پیغمبر اکرم (ص) اور معصومین علیھم السلام کے زمانہ میں ”جھاد ابتدائی“ (یعنی اپنی طرف سے جھاد کی شروعات کرنا)واجب تھا، تاکہ لوگوں کی ھدایت کے موانع بر طرف کئے جاسکیں اسی بنیاد پر جب پیغمبر اکرم (ص) مبعوث برسالت ھوئے ، بات یہ نھیں کہ آنحضرت (ص) روم اور ایران جیسے ملکوں کے داخلی امور میں دخالت کر نے کا حق رکھتے ھیں یا نھیں؛ بلکہ حقیقت یہ ھے کہ پیغمبر اکرم (ص) روئے زمین کے تمام انسانوں کی ھدایت کے لئے مبعوث ھوئے ھیں، لھٰذا اگر کوئی یھاں تک کہ بادشاہ ایران اور قیصر روم بھی پیغمبر اکرم (ص) کی دعوت اسلام کی مخالفت کریں تو اس صورت میں پیغمبر اکرم (ص) کا وظیفہ بنتا ھے کہ وہ ان سے جنگ کریں اسی وجہ سے آنحضرت (ع) نے (مختلف) ملکوں کے بادشاھوں کو خطوط لکھے اور ان کو اسلام کی دعوت دی اور ان سے یہ چاھا کہ اپنے اپنے ملکوں کی عوام الناس کے لئے رسول خدا اور ان کے نمائندوں کے ذریعہ ھدایت کا راستہ ھموار کریں؛ ورنہ جنگ کے لئے تیار ھوجائیں۔
اور چونکہ جھاد ؛ اسلام کے مسلم اصول میں سے ھے اور تمام شیعہ سنی فرقے اس سلسلہ میںمتفق ھیں اور کسی نے کوئی مخالفت نھیں کی ھے، (اور کفر وشرک کے سرداروں سے جھاد اس وجہ سے واجب تھا کہ وہ اپنے تحت لوگوں کی ھدایت وارشاد اور پیغمبروں کی دعوت کی تبلیغ میںمانع ھوتے تھے، اسی وجہ سے رسول خدا (ص) کا یہ وظیفہ تھا کہ ان لوگوں کو ھدایت کے راستہ سے ھٹانے اور عوام الناس کی ھدایت کے راستہ صاف کرنے کے لئے ان سے جنگ کریں) ان تمام چیزوں کے پیش نظر یہ بات کیسے کھی جاسکتی ھے کہ اسلام مطلقاً جھاد اور جنگ کو لازم اور جائز نھیں جانتا ھے؟ کیا ھم ان آیات قرآن جو کفار ومشرکین اور منافقین نیز دشمنان اسلام سے جھاد کے بارے میںنازل ھوئی ھیں ان کو نظر انداز کردیں اور ان کو چھپادیں؟
قارئین کرام ! ھم (یہ بات علی الاعلان) کھتے ھیںکہ دشمنان خدا سے مقابلہ کرنا اسلامی اصول کے تحت ھے او ر اسلام نے احکام جھاد کے سلسلہ میں انسانی بھترین اصول کو مد نظر رکھا ھے، اور ان کی رعایت کرنے پر زور دیا ھے، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی زور دیا ھے کہ جب دشمنان (اسلام) اور وہ لوگ جو دانستہ طور پر حق و حقیقت کے خلاف کھڑے ھوجائے اور دین خدا سے مقابلہ کرنے لگے اور اپنے عھد و پیمان کو توڑ ڈالیں؛ تو ان سے جنگ کرو:
( وَإِنْ نَکَثُوا اٴَیْمَانَھمْ مِنْ بَعْدِ عَھدِھمْ وَطَعَنُوا فِی دِینِکُمْ فَقَاتِلُوا اٴَئِمَّةَ الْکُفْرِ إِنَّھمْ لاَاٴَیْمَانَ لَھمْ لَعَلَّھمْ یَنتَھونَ ) (6)
” اگر یہ عھد کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑدیں اور دین میں طعنہ زنی کریں، تو کفر کے سربراھوں سے کُھل کو جھاد کرو کہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نھیں ھے شاید اسی طرح اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔“
اسی طرح خداوند عالم سورہ تحریم اور سورہ توبہ میں فرمان دیتا ھے کہ پیغمبر اور مسلمان؛ کفار ومنافقین سے جنگ کریں اور ان کے ساتھ غیظ و غضب اور شدت پسندی کا برتاؤ کرو:
( یَااٴَیُّھا النَّبِیُّ جَاھدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْھمْ وَمَاٴْوَاھمْ جَھنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ) (7(
” اے پیغمبر ! کفار اور منافقین سے جھاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے کہ ان کا انجام جھنم ھے جو بد ترین ٹھکانہ ھے۔“
( وہ مذکورہ مقالہ نگار جس نے لکھا تھا کہ جھاد سے متعلق قرآنی آیات کفار سے مخصوص ھیں ، اس نے اس آیت پر غور فکر نھیں کیا کہ اس آیہٴ مبارکہ میں خداوندعالم نے کفار سے جھاد کے علاوہ داخلی منافقوں سے بھی جھاد او رمقابلہ کا حکم دیا ھے۔)
اسی طرح سورہ توبہ میں ایک دوسری جگہ ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِینَ یَلُونَکُمْ مِنْ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوا فِیکُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ ) (8)
” اے ایمان لانے والو ! اپنے آس پاس کفار سے جھاد کرو تاکہ وہ تم میں سختی اور طاقت کا احساس کریں اور یاد رکھو کہ اللہ صرف پرھیز گار افراد کے ساتھ ھے۔
مذکورہ آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ھے کہ وہ کفار جو تمھارے نزدیک زندگی گذار تے ھیں ؛ ان سے جنگ کرو اور ان سے غافل نہ ھو جانا اور اپنے غیظ وغضب کا مزہ اپنے پڑوسی کفار کو چکھا دو تاکہ وہ (مسلمانوں سے) ڈریں اور ان کے خلاف کوئی خیانت اور سازش نہ کریں۔
اسی طرح خداوندعالم فرماتا ھے:
( وَاٴَعِدُّوا لَھمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھبُونَ بِہ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِینَ مِنْ دُونِھمْ لاَتَعْلَمُونَھمْ اللهُ یَعْلَمُھمْ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَیْءٍ فِی سَبِیلِ اللهِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ
وَاٴَنْتُمْ لاَتُظْلَمُونَ ) (9)
” اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن، اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نھیں جانتے ھو اور اللہ جانتا ھے سب کو خوفزدہ کردو ، اور جو کچھ بھی راہ خدا میں خرچ کرو گے سب پورا پورا ملے گا اور تم پر کسی طرح کا ظلم نھیں کیا جائے گا۔“
(وہ حضرات جو عربی ادبیات (زبان) جانتے ھیں ؛ ھم ان کو اس بات کی تاکید کرتے ھیں کہ وہ لفظ ”ارھاب“ کے ھم معنی لفظ دوسری زبانوں میں تلاش کریں؛ اور اگر ھم عرض کردیں تو کل ھی اخباروں کی سرخی بن جائے گی کہ فلاں صاحب تو ٹروریزم "Terrorisme"کے طرفدار ھیں۔)
بھر حال قرآن مجید نے حکم دیا ھے کہ جن لوگوں سے منطق اور اصول کے ساتھ گفتگو نھیں کی جاسکتی اور انھوں نے جراٴت او ردلیری کے ساتھ راہ ھدایت کو بند کردیا ھے اور بغض و عناد اور دشمنی کی بنا پر اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ جنگ کرتے ھیں، ان کے ساتھ تو تشدد اور غیظ وغضب سے مقابلہ کرنا چاھئے اور مسلمانوں کو چاھئے کہ ان کے درمیان رعب و دھشت ایجاد کردیں تاکہ ان کے اندر مسلمانوں کے ساتھ خیانت کرنے اور اسلام کو نقصان پھونچانے کا تصور بھی پیدا نہ ھو ان سے یہ نھیں کھا جاسکتا کہ : ”تم اپنے دین پر ھم اپنے دین پر، آؤ مل جل کر ایک ساتھ اطمینان کی زندگی بسر کریں۔“
9۔ اسلامی سزا کے احکام کی مخالفت
بعض مقالہ نگاروں نے اپنے مقالات میں ھم پر یہ اعتراض کیا کہ اسلام نے کفار و مشرکین کے سلسلہ میں تشدد اور شدت پسندی کے برتاؤ کا حکم دیا ھے ، اور ان کواپنا ھمشھری ماننے سے انکار کیا ھے، حالانکہ یہ لوگ اس بات سے غافل ھیں کہ اسلام نے بعض جرائم پر خود مسلمانوںکے لئے سخت سے سخت سزا معین کی ھے، اور اپنے قوانین میں ایسے لوگوں کے لئے کڑی سزا مقرر کی ھے مثال کے طور پر چوری کے مسئلہ میں اسلام کا حکم ھے کہ چور کے ھاتہ کاٹ دئے جائیں یا زنا، عفت اور عزت کے دوسرے مسائل میں مجرموں کے لئے حد اور سزا معین کی ھے مثلاً زنا کرنے والے کو سو تازیانے لگانے کی سزا معین کی گئی ھے، اور بعض عفت کے منافی جرائم کے سلسلہ میں سزائے موت بھی رکھی گئی ھے در حقیقت اس طرح کے مجرموں کے لئے اسلامی سزا بھت سخت اور ناقابل برداشت ھیں لیکن اس چیز پر توجہ رکھی جائے کہ اسلام نے بعض عفت کے منافی جرائم جیسے زنا؛کوثابت کرنے کے لئے سخت شرائط معین کئے ھیں جس کی بنا پر بھت ھی کم یہ جرم ثابت ھوپاتے ھیں تاکہ ان پر حد جاری ھوسکے۔
بعض شرعی اور اسلامی حدود اور سزا کی بنا پر اسلام دشمن افراد کو اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا ایک بھانہ مل گیا ھے جس کی بنا پر یہ لوگ کھہ دیتے ھیں کہ اسلام میں حقوق بشر کی رعایت نھیں کی جاتی، اور اسلام کی سزا میں تشدد پائی جاتی ھے نیز انسانی شرافت کو نظر انداز کیا جاتا ھے جی ھاں! دشمن اور حقوق بشر کے جھوٹے مدعی کھتے ھیں: ”ایک مسلمان چور کے ھاتھوں کو کاٹنا غیر انسانی عمل اور تشدد آمیز ھے اور انسانی شرافت کے مخالف ھے؛ کیونکہ جس شخص کے ھاتہ کاٹے جاتے ھیں تو وہ انسان پوری زندگی کے لئے اس مفید عضو سے محروم ھوجاتا ھے اور ھمیشہ معاشرہ میں ایک چور کے عنوان سے پھچانا جاتا ھے“ ۔
جبکہ اس کے مقابلہ میں بعض اسلام کا دعویٰ کرنے والوں نے اسلام کا دفاع کرتے ھوئے اس طرح کا نظریہ پیش کرتے ھیں: اسلام کے یہ سزا کے احکام گذشتہ زمانہ سے متعلق تھے اور ایک خاص زمانہ سے مخصوص تھے ، آج کل تو امنیت کے تحفظ اور چوری سے روک تھام کے لئے نئے نئے طریقے موجود ھیں لھٰذا کسی چور کے ھاتہ کاٹنے کی ضرورت نھیں ھے اگر امنیت کے تحفظ اور دوسرے جرائم سے روک تھام کے لئے بھتر طریقے موجود ھوں تو پھر امریکہ ؛ جس میں جرائم سے روک تھام کے لئے نئے نئے طریقے نافذ کئے جاتے ھیں، لیکن پھر بھی روزانہ ھزاروں جرائم ھوتے ھیں، اور وھاں کے کالجوں میں مسلح پولیس کا رھنا ضروری ھے۔
جولوگ جو نھایت بے شرمی کے ساتھ کھتے ھیں کہ یہ اسلامی سزائیں نا قابل قبول ھیں اور ان کو تشدد اور شدت پسندی کا عنوان دیتے ھوئے یہ کھتے ھیں کہ یہ سزائیںچودہ سو سال پھلے سے متعلق تھیں عصر حاضر میں کوئی ان کو قبول نھیں کرسکتا، کیا وہ لوگ یہ بھول گئے کہ جن لوگوں نے قصاص (بدلا) کے قوانین کو غیر انسانی کھہ کر اس کے خلاف مظاھرے شروع کردئے تھے، اس موقع پر حضرت امام خمینی (رہ) نے ان کو مرتد قرار دیتے ھوئے فرمایا تھا کہ ان کا خون مباح اور ان کی بیویاں ان لوگوں پر حرام ھیں اور ان کا مال ان کے مسلمان ورثہ میں تقسیم کر دیا جائے۔
جی ھاں امریکن حقوق بشر کے طرفداروں نے اسلامی سزاؤں کو غیر انسانی اور تشدد آمیز کا عنوان دے کر ان کو محکوم و مذموم قرار دیا ھے لیکن ھم ان سے یہ کھتے ھیں کہ اگر اسلامی سزائیں تشدد آمیز ھیں، مان لیتے ھیں کہ بعض مواقع پر اسلامی حدود اور سزائیں تشدد آمیز ھیں، لیکن ھم اسلامی قوانین کا دفاع کرنے والے ھیں اور اس کے خلاف ھر طرح کی سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے دل و جان سے آمادہ ھیں، ھم یہ نھیں مانتے کہ احکام منسوخ ھوگئے ھیں، بلکہ ھمارا تو عقیدہ یہ ھے کہ:
”حَلاٰلُ مُحَمَّدٍ حَلاٰلٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَحَرَامُ مُحَمَّدٍ حَرَامٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ “
) آنحضرت(ص) کی حلال کردہ چیزیں قیامت تک حلال اور آپ کی حرام کردہ چیزیں قیامت تک حرام ھیں۔)
ھم نے انقلاب اسی وجہ سے برپا کیا ھے کہ ھمارے معاشرہ میں اسلامی احکام نافذ ھوں، ورنہ تو شاہ پھلوی بھی کھتا تھا: ”جو کچھ میں کھتا ھوں وہ اسلام کے مطابق ھے،اور علماء غلطی پر ھیں، اور یہ لوگ بیک ورڈ ھیں“!
ھمارے معاشرہ میں قرآن مجید کے اندر بیان شدہ اسلامی مسائل اور احکام کو نافذ ھونا چاھئیں یہ وھی اسلام ھے جس کی سرفرازی اور بلندی نیزاسلامی حکومت کے لئے ھم نے اپنے رشتہ داروں کی قربانی پیش کی ھے اور اب بھی جانفشانی کرنے کے لئے تیار ھیں ، اسی اسلام کی پھچان مقام معظم رھبری (حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی)نے فرماتے ھوئے کھا ھے : ” اسلام ناب وھی اسلام ھے جو قرآن اور سنت میں بیان ھوا ھے ، جس کے احکام اور قوانین مناسب اور اجتھادی طریقہ سے انھیں دو عظیم الٰھی منبع و مرکز (قرآن و سنت) سے استنباط (حاصل) کئے جاتے ھیں اور جو لوگ اس اسلام کو نھیں مانتے، انھوں نے گویابنیادی طور پر اسلام کو قبول ھی نھیں کیا ھے، کیونکہ اسلام (صرف ایک ھی ھے) دو نھیں ھیں۔“
تشدد کے سلسلہ میں ایک تحقیق
- Details
- Category: اسلام اور سیاست
- Hits: 6967
Page 3 of 4