www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

جب کہ ھم دیکھتے ھیں کہ دسیوں حکم نامہ اسرائیل غاصب کے خلاف دئے جاچکے ھیں لیکن اس نے کسی پر بھی عمل نھیں کیا ھے اورھمیشہ ان کی مخالفت کرتا رھا ھے ، لیکن نہ یہ کہ کبھی اس کو سزا دی گئی بلکہ انعام کے طور پر اس کو کروڑوں ڈالر کی (بلا عوض) امداد کی جاتی ھے اور بڑے بڑے اسلحے، مھلک ھتھیار (آئیٹم بم) بنانے کی ٹکنالوجی دی جاتی ھے توکیا کوئی حکومت اور حقوق بشر کا دفاع کرنے والوں نے اس غاصب اسرائیل کے بارے میں جو انسانوں کے روز مرہ کے حقوق بھی پامال کر رھا ھے اور اقوام متحدہ کے حکم ناموں کو بھی نھیں مانتا او رھمیشہ ان کی مخالفت کرتا ھے، کیا اس کو کبھی کسی نے ڈیموکریسی اور حقوق بشر کا مخالف قرار دیا؟!!
4۔ اسلامی نظام پر تشدد طلب ھونے کا الزام اور اس کے خلاف سازشیں
ھمارے ملک میںاسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد (اسلام دشمن طاقتوں نے) تشدد کے سلسلہ میں بھت زیادہ پروپیگنڈا کیا ھے، سب سے پھلے یہ کھا کہ شاہ پھلوی کی قانونی حکومت کے سامنے قیام کرنا تشدد ھے اور انقلاب کی کامیابی کے بعد، جب منافقین گروھوں نے عوام الناس کو اپنے غیر اسلامی اھداف سے ھم آھنگ نہ پایا تو انھوں نے انقلاب اور عوام الناس سے مقابلہ شروع کردیا اور دینی اور سیاسی مھم شخصیتوں کو قتل کرنے لگے یھاں تک کہ بے گناہ لوگوں پر بھی رحم نہ کیا، جس کے بعد عوام الناس نے بھی ان سے مقابلہ شروع کردیا اور ان کو ملک سے بھگادیا؛ اس روز سے آج سے مغربی ممالک ھمارے خلاف پروپیگنڈا کرتے ھیں اور کھتے ھیں کہ منافقین سے ایسا برتاؤ کرنا تشدد ھے! کوئی یہ نھیں دیکھتا کہ ان منافقین کے گروھوں نے کس قدر ھمارے ملک کو نقصانات پھونچائے ھیں کوئی مھم شخصیتوں کے قتل کی مذمت نھیںکرتا ھے، لیکن جس وقت ایک ملت اپنے دین اور ملک سے دفاع کرنے کے لئے قیام کرتی ھے اور ٹرورسٹوں "Terroristes"کو پسپاکرتی ھے اور ان میں سے بعض لوگوں کو سزائے اعمال تک پھنچاتی ھے اور بعض کو ملک بدر کرتی ھے تو اس وقت شور و غل مچاتے ھیں کہ یہ سب کچھ حقوق بشر کے خلاف ھے!!
اسی طرح جب 18 تیر ماہ 1378ئہ شمسی کے بعد بعض فتہ وفساد برپا کرنے والے بیت المال، عوامی مال دولت، بینک، ذاتی اور سرکاری گاڑیوں یھاں تک کہ مسجدوں میں بھی آگ لگادیتے ھیں اور عورتوں کو بے آبرو کرتے ھیں عورتوں کے سروں سے چادر چھین لیتے ھیں؛ اس وقت کوئی نھیں کھتا کہ یہ کام حقوق بشر کے خلاف ھے ، بلکہ ان لوگوں کو اصلاح طلب اورڈیموکریسی و آزادی کا طرف دار کھا جاتا ھے! لیکن اگر اسلامی جمھوری ایران اور فدا کار بسیجی ( عوامی رضاکار فوج) بے خوف وخطر ان سے مقابلہ کرتی ھے اور دین و شرف اور اپنے محبوب نظام سے دفاع کے لئے اٹہ کھڑی ھوتی ھے اور فتنہ وفساد پھیلانے والوں کا قلع وقمع کرتی ھے تو اس موقع پر یہ لوگ فلک شگاف نعرے لگاتے ھیں کہ ایران میں آزادی نھیں ھے، اور ایرانی نظام حکومت ڈکٹیٹر شب"Dictaorship" ھے!!
مغربی ممالک اپنے دعوی کے باطل ھونے کو جانتے ھیں لھٰذا انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے اسلامی نظام کو درھم و برھم کرنے کے لئے اس طرح کے پروپیگنڈے کیا کرتے ھیں اگرچہ ھم ان کے نحس مقاصد اور ارادوں سے بے خبر نھیں ھیں، لیکن وہ اپنے تجربات کی بنا پر اچھی طرح جانتے ھیں کہ کس طرح ایک نظام کو سرنگوں کیا جاتا ھے چاھے پچاس سال کے بعد ھی کیوں نہ ھو، (اگرچہ ان کا یہ خیال باطل اور بے ھودہ ھے) لھٰذا وہ ابھی سے اس سلسلہ میں مختلف طریقوں سے بھت زیادہ کارکردگی کر رھے ھیں ان کا مقصد یہ ھے کہ انقلاب کی ایک دو نسل گذرنے کے بعد جنھوں نے انقلاب کو نھیں سمجھا ھے اور انقلاب سے پھلے مفاسد اور شاہ پھلوی کے ظلم و جور کو نھیں دیکھا ھے اور اسلامی نتائج سے آگاھی نھیں رکھتے نیز حضرت امام خمینی (رہ) اور ان کے ساتھیوں کے تربیت یافتہ نھیں ھے، یہ سبب ان کے پروپیگنڈوںسے متاثر ھوجائیں گے؛ تاکہ اسلامی حکومت کو سرنگون کرکے اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دیں جس کو آج کی اصطلاح میں ڈیموکراٹک "Democratic"کھا جاتا ھے۔
5۔ لوگوں میں انتخابات سے بائیکاٹ کا راستہ ھموار کرنا
یہ لوگ اپنے نحس مقاصد تک پھنچنے کے لئے حساب شدہ منصوبہ بندی کرتے ھیں اور ثقافتی بنیادی فعالیت انجام دیتے ھیں اور موثر و کارگر وسائل کو بروئے کار لاتے ھیں انقلاب کی کامیابی کے بعد سے (خصوصاً آخری چند سالوں سے) جن الفاظ سے استفادہ کرتے ھیں ، ان میں سے تساھل (سستی) تسامح (لاپرواھی) اور مدارا(تال میل) ھیں جن کو مطلق اقدار کے عنوان سے پیش کرتے ھیں، اور اس کے مقابلہ میںقاطعیت اور تشدد کی مطلق طور پر مذمت کرتے ھیں۔
اس نظریہ کی دلیل یہ ھے کہ انھوں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ھے کہ جو چیز نظام اسلامی کے بقاء کی ضامن ھے وہ ھے عوام الناس خصوصاً جوانوں اور بسیجیوں کا اسلام اور رھبری سے لگاؤ اور محبت ھے ؛ یھاں تک کہ ان اقدار کی حفاظت (جو کہ لاکھوں شھیدوں کے خون کی برکت سے حاصل ھوا ھے) ؛ کے لئے اپنی جان سے کھیلنے کے لئے حاضر ھیں یہ لوگ علم و ادب اور ثقافتی پروپیگنڈوں سے عوام الناس کی شجاعت، ایثار، بھادری، معنوی طاقت اور دینی غیرت کو چھین لینا چاھتے ھیں اسی وجہ سے منفی ، غیر انسانی اور ظالمانہ تشدد جو دنیا بھر میں ھوتی رھتی ھے، اور جس کے تباہ کن نتائج ھر روز دیکھنے میں آتے رھتے ھیں؛ اس کو ھمارے سامنے بیان کرتے ھیں تاکہ یہ سمجھائیں کہ تشدد کے یہ برے نتائج ھوتے ھیں؛ لھٰذا کسی بھی طرح کی کوئی تشدد صحیح نھیں ھے بلکہ مذموم ھے یھاں تک کہ اگر کوئی غیظ وغضب میںکچھ کھے، یا” امریکہ مردہ باد“ کے نعرہ لگائے یا فساد پھیلانے والوں سے مقابلہ کرے اوران کو کچل دے ، تو ان کا یہ کام تشدد ، شدت پسندی اور محکوم و مذموم ھے۔
ان لوگوں مقصد یہ ھے کہ اس طرح انقلابی اقدار کا دفاع کرنے والوں کو شدت پسندی کانام دے کر عوام الناس کو سست کردیں تاکہ کوئی ان کی خطرناک سازشوں سے مقابلہ کے لئے کھڑا نہ ھو ، اور اپنے خیال ناقص میں 28 مرداد 1332ھجری شمسی کی بغاوت کی طرح ایک دوسری بغاوت کرادیں اور جیسا کہ ان لوگوں کا کام ھے 28 مرداد میں مٹھی بھربد معاش، لچّے لفنگے لوگوں کے ذریعہ بغاوت کرادی اور انھوں نے لوگوں کی جان ومال اور ناموس پر حملہ کیا اور دشمن کے نقشہ کو عملی جامہ پھنادیا؛ اسی طرح 18 تیر ماہ 1378ئہ شمسی کو بھی اپنے ناپاک منصوبہ کے لئے مناسب پایا اور ملک میں بغاوت پھیلادی چنانچہ ان لوگوں نے اس سلسلہ میں بھت زیادہ مطالعہ اور تحقیق ، بھت زیادہ خرچ کرکے سادہ لوح افراد کو فریب دینے کے لئے اس کام کے مقدمات پھلے سے تیار کررکھے تھے جیسا کہ اس حادثہ میں ملوث افراد نے خود اپنے انٹر یو میں اس بات کا اقرار کیا کہ انھوں نے امریکہ سے پیسہ اور فکری امداد حاصل کی تھی ، یہ سب اسی حقیقت کی عکاسی ھے تاکہ جب موقع پائیں تو بد معاش اور لچّے لفنگے لوگوں کو میدان میں اتار دیں تاکہ یہ لوگ اندرونی اور بیرونی میڈیا کی امداد اور مختلف طریقوں سے کمک کے ذریعہ بدامنی پھیلائیں اور دکانوں ، گھروں اور دفتروں کو آگ لگائیں خلاصہ بغاوت کے نقشہ کو عملی جامہ پھنادیں۔
جی ھاں، یہ لوگ شدت پسندی کو برا اور مذموم کھہ کھہ کر عوام الناس میں مقابلہ کے حوصلوں کمزور کرنا چاھتے تھے نیز انقلاب سے دفاع کے سلسلہ میں ان کے حوصلے پست کرنا مقصود ھے،تاکہ جب ضد انسانی اور ضد انقلابی کارناموں کا نظارہ کریں اور عوام الناس کے مال و دولت کو غارت ھوتے دیکھیں نیز سرکاری ملکیت کو نابود ھوتا ملاحظہ کریں اور خود فروش لوگوں کے ذریعہ بلوا ھوتے دیکھیں تو سب کے سب خاموش بیٹھے تماشا دیکھتے رھیں اور فتنہ و فساد پھیلانے والوں کو کچلنے کی فکر نہ کریں بلکہ صرف تباھی پھیلانے والوں سے آرام کے ساتھ گفتگو کرنے کی دعوت دیں اور ان کے مطالبات کو سنیں اور ان سے کھیں کہ ھاں تمھیں اعتراض کرنے کا حق ھے، تم واقعاً پریشان ھو، لھٰذا تم اپنی طرف سے کسی کو نمائندہ بنا کر بھیجو تاکہ آپس میں بیٹہ کر آرام کے ساتھ گفتگو کریں، تمھارے مطالبات کو پورا کیا جائے گا، آؤ اور آپس میں سمجھوتہ کرلیں کچھ تم لوگ اپنے مطالبات کم کرو اور کچھ ھم اپنی سیاست سے پیچھے ھٹیں۔
جب کہ یہ بات ظاھر ھے کہ ان کے مطالبات قوانین اسلامی کو ختم کرنے، اسلامی شعارکو حذف کرنے ، اور اسلام کا دفاع نہ کرنے کے علاوہ کچھ نھیں ھوں گے، اور ان سب مطالبات کو مان لینے کے بعدملکی پیمانہ پر ایک بھت بڑی بغاوت رونما ھوجائے گا جس کے نتیجہ میں اسلامی اقدار کا خاتمہ ھوجائے گا، اور اگر دوسرے ممالک کی امداد کی ضرورت ھوگی (جیسا کہ پھلے سے طے ھوچکا تھا) مشرقی اور مغربی سرحدپار سے ملک پر حملہ کرکے اس نظام کا خاتمہ کر دیا جائے گا اور پھر اپنی مرضی کے مطابق کسی کو حاکم بنادیا جائے گا۔
6۔ اسلامی مقدسات کی توھین کرنے والوں اور ثقافتی سازشوں سے مقابلہ کی ضرورت
المختصر : ان آخری چند سال سے تشدد اور شدت پسندی کے مسئلہ کو مطلق طور پر اقدار کے مخالف قرار دیتے ھیں اور اس کے مقابلہ میں سستی، لاپرواھی اور تال میل کو مطلق اقدر کے عنوان سے بیان کرتے ھیں،اور مختلف میڈیا کے ذریعہ یہ پروپیگنڈے اس قدر وسیع پیمانے پر حساب شدہ ھوتے ھیںکہ بعض اوقات تو بعض خواص (خاص الخاص افراد) بھی دھوکہ کھاجاتے ھیں، اور دشمن کے جال میں پھنس جاتے ھیں جب کہ ان لوگوں کا ھدف مسلمانوں سے دینی غیرت کو چھین لینے کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے، تاکہ ضرورت کے وقت اسلام کے دفاع کے لئے کھڑے نہ ھونے پائیں اس بات پر گواہ ابھی کے تازہ ھونے والے واقعات ھیں اور بھت سی سازشیں تو ابھی تک فاش نھیں ھوئی ھیں اور(انشاء اللہ) آھستہ آھستہ معلوم ھوجائیں گی۔
اسی وجہ سے حقیر نے اپنی تشخیص کے مطابق یہ احساس کیا کہ نظام اسلامی کو درھم وبرھم کرنے کے لئے ایک بھت بڑی سازش ثقافتی خطرہ در پیش ھے،لھٰذا یہ طے کیا کہ دشمنوں کی طرف سے ھوئے اعتراضات اور شبھات کا جواب دے اور ان کی ثقافتی سازشوں کو فاش کیا جائے، اور اپنے برادران کو ھوشیار کروں نیز جو لوگ دشمن کے پروپیگنڈوں کی زد میں آکر خواب غفلت میں سوئے ھوئے ھیں ان کو بیدار کروں، اور کم سے کم دشمن کی طرف سے ھوئے پروپیگنڈوں کی وجہ سے پیدا ھونے والے جھوٹے عقائد اور نظریات میں شک وتردید پیدا کریں، اوردینی اور ثقافتی عھدہ داروں کو در پیش عظیم خطرات سے آگاہ کروںاور اپنے سوالات کو پیش کرکے معاشرہ کو متوجہ کروں تاکہ دشمن کے غلط پروپیگنڈوں کا اثر کم سے کم ھو۔
حقیر نے اپنا وظیفہ سمجھتے ھوئے یہ طے کیا کہ ”مطلق تشدد کے نفی“ کے بت کو توڑ ڈالوں، اور ھر تشدد کو برا نیز ھر نرمی اور پیار محبت کو اچھا کھنے والے تصور کی نفی کروں اسی وجہ سے ھم نے اس سے پھلے بھی جلسہ میں عرض کیا تھا کہ ھر مطلق تشدد او رشدت پسندی محکوم او رمذموم نھیں ھے اور ھر نرمی اور پیار و محبت اچھا نھیں ھے، بلکہ ھر ایک کے لئے مخصوص موقع و محل ھوتا ھے جیسا کہ یھی گفتگو آزادی کے سلسلہ میں بھی کی اور عرض کیا کہ مطلق آزادی اچھی نھیں ھے بلکہ مطلق آزادی باطل اور مردود ھے ، ھم اس آزادی کی قدر کرتے ھیں جو قوانین اسلامی اور دینی اقدار کے تحت ھو حالانکہ ھماری یہ باتیں سن کر بعض لوگ غضب ناک ھوگئے کہ فلاں صاحب آزادی کے خلاف گفتگو کررھے ھیں لیکن جب ان کو آزادی کے نعرے لگانے والوں کی سازشوں کا پتہ چل گیا تو ان پر یہ بات واضح ھوگئی کہ بعض لوگ اس آزادی کا پرچم بلند کرکے دین اور اسلامی اقدار اور مقدسات کی نابودی چاھتے ھیں؛ یھاں تک ھماری حکومت کے ایک بڑے عھدہ دار جو کہ ایک سیاسی شخصیت مانی جاتی ھے اپنی ایک تقریر میں کھتے ھیں:
”ھماری عوام الناس آزاد ھے یھاں تک خدا کے خلاف بھی مظاھرہ کرسکتے ھیں“ !!
چنانچہ (بعض) دوستوں نے واضح طور پر کھا کہ وہ آزادی مطلوب اور مقصود ھے جو اسلامی قوانین اور دینی اقدار کے تحت ھو اور اگر اس طرح کی باتیں بیان نہ کی جاتی تو معاشرہ کو وہ جھٹکا نہ لگتااور شایدحکومتی عھداران بھی یہ احساس نہ کرتے کہ ھم ”اسلامی قوانین اور دینی اقدار کے تحت آزادی“ کی طرف داری کریں نہ کہ مطلق آزادی کی۔
اور آج اگر ھم یہ کھتے ھیں کہ تشدد مطلقاً مذموم نھیں ھے اس کی وجہ یہ ھے کہ بعض لوگ مطلق تشدد کے نفی کے پرچم کے نیچے اسلام اور اسلامی اقدار کے دفاع میں ھر اٹھنے والے قدم کو تشدد کا نام دےتے ھوئے اس کی مذمت کرتے ھیں اور یہ ایک حقیقت ھے نہ صرف یہ کہ ھمارے ذھن کی ایک پیداوار ، تاکہ بعض لوگ یہ کھیں کہ فلاں کی باتیں تو خیال خام اور ھوائی گولیاں ھوتی ھیں اتفاق سے ھمارے پاس اس بات پر بھت سے شواھد بھی ھیں ، اگرچہ سب کو بیان کرنے کی فرصت نھیں ھے، صرف ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ھیں: ایک موقع پر بعض لوگوں نے جھاد کے سلسلہ میں اعتراض کیا اور اس کو تشدد اور شدت پسندی کا نام دیدیا ، جن میں سے ایک صاحب نے تھران یونیورسٹی میں محرم کے پھلے عشرہ میں اپنے تقریر کے دوران کھا: حضرت امام حسین علیہ السلام کا میدان کربلا میں قتل ھونا ؛جنگ بدر میں رسول اکرم (ص) کی تشدد کا ایک عکس العمل تھا!
یعنی یہ شخص حضرت رسول اکرم (ص) کی اسلامی جنگوں اور غزوات کو بھی محکوم کرتا ھے اور کھتا ھے کہ جب پیغمبراکرم (ص) نے مشرکین کو قتل کیا تو ان کی آل و اولاد پیغمبر کی آل و اولاد کو قتل کرتی، اور اگر پیغمبر ان کو قتل نہ کرتے تو ان کی اولاد بھی قتل نہ کی جاتی!! درحقیقت وہ یزیدوں کو بری الذمہ اور اسلام وپیامبر اسلام (ص) کو محکوم کرتا ھے اور افسوس کا مقام یہ ھے کہ ان باتوں کو سن کرجو کہ پیغمبر اکرم (ص) کی توھین ھے اور امام حسین علیہ السلام کی شخصیت نیز واقعہ کربلا میں تحریف ھے اور ضروریات دین کا انکار ھے، نہ صرف یہ کہ کوئی کچھ نھیں کھتا بلکہ بعض اخباروں اور جرائد میں اس شخص کی پوری تقریر چھپتی ھے اور وہ بھی صفحہ اول پر!! افسوس کہ ھمارے حکومتی عھدہ داران اس سلسلہ میں کوئی حساسیت نھیں دکھاتے حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام پر انقلاب برپا ھونے والے اور امام حسین (ع) کے نام سے باقی رھنے والے اسی ملک میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کو تحریف کرکے پیش کیا جاتا ھے اور یہ نتیجہ لیا جاتا ھے کہ اگر ھم چاھتے ھیں کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں اور ھمارے زمانہ کے حسین قتل نہ ھوں تو ھمیں بھی تشدد آمیز برتاؤ اور شدت پسندی کو ترک کرنا ھوگا!!
اور اب ھم اس مقالہ نگار سے مخاطب ھے جس کا مقالہ ایک کثیر الانتشار اخبار میں چھپ چکا ھے ، چنانچہ وہ لکھتا ھے کہ فلاں صاحب موضوع سے الگ اورھوا میں باتیں کرتے ھیں اور ھم سے خطاب کیا ھے کہ اپنی گفتگو پر تجدید نظر کریں کیا ھم ھوا میں باتیں کرتے ھیں یا عصرِ حاضر کے اپنے معاشرہ وسماج کی؟ کیا ھماری باتیں اسی موضوع سے متعلق نھیں ھیں جو ھمارے ملک میں رائج ھے، اور کیا ھماری باتیں اسی حقیقت سے متعلق نھیں ھے جو ھر روز ھمارے ملک میں رونما ھوتی جارھی ھے؟ آیا ھم اپنی باتوں میں تجدید نظر کریں یا آپ کہ ایک وقت آپ ”بین الاقوامی اسلامی“ پارٹی کے عضو تھے اور فدائیان اسلام کی حمایت کو ایک افتخار سمجھتے تھے؟
قارئین کرام! یھاں پر ھم ضروری سمجھتے ھیں کہ حضرت امام خمینی علیہ الرحمةکا نورانی اور مشکل کشا کلام کی طرف اشارہ کریں جس میں موصوف نے آزادی کے پرچم کے نیچے پوشید ہ کن کن ثقافتی خطرات کو بیان کیا ھے:
” اب میری وصیت ھے حال حاضر اور آئندہ کی مجلس شورای اسلامی (پارلیمنٹ) اور اس وقت کے رئیس جمھور(صدر مملکت) اور ان کے بعد والے صدر، شورای نگھبان، شورای قضائی اور ھر زمانہ کی حکومت؛ سب کو چاھئے کہ میڈیا، جرائد اور مجلات کو اسلام اور ملکی مصالح سے منحرف نہ ھونے دیں، اور سب کو یہ معلوم ھونا چاھئے کہ مغربی ممالک کی طرح کی آزادی جوانوں، لڑکوں اور لڑکیوں کو تباہ و برباد کردے گی اسلام ، ملکی مصالح اور عمومی عفت کے بر خلاف تبلیغات، مقالات، تقاریر، کتابیں اور جرائد کا وجودحرام ھے ھم سب پر اور تمام مسلمانوں پر ان کی روک تھام کرنا واجب ھے اور فساد برپا کرنے والی آزادی کی روک تھام کرنا ضروری ھے، اور جو چیزیں شرعی طور پر حرام ھیں یا وہ چیزیں جو ملت و اسلامی ملک کے برخلاف ھیں، یا جمھوری اسلامی کی حیثیت کے مخالف ھے، لھٰذا اگر ان کے خلاف سخت کاروائی نہ کی جائے تو تمام کے تمام لوگ ذمہ دار ھیں اور ھمارے عوام الناس اور حزب اللٰھی جوان اگر ان چیزوں کو دیکھیں تو متعلق اداروں کو مطلع کردیں، اور اگر وہ اس سلسلہ میں کوتاھی کریں تو وہ خود روک تھام کی ذمہ داری پر عمل کریں۔“(1)

Add comment


Security code
Refresh