۷۔ قرآن مجید کا شعراء کی زبان سے مقابلہ کرنا؛ بھت سے
نتائج ھونے پر دلیل ھے!!
دین کی زبان کے سلسلہ میں معرفت کو نسبی قرار دینے والوں کے نظریہ کو بیان کرنے کے لئے ایک دوسری مثال یہ بھی پیش کی جاسکتی ھے: جیسا کہ عرفانی اور عشقی اشعار سے مختلف نتائج نکالے جاسکتے ھیں خصوصاً حافظ کی غزلیات، جیسا کہ اکثر ایرانیوں کے گھر میں ”دیوان حافظ“ ھوتا ھے اور ایک قدیم زمانہ سے دیوان حافظ سے فال بھی نکالی جاتی ھے مثلاً جب کسی شخص کا رشتہ دار سفر میں ھوتا ھے اور وہ اس کے بارے میں باخبر ھونا چاھتا ھے تو وہ دیوان حافظ کے ذریعہ فال نکالتا ھے اور سامنے نکلنے والے صفحہ پر موجود غزل کو پڑہ کر یہ سمجھ لیتا ھے کہ اس کا رشتہ دار خیریت سے ھے اور جلد ھی پلٹنے والا ھے اور اگر کوئی شخص مریض ھو اور دیوان حافظ سے فال نکالتا ھے تو وہ بھی اسی غزل سے یہ نتیجہ نکالتا ھے کہ جلد ھی اس کو بیماری سے شفا ملنے والی ھے؛ لیکن یہ بھی ممکن ھے کہ اسی غزل سے ایک شخص پریشان کن نتیجہ نکالے جبکہ حافظ کی عارفانہ اور عاشقانہ غزلیں اس طرح فال نکالنے کے لئے نھیں ھیں، اور حافظ کا ان غزلیات سے بالکل یہ مقصد نھیں ھے کہ فلاں مریض شفایاب ھوجائے گا یا فلاں مسافر سفر سے جلد لوٹ آئے گا، یا فلاں شخص کی یہ آرزو پوری ھوجائے گی یا فلاں صاحب کی یہ حاجت پوری نھیں ھوگی کیونکہ حافظ نے عرفانی اور شاعری ماحول میں شعر کھیں ھیں جبکہ فال نکالنے والا اپنے ذھن کے لحاظ سے مختلف نتیجے نکال رھا ھے جب کہ شاعر اور دوسروں کے نتیجہ سے میلوں فاصلہ موجود ھے مولانا (شاعر) نے کیا خوب کھا:
ھر کس از ظن خود شد یار من
از درون من نجست اسرار من
(اپنے خیال میں ھر شخص ھمارا دوست بن گیا ھے لیکن کسی نے ھمارے اندر کے اسرار کا پتہ نہ لگایا)
کھتے ھیں کہ قرآن کریم بھی حافظ کی غزلوں کی طرح ھے جس سے ھر شخص مختلف نتیجہ نکال سکتا ھے بلکہ ایک دوسرے کے بالکل مخالف بھی، اور ھر کوئی شخص اپنے ذھن اور سابقہ علم کی بنا پر قرآن کریم کی آیات سے نتیجہ نکال سکتا ھے، اور کسی شخص کو بھی یہ حق نھیں ھے کہ وہ اپنے حاصل کردہ نتیجہ اور قرائت کو مطلق قرار دے۔
یھاں پر پھونچنے کے بعد یہ دعویٰ کیا جاسکتا ھے یا کم سے کم یہ احتمال پایا جاتا ھے کہ اس نعرہ (کہ کسی کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ دین سے حاصل کردہ اپنے نظریہ کو مطلق قرار دے)؛ کی اصلی بنیاد یھی دین کی زبان کا مسئلہ ھے کیونکہ اس نظریہ کی بنا پر دین کی زبان قصہ کھانی اور افسانہ کی زبان ھے، اور یہ زبان سمبلیک "Symbilec" (رمزی) اور غیر واقع نما ھے، لھٰذا ھر شخص کو یہ حق حاصل ھے کہ وہ اپنی ذھنیت کے لحاظ سے دینی مسائل کے معنی و تفسیر کرے، نیز کسی شخص کو بھی یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ صرف اپنی قرائت اور تفسیر کو صحیح قرار دے اور دوسروں کے حاصل کردہ نتائج کو باطل و بے بنیاد!
تو کیا واقعاً اس بے بنیاد اور الحادی نظریہ کی نشر و اشاعت کے بعد جس میں قرآن کریم کو دیوان حافظ کی طرح قرار دیا جاتا ھے اور جس سے ھر کس وناکس اپنے ذھن کے لحاظ سے معنی وتفسیر کرنے کا حق رکھتا ھے تو کیا اس صورت میں یہ قرآن کریم ؛ کتاب ھدایت باقی رھے گی؟ ! اور کیا قرآن کریم سے اس طرح کے پیش کردہ نتائج کے بعد وھی کتاب باقی رھے گی جس کے لئے پیغمبر اکرم (ص)، ائمہ معصومین علیھم السلام نے اپنی جان خطرات میں ڈالی اوراس راہ میں کس قدر شھید فدا ھوگئے؟ اگر ھر کس و ناکس قرآن مجید کی تفسیر کرسکتا ھو اور اپنے حاصل کردہ نتیجہ کو حجت قرار دے سکتا ھو تو پھر آیات قرآن کی صحیح تفسیر پر قرآن مجید کیوں زور دیتا ھے اور تفسیر بالرائے کرنے سے کیوں ڈراتا ھے، نیز دین میں بدعت گذاری کی کس قدر مذمت کی گئی ھے؟ اگر قرآن مجید کی تفسیر من پسند ھونے لگے اور دو بول پڑھنے والا ھر شخص قرآن مجید سے نتیجہ حاصل کرنے لگے، تو پھر ھمارے انقلاب کا کیا فائدہ ؟کیوں ھم نے شاہ کی حکومت کو سرنگون کیا؟ کیونکہ شاہ بھی اپنے کاموں اور اپنی سمجھ کو قرآن اور دین کے مطابق سمجھتا تھا، یھاں تک کہ وہ تو یہ بھی کھتا تھا کہ جو کچھ میں کھتا ھوں وہ ملاؤں کی بیان کردہ باتوں سے زیادہ مناسب ھے!! اور یہ دعویٰ کرتا تھاکہ میں ملاؤں سے زیادہ قرآن کو سمجھتا ھوں، میرے خلاف بے وجہ تقریریں کی جاتی ھیںبلا وجہ عوام الناس کو میرے غلاف ورغلایا جاتا ھے!! دین کے سلسلہ میں شاہ کی بھی ایک قرائت تھی کیوں اس کی قرائت کو باطل قرار دیا گیا!
اگر کوئی شخص اسی نظریہ کی بنا پر یہ دعویٰ کرے کہ دین سے حاصل کردہ میرا نتیجہ یہ ھے کہ خداوندعالم وجود عینی اور واقعی نھیں رکھتا اور مسلمان ھونا خدا کو ماننے میں منحصر نھیں ھے، تو کسی کو اعتراض کا حق نھیں ھے؛ چونکہ اس نے اپنے درک و فھم کو بیان کیا ھے اور دین سے اس طرح کا نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ھے، جیسا کہ حافظ کے اشعار میں بھی مختلف معنی اور تفسیر کرنے کی گنجائش پائی جاتی ھے مثلاً حافظ کھتے ھیں:
اگر غم لشکر انگیزد کہ خون عاشقان ریزد
من و ساقی بہ ھم سازیم وبنیادش بر اندازیم
(اگر لشکر میں طلاطم پیدا ھوجائے تو عاشقوں کا خون بھی بھادیا جاتا ھے، ھم اور ساقی آپس میں پیار و محبت سے رھیں تو پھر اس کی بنیاد کو گراسکتے ھیں۔ )
چنانچہ اس شعر کو پڑہ کر ھر شخص اپنی ذھنیت کے لحاظ سے نتیجہ نکال سکتا ھے کہ اس کی بیماری کو شفا ھوجائے گی، یا اس کی حاجت پوری ھوجائے گی، اور اپنے حاصل شدہ نتیجہ کے لئے مثال کے طور پر یہ کھا جاتا ھے کہ ” مئے اور ساقی“ سے مراد ؛ مریض اور ڈاکٹر ھے، اور ”بنیادش بر اندازیم“ سے مراد یہ ھے کہ یعنی مرض کو جڑ سے ختم کردیا جائے گا لیکن کوئی دوسرا شخص اسی دیوان حافظ سے فال نکالے اور یھی شعر نکلے تو وہ اس سے بالکل مخالف نتیجہ نکال سکتا ھے۔
اگر قرآن مجید میں ایسے نتائج کی گنجائش پائی جاتی ھو کہ مثلاً خدا کا کوئی وجود ھی نھیں ھے، اور خداوندعالم کے اثبات کرنے کے لئے کوئی دلیل بھی نہ ھو، تو پھر اسلام میں کیا باقی بچے گا؟ اگر ھر کس و ناکس قرآن مجید سے مستقل طور پر ایک نتیجہ نکالنے کا حقدار ھو اور تمام لوگوں کے حاصل کئے ھوئے نتائج کا احترام کیا جائے تو پھر دین اسلام سے دفاع، اور دین کے سلسلہ میں غیرت مندی کامظاھرہ اور اسلامی اقدار کے مقابلہ میں حساسیت دکھانا؛ بے معنی اور بے ھودہ ھوگا سب کو ٹولرانس "Toleranec"کی رعایت کرتے ھوئے دوسروں کی باتوں کو برداشت کرنا چاھئے اور دوسروں کے نظریات پر اعتراض نھیں کرنا چاھئے ھر شخص اپنے لحاظ سے دینی مسائل پر عمل کرے ، اور اگر اس کا یہ نظریہ ھے کہ واقعاً خداوندعالم واحد او ریکتا ھے تو اس کو اپنے وظیفہ کے مطابق عمل کرنا چاھئے، لیکن اگر کسی نے یہ نتیجہ نکالا ھے کہ ھزاروں خدا موجود ھیں تو اس کا وظیفہ اسی لحاظ سے ھوگا؛ اور جب ھر شخص کی اپنی سمجھ حجت ھے تو کسی طرح کا کوئی اختلاف نھیں ھونا چاھئے اور سب پیار ومحبت کے ساتھ بھترین زندگی بسر کریں، اور کوئی بھی ایک دوسرے کے نظریات کے مقابلہ منفی اعتراض نہ کرے۔
بھر حال، یہ نظریہ جس میں دین کی زبان کو سمبلیک "Symbilec" زبان قرار دیا گیا ھے، جس میں ھر شخص کو یہ اختیار ھے کہ وہ اپنے ذھن کے لحاظ سے دینی راز اور مخفی باتوں کے من پسند معنی کرے ، اسی بنیاد پر کھنے والے کھتے ھیں کہ دینی معرفت اور شناخت نسبی اور سیال (رواں دواں) ھے اور کسی کو اپنے نظریہ کو مطلق قرار دینے کا حق نھیں ھے بے شک اس طرح کا فاسد نظریہ دین اور قرآن کی نظر میں باطل اور بے بنیاد ھے اور اس طرح کا نظریہ دین سے کسی بھی ھم آھنگ نھیں ھے ھم عقلی دلائل سے یہ بات ثابت کرتے ھیں کہ خداوندعالم کی حکمت اور اس کا لطف اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ وہ اپنے بندوں کو ایک مقصد اور ایک راہ حق و مطلق کی طرف ھدایت کرے، جس کے لئے خداوندعالم نے قرآن مجید نازل کیا جس میںھر انسان کے لئے حجت اور موعظہ ھے اور جو نوع بشریت کی روحی و نفسیاتی بیماریوں کا علاج کرتا ھے جب کہ پیامبر اکرم (ص) اور ائمہ علیھم السلام کے مکتب سے تعلیم حاصل کرنے والوں کے نزدیک قرآن مجید کی ایک ھی قرائت اور تفسیر ھے اور وہ بھی پیغمبر اور اھل بیت علیھم السلام کی تفسیر ھے اور صرف انھیں حضرات کی رائے اور نظریہ صحیح اور بر حق ھے جو معرفت کے آب زلال کا سر چشمہ ھیں، دین کی یہ قرائت دوسری مختلف قرائتوں سے سازگار نھیں ھے، اور ان کو باطل قرار دیتی ھے اگر چہ عالم اسلام میں ”مارٹن“ اور ”لوٹری“ پیدا ھوجائیں اور ایک نیا دین ایجاد کرلیں جس کی بنا پر مختلف اور مخالف قرائتیں پیدا ھونے لگیںاور معرفت کے نسبی قرار دینے کی وجہ سے تمام قرائتوں کو صحیح قرار دیا جانے لگے، لیکن ائمہ علیھم السلام سے نقل شدہ بے شمار روایات کے ذریعہ قرآن مجید کی صحیح قرائت ھم تک پھونچی ھے اور لوگوں کو تفسیر بالرائے سے سخت منع کیا گیا ھے۔
اولیاء اللہ نے اس بات پر زور دیا ھے کہ عوام الناس کو یہ حق نھیں ھے کہ وہ اپنے طرف سے دین میں کچھ چیزوں کو شامل کردیں اور اگر کسی مقام پر غیر واضح متشابہ بیان ھو ،تو اس موقع پر توقف کیا جائے اور اھل بیت علیھم السلام کی موجیں مارتے ھوئے دریائے معرفت سے اس کی تفسیر حاصل کریں، اور خدا اور اسلام کی طرف اسی چیز کی نسبت دیں جو خود خداوندعالم، قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم و ائمہ معصومین علیھم السلام کے فرمان میں موجود ھو۔
۸۔ ھر منو ٹک فلسفہ میں قرائت کی کثرت اور معرفت کا سیلاب
تعدد قرائت اور اپنی نظریہ کو مطلق قرار نہ دینے کے نعرہ کی ایک دلیل ؛ علم ھر منوٹیک "Hermeneutics" (تحریر کے معنی اور تفسیر کرنا) ھے؛یہ علم آج کل معرفت اور شناخت کے بارے میں ایک عظیم شعبہ ھے جس کی تحقیق کے سلسلہ میں دنیا بھر میں بھت سے افراد مشغول ھیں اس علم کی پیدائش بھی مغربی ممالک میں ھوئی ھے، پھلے یہ ھر منوٹیک"Hermeneutics" عیسائیت کے علم کلام اور حکمت (فلسفھ) کے کام میں آتا تھا جس کا موضوع کتاب مقدس (عھد عتیق اور عھد جدید)کی حقائق کی معنی وتفسیر کرنا تھا لیکن اس کے بعد اس میں وسعت دیدی گئی اور اس کوانسانی کردار، رفتار و گفتار و آثارکی اھمیت کے معنی و تفسیر کے سلسلہ میں ایک فن اورمھارت سمجھا جانے لگا اور اس آخری معنی کی وجہ سے علم ھرمنوٹیک کو خدا شناسی (الھیات) سے نکال کر فلسفہ سے مخصوص کردیا گیا، اور یہ انسانی علوم کے مطالعات یا علوم انسانی کے لئے خاص روشوں میں استعمال ھونے لگا۔
اس علم میں بیان ھونے والی تھیوری اور نظریات میں سے ایک یہ بھی ھے کہ ھمارے استعمال کردہ الفاظ دوسروں تک مافی الضمیر منتقل کرنے سے قاصر ھیں، ھمارے یہ الفاظ کسی بھی صورت میں اس معنی اور حقائق کی طرف منتقل نھیں کرتے جن کو موٴلف نے بیان کئے ھیں پس جس وقت کوئی شخص دوسروں سے گفتگو کرتے وقت الفاظ کا استعمال کرتا ھے تو سننے والا؛ کھنے والے کے اصلی مقصد تک نھیں پھنچ سکتا مثال کے طور پر ھر انسان کی باطنی احساسات ھوتے ھیں جیسے محبت، عشق، غصہ، نفرت اور تعجب تو اگر کوئی شخص کوئی تعجب آور چیز دیکھتا ھے اگر وہ اپنے تعجب کے احساس کو دوسرے سے بیان کرنا چاھے، تو سننے والا صرف یہ بات سمجھتا ھے کہ اس کو تعجب ھوا ھے ، لیکن کسی بھی صورت میں استعمال ھونے والے الفاظ کے اندر حقیقت تعجب کاپتہ نھیں چلتا، در حقیقت الفاظ کے ذریعہ صرف ایک احساس کی خبر دی جاتی ھے لیکن اس احساس کی ماھیت اور کیفیت منتقل نھیں ھوتی مثال کے طور پر اگر آپ کسی سے کھیں کہ میں فلاں چیز کا عاشق ھو، تو آپ کا مخاطب آپ کے اندر احساس کو نھیں سمجھ سکتا وہ آپ کے بعض حالات سے ایک طرح کا اندازہ لگاسکتا ھے لیکن تفصیلی طور پر اس کی شناخت اور اندرونی احساس کو نھیں سمجھ پاتا۔
دینی معارف افسانہ ھیں یا حقیقت نما آئینہ
- Details
- Category: اسلام اور سیاست
- Hits: 7688
Page 3 of 4