قر آن حکیم ایسا مکمل ضابطہ حیات ھے کہ جس میں حیات انسانی کے تمام قواعد وضوابط کو پنھاں کر دیا گیا ھے اس کتاب ھے معجز بیان میں کسی حقیقت و صدا قت کو نظر انداز نھیں کیا گیا ۔
اس کی گھرائیو ں میں غوطہ زن ھونے سے اس کے اس دعویٰ کی تصدیق ھوتی ھے کہ اس کائنات کا ھر خشک و تراس میں مو جو د ھے ۔سما جی و معا شر تی مسا ئل ھو ں یا سیا سی واقتصادی الجھنیں ۔ انفرادی مسائل ھو ں یا اجتما عی قرآن حکیم ان سب کا حل اپنے دامن میں سمیٹے ھو ئے ھے اسی طر ح حیا ت و کا ئنا ت کے وہ رمو ز واسرا ر جو صد یو ں سے انسانی نا وک کا ھدف ھیں ان کے لئے مکمل ار شادات اسی کتا ب الھیٰ کی آ یا ت میں چھلکتے نظر آ تے ھیں ۔ یعنی اس عالم رنگ و بو میں جو تبدیلیا ں رو نما ھو تی ھیں اور جو بھی علمی و عملی تحقیق و تخلیق ظھو ر پذیر ھو تی ھے ان سب کا ذکر اس کتا ب معجز بیا ن میں مو جو د ھے اور ان حیا ت و کا ئنا ت کے حقا ئق کی مزید و ضا حت اس کتا ب کے حا مل علو م کا ئنا ت کے عالم پیغمبر اسلام کی احا دیث اور آپ کے علو م کے وارث آ ئمہ اطھا ر کے ار شادا ت میں مو جو د ھے ۔ لیکن اس کتا ب کے نزول کا مقصد و مو ضو ع چو نکہ انسانی ھدا یت یعنی و جود و حیا ت کے مقصد سے آ گا ہ کر کے مقصد حیا ت کی تکمیل کے لئے رھبر ی کر نا ھے اس لئے اس میں دوسرے مو ضو عات پر برا ہ را ست کم گفتگو کی گئی ھے ۔ یھیں سے دوسرے علوم اور قرآن کا نقطہ نظر کا فرق واضح ھو جا تا ھے کہ علو م طبعی میں بنیا د ی طور پر اسرا ر کا ئنا ت کے تجسس و تحقیق اور تسخیر کا ئنا ت کو مقصد و مر اد قرار دیا گیا ھے اور قر آن حکیم ان میں تحقیق وتجسس کو الھیٰ معر فت و بندگی کا ذریعہ قرار دیتا ھے جیسا کہ سورہ حم سجدہ میں خلاق عالم کا ارشاد ھے کہ ” عنقریب ھم ان کو اپنی نشا نیا ں آ فاق ( کا ئنا ت کی گھرا ئیو ں ) میں اور خود ان کے و جو د میں بھی دکھا ئیں گے یھا ں تک کہ ان پر وا ضح ھو جا ئے کہ یقیناً وھی ( خدا ) بر حق ھے۔ “ اس آ یت قر آنی نے صا ف صاف قر آنی مو قف کو بیا ن کر دیا ھے کہ کا ئنا ت کی نشا نیا ں دکھا نا با لذ ات مقصود نھیں بلکہ اس سے خا لق کا ئنا ت کے و جود و عظمت اور علم و قدرت کا اظھا ر و معر فت مقصود ھے۔ یعنی جس قدر کا ئنات کے رمو ز واسرار سے واقفیت و معر فت بڑھتی جا ئے گی اسی قدر کا ئنا ت کے خا لق کے علم و حکمت اور اقتدار کی معر فت بڑھتی جا ئے گی اور پھر اسی کی اطا عت و بندگی کا شوق بڑ ھتا جا ئے اور اسی بنا پر دین میں عبا دات کے اجر و ثواب کی کمی و ز یادتی کا معیا ر معر فت الھٰی کے درجات کے لحا ظ سے قرار دیا گیا ھے جو معر فت الھٰی میں جس قدر بلند ھو گا اسی قدر اس کی طا عت و بند گی کا ثواب زیا دہ ھو گا اسی بنا پر کا ئنا ت کی اشیا ء میں غور و فکر کر نے کو افضل عبا دت قرار دیا گیا ھے اور قرآن حکیم میں سینکڑو ںمقاما ت پرآیات کا ئنا ت میں غور وفکر کر نے کی طرف تر غیب دی گئی ھے ۔
آج کی دنیا ئے علم نے علم طبیعا ت میں وزن و مقدار کو ایک خاص اھمیت دی ھے اور بتا یا ھے کہ وزن و مقدار کا خا ص تنا سب ما دہ و ما دیا ت میں کتنا دخل ھے اور کیو ں کر اس کے ذریعے ما ھیتو ں میں تبدیلی پیدا کی جا تی ھے قرآ ن حکیم نے صد یو ں پھلے وزن و مقدار کو کتنی اھمیت دی ھے اس کا اندازہ ذیل کی آ یا ت سے بخوبی ھو تا ھے ۔
"والا رض مدد نا ھا والقینا فیھا روا سی وا نبتنا فیھا من کل شی ء مو زون" ۔الحجر/۱۹)
” اور ھم نے زمین کو پھیلا یا اور ھم نے اس میں بھا ری بھا ری پھا ڑ قا ئم کر دیئے اور ھم نے اس ( زمین ) میں سے ھر شے ایک خا ص تو ازن سے اگا ئی ۔
"وکل شی ء عند ہ بمقدار "
(اس کے نز دیک ھر چیز کی ایک معین مقدار ھے)
"وان من شیء الا عند نا خز ا ئنہ وما ننر لہ الا نقدر معلوم "
(اور ھر چیز کے خزا نے ھما رے پا س مو جو د ھیں اور ھم اسے صر ف معلو م و معین مقدار میں نا زل کر تے رھتے ۔الحجر/۲۱)
"وا نزلنا من السما ء ما ء بقدر فا سکنا ہ فی الارض"
(اور ھم نے آ سما ن سے پا نی کو ایک مقدار میں نا زل کیا پھر اسے زمین میں ٹھھر ائے رکھا ۔ المو منو ن/۸)
"انا کل شنی خلقنا ہ بقدر "
(ھم نے ھر شے کو ایک خا ص انداز سے پیدا کیا ھے ۔ القمر/۴۹)
اسی طرح اگر دیکھا جا ئے تو نوامیسی طبیعت کے متعلق بڑے واضح ارشادات پو رے قرآن میں بکثرت مو جود ھیں ۔ مثلاً آج خلائی دور میں یہ آ یت صا حبا ن فکر کے لئے کتنی جا ذب نظر ھے ۔
"ولقد خلقنا فو قکم سبع طرا ئق وما کنا عن الخلق غا فلین"۔
(اور ھم نے تمھا رے اوپر سات را ھیں خلق کی ھیں اور ھم مخلو ق سے غا فل نھیں ھیں) ۔ (المو منون /۱۷)
اور سورہ واقعہ کے تسلسل میں یہ آ یا ت تلا وت کر نے والے کو چو نکا دیتی ھیں
”افرایتم الما ء الذی تشر بو ن أ أ نتم انزلتمو ہ من المزن ام نحن المنز لو ن ولو نشا ء لجعلناہ ۔ ۔ ۔"۔
(کیا تم نے اس پا نی کو دیکھا ھے جسے تم پیتے ھو آ یا تم نے اسے با دل سے نا زل کیا ھے یا ھم نا زل کر نے والے ھیں ۔ اگر ھم چا ھتے تو اسے کھا راکر دیتے ۔ پھر کیو ں شکر بجا نھیں لا تے )۔
"افرا یتم النا ر التی تو رو ن اانتم انشا تم شجرتھا ام نحن المنشؤن ۔ ۔ ۔"
(کیا تم نے اس آ گ کو دیکھا ھے جسے تم رو شن کر تے ھو آ یا تم نے اسے درخت سے پیدا کیا ھے یا ھم پیدا کر نے والے ھیں )۔
یہ ایک اجمالی تبصر ہ تھا قرآن مجید کے ارشادات پر جو علو م طبیعی اور کا ئنا ت کے اسرار اور رمو ز سے متعلق ھیں ۔ وہ خا صا ن خدا جو قرآن کے وارث بنا ئے گئے تھے انھو ں نے بھی اپنے ارشادات میں ان علو م کی وضا حت کی ۔ حضرت علی (ع) کے نھج البلا غہ میں تخلیق کا ئنا ت اور اس کے حا لا ت پر بے نظیر خطبا ت مو جود ھیں جن سے خصو صیت سے علم طبقات الا رض پر بڑی روشنی پڑتی ھے ۔ اسی طرح امام جعفرصا دق (ع) کی حدیث اھلیلج نبا تا ت کے خواص اور کیمیا وی موا دات پر لا جواب معلو ما ت کا ذخیر ہ ھے ۔ اس کے علا وہ وہ حدیث مفضل بھی کہ جس میں تخلیق انسانی پر تبصرہ کر نے کے ساتھ دیگر بکثرت مو ضو عات پر بھی رو شنی ڈالی گئی ھے ۔
امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ھے کہ ” ھزارو ں علو م حا صل کر نے کے با و جود انسان علم سے مستغنی نھیں ھو سکتا اور اس دنیا و جھا ں کے علا وہ دوسرے جھا ن بھی کہ جھاں اس دنیا کے علو م بے وقعت ھیں اگر کو ئی یھا ں کے علوم سیکھنے کے بعد دوسرے جھا نوں میں جا ئے تو وھا ں وہ جا ھل ھو گا و ھا ں کے علو م کو نئے سر ے سے سیکھنا ھو گا “ اور پھر امام نے فر ما یا کہ ” اگر انسان کی عمر ھزار و ں سال تک ھو جا ئے اور وہ مسلسل علم کے حصول میں مصرو ف رھے تب بھی تمام علوم پر عبو ر حاصل نھیں کر سکتا ۔ پھر امام نے فر ما یا ھما رے اس جھا ن کے علا وہ دوسری دنیا ئیں بھی ھیں جن میں سے اکثر ھما رے اس جھان سے بھت بڑے ھیں اور ان جھاں میں ایسے علو م ھیں کہ جو اس دنیا کے علوم سے مختلف ھیں “ ۔ پھر امام نے فر ما یا کہ ” دوسری دنیا ؤ ں کی تعداد صرف خدا جا نتا ھے کیو نکہ نئی دنیا ئیں پیدا ھو تی رھتی ھیں ۔“
حضرت امام جعفر صادق (ع) کے دور میں چو نکہ یو نا نی علو م عربی میں تر جمہ ھو نے لگے تھے اور عرب میں علم سے انسیت پیدا ھو چکی تھی اس لئے آ پ نے حالا ت کے تقاضوں کے اعتبار سے مختلف مو ضوعا ت پر اپنے ارشاد ات میں واضح ارشاد ات کے ذریعے عقل انسانی کو تحقیق و جستجو کی طرف متو جہ کیا ھے ۔ جا بر بن حیا ن کو فی آ پ ھی کے شا گر د تھے ۔ یہ بھی اسلامی علوم کی تا ریخ کا پیش پیش نظر آ تے ھیں ۔ اور اس کی وجہ بھت واضح ھے ۔ اس لئے کہ دیگر مکا تیب کا سلسلہ برا ہ راست ان لو گو ں سے نھیں ھے کہ جو اس زمین پر الھٰی علوم کے وا رث ھیں اسی بنا پر جو گ ایسے خدا ساز علما ء سے متمسک رھے انھیں ھر علم میں تقد م حا صل ھے قرآن حکیم کے تد بر و تفکر کے دیئے گئے درس و تعلیم پر عمل کر تے ھو ئے صد یو ں تک مسلما ن دنیا کی علمی قیا دت کر تے رھے اور مسلما ن محققین و مو جدین کہ جن کی قلمی میرا ث آ ج بھی دنیا ئے علم و تحقیق کا عظیم سر ما یہ ھے ۔ اس مقا م پر ضروری معلو م ھو تا ھے کہ ان کا مختصر تذکرہ کیا جا ئے ۔