س۶۹۶۔ میری جائے پیدائش تھران ھے جبکہ میرے والدین کا وطن ” مھدی شھر “ ھے ۔ لھذا وہ سال میں متعدد بار ” مھدی شھر“ جاتے ھیں ان کے ساتھ میں بھی سفر کرتا ھوں ۔
پس میرے روزہ و نماز کا کیا حکم ھے؟ واضح رھے کہ میں اپنے والدین کے وطن کو اپنا وطن نھیں بنانا چاھتا بلکہ میرا ارادہ تھران ھی میں رھنے کا ھے؟
ج۔ مذکورہ فرض میں تمھارے والدین کے وطن میں تمھارے روزہ نماز کا حکم وھی ھے جو مسافر کے روزہ نماز کا ھے۔
س۶۹۷۔ میں ایک سال میں چہ ماہ ایک شھر میں اور چہ ماہ دوسرے شھر میں رھتا ھوں جو کہ میری جائے پیدائش اور اپنے خاندان والوں کے وطن لوٹ آتا ھوں۔ میرا سوال یہ ھے کہ اگر میں پھلے شھر میں دس روز سے کم ٹھھرنے کی نیت کرتا ھوں تو میرا حکم مسافر کا ھے یا نھیں؟
ج۔ اگر وہ شھر آپ کا وطن نھیں ھے اور اسے وطن بنانے کا ارادہ بھی نھیں ھے تو جس زمانہ میں آپ وھاں دس روز سےکم رھتے ھیں اس میں آپ کا حکم وھی ھے جو مسافر کا ھے۔
س۶۹۸۔ تقریباً ۱۲سال سے وطن کا قصد کئے بغیر ایک شھر میں رھتا ھوں ۔ کیا یہ شھر میرا وطن شمار ھوجائے گا اور اس شھر کو میرا وطن ھوجانے میں کتنی مدت درکار ھے ؟ اور یہ امر کیسے ثابت ھوگا کہ عرف میں لوگ اس شھر کو میرا وطن سمجھنے لگے ھیں؟
ج۔ وطن نھیں بن سکتا مگر یہ کہ دائمی طور پر اقامت گزینی کی نیت کرے اور ایک مدت تک اس قصد کے ساتھ اس شھر میں رھے یا مستقل رھائش کے قصد کے بغیر اتنی طویل مدت تک اس شھر میں رھے کہ وھاں کے باشندے اسے اس شھر کا باشندہ کھنے لگیں۔
س۶۹۹۔ ایک شخص کا وطن تھران ھے اور اب وہ تھران کے قریب دوسرے شھر کو وطن بنانا چاھتا ھے جبکہ اس کا روزانہ کا کسب و کار تھران میں ھے لھذا وہ د س روز بھی اس شھر نھیں رہ سکتا چہ جائیکہ چہ ماہ تک رھے جس سے وہ اس کا وطن ھوجائے، وہ روزانہ اپنی محل ملازمت پر جاتا ھے اور رات کو اس شھر میں لوٹ آتا ھے۔ اس کے نماز روزہ کا کیا حکم ھے؟
ج۔ اگر شھر جدید میں وطن بنانے کا ارادہ کرکے اس میں سکونت اختیار کرلے تو پھر عنوان وطن کے اثبات کے لئے یہ شرط نھیں ھے کہ چہ ماہ تک مسلسل اسی جگہ رھے بلکہ اس کے لئے اتنا ھی کافی ھے کہ وہ اپنے اھل و عیال کو وھاں ساکن کردے اور اپنے روز مرہ کے کام سے فارغ ھونے کے بعد ان کے پاس لوٹ آئے اور رات ان کے پاس گزارے یھاں تک کہ اھل محلہ اسے اسی محلہ کا شمار کرنے لگیں۔
س۷۰۰۔میری اور میری زوجہ کی جائے پیدائش ” کاشمر“ ھے لیکن جب سے سرکاری ملازمت پر میرا تقرر ھوا ھے اس وقت سے نیشاپور منتقل ھوگیا ھوں ، اگر چہ ماں باپ کاشمر میں ھی رھتے ھیں نیشاپور کی طرف ھجرت کے ابتدائی زمانہ میں ھم نے اصلی وطن ( کاشمر) سے اعراض کرلیا تھا مگر ۱۵سال گزر جانے کے بعد میں اس قصد سے منصرف ھوگیا ھوں۔امید ھے کہ درج ذیل سوالات کے جواب مرحمت فرمائیں گے:
۱۔ جب ھم اپنے والدین کے گھر جاتے ھیں اور چند روز ان کے پاس قیام کرتے ھیں تو میری اور میری زوجہ کی نماز کا حکم کیا ھے؟
۲۔ ھمارے والدین کے وطن( کاشمر) کے سفر میں اور وھاں چند روز قیام کے دوران ھمارے ان بچوں کا کیا فریضہ ھے جو ھماری موجود ہ رھائش گاہ نیشاپور میں پیدا ھوئے اور اب بالغ ھوچکے ھیں؟
ج۔ جب آپ نے اپنے اصلی وطن ( کاشمر) سے اعراض کرلیا تو اب وھاں آپ دونوں پر وطن کا حکم جاری نھیں ھوگا، مگر یہ کہ آپ زندگی گزارنے کے لئے دوبارہ وھاں لوٹ جائیں اور کچھ مدت تک وھاں اس نیت سے رھیں، اسی طرح یہ شھر آپ کی اولاد کا وطن نھیں ھے بلکہ اس شھر میں آپ سب مسافر کے حکم میں ھیں۔
س۷۰۱۔ایک شخص کے دو وطن ھیں ( دونوں میں نماز پوری پڑھتا ھے اور روزہ رکھتا ھے) پس برائے مھربانی یہ فرمائیں کہ کیا اس کے بیوی بچوں پر جن کی وہ کفالت کرتاھے،ا س مسئلہ میں اپنے ولی و سرپرست کا اتباع واجب ھے؟ یا اس سلسلہ میں وہ مستقل نظریہ قائم کرسکتے ھیں؟
ج۔ زوجہ کے لئے جائز ھے کہ وہ اپنے شوھر کے وطن کو اپنا وطن نہ بنائے۔ لیکن جب تک اولاد کم سن ھے اور اپنی زندگی و ارادہ میں خود کفیل اور مستقل نھیں ھیں یا اس مسئلہ میں باپ کے ارادہ کے تابع ھیں تو باپ کا وطن ان کے لئے وطن شمار ھوگا۔
س۷۰۲۔اگر ولادت کا ھسپتال باپ کے وطن سے دور ھو یعنی وضع حمل کی خاطر ماں کے لئے چند روز اس ھسپتال میں داخل ھونا ضروری ھو اور بچہ کی ولادت کے بعد وہ پھر اپنے گھر لوٹ آئے تو اس پیدا ھونے والے بچہ کے وطن کا کیا حکم ھے؟
ج۔اگر ھسپتال والدین کے اس وطن میں ھے جس میں وہ زندگی گزارتے ھیں تو وھی شھر بچہ کا بھی وطن ھے ورنہ کسی شھر میں پیدا ھونے سے وہ شھر اس بچہ کا وطن نھیں بنتا بلکہ اس کا وطن وھی ھے جو اس کے والدین کا ھے جھاں بچہ ولادت کے بعد منتقل ھوتا ھے اور جس میں ماں باپ کے ساتھ زندگی بسر کرتاھے۔
س۷۰۳۔ایک شخص چند سال سے شھر اھواز میں رھتا ھے لیکن اسے وطن ثانی نھیں بنایا ھے۔ اگر وہ شھر سے کھیں شرعی مسافت سے کم یا زیادہ فاصلہ پر جاتا اور دوبارہ واپس آتا ھے تو اس کے نماز روزے کا کیا حکم ھے؟
ج۔جب اھواز میں اس نے قصد اقامت کرلیا اور کم ازکم ایک چار رکعتی نماز پڑھنے سے اس کے لئے پوری نماز پڑھنے کا حکم جاری ھوگیا تو جب تک وہ شرعی مسافت طے نھیں کرتا ھے اس وقت تک وھاں پوری نماز پڑھے گا اور روزہ رکھے گا اور اگر وھاں سے شرعی مسافت یا اس سے زیادہ دور جائے گا تو اس شھر میں اس کا حکم وھی ھے جو تمام مسافروں کا ھے۔
س۷۰۴۔میں عراقی ھوں اور اپنے وطن عراق سے اعراض کرنا چاھتا ھوں کیا میں پورے ایران کو اپنا وطن بنا سکتا ھوں ؟ یا صرف اسی جگہ کو اپنا وطن قرار دے سکتا ھوں جھاں میں ساکن ھوں؟ یا وطن بنانے کے لئے اس شھر میں گھر خریدنا ضروری ھے؟
ج۔ جدید وطن کے لئے شرط ھے کسی مخصوص اور معین شھر کو وطن بنانے کا قصد کیا جائے اور ایک مدت تک اس میں اس طرح زندگی بسر کی جائے کہ عرف عام میں یہ کھا جانے لگے کہ یہ شخص اسی شھر کا باشندہ ھے لیکن اس شھر میں گھر وغیرہ کا مالک ھونا شرط نھیں ھے۔
س۷۰۵۔جس شخص نے بلوغ سے قبل اپنی جائے پیدائش سے ھجرت کی تھی اور وہ ترک وطن والے مسئلہ کو نھیں جانتا تھا اور اب وہ بالغ ھوا ھے تو وھاں اس کے روزہ نماز کا کیا حکم ھے؟
ج۔ اگر باپ کی متابعت میں اس نے اپنی جائے پیدائش سے ھجرت کی تھی اور اس شھر میں دوبارہ اس کے باپ کا زندگی بسر کرنے کا ارادہ نھیں تھا تو اس جگہ اس پر وطن کا حکم جاری نھیں ھوگا۔
س۷۰۶۔اگر ایک جگہ انسان کا وطن ھے اور فی الحال وھاں نھیں رھتا لیکن کبھی کبھی اپنی زوجہ کے ھمراہ وھاں جاتا ھے کیا شوھر کی طرح زوجہ بھی وھاں پوری نماز پڑھے گی یا نھیں؟ اور جب تنھا اس جگہ جائے گی تو اس کی نماز کا کیا حکم ھے؟
ج۔ شوھر کے وطن کا زوجہ کے لئے وطن ھونا کافی نھیں ھے کہ اس پر وطن کے احکام جاری ھوں۔
س ۷۰۷۔ کیا جائے ملازمت وطن کے حکم میں ھے؟
ج۔ کسی جگہ ملازمت کرنے سے وہ جگہ اس کا وطن نھیں بنتی ھے لیکن اگر وہ دس روز کی مدت میں کم ازکم ایک مرتبہ اپنے مسکن سے اپنے کام کی جگہ جو کہ اس کے رھائشی مکان سے شرعی مسافت کے فاصلہ پر ھے، جاتا ھو تو وہ جگہ اس کے وطن کے حکم میں ھے اور وھاں پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا صحیح ھے۔
س۷۰۸۔ کسی شخص کے اپنے وطن سے اعراض و رو گردانی کرنے کے کیا معنی ھیں؟ اور کیا عورت کے شادی کرلینے اور شوھر کے ساتھ چلے جانے پر وطن سے اعراض ثابت ھوجاتا ھے یا نھیں؟
ج۔ اعراض سے مراد یہ ھے کہ انسان اپنے وطن سے اس قصد سے نکلے کہ اب دوبارہ اس میں زندگی نھیں گزارے گا، اور صرف عورت کے دوسرے شھر میں شوھر کے گھر جانے کا لازمہ یہ نھیں ھے کہ اس نے اپنے وطن سے اعراض کرلیا ھے۔
س۷۰۹۔ گزارش ھے کہ وطن اصلی اور وطن ثانی کے متعلق اپنا نظریہ بیان فرمائیں؟
ج۔ وطن اصلی : اس جگہ کو کھتے ھیں جھاں انسان پیدا ھوتا ھے اور ایک مدت وھاں رھتا ھے اور وھیں نشوونما پاتا ھے۔
وطن ثانی : اس جگہ کو کھتے ھیں جسے مکلف اپنی دائمی سکونت کے لئے منتخب کرے چاھے سال میں چند ماہ ھی اس میں رھے۔
س۷۱۰۔ میرے والدین شھر ” ساوھ“ کے باشندے ھیں دونوں بچپنے میں تھران آگئے تھے اور وھیں سکونت اختیار کرلی تھی۔ شادی کے بعد شھر چالوس منتقل ھوگئے اور وھاں اس لئے سکونت اختیار کرلی کہ وہ وھاں ملازمت کرتے تھے ، پس اس وقت میں تھران و ساوہ میں کس طرح نماز پڑھوں، واضح رھے میری پیدائش تھران میں ھوئی ھے لیکن وھاں کبھی نھیں رھا ھوں؟
ج۔ اگر آپ نے تھران میں پیدا ھونے کے بعد وھاں نشوونمانھیں پائی ھے تو تھران آپ کا اصلی وطن نھیں ھے اور اگر آپ نے تھران و ساوہ میں کسی کو اپنا اصلی وطن قرار نھیں دیا ھے تو ان دونوں میں آپ کے لئے وطن کا حکم جاری نھیں ھوگا۔
س۷۱۱۔ اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ھے جس نے اپنے وطن سے اعراض نھیں کیا ھے اور وہ اب چہ سال سے دوسرے شھر میں مقیم ھے پس جب وہ اپنے وطن جاتا ھے تو وھاں اس کو پوری نماز پڑھنا چاھئیے یا قصر ؟ واضح رھے وہ امام خمینی ۺکی تقلید پر باقی ھے۔
ج۔ اگر اس نے سابق وطن سے اعراض نھیں کیا ھے تو وطن کا حکم اپنی جگہ پر باقی ھے اور وھاں پوری نماز پڑھے گا اور روزہ رکھے گا۔
س۷۱۲۔اےک طالب علم نے شھرتبر یزکی یو نیورسٹی میں تعلیم حاسل کرنےکی غرض سے تبریز میں چار سال کے لئے کرایہ پر گھر لیا، اب اس کا ارادہ ھے کہ اگر ممکن ھو تو دائمی طور پر تبریز ھی میں رھے گا آج کل وہ رمضان میں کبھی اپنے اصلی وطن جاتا ھے کیا دونوں جگھوں کو اس کا وطن شمار کیا جائے گا یا نھیں؟
ج۔ اگر محل تعلیم کو وطن بنانے کا پختہ ارادہ نھیں کیا ھے تو وہ جگہ اس کے وطن کے حکم میں نھیں ھے لیکن اس کا اصلی وطن حکم وطن پر باقی ھے جب تک وہ اس سے اعراض نہ کرے۔
س۷۱۳۔ میں شھر ” کرمانشاہ “ میں پیدا ھوا ھوں اور چہ سال سے تھران میں مقیم ھوں لیکن نہ اپنے اصلی وطن سے اعراض کیا ھے اور تھران کو وطن بنانے کا قصد ھے لھذا جب ھم ایک سال یا دو سال کے بعد تھران کے ایک محلہ سے دوسرے محلہ میں منتقل ھوتے ھیں تو اس میں میرے روزہ نماز کا کیا حکم ھے؟ اور چونکہ ھم چہ ماہ سے تھران کے نئے علاقے میں رھتے ھیں تو ھم پر یھاں وطن کا حکم جاری ھوگا یا نھیں؟ اور ھمارے روزہ نماز کا کیا حکم ھے جبکہ ھم دن بھر تھران کے مختلف علاقوں کا گشت کرتے رھتے ھیں؟
ج۔ اگر آپ نے موجود تھران یا اس کے کسی محلہ کو وطن بنانے کا قصد کیا ھے۔تو پورا تھرانآپ کا وطن ھے اور موجودہ تھران کا ھر علاقہ آپ کا وطن ھے وھاں پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا صحیح ھے اور تھران کے اندر ادھر ادھر جانے سے سفر کا حکم نھیں لگے گا۔
س۷۱۴۔ ایک شخص دیھات کا رھنے والا ھے اور آج کل ملازمت کی وجہ سے تھران میں رھتا ھے اور اس کے والدین دیھات میں رھتے ھیں اور ان کے پاس زمین و جائیداد بھی ھے ، وہ شخص ان کی احوال پرسی اور مدد کے لئے وھاں جاتا ھے لیکن وطن کے قصد سے وھاں واپسی کا قصد نھیں رکھتا ، واضح رھے کہ وہ اس شخص کی زادگاہ بھی ھے۔ لھذا وھاں اس کے روزہ نماز کا کیا حکم ھے؟
ج۔ اگر کسی نے اس گاوٴں میں زندگی بسرکرنے اور اس کو وطن بنانے کی نیت نھیں کی ھے تو وھاں اس پر وطن کے احکام جاری نھیں ھوں گے۔
س۷۱۵۔ کیا جائے ولادت کو وطن سمجھا جائے گا خواہ پیدا ھونے والا وھاں نہ رھتا ھو؟
ج۔ اگر ایک زمانہ تک وھاں زندگی گزارے اور وھیں اس پر وطن کا حکم جاری ھوگا ورنہ نھیں۔
س۷۱۶۔ اس شخص کی نماز ، روزہ کا کیا حکم ھے جو اس شھر میں طویل مدت (۹سال)سے مقیم ھے اور فی الحال وہ اپنے وطن میں ممنوع الورود ھے لیکن اسے یہ یقین ھے کہ ایک دن وطن واپسی ھوگی؟
ج۔ جس شھر میں وہ اس وقت مقیم ھے وھاں اس کے روزہ اور نماز کا وھی حکم ھے جو تمام مسافروں کا ھے۔
س۷۱۷۔ میں نے اپنی عمر کے چہ سال گاوٴں میں اور آٹھسال شھر میں گزارے ھیں۔حال ھی میں بغرض تعلیم مشھد آیا ھوں پس ان تمام مقامات پر میرے روزہ نماز کا کیا حکم ھے؟
ج۔ جو قریہ آپ کی جائے پیدائش ھے وھی وطن ھے اور وھاں آپ کا روزہ اور نماز پوری ھے بشرطیکہ اس سے اعراض نہ کیا ھو۔ لیکن مشھد کو آپ جب تک وطن بنانے کا قصد نہ کریں وھاں آپ مسافر کے حکم میں ھیں اور جس شھر میں آپ نے آٹھسال گزارے ھیں اگر اسے وطن بنایا تھا تو وہ بھی اس وقت تک آپ کے وطن کے حکم میں رھے گا جب تک وھاں سے اعراضنہ کریں ورنہ اس میں بھی مسافر کے حکم میں رھیں گے۔