}(٢٠٣٣)حج خانہ خدا کي زيارت کرنے اور ان اعمال کو بجالانے کا نام ہے کہ جن کے وھاں انجام دينے کا دستور معين کيا گيا ہے اور تمام عمر ميں ايک مرتبہ ھراس شخص پر واجب ہے جو ذيل کے شرائط رکھتا ہے۔
١۔ يہ کہ بالغ ھو
۲۔ عقلمند اور آزاد ھو
٣۔حج پر جانے کي وجہ سے مجبور نہ ھو کہ کوئي فعل حرام انجام دے کہ جس کي اھميت شريعت کے نزديک حج سے زيادہ ھو يا کوئي عمل واجب ترک کرناپڑے کہ جو حج سے زيادہ اھم ھو۔
٤ ۔ يہ کہ مستطيع ہو اور استطاعت ميں چند چيزوں کي ضرورت ہے۔
١۔ زاد راہ اور وہ چيزيں کہ اس کے حسب حال سفر ميں اس کو ان کي ضرورت ھو گي جو مفصل کتب ميں بيان کي گئي ہيں اس کے پاس موجود ھوں اور اسي طرح سواري اور اتنا مال کہ جس سے يہ چيزيں مھيا کرسکے اس کے پاس ھوں۔
٢۔ اس کا مزاج صحيح سالم ھو اور اتني طاقت اس ميں ھو کہ وہ مکہ جا کر حج کرسکے۔
٣۔ راستہ ميں کوئي چيز جانے سے مانع نہ ھو اور اگر راستہ بند ھو يا انسان کو ڈر ھو کہ سرراہ اس کي جان يا عزت يا مال تلف ھوجائے گا تو اس پر حج واجب نھيں البتہ اگر کسي دوسرے راستے سے وہ جاسکتاہے اگرچہ وہ راستہ دور ھي ھو تو اگر اس ميں مشقت زيادہ نہ ھو اور زيادہ غير متعارف بھي نہ ھو تواس راستہ سے جائے۔
٤۔ اعمال حج بجالانے کے لئے کافي وقت ھو۔
٥۔ ان لوگوں کاخرچ کہ جن کا خرچ اس پر واجب ہے مثلاً بيوي بچے اور ان لوگوں کا خرچ کہ لوگ ضروري سمجھتے ہيں کہ ان کو خرچ دے اس کے پاس موجود ھو۔
٦۔ واپس آنے کے بعد کوئي کاروبار زراعت يا کسي جائيداد کي منفعت اپنے معاش کے لئے رکھتا ھو تاکہ مجبور نہ ھوجائے کہ زحمت و مشقت سے زندگي بسر کرے۔
}(٢٠٣٤)جس شخص کي ضرورت ذاتي مکان کے بغير پوري نھيں ھوتي تو اس پر اس وقت حج واجب ھوگا جب اس کے پاس مکان کے لئے رقم بھي ھو۔
}(٢٠٣٥)جو عورت مکہ جاسکتي ہے اگر لوٹنے کے بعد اس کے پاس ذاتي مال موجود نہ ھو اور اس کا شوھر بھي مثلاً فقير ھو اور اس کا خرچ نہ دے سکتاھو مجبوراً سختي و زحمت سے اسے زندگي بسر کرنا پڑے گي اس پر حج واجب نھيں۔
}(٢٠٣٦)جس کے پاس زاد راہ اور سواري نہ ھو اور دوسرا شخص اسے کھے کہ حج پر جاو اور ميں تيرا اور تيرے اھل و عيال کا خرچ جب تک کہ تو سفر حج ميں ہے اداکروں گا اور اس کو اطمينان ھو کہ وہ اس کا خرچہ دے گا تو اس پر حج واجب ہے۔
}(٢٠٣٧)اگر کسي شخص کے آنے جا نے اور اس مدت کے لئے اس کے اھل و عيال کا خرچہ اس کو بخش ديا جائے اور اس سے شرط کي گئي ھو کہ تم حج کرو۔ اگرچہ وہ مقروض ھو اور واپس لوٹنے کے بعد اس کے پاس کوئي ايسا مال نہ ھو کہ جس سے زندگي بسر کرسکے تو بھي وہ قبول کرے اور حج اس پر واجب ھوجائے گا۔
}(٢٠٣٨)اگر کسي کے مکہ جانے آنے اور اس مدت کے لئے اھل و عيال کے تمام مصارف دے ديں اور اسے کہہ ديں کہ حج کے لئے جاو ليکن اس کي ملکيت قرار نہ ديں تو اگر اسے اطمينان ھوجائے کہ اس سے واپس نھيں ليں گے تو اس پر حج واجب ھوجائے گا۔
}(٢٠٣٩)اگر کچھ مال کسي کو ديا جائے جو کہ حج کے لئے کافي ہے اور اس سے شرط کريں کہ مکہ کے راستے ميں مال دينے والے کي خدمت کرے تو اس پر حج واجب نھيں ھوگا۔
}(٢٠٤٠)اگر کسي کو کچھ مال ديں اور اس پر حج واجب ھوجائے اور وہ حج کرلے تو اسکے بعد اگر وہ اپنے مال سے بھي مستطيع ھوجائے پھر بھي دوبار ہ اس پر حج واجب نھيں ھوگا۔
}(٢٠٤١)اگر تجارت کي غرض سے مثلاً جدہ گيا ہے اور اس کے پاس اتنا مال ہے کہ اگر وھاں سے مکہ جانا چاھيے تو مستطيع ھوسکتا ہے تو اسے حج کرنا چاھيے۔ اب اگر اس نے حج کرليا تو اسکے بعد اگرچہ اس کے پاس اتنا پيسہ آجائے کہ وہ اپنے وطن سے مکہ جاسکتا ھو تب بھي اس پر حج واجب نھيں ۔
}(٢٠٤٢)اگر کوئي شخص کسي کي طرف سے حج کے لئے اجير بنے تو اگروہ خود نھيں جاسکتا اور کسي اور شخص کو اپني طرف سے بھيجنا چاھے تو اس شخص سے اجازت لے کہ جس نے اس کو اجير بنايا ہے۔
}(٢٠٤٣)اگر کوئي شخص مستطيع ھونے کے باوجود مکہ نھيں گيا اور پھر فقير ھوگيا تو اگرچہ اب باعث زحمت و تکليف ھي کيوں نہ ھو وہ حج کے لئے جائے اور اگر بالکل حج پر نھيں جاسکتا تو اگر کوئي شخص اس کو اجير بنائے تو مکہ جائے اور اس کا حج بجالائے کہ جس نے اسے اجير کيا ہے اور آئندہ سال تک مکہ ميں رھے اور اپنا حج ادا کرے کہ البتہ اگر ممکن ھو کہ کسي کا اجير نبے اور اجرت بھي نقد لے لے اور جس نے اسے اجير کيا ہے وہ راضي ھو جائے کہ اس کا حج اگلے سال بجالائے تو پھلے سال اپنا حج اور آئندہ سال جس کا اجير بنا ہے اس کا حج بجالائے۔}(٢٠٤٤)اگر استطاعت کے پھلے سال مکہ جائے ليکن وقت مقررہ پر عرفات اور مشعر الحرام نہ جاسکے تو اگر بعد کے سالوں ميں مستطيع نہ ھو تو اس پر واجب نھيں البتہ اگر کئي سالوں سے مستطيع تھا اور نھيں گيا اگرچہ اب زحمت و مشقت ھو تو وہ حج کرے۔
}(٢٠٤٥)اگر استطاعت کے پھلے سال حج نہ کرے اور اس کے بعد بڑھاپے، بيماري اور کمزوري کي وجہ سے حج نہ کرسکے اور اسکے بعد کے لئے نااميد ھوجائے کہ حج کرسکوں گا تو کسي اور شخص کو اپني طرف سے حج پر بھيجے بلکہ اگر پھلے سال جب کہ اس کے پاس حج جانے کے لئے مال تھا اور بڑھاپے، بيماري يا بے طاقتي کي وجہ سے حج نہ کرسکا تو احتياط مستحب يہ ہے کہ کسي کو اپني طرف سے حج بجالانے کے لئے بھيجے۔
}(٢٠٤٦)جو شخص کسي کي طرف سے حج کے لئے اجير ھواہے تو وہ اس کي طرف سے طواف نساء کرے اور اگر طوافِ نساء نہ کيا تو اجير پر عورت حرام ھوجائے گي۔
}(٢٠٤٧)اگر طواف نساء صحيح طرح بجانہ لائے يا بھول جائے تو اگر چند دنوں کے بعد اسے ياد آئے راستہ سے پلٹ آئے اور بجالائے تو صحيح ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ سیستانی دامت برکاتہ کے فتوے