س۲۰۹۔ اس شخص کا کیا حکم ھے جو بالغ ھو کر بھی غسل کے واجب ھونے اور اس کے طریقے سے بے خبر رھا اور اسی طرح دس سال گزر گئے۔ تب کھیں اسے تقلید کی معرفت اور غسل کے واجب ھونے کا علم ھوا۔ اب نماز اور روزہ کی قضا کی صورت میں اس پر کیا حکم لاگو ھوگا؟
ج۔ اس شخص پر ان نمازوں کی قضا واجب ھے جو جنابت کی حالت میں ادا کی ھیں۔ اسی طرح روزوں کی قضا بھی ھے اگر یہ جانتا ھو کہ وہ احتلام یا خروج منی یا اسباب جنابت میں سے کسی ذریعہ سے مجنب ھوا ھے۔ بلکہ اگر وہ تقصیر کی وجہ سے اس سے لاعلم تھا تو اقویٰ یہ ھے کہ اس پر کفارہ بھی واجب ھوگا لیکن اگر وہ سرے سے جنابت ھی کو نھیں جانتا تھا اور جس دن اس نے روزہ رکھا تھا وہ طلوع فجر تک یہ نہ سمجہ سکا تھا کہ مجنب بھی ھے تو اس پر روزہ کی قضا ھی واجب نھیں ھے چہ جائیکہ کفارھ۔
س۲۱۰۔ ایک جوان ۔ کم عقلی کی وجہ سے ۔ چودہ سال کی عمر سے پھلے اور اس کے بعد استمناء کرتا تھا اور اس سے منی نکلتی تھی لیکن وہ غسل نھیں کرتا تھا تو اس کا کیا فریضہ ھے ؟ کیا جس زمانے میں وہ استمناء کرتا تھا اوراس سے منی خارج ھوتی تھی ۔ اس زمانے کا اس پر غسل واجب ھے؟ اور اس وقت سے اب تک اس نے جو نمازیں پڑھیں اور روزے رکھے، کیا وہ باطل ھیں اور ان کی قضا واجب ھے؟ یہ مدنظر رکھتے ھوئے کہ وہ محتلم ھوتا تھا مگر غسل جنابت کی فکر نھیں کرتا تھا نہ ھی وہ یہ جانتا تھا کہ منی نکلنے سے غسل واجب ھوجاتا ھے؟
ج۔ جتنی مرتبہ وہ مجنب ھوا ھے ان سب کے لئے ایک غسل کافی ھے اور ان نمازوں کی قضا واجب ھے جن کے بارے میں یہ یقین ھے کہ وہ حالت جنابت میں ادا کی گئی ھیں، ھاں گزشتہ روزوں کی قضا واجب نھیں ھے اور انھیں صحیح قرار دیا جائے گا، بشرطیکہ روزہ کی شبوں میں اسے یہ علم نہ رھا ھو کہ مجنب ھے لیکن اگر وہ یہ جانتا تھا کہ منی خارج ھوئی ھے اور وہ مجنب ھوگیا ھے لیکن اگر وہ یہ جانتا تھا کہ منی خارج ھوئی ھے اور وہ مجنب ھوگیا ھے لیکن یہ نھیں جانتا تھا کہ روزہ کے صحیح ھونے کے لئے اس پر غسل واجب ھے تو ا س صورت میں اس پر ان تمام روزوں کی قضا واجب ھے جو اس نے حالت جنابت میں رکھے تھے اور اگر اس جھالت و لاعلمی میں اس کی کوتا ھی کا بھی قصور تھا تو احتیاطاً ھر دن کے روزہ کا کفارہ بھی دے گا۔
س۲۱۱۔ افسوس ھے کہ مجھے بھت عرصہ تک مسئلہ جنابت اور غسل جنابت کے احکام کے بارے میں کوئی اطلاع ھی نہ تھی جبکہ مجھے علم ھے کہ میں اس زمانہ میں نمازیں پڑھتا اور روزے رکھتا تھا اس سلسلہ میں حکم شرعی کیا ھے؟
ج۔ اگر تم اس زمانہ میں روزوں کے ایام کے دوران اس بات سے بالکل بے خبر تھے کہ جنابت تم پر طاری ھوتی ھے تو تمھارے روزے صحیح ھیں اب رھیں نمازیں تو یہ یقین ھوجانے کے بعد کہ تم نے انھیں جنابت کی حالت میں ادا کی ھیںتو ان کی قضا واجب ھے۔
س۲۱۲۔ ایک شخص مجنب ھوتا تھا اور غسل کرتا تھا لیکن اس کا غسل غلط اور باطل ھوتا تھا اس کی ان نمازوں کا کیا حکم ھے جو اس نے اس غسل کے بعد پڑھی ھیں، یہ جانتے ھوئے کہ وہ لاعلمی کی وجہ سے ایسا کرتاتھا۔
ج۔ غسل باطل کے ساتھ اور حالت جنابت میں پڑھی گئی نماز باطل ھے اور اس کا اعادہ یا قضا واجب ھے۔
س۲۱۳۔ میں نے ایک واجب غسل کی بجا آوری کے ارادے سے غسل کیا ، حمام سے نکلنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ میںنے ترتیب کی رعایت نھیں کی۔ میں سوچتا تھا کہ صرف ترتیب کی نیت کافی ھے لھذا غسل کا اعادہ نھیں کیا۔ اب میں اپنے امر میں پریشان ھوں پس کیا مجہ پر تمام نمازوں کی قضا واجب ھے؟
ج۔ آپ جو غسل بجالائے ھیں اگر اس کے صحیح ھونے کا آپ کو احتمال ھے اور غسل کرتے وقت ان باتوں کی طرف متوجہ تھے جو اس کی صحت کے لئے ضروری ھیں تو آپ پر کوئی قضا واجب نھیں ھے ، ھاں اگر آپ کو غسل کے باطل ھونے کا یقین ھوجائے تو آپ پر تمام نمازوں کی قضا واجب ھے۔
س۲۱۴۔ میں غسل جنابت اس طریقے سے کیا کرتا تھا کہ پھلے جسم کا داھنا پھر سر اور اس کے بعد بایاں حصہ دھویا کرتا تھا اور میں نے صحیح طریقہ دریافت کرنے میں کوتاھی کی ۔ پس میری نمازوں اور روزوں کا کیا حکم ھے؟
ج۔ مذکورہ طریقے سے کیا گیا غسل باطل ھے اور رفع حدث کا موجب نھیں ھے اس بنا پر ایسے باطل غسل کے ساتھ پڑھی گئی نمازیں باطل ھیں اور ان کی قضا کرنا واجب ھے ھاں اگر آپ مذکورہ طریقہ کو صحیح غسل سمجھتے تھے اور آپ جان بوجہ کر جنابت پر باقی نھیں رھے تو آپ کے روزے صحیح ھیں۔