کئی سالوں سے ایران کو "دھشت گردی کی سب سے بڑی حامی حکومت" کا ناخوشگوار لقب دیا جا رھا ہے، جبکہ امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ دھشت گرد گروھوں کی فھرست میں شامل 61 گروھوں میں اکثریت ایسے گروھوں کی ہے جن پر وھابی طرز تفکر حاوی ہے اور انھیں سعودی عرب کی مالی سپورٹ حاصل ہے۔
ان گروھوں نے ایران اور مغربی ممالک کو اپنا اصلی دشمن متعارف کروا رکھا ہے۔ اس بلیک لسٹ میں شامل صرف دو گروہ ایسے ہیں جو شیعہ فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ حزب اللہ لبنان اور عراق کی حزب اللہ بریگیڈز ہیں، جبکہ چار گروہ ایسے ہیں جن کے بارے میں دعوی کیا گیا ہے کہ وہ ایران سے مالی مدد وصول کرتے ہیں۔ اس لسٹ میں موجود تقریبا تمام سنی جنگجو گروپ یا تو سعودی حکومت سے مالی مدد وصول کرتے ہیں اور یا پھر سعودی شھریوں کی مالی سپورٹ سے برخوردار ہیں۔
وھابیت ایسی آئیڈیالوجی ہے جس نے سعودی حکام کی ضروریات اور شدت پسند متعصب عناصر کے درمیان بندھن ایجاد کر رکھا ہے۔ وھابیت کو عالم اسلام میں موجود سلفی طرز تفکر کا مذھبی سیاسی ذیلی سیٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ سلفی اپنا نام "السلف الصالح" یا (حضرت) محمد (ص) کے "متقی ساتھی" سے اخذ کرتے ہیں اور اس بات کے دعویدار ہیں کہ انھیں کی پیروی کرنے میں مصروف ہیں۔
وھابیت اور سلفیت میں فرق یہ ہے کہ وھابیت اپنی طاقت کو برقرار رکھنے میں آل سعود رژیم پر انحصار کرتی ہے جبکہ سلفیت ایک عالمی سطح کا طرز تفکر ہے۔
وھابیت کا آغاز کھاں سے ھوا؟
18ویں صدی میں مذھبی رھنما عبدالوھاب اور قبائلی رھنما ابن سعود کے درمیان تعاون کا آغاز ھوا جس کا نتیجہ سعودی عرب میں مشروعیت کے دو متوازی سرچشموں یعنی مذھب اور قبائلی روایات، کی صورت میں نکلا۔ مذھبی علماء الھی طاقت اور اختیارات کے حامل تھے اور ابن سعود سے سمجھوتے کے بعد انھوں نے یہ اختیارات آل سعود کو بخش دیئے۔ وھابیت درحقیقت جھادی سلفی ہیں کیونکہ وھابیت مکمل طور پر سعودی حکومت پر انحصار کرتی ہے لھذا اس کی ماھیت انقلابی نھیں۔ سعودی عرب کا سلطنتی خاندان اقتصادی ترقی اور مغربی دنیا سے انتھائی قریبی سیاسی تعلقات اور وھابیت کے قدامت پرست مطالبات کے دوراھے پر کھڑا ہے۔
ان مطالبات میں سے ایک جنوبی ایشیا، مشرق وسطی اور حتی مغربی دنیا میں دھشت گردی اور جھاد کی بنیاد ڈالنا اور اس کی حمایت کرنے پر آنکھیں بند رکھنا ہیں۔ بعض یہ دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ ھم سعودی عرب اور وھابیت کو بلاوں کے مقابلے میں ڈھال کے طور پر استعمال کر رھے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی شدت پسندی کی حقیقی وجوھات انتھائی پیچیدہ ہیں۔
محمد الیحیی نے نیویارک ٹائمز میں شائع ھوئے "دھشت گردی کو وھابیت کے سر پر مت ڈالیں" کے عنوان سے اپنے ایک مقالے میں اسی قسم کا استدلال پیش کیا ہے۔ یہ استدلال ایسے ہے کہ "سب سے زیادہ اسلام پسند جنگجووں کا سعودی وھابیت سے کوئی تعلق نھیں"۔ مثال کے طور پر وہ کھتا ہے کہ طالبان کا تعلق دیوبندی فرقے سے ہے۔ دیوبندی اسلام کا ایک سامراج مخالف فرقہ ہے جو جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار کے ردعمل کے طور پر ظاھر ھوا، جبکہ القاعدہ کی سوچ شدت پسندانہ ہے جس کا منشاء اخوان المسلمین ہے۔ اگرچہ دھشت گردی کی مختلف وجوھات کی جان پھچان ضروری ہے لیکن یہ امر اس بات کا باعث نھیں بننا چاھئے کہ پالیسی میکرز دھشت گردی کے واضح منشاء سے چشم پوشی اختیار کر لیں۔
یہ بات یقیناً صحیح ہے کہ تمام سنی شدت پسند گروھوں کی جڑیں وھابیت میں نھیں۔ حکومت مخالف اسلام پسند اخوان المسلمین کے نظریات، جیسے حسن البنا اور سید قطب، نے ھی القاعدہ کی تشکیل کی بنیاد فراھم کی ہے۔ لیکن تنظیمیں اور تحریکیں بتدریج کمال کے مراحل طے کرتی ہیں۔ وہ القاعدہ جس کا مشاھدہ ھم آج کر رھے ہیں، بھت حد تک وھابیت کے ایسے زیادہ شدت پسندانہ افکار کا نتیجہ ہے جن کی ترویج سعودی عرب کر رھا ہے۔
پاکستان میں شدت پسندی کا فروغ
عرب دنیا سے زیادہ سعودی عرب نے پاکستان میں شدت پسندی کو فروغ دیا ہے۔ سعودی عرب کی حمایت سے پاکستان بھر میں تحریک اھلحدیث کی صورت میں ایک قسم کی سلفیت پھیلائی گئی ہے۔ دوسری طرف اس ملک میں دیوبندی کی بنیاد پرست تحریک کو سب سے زیادہ خلیج عرب ریاستوں کی حمایت حاصل ہے۔ امریکہ کی ایک سرکاری دستاویز میں ذکر ھوا ہے کہ: "سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اسلامی خیراتی ادارے، جنھیں ان حکومتوں کی براہ راست حمایت حاصل ہے، سالانہ 100 ملین ڈالر خطے کے دیوبندی اور اھلحدیث علماء کو مدد کے طور پر دیتے ہیں"۔ سلفیت اور دیوبندی تحریک میں اس قسم کا گٹھ جوڑ، جنوبی ایشیا میں اسلام کی مختلف تعابیر کی پدائش کا سبب بنا ہے جن کا ایک نمونہ بریلوی (صوفی) فرقہ ہے۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان قریبی تعلقات کا آغاز سابق پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے ھوا۔ حال ھی میں شائع ھونے والی سی آئی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق، بھٹو نے 1975ء میں سعودی عرب کا سرکاری دورہ کیا اور "اس ملک کی سخاوت مندانہ مدد سے بھرہ مند ھوا"۔ پاکستان نے ایسی مدد کے بدلے میں "اپنے فوجی مشیر اور ماھرین سعودی عرب کی مسلح افواج کو فراھم کر دیئے"۔ سی آئی اے کی دیگر دستاویزات سے ظاھر ھوتا ہے کہ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء کے دوران پاکستان افغانستان میں 1979ء میں آغاز ھونے والی سابق سوویت یونین کی فوجی موجودگی کو اپنے لئے بڑا خطرہ تصور کرتا تھا۔ لھذا پاکستان کے حساس اداروں نے سعودی عرب اور امریکہ کے تعاون سے سابق سوویت یونین سے مقابلے کیلئے "مجاھدین" کی فوجی تربیت میں خاصی دلچسپی ظاھر کی۔
سعودی حکام فطری طور پر خادم الحرمین شریفین (مسلمانوں کے دو انتھائی مذھبی مقدس مقامات میں سے ایک) ھونے کے ناطے پاکستانی افسروں کی نظر میں امریکی ھم منصب افراد کی نسبت بھت زیادہ احترام کے حامل تھے۔
اسی طرح امریکہ پاکستانی فوجی افسروں کی جانب سے ان جنجگووں کی حمایت کو زیادہ اھمیت نھیں دیتا تھا جنھیں وہ کئی سال تک فوجی تربیت دیتے رھتے تھے۔
پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیز سعودی عرب اور جنوبی ایشیا میں سرگرم شدت پسند اسلامی گروھوں کے درمیان رابط کا کردار ادا کرنا شروع ھو گئیں۔ 1990ء کے عشرے میں پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں نے بھارت کی جانب سے درپیش ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی پوری توجہ کشمیر اور پنجاب پر مرکوز کر دی۔ لیکن پاکستان کے حساس اداروں اور مختلف مسلح گروھوں کے درمیان تعلقات اس وقت زیادہ مضبوط ھوئے جب نائن الیون واقعے کے بعد پاکستان کی توجہ دوبارہ افغانستان پر مرکوز ھونے لگی۔ اسی دوران پاکستان کے حساس اداروں اور بعض مسلح گروھوں میں ٹکراو بھی پیدا ھوا جبکہ دیگر گروھوں جیسے حقانی گروپ سے ان کے تعلقات بدستور اچھے رھے۔
پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کے انکشاف کے بعد، امریکہ نے ڈرون حملوں کی شدت میں تیزی لائی جبکہ دوسری طرف پاکستان کے حساس اداروں نے اسلام آباد میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف کا نام فاش کر کے اس کا بدلہ لے لیا۔ اپنا نام فاش ھونے کے بعد سی آئی اے اسٹیشن چیف کو کئی بار جان کا خطرہ درپیش ھوا۔
اسلام آباد ریاض معاھدہ کیا ہے؟
خلیج سنی عرب ریاستوں سے بھیجے جانے والے ڈالرز بدستور پاکستان میں انتھاپسند گروھوں کی مضبوطی کا باعث بن رھے ہیں۔ جبکہ سعودی عرب کے حمایت یافتہ دینی مدارس سے مربوط خودکش دھماکے ھمیشہ سے بڑی تعداد میں عام پاکستانی شھریوں کی ھلاکت کا باعث بن رھے ہیں۔ پاکستانی حکام خلیج عرب ریاستوں کی حمایت یافتہ دھشت گردی سے چشم پوشی کے عوض اپنی سکیورٹی کی ضمانت دریافت کرتے ہیں۔ جب تک وہ برسراقتدار رھتے ہیں، جنگجووں پر مشتمل ایک غیر سرکاری فوج سے برخوردار رھتے ہیں جنھیں وہ بلوچ علیحدگی پسند عناصر سے لے کر بھارت تک، ھر ممکنہ خطرے سے قابلے کیلئے استعمال کرتے ہیں، اور جب ان کے اقتدار کی مدت پوری ھو جاتی ہے تو انھیں اور ان کے اھلخانہ کو ضروری سکیورٹی فراھم کر دی جاتی ہے۔
2000ء کی گرمیوں میں جب پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مالی کرپشن، اغواء اور جھاز اغواء کرنے جیسے جرم ثابت ھو گئے تو سعودی عرب نے انھیں پاکستان سے جلاوطن ھو کر اپنے ملک رھنے کی اجازت دے دی۔
سابق پاکستانی صدر اور بے نظیر بھٹو کے شوھر، آصف علی زرداری پر بھی مالی کرپشن کا الزام تھا اور وہ 2016ء میں خود ھی پاکستان چھوڑ کر متحدہ عرب امارات چلے گئے۔ اسی طرح پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف آج کل غداری کے الزام میں قانونی کاروائی سے بچنے کیلئے دوبئی میں رہ رھے ہیں۔ لیکن سعودی عرب سے شدت پسندی کی ترویج ھمیشہ منصوبہ بندی کے تحت انجام نھیں پاتی۔
ایان ٹیلبوٹ (Ian Talbot) تاریخ پاکستان کے موضوع پر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: "نچلے طبقے کے پاکستانی شھریوں کی اسلام کے مرکز (سعودی عرب) تک رسائی، اسلام پسندی کی جانب مثبت رجحانات پیدا ھونے کا باعث بنی ہے۔ اگرچہ جنرل ضیاءالحق اس نتیجے پر پھنچ چکے تھے کہ فرقہ واریت پر اس کے اثرات غیرمتوقع ہیں اور وہ پاکستان میں عدم استحکام کا باعث بن سکتے ہیں"۔ سعودی عرب بھی اپنے شدت پسندانہ اثرات سے پریشان ہے اور حال ھی میں اس نے دھشت گردی کے خوف سے 40 ھزار پاکستانی ورکرز کو ملک سے نکال باھر کیا ہے۔
صوبہ سندھ کے حکام کی مرکزی حکومت سے عاجزانہ درخواست
آج کابل کے پھاڑی علاقوں سے لے کر کراچی کے بازاروں اور ممبئی کے ھوٹلوں تک، پورا جنوبی ایشیا فرقہ وارانہ شدت پسندی کی آگ میں سلگ رھا ہے۔ اس سال فروری میں پاکستان کے مختلف شھروں میں خودکش حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں شھری جاں بحق ھوئے۔ صوبہ سندھ کے حکام نے مرکزی حکومت سے عاجزانہ درخواست کی کہ وہ خلیج سنی عرب ریاستوں کی فنڈنگ سے منعقد ھونے والے سیمینارز کا سلسلہ ختم کرے۔ لیکن پاکستان کی مرکزی حکومت نے ان کی اس درخواست کو مسترد کر دیا۔
شاہ فیصل انٹرنیشنل پرائز کس کو ملا؟
انٹرنیٹ عام ھو جانے کے بعد سعودی علماء کو اپنی ذاتی تشھیر میں بھت سھولت حاصل ھو گئی ہے۔ سعودی مبلغین اور ان کے تربیت یافتہ افراد کے انتھاپسندی پر مبنی مسیجز دنیا بھر میں موبایل فونز پر موجود ہیں اور قابل مشاھدہ ہیں۔ طلبہ و طالبات کو فرقہ وارانہ مذھبی سیمینارز میں شرکت کیلئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھیجا جاتا ہے اور جب وہ وھاں سے واپس لوٹتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود دینی مدارس میں موجود سینکڑوں افراد تک یہ افکار پھیلاتے ہیں۔ سعودی عرب کے ان مبلغین کا پیغام ھمیشہ مسلح کاروائیاں انجام دینے پر مبنی نھیں ھوتا بلکہ بعض اوقات اس سے بھی کھیں زیادہ خطرناک ھوتا ہے جو ان مسلح کاروائیوں کی توجیھات پیش کرنا اور ان کا دفاع کرنے پر مبنی ھوتا ہے۔ معروف مبلغ ذاکر نائیک نے اسامہ بن لادن کی کھلم کھلا حمایت کی جس کے نتیجے میں اسے شاہ فیصل انٹرنیشنل پرائز سے نوازا گیا۔
دوسری طرف سعودی عرب اپنے اوپر دھشت گردی کی حامی حکومت یا دھشت گردی کا زمینہ فراھم کرنے والی حکومت جیسے الزامات عائد ھونے سے بچنے کیلئے سالانہ تعلقات عامہ والی کمپنیز پر کئی ملین ڈالرز خرچ کر رھا ہے۔ سعودی عرب ایک طرف خود کو عالم اسلام میں رونما ھونے والے واضح ترین دھشت گردانہ اقدامات سے لاتعلق ظاھر اور دوسری طرف سلفی پیغامات کا خیرمقدم کر کے اپنے متعصب مبلغین کے اثرات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ واشنگٹن میں سعودی عرب کی کوشش ھوتی ہے کہ وہ خود کو دھشت گردی اور شدت پسندی سے مکمل طور پر لاتعلق ظاھر کرے۔
ماسکو کے خلاف ریاض واشنگٹن اتحاد
آسٹریلیا کے وزیراعظم میلکم ٹرن بال نے ایک بار سابق امریکی صدر اوباما سے پوچھا: "سعودی آپ کے دوست نھیں؟"، اوباما نے جواب دیا: "یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے"۔ سعودی عرب کیسے دھشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک موثر اتحادی کا کردار ادا کر سکتا ہے جبکہ اس ملک کی قومی سلامتی کا انحصار مسلسل دھشت گردی کو ایکسپورٹ کرنے پر ہے؟
1930ء کے آغاز میں جب امریکی کمپنیز نے پھلی بار سعودی عرب کی آئل مارکیٹ کا جائزہ لینا شروع کیا تو سعودی سلطنتی خاندان نے امریکہ کو برطانیہ پر ترجیح دی کیونکہ وہ برطانوی تاجروں کو تاجر کے نقاب کے پیچھے برطانوی سامراج تصور کرتے تھے۔
اپنے دشمن کے دشمن سے تعاون سرد جنگ کے دوران مزید گھرا ھو گیا اور 1983ء میں سی آئی اے کی جانب سے جاری شدہ مفاھمت کی یادداشت میں سابق سوویت یونین کو کنٹرول نے پر مبنی ھدف امریکہ اور سعودی عرب کی "سپلیمنٹ خارجہ پالیسی" قرار دیا گیا۔ یہ حقیقت کہ سعودی عرب نے سابق سوویت یونین سے مقابلے کیلئے اسلامی شدت پسندی کے دوبارہ ظھور کی ترویج کی، بھی امریکہ کے انٹیلی جنس اداروں کیلئے پریشانی کا باعث نہ بنی۔ جب خلیج فارس کی جنگ میں سعودی سلطنتی خاندان کو غیر مسلم فوجیوں کو مقامات مقدسہ آنے کی اجازت دیئے جانے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو سعودی حکومت نے وھابی علماء کی بڑی تعداد کو حکومتی عھدوں پر مقرر کر کے ان کے ذریعے ان اعتراضات کا جواب دیا۔ ایسے علماء جو بدستور حکومتی سرگرمیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رھے، انھیں ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔
سعودی عرب اور نائن الیون
نائن الیون واقعے میں ملوث ھائی جیکرز اور سعودی حکومت کے درمیان رابطوں کی تفصیلات بیان کرنے والی 28 صفحات پر مشتمل رپورٹ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ نہ صرف سعودی عرب کے عام شھریوں، بلکہ خود سعودی حکومت نے بھی شدت پسندانہ دھشت گرد گروھوں کو مالی امداد اور انسانی قوت فراھم کی تھی۔ لیکن سعودی عرب کا دعوا ہے کہ وہ دھشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہے۔
دوسری طرف، سعودی عرب میں انجام پانے والے اکثر دھشت گردانہ حملوں کا نشانہ مشرقی صوبے میں بسنے والی شیعہ اقلیت اور مغربی مراکز قرار پاتے ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ نے واضح طور پر سعودی عرب میں مقیم اپنے شھریوں کو خبردار کرتے ھوئے اعلان کیا: "ایسے مقامات پر جانے سے گریز کریں جھاں شیعہ اقلیت کے افراد اجتماعات منعقد کرتے ہیں"۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کے سابق سفیر، زلمے خلیل زاد نے حال ھی میں پولیٹیکو میگزین میں شائع ھونے والی اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے: سعودی حکام کا دعوا ہے کہ انھوں نے نئی "صداقت پر مبنی پالیسی" اپنائی ہے اور مجھ سے بات چیت کے دوران اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ ماضی میں شدت پسند عناصر کی مالی مدد کرتے رھے ہیں۔ اس کے باوجود محدود اعترافات اور دھشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں غیر یقینی بیانات، سعودی سفارتکاری کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔ سعودی حکومت نے نائن الیون حادثات کے بعد معلومات کے تبادلے اور کم خطرے والے دھشت گرد عناصر کی واپسی کیلئے مراکز تشکیل دینے کی کوششیں انجام دی ہیں لیکن یہ کوششیں زیادہ تر خیر سگالی کی نیت ظاھر کرنے کیلئے تھا جبکہ طولانی مدت میں دھشت گردی کے خلاف جنگ کے متعلق بھت کم کامیابی کے ھمراہ تھیں۔
آل سعود کی جانب سے داعش کی حمایت
"پوڈیسٹا ای میلز" کا انکشاف اس بات کی تصدیق ہے کہ امریکی انٹیلی جنس اداروں کی نظر میں سعودی عرب اور قطر خفیہ طور پر داعش کی مالی اور لاجسٹک مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ تعصب آمیز نظریات اور دھشت گردی کی ایکسپورٹ درحقیقت سعودی معاشرے میں موجود متزلزل تعادل کو نابودی سے بچانے کیلئے انتھائی ضروری ہے۔ گذشتہ سال مارچ کے مھینے میں طالبان کمانڈر ملا منصور کو قتل کر دیا گیا۔ ان کا قتل ھونے سے چند دن قبل ھی ایران کا سفر توجہ کا مرکز بن گیا۔ امریکہ گذشتہ کئی سالوں سے اس حقیقت سے چشم پوشی اختیار کرتا آ رھا تھا کہ افغانستان کے ان بم دھماکوں میں استعمال ھونے والے امونیم نائٹریٹ کی کثیر مقدار پاکستان سے حاصل کی گئی تھی جن میں امریکی فوجی اپاھج ھوئے تھے۔
امریکی فوج نے 2007ء میں، جب عراق کی جنگ اپنے عروج پر تھی، ایک رپورٹ شائع کی جس میں کھا گیا تھا کہ ان غیر ملکی دھشت گرد عناصر کا 45 فیصد حصہ سعودی شھریوں پر مشتمل ہے جو امریکی فوجیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس کے باوجود، آج واشنگٹن میں یہ بحث کی جا رھی ہے کہ آیا اخوان المسلمین مصر اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کو دھشت گرد گروھوں کی فھرست میں شامل کیا جائے یا نھیں۔
دوسری طرف خلیج عرب سنی ریاستوں کی سرپرستی میں دھشت گردانہ نیٹ ورکس مسلسل بڑھتے جا رھے ہیں۔ دھشت گردی سے مقابلے کی پالیسی حقیقی خطرات کا جائزہ لینے پر مبنی ھونے کی بجائے حامیوں کی توجہ مبذول کرنے کی حد تک گر چکی ہے۔ امریکہ کو دھشت گردی کے درپردہ اور اعلانیہ حامیوں سے مختلف قسم کا رویہ ترک کرنا ھو گا۔ سعودی عرب کی جانب سے شدت پسندی کے خاتمے کی بجائے اسے کنٹرول کرنے کی گوناگون کوششوں پر اس کی ایک حقیقی اتحادی کے طور پر تعریف و تمجید نھیں کرنی چاھئے۔ اسی طرح ان ممالک سے تعلقات پر نظرثانی کی ضرورت ہے جو خفیہ طور پر دھشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔
ایک غفلت کا تاوان
دھشت گردی کے خلاف جنگ کے اسٹریٹجک ماھرین کو چاھئے کہ وہ طویل مدتی نقطہ نظر اختیار کریں اور اس حقیقت کو قبول کریں کہ دھشت گرد گروھوں کی حامی حکومتیں ان گروھوں کے اقدامات کی ذمہ دار ہیں حتی اگر یہ دھشت گرد گروہ اپنی حامی حکومتوں کے احکامات کی پیروی نہ بھی کرتے ھوں اور خود انھیں بھی نشانہ بناتے ھوں۔ جس طرح پاکستان سعودی عرب کی جانب سے وھابی دھشت گردی کی حمایت پر آنکھیں بند رکھنے کا بھاری تاوان ادا کر چکا ہے، امریکہ اور مغربی ممالک بھی آھستہ آھستہ سعودی عرب اور قطر کے دھشت گردوں سے تعلقات سے بے اعتنائی برتنے کے نتائج محسوس کر رھے ہیں۔
بھتر تو یہ ہے کہ "دھشت گردی کی سب سے بڑی حامی حکومت" کی اصطلاح سفارتی ڈکشنری سے بالکل نکال دی جائے کیونکہ یہ اصطلاح ایک ملک کو توجہ کا مرکز بنا دیتی ہے جبکہ دیگر ممالک اس کے پیچھے چھپنے میں کامیاب ھو جاتے ہیں۔
تحریر: آدم وائنشٹائن (Adam Weinstein) کالم نگار ھفنگٹن پوسٹ﴾
دھشت گردی کی سب سے بڑی حامی حکومت کون؟
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1544