www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

201455
بوھری اور آغاخانی میں فرق جانے سے پھلے ان کی مختصر تاریخ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے درحقیقت دونوں کی اصل ایک ہے اور دونوں عقیدے کے لحاظ سے شش امامی ہیں پھر فرق کیا ہے اس بارے میں جانے کے لیے تاریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
ان کی تاریخ کیا ہے اور کیا بوھری اور آغا خانی مسلمان ہیں؟
امام جعفر صادق علیہ السلام کے کئی بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے حضرت اسماعیل تھے۔ امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں ھی کچھ لوگوں نے تصوّر کرنا شروع کر دیا تھا کہ امام صادق علیہ السلام کے بعد اسماعیل ھی امام ھوں گے۔ لیکن حضرت اسماعیل کی وفات امام صادق علیہ السلام کی زندگی میں ھی ھو گئی، امام صادق علیہ السلام بعض لوگوں کے اس عقیدے کو جانتے تھے کہ اسماعیل کو ھی وہ امام سمجھتے ہیں، چنانچہ امام علیہ السلام نے اسماعیل کی وفات کے بعد ان کا جنازہ لوگوں کو دکھایا اور لوگوں کی معیت میں ھی ان کی تجھیز و تکفین کی تاکہ کوئی اسماعیل کی وفات سے انکار نہ کر سکے۔
جب امام صادق علیہ السلام کی شھادت ھوئی تو ان کی وصیّت کے مطابق اکثر شیعوں نے امام کاظم علیہ السلام کو امام مان لیا، لیکن ایک جماعت نے کھا کہ اسماعیل بڑے بیٹے تھے، اب وہ نھیں تو ان کی اولاد میں امامت رھنی چاھئے، لھذا اس گروہ نے ان کے بیٹے کو امام مان لیا اسی وجہ سے یہ لوگ اسماعیلی کھلائے۔
کچھ لوگوں نے امام صادق علیہ السلام کے ایک اور بیٹے عبداللہ افطح کو امام مانا، یہ لوگ فطحی کھلائے۔ جن لوگوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی شھادت کے بعد امامت کو حضرت اسماعیل کی نسل میں مان لیا تو آگے چل کر ایک وقت آیا جب ان اسماعیل کی اولاد میں سے ایک شخص مھدی کو مصر میں خلافت ملی جھاں اس نے خلافت فاطمی کی بنیاد رکھی۔ یہ خلفاء بھت شان و شوکت سے وھاں حکمرانی کرتے رھے، قاھرہ شھر اور جامعۃ الازھر کی بنیاد انھی اسماعیلی خلفاء نے رکھی۔ اور اس وقت تک یہ باعمل قسم کے شیعہ تھے لیکن اثنا عشری نہ تھے۔
ایک نسل میں ان کے ھاں خلافت پر جھگڑا ھوا، مستعلی اور نزار دو بھائی تھے، مستعلی کو خلافت ملی۔ لیکن لوگوں میں دو گروہ ھوئے، ایک نے مستعلی کو امام مان لیا اور ایک گروہ نے نزار کو مان لیا۔ مستعلی کو ماننے والوں کو مستعلیہ کھا جاتا ہے جو آج کل کے بوھرہ ہیں اور نزار کے ماننے والوں کو نزاریہ کھا جاتا ہے جو آجکل کے آغا خانی ہیں۔
لیکن چونکہ خلافت مستعلی کو ملی تو نزاری فرار ھو کر ایران آئے اور وھاں قزوین نامی شھر کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا جھاں کئی برس تک جاہ و حشم کے ساتھ انھوں نے حکمرانی کی۔ حسن بن صباح کے دور میں ان کو عروج حاصل ھوا اور ان کی فدائین کی تحریک بھت کامیاب ھوئی اور پوری سرزمین ایران میں اپنی دھشت بٹھا دی۔ بعد میں ان کا امام “حسن علی ذکرہ السّلام” آیا جس نے ظاھری شریعت ختم کردی اور صرف باطنی شریعت برقرار رکھی، کھا جاتا ہے کہ 19 یا 21 رمضان تھی جب اس امام نے ظاھری شریعت ھٹائی تھی، انھوں نے اپنے امام کے حکم پر اپنے روزے توڑے اور کھنے والے کھتے ہیں کہ انھوں نے شراب سے افطار کیا۔ کیونکہ ان کے امام نے یھی حکم دیا تھا کہ ظاھر شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نھیں، اپنے باطن کی تربیت کرو یھی کافی ہے۔
یھی وجہ ہے کہ آغا خانیوں کو فرقۂ باطنیہ بھی کھا جاتا ہے۔ آغا خانی ایک طویل عرصے تک ایران میں مقیم رھے، ان کے امام کو “آغا خان” کا لقب بھی ایران کے قاجاری حکمران نے دیا تھا۔ شاہ ایران نے آغا خان کو کرمان کے قریب “محلاّت” نامی جگہ پر ایک وسیع جاگیر بھی عطا کر رکھی تھی جھاں آغاخان مکمّل داخلی خودمختاری کے ساتھ حکومتت کرتا تھا، یھی وجہ ہے کہ ان کے اس امام کو “آغا خان محلاّتی” بھی کھا جاتا ہے۔
لیکن انگریزوں کی تحریک پر آغا خان اوّل نے ایرانی قاجاری سلطنت کے خلاف بغاوت کر دی لیکن جب اس کو شکست ھوئی تو بھاگ کر ھندوستان میں پھلے سندھ اور پھر بمبئی شفٹ ھوا۔ انگریزوں نے ان کو “سر” کا خطاب دیا اور بھت عزّت و تکریم کی۔ ان کی وفات ھندوستان میں ھی ھوئی اور ان کے بعد امامت ان کے بیٹے کو ملی جو تحریک پاکستان کے ابتدائی رھنماؤں میں سے رھی ہے۔
صدرالدّین آغا خان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے کی موجودگی میں ھی انھوں نے اپنے پوتے “پرنس کریم” کو جانشین بنایا جن کی والدہ یورپی تھیں اور مغربی بودو باش رکھتے تھے۔ یھی وجہ ہے کہ اب اسماعیلیوں کی امامت کا مرکز “محلاّت، کرمان” سے نکل کر “بمبئی ھندوستان” آیا اور وھاں سے اب مغرب منقتل ھو گیا۔
دوسری طرف بوھریوں کی خلافت ایک طویل عرصے تک مصر میں رھی لیکن صلیبی جنگوں کے زمانے میں صلاح الدّین ایّوبی نے پے در پے حملوں کے بعد اس شیعہ اسماعیلی حکومت کو ختم کر دیا۔ جب مصر میں بوھریوں کی امامت ختم ھوئی تو انھوں نے ھندوستان و یمن کو اپنا مرکز بنالیا البتہ یہ لوگ باعمل مسلمان ہیں اور پابندی سے نماز وغیرہ پڑھتے ہیں۔ ان کی امامت کا سلسلہ خلافت فاطمی کے ختم ھوتے ھی ختم ھو چکا ہے، البتہ ان کے ھاں داعیوں کا سلسلہ شروع ھوا۔ موجودہ برھان الدّین ان کے داعی ہیں جن کا انتقال پچھلے دنوں ھوا۔
آگے چل کر بوھریوں کے ھاں بھی دو فرقے ھوئے؛ 1) داؤدی بوھرہ اور 2) سلیمانی بوھرہ۔
ان کا اختلاف محض علاقائی ہے۔ داؤدی بوھروں کے داعی ھندوستانی ھوتے ہیں اور گجرات کے شھر سورت میں ان کا مرکز ہے جبکہ سلیمانی بوھروں کے داعی یمن میں ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ھندوستان کے جنوبی علاقوں میں بھی ہیں۔
البتہ پاکستان میں بھی سلیمانی بوھروں کی ایک قلیل تعداد ہے۔ داؤدی بوھرہ کے لوگ بھت آرام سے پھچانے جاتے ہیں کیونکہ ان کے مرد مخصوص لباس پھنتے ہیں اور ان کی عورتیں ایک مخصوص حجاب کرتی ہیں، جبکہ سلیمانی بوھرہ پھچانے نھیں جاتے کیونکہ ان کا کوئی مخصوص لباس نھیں ہے۔
جھاں تک ان کے اسلام کا تعلّق ہے تو بوھریوں کے مسلمان ھونے میں کوئی شبہ نھیں جب تک کہ یہ کسی امام کو گالی نہ دیں۔ کھتے ہیں کہ ایک زمانے تک یہ امام موسی کاظم علیہ السلام کو گالیاں دیتے تھے جو بقول ان کے امامت کو غصب کر بیٹھے (نعوذباللہ)۔
لیکن یہ روش انھوں نے چھوڑ دی تبھی آیت اللہ ابوالحسن اصفھانی کے دور میں ان کو نجف و کربلا زیارت کی اجازت دی گئی۔ وھاں موجود ضریحوں اور حرم کی تعمیر اور چاندی سونے میں بوھریوں نے کافی مدد کی۔ بوھری اب بھی جوق در جوق کربلا اور نجف زیارت کے لئے جاتے ہیں اور شیعہ مراکز کے دروازے بوھریوں کے لئے کھلے ہیں۔
دوسری طرف آغاخانیوں کا اسلام اس لئے مشکوک ہے کیونکہ یہ ضروریات دین میں سے کئی چیزوں کے منکر ہیں۔ نماز کے بارے میں تو ھم نھیں کہہ سکتے کیونکہ یہ نماز سے انکار نھیں کرتے لیکن نماز کا طریقہ الگ ہے۔ جو چیز ان کے اسلام کو مشکوک بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ “حلول” کے عقیدے کو مانتے ہیں۔ ان کے مطابق اللہ کا نور علی(ع) میں حلول کر گیا اور علی(ع) کا نور ان کے ھر امام میں آتا رھا، ان کے حساب سے پرنس کریم آغا خان اس وقت کا علی(ع) ہے، اور جب یہ لوگ “یاعلی مدد” کھتے ہیں تو ان کی مراد ھماری طرح مولا علی(ع) نھیں ھوتے بلکہ پرنس کریم آغا خان ھوتے ہیں۔
لیکن ھمارے لوگ خوش فھمی کا شکار ھوتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی انھوں نے بھی سلام کے طور پر یاعلی مدد کھنا شروع کیا۔ آغا خانیوں میں ایک اور خرابی یہ ہے کہ وہ “معاد جسمانی” کے منکر ہیں یعنی ان کے نزدیک میدان حشر، پل صراط، جنّت و جھنّم کا کوئی ظاھری وجود نھیں بلکہ یہ کنایہ ہے۔ اور ان کا عقیدہ ہے کہ ھم اس جسم کے ساتھ حشر کے دن نھیں اٹھائے جائیں گے۔ “معاد جسمانی” ھماری ضروریات دین میں سے ہے اور جو اس کا قائل نھیں تو اس کے اسلام پر حرف آتا ہے۔

Add comment


Security code
Refresh