جدید ذرائع رسل و رسائل کی ایجاد سے قبل انسانوں کا زیادہ سفر باربرداری کے جانوروں پر ھوتا تھا۔ اس مقصد کے لئے گھوڑا، اونٹ، خچر، گدھا اور ھاتھی کا استعمال عام تھا۔ جن حضرات کو یہ سواریاں میسر نہ ھوتی تھیں، وہ دور دراز علاقوں کے سفر پا پیادہ کیا کرتے تھے۔
جزیرہ عرب میں دین اسلام کے ظھور کے بعد ایک نئی ثقافت نے جنم لیا۔ اس ثقافت کے پس منظر میں وہ روایات تھیں، جن میں پا پیادہ حج کی فضیلت کو بیان کیا گیا تھا۔ ان روایات کے سبب بھت سے افراد نے پا پیادہ حج کا آغاز کیا۔ پا پیادہ حج کا سلسلہ گذشتہ چند سو سال تک جاری رھا بلکہ اب بھی بعض ملکوں کے شھری پا پیادہ حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں، اگرچہ ان افراد کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ھزاروں میل کا سفر پا پیادہ کرنا یقیناً جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس کے لئے خاصا وقت درکار ہے اور پھر ذرائع رسل و رسائل کی دستیابی کے بعد یہ کام کچھ غیر منظقی سا محسوس ھوتا ہے، مگر اب بھی کچھ دیوانے ایسے ہیں جو یہ غیر منطقی کام کرتے ہیں، ان کی نیت اور مشقت کا ثواب یقیناً رب کائنات کے ھاں ھی ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس کو بیت اللہ کی جانب پا پیادہ سفر کی حسرت تھی، کیونکہ وہ کھتے ہیں کہ میں نے رسول خدا (ص) کو کھتے سنا کہ پا پیادہ حج کرنے والے کے اعمال کا ثواب ستر ھزار گنا زیادہ ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کوئی عبادت خاموشی اور اللہ کے گھر کی جانب پیادہ روی سے افضل نھیں ہے۔ الخصال ج 1 ص 35
آئمہ اھل بیت علیھم السلام اور اصحاب رسول حج بیت اللہ کے لئے اکثر پا پیادہ جایا کرتے۔ حضرت امام حسن علیہ السلام نے بیس حج پا پیادہ کئے جبکہ سواری موجود ھوتی تھی۔ اسی طرح امام حسین علیہ السلام اور باقی آئمہ نے بھی متعدد پاپیادہ حج کئے۔
روایات معصومین علیھم السلام میں حج بیت اللہ کے بعد جس زیارت کی بھت زیادہ تاکید کی گئی، وہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا سفر ہے۔ اس مورد میں بے پناہ روایات موجود ہیں، حتٰی کہ مختلف عیدوں اور اھم ایام کے موقع پر زیارت امام حسین علیہ السلام کی تلقین کی گئی ہے۔ وہ لوگ جو اس زیارت کے لئے حرم امام تک پھنچ پائیں، وہ ضرور پھنچیں، لیکن جو لوگ ایسا نہ کر پائیں، وہ اپنے محل سکونت سے قبر حسین علیہ السلام کی جانب اشارہ کریں اور زیارت امام حسین تلاوت کریں۔ اس تاکید سے اندازہ ھوتا ہے کہ زیارت امام حسین علیہ السلام کا عمل کس قدر اھمیت کا حامل ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی زیارت اور غم منانے کے علاوہ کسی دوسرے امام کے بارے میں اس قدر تاکید نھیں کی گئی۔
اس تاکید کا ھی اثر ہے کہ آج لاکھوں نھیں بلکہ کروڑوں انسان حرم امام حسین علیہ السلام کی جانب عازم سفر ہیں۔ حج بیت اللہ میں پیادہ روی کی روایت سے استفادہ کرتے ھوئے اب امام حسین علیہ السلام کے زائرین بھی پا پیادہ یہ سفر کرتے ہیں۔ عراق میں اسی عمل کو ’’مشی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، جس کا آغاز عراق بھر سے اربعین کے موقع پر ھوتا ہے۔
عراق کے دور دراز شھروں، دیھاتوں، قصبوں سے لوگ پیدل زیارت امام حسین علیہ السلام کے لئے نکل کھڑے ھوتے ہیں، سینکڑوں کلومیٹر کا سفر عشق کے زور پر انجام پاتا ہے، ورنہ جو لوگ یہ سفر کر رھے ھوتے ہیں، ان کی حالت کو دیکھا جائے تو انسان یقین نھیں کرسکتا کہ یہ افراد دس کلومیٹر بھی پیدل چل پائیں گے۔ بزرگ، معذور، بچے، خواتین اور جوان اربعین حسینی کے لئے حرم امام کی جانب رواں دواں ہیں۔
مشی کی اس روایت نے عالم اسلام میں ایک منفرد روایت کو جنم دیا ہے۔ حرم امام حسین علیہ السلام کی جانب آنے والی ھر شاھراہ مشی کرنے والے زائرین کی خدمت اور عزاداری کا مرکز بن چکی ہے۔ ان زائرین کو سھولیات مھیا کرنے کے لئے عراق کے مقامی شھری تن من دھن کی قربانی دینے پر آمادہ ہیں، تاکہ زائرین امام حسین علیہ السلام کو زیادہ سے زیادہ سھولت مھیا کریں اور زیارت کے اس ثواب میں حصہ دار بنیں۔
اربعین حسینی کا یہ اجتماع جو آھستہ آھستہ اپنی منزل کی جانب گامزن ہے، دنیا کے عظیم ترین اجتماعات میں سے ایک ہے۔ عراقی شھریوں کی خدمت اپنی جگہ مگر سفری صعوبتیں، دھشت گردی کے خطرات بدستور رھتے ہیں۔ ھر سال اربعین کی مشی کے دوران دسیوں زائرین دھشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
زائرین کو معلوم ہے کہ اس سفر میں ان کی جان جانے کے قوی امکانات موجود ہیں، کسی وقت بھی کوئی دشمن، تکفیری حملہ آور ھوسکتا ہے، یعنی یہ سفر قطعاً بھی پرامن سفر نھیں ہے، اس کے باوجود کروڑوں انسان اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر عازم سفر ہیں۔ یہ ایک بدیھی امر ہے کہ انسان کے لئے عزیز ترین متاع اس کی زندگی ھی ہے، لیکن حسین ابن علی علیہ السلام تاریخ انسانیت کا وہ عظیم باب ہیں، جن کا عشق انسان کو اس کی عزیز ترین متاع سے بے بھرہ کر دیتا ہے۔ لوگ اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر ایک سلام کرنے ان کے مزار پر حاضر ھوتے ہیں۔ جو جاتا ہے وہ عجیب کیفیت سے گزرتا ہے اور جو نھیں جا پاتا اس کی حالت بھی دیدنی ھوتی ہے۔ ان تمام کیفیات کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن نھیں تو نھایت مشکل ضرور ہے۔
ایسا محسوس ھوتا ہے، جیسے یہ سفر ھی انسان کی کل کائنات ہے۔ ھر قسم کی مشکل خواہ بدنی ھو یا مالی، خانوادگی ھو یا کاروباری، اس آرزو کے سامنے بھت کم تر نظر آتی ہے۔ وسائل کی عدم دستیابی اس سفر کی راہ میں رکاوٹ نھیں بن سکتی۔ بس بلاوا آجائے، انسان کے وجود میں زیارت کی تڑپ پیدا ھو جائے، فقیر ترین انسان اس ایک سلام کی غرض سے نکل کھڑا ھوتا ہے۔ کربلا میں اربعین کے موقع پر جمع ھونے والے ان کروڑوں انسانوں کو واپس ایک ایک انسان پر لے آئیں۔ یہ وہ کروڑوں انسان ہیں، جن میں سے ھر ایک کو حسین (ع) کی محبت نے پکارا ہے۔ ھر انسان اپنی مشکلات کو پس پشت ڈال کر عازم سفر ھوا ہے۔ ھر شخص نے ھر قسم کی صعوبت کو برداشت کیا ہے، موت کے خوف سے جنگ کی ہے، پردیس کے غم کو جھیلا ہے، اپنی آرام دہ زندگی کو ترک کیا ہے کہ وہ آکر محمد مصطفٰی (ص) کے فرزند کو نذرانہ عقیدت پیش کرسکے۔
یہ مشی اربعین کوئی عام مشی نھیں ہے، یہ مادیت سے روحانیت کی جانب سفر ہے۔ یہ سفر حج کی مانند ایک بدنی و روحانی مشق ہے، جس مشق کا اھم ترین درس عشق حسین (ع) ہے۔ عشق حسین (ع) یعنی حسین (ع) کی اطاعت، حسین (ع) کی اطاعت یعنی خدا اور اس کے پاک رسول (ص) کی اطاعت، اسلام کی سربلندی، یزیدیت کا انکار، اس کے خلاف میدان جنگ میں حاضری، ھر قربانی کے لئے خود کو آمادہ کرنا، اپنا سب کچھ اس راہ میں قربان کرنے کا درس۔ خداوند کریم ھم سب کو اس عظیم سفر کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین﴾
تحریر: سید اسد عباس
مشی اربعین۔۔ پا پیادہ سفر عشق
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1363