سینکڑوں برس ھوچلے ہیں، کروڑوں انسان اس آرزو کو لئے منتظر پھر رھے ہیں کہ آپؑ تشریف لے آئیں۔ باپ بیٹوں کو ان کی آمد کا مژدہ سناتے چلے گئے، مائیں آج بھی بچوں کو ان کے انتظار کی گھٹی پلا کر جوان کرتی ہیں۔ خواتین، مرد، بچے، بوڑھے، جوان ھر مذھب، مسلک، مکتب اور خطہء ارضی و سماوی کی مخلوقات اور آدم زاد ان کی آمد کی حسرت دل میں لئے زندگی کے سفر کو طے کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ پھول، کلیاں، گلستان، خوشبو بکھیرتے ہیں، شمع آپؑ کے فراق کو برداشت نھیں کر پاتی اور لاکھوں اشک بھا کر آپؑ سے التفات کا اظھار کرتی ہیں۔ بُلبل اپنی زبان میں آپؑ کی تڑپ میں غزل سرا رھتا ہے، عاشقان خون کے آنسو بھا کر آپؑ کی یاد میں مارے مارے پھرتے ہیں، ھر ایک آپؑ کے دیدار کا مشتاق ہے، ھر ایک آپؑ سے ارتباط کا خواھش مند ہے، ھر ایک آپؑ کی زیارت کیلئے تڑپتا ہے۔۔۔۔۔ یہ تڑپ، یہ بے قراری، یہ آرزوئے ملاقات، یہ خواھش دیدار۔۔۔۔۔ وقت گذرنے کے ساتھ مایوسی نھیں پھیلاتے بلکہ ۔۔۔۔۔ آتش عشق و آرزوئے وصال میں شدت پیدا کر رھے ہیں۔ لہٰذا دعائیں کی جاتی ہیں کہ دیدار نصیب ھو ۔۔۔۔۔ مناجات و ورد کیا جاتا ہے کہ آپؑ کی زیارت ھو، آنسو بھائے جاتے ہیں کہ مولاؑ تشریف لے آئیں اور دنیا کو ظالموں سے آزاد کروائیں۔
کیسی کیسی اُمیدیں ہیں جو آپ کے ظھور تک موقوف ہیں ۔۔۔۔۔ کتنے فیصلے ہیں جو صرف آپؑ کی آمد کے اعلان کے ساتھ مربوط ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ! وہ لوگ جو انتظار کر رھے ہیں، جنھیں آپؑ کا منتظر ھونے کا اعزاز حاصل ہے، جو آپؑ کے فراق میں تڑپتے ہیں اور وصال کیلئے آتش عشق کو جلائے ھوئے ہیں، اس دنیا کے خوش نصیب ترین لوگ ہیں ۔۔۔۔۔ 15 شعبان المعظم آپ کے میلاد پاک کا مبارک دن ہے، اس روز پوری دنیا میں عاشقان مھدی ، آپؑ کی یاد سے محافل کرتے ہیں، آپؑ کے ذکر سے لذت دیدار و تڑپ انتظار کے لطف اُٹھاتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ سچے اور کھرے عاشقان ھر دم و ھر لحظہ اسی کیفیت سے دوچار رھتے ہیں، سچے اور کھرے عشق کا تقاضا بھی یھی ہے۔ آپ کا فرمان ہے کہ "میں خاتم الاوصیاء ھوں، اللہ عزوجل میرے وسیلہ سے میرے خاندان اور میرے شیعوں کے مصائب و مشکلات ٹال دے گا" اور آپؑ کا یہ فرمانا کس قدر خوبصورت ہے کہ "میری غیبت کے زمانہ میں مجھ سے عوام کو اس طرح فائدہ پھنچے گا، جس طرح سورج بادلوں کی اوٹ میں چلا جائے تو اس کے فوائد زمین والوں کو حاصل ھو رھے ھوتے ہیں۔"
آج ھم پوری دنیا میں جن مشکلات سے دوچار ہیں، ان کو سوچ اور سمجھ کر کئی ایک بار ایسا محسوس ھوتا ہے کہ بڑی تباھی آنے والی ہے اور ناگھانی آفات گھیرنے والی ہیں، مشکلات اور مصائب پھاڑ بن کر سامنے آجاتے ہیں اور نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نھیں دے رھی ھوتی کہ ۔۔۔۔۔ یکایک مشکلات ٹل جاتی ہیں، مصائب اور پریشانیاں کافور ھوجاتی ہیں، غالب دکھائی دینے والا دشمن مغلوب ھوجاتا ہے، کسی کے وھم و گمان اور سوچ و فکر میں بھی نھیں ھوتا کہ یوں مشکلات سے جان چھوٹ جائے گی، مگر ایسا ھوتا ہے اور ایک بار نھیں بار بار ھوتا ہے ۔۔۔۔۔ یھی وہ فائدہ ھوتا ہے جو بادلوں کی اوٹ سے سورج پھنچا رھا ھوتا ہے ۔۔۔۔۔ اور اس وجہ سے ھم کھتے ہیں کہ ھم (اھل تشیع) بغیر صاحبؑ ( سرپرست و ولی) کے نھیں ہیں۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ھم اس کا ادراک کریں یا نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ھم ایسے الطاف و کرم پر آپؑ کی طرف متوجہ ھوں یا نہ ھوں ۔۔۔۔ ان کا لطف و کرم جاری رھتا ہے، ان کے کرم کے سایہ کی چھت ھمیشہ تنی رھتی ہے۔
دوستان و عاشقان حضرت صاحب الامر و الزمان کی صف میں شمار ھونا یقیناً ایسی سعادت و عبادت ہے، جس کا شاید کوئی تقابل نہ ھو، مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس مقام و مرتبہ کو پانے کیلئے جس پاکیزگی قلب، طھارت روح و نظر انسانیت سے محبت، درد مند دل اور تقویٰ و پرھیز گاری کی ضرورت ہے، وہ ھم میں بدرجہ اتم موجود ہے۔۔۔۔۔ ھمیں اس روز (15 شعبان) کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اپنے روز مرہ معمولات پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اگر ھم اپنا احتساب کر رھے ھوں تو حقیقی منتظر کھلانے کے حق دار ھونگے۔ دوستان و خواھران محترم! آج کے دن اس بات کا جائزہ ضرور لیں کہ ھم جس امام کا انتظار کر رھے ہیں، ان کی آمد کے بعد معاشرے میں کونسی تبدیلیاں پیدا ھونگی، اگر ھم ان تبدیلیوں کیلئے آج سے ھی کوشش شروع کر دیں تو یہ زمینہ سازی آپؑ کی خوشنودی کا باعث بن جائے گی۔۔۔۔۔
اگر امامؑ کی آمد پر مستضعفین مستکبروں پر غالب آنے والے ہیں اور کمزور قرار دیئے گئے لوگ غالب قرار پائیں گے، عدل و انصاف کا بول بالا ھوگا تو اس کام کیلئے آج ھی سے کوششیں کیوں نہ شروع کی جائیں۔ دردمندوں اور زخم خوردوں کیلئے مرھم کیوں نہ فراھم کیا جائے، اگر ھمارے دل مظلوموں و ستم رسیدوں کیلئے تڑپنے سے قاصر رھتے ہیں، ھماری نگاھیں اپنے سامنے ظلم ھوتا دیکھتی ہیں اور لاتعلق ھو جاتی ہیں تو معاملہ درست نھیں ہے، اگر ھمارے آس پاس، ھمارے شھروں، ھمارے دیھاتوں اور ھمارے محلوں میں ظلم ھو رھا ھو، اسے روکنے کی جرات نہ کی جائے اور مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی جائے یا لاتعلقی کا مظاھرہ کیا جائے تو کیسے امامؑ کی ھمرکابی میں ظالموں کے خلاف میدان سجایا جائے گا۔ عدل کی حکومت تمام عالم پر قائم کرنے کیلئے آج سے ھی تبدیلی کی تحریک کیوں نہ شروع کی جائے۔ یاد رکھیں، معاشرے میں تبدیلی ذات میں تبدیلی سے مشروط ہے۔ معاشرہ سازی کا عمل خود سازی کے راستہ سے ھوکر گذرتا ہے۔
حدیث پاک ہے کہ "جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرا، وہ جاھلیت کی موت مرا" امام العصرؑ کی معرفت کے زینے طے کرنے کیلئے میدان عمل میں رھنا ضروری ہے اور جو دوست و خواھران میدان عمل میں رھتے ہیں، انھیں خود احتسابی کی عادت ضرور ڈالنی چاھیئے۔ ھر عمل کا جائزہ لیں کہ یہ خدا کی طرف پرواز اور قربت کا باعث ہے یا دشمنان خدا سے تعلق کی مضبوطی کا ذریعہ ہے۔ اگر سفر بہ خدا ہے تو یقیناً ھم زمانے کے امام کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ھوں گے۔
یوم میلاد امام زمانہؑ کے دن خود احتسابی و جائزہ اعمال کے طور پر منائیں۔ اُمید ہے کہ اگر ھم نے احتساب و جائزہ اعمال کیا تو ھماری بے قراری، ھماری دعائیں، ھماری مناجات، ھماری خواھش دیدار و ملاقات اور آرزوئے وصال معرفت امامؑ کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور ھم حقیقی منتظر کھلا سکیں گے۔
ایک دوست نے کھا کہ کھا جاتا ہے کہ امام حکم ربی سے غائب ہیں اور امر ربی سے ھی ظھور فرمائیں گے، اس صورت میں ھمیں دعائیں مانگنے، گڑگڑانے اور آنسوؤں کیساتھ مناجات اور ظھور کی دعائیں کرنے کی کیا ضرورت ہے، وہ امر ربی سے ظاھر ھونگے، ھماری دعائیں انھیں کیسے ظھور پر مجبور کرسکتی ہیں۔ بندہ حقیر نے عرض کیا کوئی شک نھیں کہ امام کی غیبت امر ربی سے ھوئی اور ان کا ظھور بھی امر ربی سے ھی ھوگا، اس لئے کہ امر ربی کے سامنے کسی کو بھی سرتابی کی جرات نھیں، چاھے کوئی بھی ھو۔ اس لئے آپ کا ظھور پرنور امر ربی سے ھوگا، اللہ جب چاھے گا انھیں ظھور کا اذن فرمائیں گے، مگر بقیۃ اللہ اعظم خود انتظار فرما رھے ہیں اپنے ظھور کا، اسی لئے آپ متظِر بھی ہیں اور منتظر بھی، جب وہ بھی منتظِر ہیں کہ ظاھر ھو کر ظلم کا خاتمہ کر دیں تو ان کا بیقراری میں فرمانا ہے کہ میرے جلد ظھور کی دعا کرو، یہ بھت بڑی عبادت کھی گئی ہے۔
آپ کی غیبت بلا شک و شبہ ایک الٰھی راز اور سر ہے، اس راز سے آئمہ طاھرین نے بھی پردہ نھیں اٹھایا، ھم بھی نھیں اٹھاتے، بس انتظار کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا اپنی آخری حجت کو جلد اذن ظھور دے، ھمارا جلد ظھور کی دعا کرنا اس بات کی علامت ہے کہ ھم مایوس نھیں، ھم ان سے امید لگائے بیٹھے ہیں، ھم ان سے محبت اور عشق و عقیدت رکھتے ہیں، ھم تیاری کر رھے ہیں کہ ظالموں کو نابود کر دیں اور اس راہ کو ھموار کر رھے ہیں، زمینہ سازی کر رھے ہیں، زمینہ سازی یعنی ظھور کی راھیں ھموار کرنا، اس میں طھارت و پاکیزگی نفس سب سے پھلے ہے، تھذیب نفس سے ھی معاشرہ سازی کی طرف قدم اٹھائے جاتے ہیں، ھمیں اس مقصد کیلئے دو رنگی کو چھوڑنا ھوگا، دو رنگی امام کے سپاھیوں میں نھیں چلتی، یہ کیسے ممکن ہے کہ لشکر حسین میں شامل ھوں اور عملی طور پر شمر، خولی، یزید، عمر ابن العاص، امیر شام کے کردار و عمل کے نمونے پیش کرو جبکہ امام کے سپاھیوں کو ابوذر، عمار، مالک اشتر، میثم تمار بننا ھوگا۔
اب دیکھیں کہ کون کتنے پانی میں ہے، آیا ھم اس قابل ہیں کہ خود کو ان مثالی لوگوں، سپاھیان امام کے ساتھ کھڑا کرسکنے کی جرات کریں؟ ھمارے دلوں میں دنیا کی محبت نے گھر کیا ھو اور ھم امام کے سپاھی بن جائیں، یہ ممکن نھیں۔ کوئی اس دھوکہ و فریب میں نہ رھے کہ وہ سچی بیقراری کے بغیر امام کا سپاھی بن جائے گا اور امام کی قربت اسے حاصل ھوجائے گی۔
ھمیں اپنا محاسبہ کرنا ھوگا، اس سے پھلے کہ کوئی عدل نافذ کر دے اور ھم آمادہ و تیار ھی نہ ھوں۔ ذرا جائزہ لیں کہ ھماری محبت اور تڑپ علی ابن مھزیار جتنی ہے، جس نے کتنے ھی حج اس امید اور تڑپ کے ساتھ انجام دیئے کہ دیدار نصیب ھوجائے اور بالآخر اسے یہ سعادت نصیب ھوگئی، ملاقات ھوگئی، محفل یاران میں بیٹھے کا اذن نصیب ھوا۔ ھمیں جائزہ لینا ہے، ھمیں احتساب کرنا ہے، ھمیں دنیا کی آلائشوں اور فساد سے خود کو دور رکھنا ھوگا۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر
شائد دیدار نصیب ھو جائے!
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1578