دھشت گردی کی بھت سی شکلیں اور چھرے ہیں، لیکن ان میں سے سب سے زیادہ خوفناک صورت بے رحم دھشت گردی ہے۔ ھم سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس بات پر یقین کر لیں کہ دھشت گرد درحقیقت ایسے نفسیاتی مریض ہیں جو بم، مشین گنوں اور خودکش جیکٹس کے ساتھ ادھر سے ادھر چکر کاٹتے رھتے ہیں۔ ھم سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ھم اپنے ذھن میں دھشت گردوں سے متعلق ایسا تصور قائم کر لیں۔ ان میں سے اکثریت داڑھی والوں کی ہے۔ وہ سب غیر مغربی دکھائی دیتے ہیں۔
مختصر یہ کہ وہ خواتین کو مارتے پیٹتے ہیں اور یونانی اور رومی مجسموں کو مسمار کرتے ہیں۔ درحقیقت سرد جنگ کے دوران بعض "سفید پوست" دھشت گرد بھی موجود تھے۔ اٹلی اور یورپ کے بعض دیگر حصوں میں انقلابی گروھوں سے تعلق رکھنے والے بائیں بازو کے افراد۔ لیکن آج ھمیں اس حقیقت کا علم ھوا ہے کہ ان کی دھشت گردانہ سرگرمیاں سلطنت کا نتیجہ تھیں اور ان کے پیچھے یورپ کے کئی دائیں بازو کے ممالک اور انٹیلی جنس اداروں کا ھاتھ تھا۔
آپ کو یقیناً یاد ھوگا کہ نیٹو کے رکن ممالک نے کئی ٹرینوں کو سرنگوں کے اندر دھماکے سے اڑا دیا یا پورے کے پورے ریلوے اسٹیشنز کو ھوائی حملوں کا نشانہ بنا ڈالا اور یہ کام "ھونا ضروری تھا" تاکہ بائیں بازو والوں کو بدنام کیا جاسکے۔
لیکن دھشت گرد اس وقت مغرب میں مقبول ھوئے جب سابق سوویت یونین اور کمیونیسٹ بلاک ھزاروں اقتصادی، فوجی اور پروپیگنڈہ ھتھکنڈوں کے ذریعے ٹوٹا اور اب مغربی دنیا ایسے دشمن کی تلاش میں تھی، جس سے جنگ کرے اور افریقہ، ایشیا، مشرق وسطٰی اور لاطینی امریکہ میں اپنے جابرانہ اور بھیانک اقدامات کی توجیہہ پیش کرسکے۔
مغرب ایک "طاقتور" نئے دشمن کی تلاش میں تھا، تاکہ اس طرح اپنے عظیم فوجی اور انٹیلی جنس بجٹ کا جواز فراھم کرسکے۔ کولمبیا کے جنگلوں یا شمالی آئرلینڈ یا کوسٹاریکا میں چند صد بے وقوف دھشت گرد مغرب کے مطلوبہ اھداف کو تحقق بخشنے کیلئے کافی نہ تھے۔ وہ ایک ایسے دشمن کی تلاش میں جسے سابق سوویت یونین کی طرح واقعاً ایک عظیم اور "شیطانی خطرہ" بنا کر پیش کیا جاسکے۔ وہ ایک دم ایسے خطرے کے کس قدر مشتاق ھوچکے تھے۔ البتہ جو صرف ایک خطرے کی حد تک ھو، نہ ایسی قوت جس کے اھداف جغرافیائی سرحدوں سے بالاتر اور مغرب کی برابری کرنے پر استوار ھوں۔
یوں مغرب نے دھشت گردی کا ناطہ "اسلام" جیسے دین سے جوڑنے کی کوشش کی جو 1.5 ارب پیروکاروں کا حامل ھونے کے ناطے دنیا کی سب سے بڑی تھذیب و تمدن گمان کیا جاتا ہے۔ اسلام اس قدر عظیم اور طاقتور ہے کہ اس کے نام سے ایک مغربی دیھاتی علاقے میں رھنے والے اوسط درجے کے خاندانوں کو ڈرایا دھمکایا جاسکے۔ لیکن اس مقصد کے حصول کیلئے کافی محنت کی ضرورت تھی، کیونکہ اسلام اپنی ذات میں انصاف طلب اور امن پسند مذھب ہے۔ لھذا مغربی استعماری طاقتوں نے اسلام کو اپنے مطلوبہ دشمن میں تبدیل کرنے کی غرض سے پھلے سے موجود بے شمار مسلمان گروھوں اور تنظیموں کو شدت پسندی اور انحراف کی طرف سوق دینا شروع کر دیا۔ اس کے بعد اگلے مرحلے ایسے نئے گروہ اور تنظیمیں تشکیل دینے کا منصوبہ بنایا گیا، جنھیں ٹریننگ، اسلحہ اور پیسہ دے کر شدت پسندانہ اور غیر انسانی سرگرمیوں پر اکسایا جاسکے اور اس طرح مغربی عوام کو اسلام کے نام سے خوفزدہ کیا جاسکے۔
البتہ "دھشت گردی" خاص طور پر "اسلامی دھشت گردی" کو مغربی آمریت، نظریات اور برتری کی بقاء کیلئے ضروری قرار دینے کی ایک اور اھم وجہ اخلاقی اور ثقافتی اعتبار سے مغرب کی مکمل برتری کا تاثر قائم کرنا ہے۔ گذشتہ کئی صدیوں سے مغربی دنیا ایک پاگل اور خونی دیو کے طور پر عمل کرتی آئی ہے۔ مغربی میڈیا کی جانب سے دنیا بھر میں مغرب کی مقدس تصویر پیش کئے جانے کے باوجود سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مغربی استعماری طاقتیں دنیا کے ھر گوشے میں ظلم و ستم، قتل اور لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ دنیا کی جانب سے اس حقیقت کو درک کرنے میں کہ مغرب ایک شر اور زھریلی بیماری کے علاوہ کچھ نھیں فقط چند عشروں کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ لھذا مغربی سیاست دانوں نے اس حقیقت کو آشکار ھونے سے روکنے کیلئے ھر ممکن طریقہ اختیار کرنے کا عزم کر لیا۔
اس طرح مغربی مفکرین، تھنک ٹینکس اور پروپیگنڈہ مشینری ایک نئے اور روشن فارمولا لے کر میدان میں اتر آئے: "آئیں ایسا گروہ تشکیل دیں، جو ھم سے بھی زیادہ بدتر نظر آئے اور ھم سے بھی زیادہ وحشیانہ انداز میں عمل کرے۔ ایسی صورت میں ھم یہ پروپیگنڈہ کرسکتے ہیں، درحقیقت ھماری ثقافت ھی دنیا کی منطقی ترین اور دوسروں کو سب سے زیادہ تحمل کرنے والی ثقافت ہے۔ اس کے بعد اگلا ھتھکنڈہ استعمال کرتے ھوئے اپنے ھی پیدا کردہ گروہ کے ذریعے جنگ کی آگ بھڑکائیں اور آزادی اور جمھوریت کے نام پر اس سے مقابلے کا ڈرامہ رچائیں۔" یوں "دھشت گردوں" کی نئی نسل پیدا کی گئی۔ یہ نسل اب تک باقی اور زندہ و سلامت ہے اور اپنی تعداد میں اضافہ بھی کر رھی ہے۔ اب تک مغربی دھشت گردی کے بارے میں زیادہ گفتگو اور بحث نھیں کی گئی۔ اگرچہ اس دھشت گردی کی شدت پسند ترین اور وحشی ترین شکل بری طرح دنیا کو نابود کرنے میں مصروف ہے اور اس وقت تک دنیا بھر میں سینکڑوں ملین انسانوں کی جان لے چکی ہے۔
حتی طالبان، داعش اور القاعدہ جیسے مغربی لیجنر اور گلیڈیئٹر بھی وحشیانہ پن کی اس حد تک نھیں پھنچ سکے، جھاں مغربی دھشت گردی پھنچی ھوئی تھی۔ البتہ ان گروھوں کی تمام تر کوشش یھی ہے کہ اپنے ماضی کے ھمتاوں سے برابری کرسکین، لیکن ان جیسا وحشیانہ پن اور حیوانیت ان کے بس کی بات نھیں۔ "مغربی ثقافت" نے نسل کشی کی ایک محدود مدت میں 1 کروڑ انسانوں کی جان لے لی۔ لیکن حقیقی دھشت گردی کیا ہے اور داعش اور اس سے مشابھہ دیگر دھشت گرد گروہ کس طرح اس کے راستے پر چل سکتے ہیں؟ وہ کھتے ہیں کہ داعش دوسروں کی گردنیں اڑاتے ہیں۔ یہ بھت برا کام ہے، لیکن اس میدان میں داعش کا استاد کون ہے۔؟ کئی صدیوں سے یورپی سلطنتیں دنیا بھر کے تمام ممالک میں انسانوں کی قتل و غارت میں مصروف تھیں اور انھیں ٹارچر اور ظلم و ستم کا نشانہ بناتی رھتی تھیں۔ وہ مغربی طاقتیں جو خود براہ راست ایسے اقدامات انجام نھیں دیتی تھیں، اپنے استعماری نمائندوں سے مدد حاصل کرتے تھے اور انھیں مختلف ممالک میں بھیج کر نسل کشی جیسے اقدامات میں شریک کرتے تھے۔
کنگ لیوپولڈ ٹو اور اس سے وابستہ گینگز نے وسطی افریقہ کے مغرب اور مرکز جو آج کل کانگو کے نام سے جانا جاتا ہے، میں 1 کروڑ انسانوں کا قتل عام کیا۔ وہ جس طرح حیوانوں کا شکار کیا کرتا تھا، اسی طرح انسانوں کا شکار بھی کیا کرتا تھا اور انھیں اپنے کھیتوں میں کام کرنے پر مجبور کرتا تھا۔ اگر اسے کسی فرد کے بارے میں ھلکا سا شک بھی ھو جاتا تھا کہ وہ اب حکومتی خزانے کیلئے مفید ثابت نھیں ھوسکتا تو اس کے ھاتھ کاٹنے سے گریز نھیں کرتا تھا۔ وہ پورے کے پورے گاوں کو جھونپڑیوں سمیت جلا کر راکھ کر ڈالتا تھا۔ ایک کروڑ انسان اس کے ظلم و ستم کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اتنی تعداد میں انسان حتی "قرون وسطٰی" کے دور میں بھی قتل نھیں ھوئے تھے، لیکن بیسویں صدی میں خود کو جمھوری اور پارلیمانی سلطنتی کھلوانے والی حکومت نے یہ کام کر دکھایا۔ اس عظیم قتل عام کا موازنہ کیسے داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں جاری دھشت گردی سے کیا جا سکتا ہے؟ آئیں بعض اعداد و ارقام پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کیا ایسا موازنہ کیا جا سکتا ہے یا نھیں۔
1995ء کے بعد ایک بار پھر افریقہ میں مغربی استعماری طاقتوں کے نمائندوں روانڈا اور یوگنڈا نے ریاستی دھشت گردی کے دوران عوامی جمھوریہ کانگو کے ایک کروڑ شھریوں کا قتل عام کر ڈالا۔ جرمن حکام نے افریقہ کے جنوب مغربی حصے جو آج کل نمیبیا کے نام سے جانا جاتا ہے، میں متعدد ھولوکاسٹ کا اجراء کرتے ھوئے وسیع نسل کشی اور قتل عام کا بازار گرم کیا۔ اس قتل عام میں "ھرھرو" قبیلہ مکمل طور پر نابود ھوگیا یا کم از کم اس کے 90 فیصد باشندے موت کی گھاٹ اتار دیئے گئے۔ ابتدا میں اس قبیلے کے افراد کو اپنے گھروں سے نکال کر صحرا میں لے جایا گیا۔ اس کے بعد ان میں سے زندہ بچ جانے والوں کو جرمن نازی ان کا پیچھا کرکے انھیں قتل کر دیتے۔ اسی طرح جرمن قوم اور سفید فام انسانوں کی برتری کو ثابت کرنے کیلئے انسانوں پر کئی میڈیکل تجربات کئے جاتے تھے۔ وہ بے گناہ عام انسان تھے اور ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ سفید فام نھیں تھے اور ایسی سرزمین میں زندگی بسر کر رھے تھے، جس پر یورپی ممالک نے فوجی جارحیت کے ذریعے قبضہ کر رکھا تھا۔ طالبان اور حتی داعش اس سطح کی بربریت اور وحشیانہ پن سے قریب بھی نھیں ھوئے۔
آج بھی نمیبیا کی حکومت ان بے شمار بیگناہ انسانوں کے سروں کی واپسی کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے، جو ایک زمانے میں مغربی فوجی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ان سروں کو بیگناہ انسانوں کے دھڑوں سے جدا کرکے میڈیکل تجربات کیلئے فرائبرگ یونیورسٹی اور برلن کے کئی اسپتالوں کو بھیجا گیا تھا۔ آپ تصور کریں کہ اگر داعش ھزاروں یورپی شھریوں کا سر تن سے جدا کرکے عرب نسل کی برتری ثابت کرنے کی خاطر ان پر میڈیکل تجربات انجام دیتا تو کیا ھوتا؟ کیا ایسے اقدام کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے؟ لیکن مغربی عوام ماضی میں انجام پانے والے ان اقدامات سے بالکل لاعلم ہیں۔ یورپ اور شمالی امریکہ کے لوگ ترجیح دیتے ہیں کہ وہ ماضی اور حال کے بارے میں کچھ نہ جانیں۔ وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ دنیا پر ان کی برتری اور تسلط کی وجہ ان کا آزاد، ذھین اور محنتی ھونا ہے۔ وہ اس حقیقت سے غافل ہیں آج دنیا پر ان کی برتری اور تسلط کی حقیقی وجہ گذشتہ کئی صدیوں تک مغربی طاقتوں کی جانب سے دنیا بھر میں لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کرکے دنیا والوں پر رعب اور وحشت طاری کرنا اور انھیں اپنے اطاعت پر مجبور کرنا ہے۔
مغرب کے کھیل انتھائی پیچیدہ اور ماھرانہ ہیں۔ ان کے یہ کھیل مشکوک اور عدمیت پر مبنی ہیں۔ اس قدر تباہ کن اور بے رحمانہ ہیں کہ حتی ذھین ترین تجزیہ نگار اکثر اپنے مشاھدات اور فیصلوں پر شک کا شکار ھو جاتے ہیں۔ "کیا حقیقت میں ایسے واقعات رونما ھوئے ہیں؟" اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ "جی ھاں" رونما ھوئے ہیں۔ کئی عشروں تک انجام پائے ہیں اور انجام پا رھے ہیں۔
تاریخی اعتبار سے "دھشت گردی" مغرب کا مقامی ھتھیار تصور کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ کے وزیراعظم لائیڈ جارج نے سویلین افراد کو ھوائی حملوں کا نشانہ بنانے کو ممنوع قرار دینے والے معاھدے پر دستخط سے انکار کر دیا۔ انھوں نے اپنے اس فیصلے کی دلیل یہ بیان کی کہ: "ھم اپنے لئے ان نیگروز (سیاہ فام) کو ھوائی حملوں کا نشانہ بنانے کا حق محفوظ جانتے ہیں۔" اسی طرح ونسٹن چرچل کردوں اور عربوں جیسی "پست" نسلوں کے مکمل خاتمے کا شدید حامی جانا جاتا تھا۔
یھی وجہ ہے کہ جب ایک ایسا ملک جو اس یورپی جتھے میں شمار نھیں ھوتا، جیسے روس، دھشت گرد عناصر کے خلاف ایک حقیقی جنگ کا آغاز کرتا ہے تو تمام مغربی دنیا وحشت زدہ ھو جاتی ہے۔ کیونکہ روس ان کی گیم خراب کر رھا ہے۔ روس انتھائی خوبصورتی سے بنایا گیا نو استعماری توازن بگاڑ رھا ہے۔ مختصر یہ کہ ھمیں ھرگز فراموش نھیں کرنا چاھئے کہ استعمار اور سامراجیت مھلک ترین دھشت گردی کی دو شکلیں ہیں اور یہ دونوں بدستور مغرب کے وہ حقیقی ھتھکنڈے ہیں، جن کے ذریعے اس نے پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے۔
تحریر: آندرے ویلچک (Andre Vltchek)(معروف مغربی فلاسفر، فلم ساز، صحافی اور لکھاری)
مغرب نے دھشتگردی کو کیسے جنم دیا؟
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1392