اقتصادي دنيا ميں ماليات کى تنظيم کے دو مرحلے هوتے ہيں۔ ايک مرحلہ پيداوار کا هوتا هے اور دوسرا ثروت کى تقسيم کا اور عام طور سے اقتصادى نظام تقسيم کے بارے ميں بحث کرتاهے اور پيداوار کے مرحلے کو علم الاقتصاد کے حوالے کر ديتا هے۔ ليکن اسلام نے دونوں مراحل پر اظھار نظر کيا هے اور ايک مکمل مالى نظام پيش کيا هے۔ اس مقام پر ان تمام تفصيلات کے پيش کرنے کا موقع نھيں هے، صرف ماليات کے بارے ميں قرآن مجيد کے چند نظريات کى طرف اشارہ کيا جا رھا هے۔
تحفّظ مال:
قرآن مجيد نے مال کے تحفظ کے تين راستے مقرر کئے ہيں، غير مالک مال کو ھاتھ نہ لگانے پائے، صاحب مال اپنے مال کو ضائع اور برباد نہ کرنے پائے اور مال کو اس قدر محفوظ بھى نہ کيا جائے کہ وہ عوامى زندگي سے زيادہ قيمتى هو جائے اور سماج کى تباھى اور بربادى کا سبب بن جائے کہ اس طرح مال جان کى بربادى کا سبب بن جاتا هے اور اسے مالى تحفظ کا نام نھيں ديا جاسکتا هے۔
کسى شئى کى تحفظ کے معنى اس کى حيثيت اور معنويت کا تحفظ هے اور مال کى واقعى حيثيت اور معنويت يہ هے کہ وہ سماج کے حق ميں خير و برکت بنے اور جانوں کى حفاظت کا انتظام کرے نہ يہ کہ خود رہ جائے اور سماج کو تباھى کے گھاٹ اتار دے۔
قرآن مجيد ميں تينوں راستوں کے الگ الگ عنوان ہيں جن کے تحت ان کے احکام کا تذکرہ کيا گيا هے۔
۱۔بلا اجازت تصرّف
‘‘لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ ’’ـ(سورہ نسائ آیت ۲۹)
‘‘خبردار اپنے اموال کو آپس ميں باطل ذريعہ سے نہ کھاوٴ’’۔
‘‘ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ’’(سورہ مائدہ،آیت ۳۸)
‘‘چور مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دو کہ يہ ان کے اعمال کى سزا اور اللہ کى طرف سے عذاب هے اور اللہ صاحب عزت بھى هے اور صاحب حکمت بھى هے’’۔
‘‘يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ ’’(سورہ نور،آیت۲۷)
”ايمان والوں خبرداراپنے گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں ميں داخل نہ هونا۔“
‘‘ ۔ ۔ ۔ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ’’ (سورہ بقرہ،آیت۱۸۹)
نيکي يہ نھيں هے کہ گھروں ميں ان کى پشت کى طرف سے داخل هو بلکہ نيکى اس کا حصہ هے جو تقويٰ اختيار کرے اور گھروں ميں دروازوں کى طرف سے داخل هو۔ اور تقويٰ الھى اختيار کرو شايد اس طرح فلاح اور کاميابى حاصل کرلو۔“
‘‘يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۔ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ۔۔۔’’(سورہ بقرہ،آیت ۲۷۸۔۲۷۹)
ايمان والوں اللہ سے ڈرو اور جو سود باقى رہ گيا هے اسے چھوڈ دو اگر تم صاحب ايمان هو، اور اگر ايسا نہ کرو تو اللہ اور رسول سے جنگ کے لئے تيار هو جاؤ۔“
‘‘الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ’’(سورہ بقرہ،آیت۲۷۵)
جو لوگ سود کھاتے ہيں وہ اسى طرح قيام کرتے ہيں جس طرح وہ انسان قيام کرتا هے جسے شيطان مس کرکے خبط الحواس بنا دے۔
‘‘وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۔ ۔ ۔’’ (سورہ بقرہ،آیت۲۸۰)
اگر مقروض تنگ دست هے تو اسے مھلت دي جائے يھاں تک کہ امکانات پيدا هو جائيں اور قرض کو ادا کردے۔
وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ ۔ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ ۔ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ (سورہ مطففين،آیت ۱۔۳)
”ويل(تباھي) هے ان ناپ تول ميں بے ايمانى کرنے والوں کے لئے جو لوگوں سے اپنا مال ناپ تول کر ليتے ہيں اور انھيں ناپ تول کر ديتے ہيں تو کم کرديتے ہيں۔“
‘‘ ۔ ۔ ۔ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ’’ (سورہ هود،آیت۸۵)
”لوگوں کو چيزيں دينے ميں کمى نہ کرو اور خبردار روئے زمين ميں فساد نہ پھيلاتے پھرو۔
‘‘وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ ’’(سورہ رحمن،آیت۹)
وزن کو انصاف کے ساتھ پورا پورا کرو اور خبردار ترازو ميں گھاٹا نہ دو۔“
ان آيات کريمہ سے صاف واضح هو جاتا هے کہ اسلام دوسرے کے مال کو چورى سے ھاتھ لگانے ميں ھاتھوں کے باقى رکھنے کا بھى قائل نھيں هے بلکہ اس کا نظريہ هے کہ ايسے ھاتھوں کو قطع هوجانا چاھئے تاکہ حرام خورى کا سلسلہ بند هو جائے اور دوسرے کے مال کو ھاتھ لگانے کى جراٴت وھمت ختم هو جائے۔
وہ دوسرے کے مال کو غير قانونى طريقہ سے کھانے کا بھى قائل نھيں هے، اور اکل بالباطل کو يکسر حرام قرار ديتا هے۔
اس کى نظر ميں غير کے مکان ميں بلا اجازت داخل هونا يا دروازہ کو چھوڑ کر کسى اور راستے سے داخل هونا بھى ايک اخلاقى جرم هے۔
وہ سود خورى کو انتھائى مذموم نگاهوں سے ديکھتاهے اور سود خوار کو شيطان کا مارا هو اديوانہ اور خبط الحواس قرار ديتا هے۔
اس کى نظر ميں ناپ تول ميں خيانت ايک شديد جرم هے اور وہ معاشرہ کو اس طرح کے تمام عيوب سے پاک و پاکيزہ رکھنا چاھتا هے۔
۲۔ اسراف
اسلام نے دوسرے کے مال کو ناجائز طريقہ سے استعمال کرنے کو حرام کے بعد خود صاحب مال کو بھى پابند بنا ديا هے کہ اپنے مال کو بھى غير عاقلانہ انداز سے صرف نہ کرے ورنہ اس کا انجام بھى برا هوگا۔
قرآن مجيد نے اس سلسلہ ميں دو طرح کى ھدايتيں دي ہيں۔ کبھى اسراف کرنے سے منع کيا هے اور اعلان کيا هے کہ ‘‘ ۔ ۔ ۔إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ’’(سورہ اعراف،آیت۳۱) ”خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نھيں رکھتا هے۔“
اور کبھى تبذير کرنے والوں کو شيطان کا بھائى قرار ديا هے”ان المبذرين کانوا اخوان الشياطين“۔ ”تبذير کرنے والے شيطان کے بھائى ہيں“۔
اور کبھى ھر ناجائز قسم کے تصرّف کو تباھى اور بربادى کا سبب قرار ديا هے۔
‘‘وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا’’(سورہ اسراء،آیت۱۶)
جب ھم کسى قريہ کو اس کي بد اعماليوں کى بنا پر ھلاک کرنا چاھتے ہيں تو اس کے مالداروں پر احکام نافذ کرتے ہيں اور وہ اپنى عادت کے مطابق نافرماني کرتے ہيں اور ھمارى بات ثابت هو جاتى هے تو ھم انھيں بالکل تباہ و برباد کر ديتے ہيں۔
ان آيات سے صاف واضح هو جاتا هے کہ اسلام اپنے اموال ميں بھى نے راہ روى کو برداشت نھيں کرتا هے اور اس کى ھر قسم کو ناجائز اور حرام قرار ديتا هے۔
سماج ميں بے راہ روى کے دو انداز هوتے ہيں۔ کبھي يہ حرکت کميت او مقدار کے اعتبار سے هوتى هے کہ انسان کي حيثيت سو روپيہ خرچ کرنے کى هے اور وہ برترى کے جذبہ کے تحت پانچ سو خرچ کر ديتاهے جسے اسراف اور فضول خرچى کھا جاتا هے اور جو عقل اور شرع دونوں کى نظر ميں مذموم اور حرام هے۔ اور کبھى يہ حرکت کيفيت کے اعتبار سے هوتى هے کہ انسان سال بھر ميں چار ھى جوڑے کپڑے بناتا هے ليکن اس کي حيثيت پچاس روپيہ گز کى هے اور وہ سو روپيہ گز کا کپڑا خريدتا هے تاکہ سماج ميں اپنى حيثيت کي نمائش کرے اور لوگوں کے درميان اپنى برترى کا اعلان کر سکے جسے تبذير کھا جاتا هے اور جو شيطانى برادرى ميں داخل هونے کا بھترين ذريعہ هے۔
۳۔ جمع آورى
ماليات کے سلسلہ کا تيسرا جرم خود مال کو اس طرح محفوظ کرنا هے کہ نہ خود استعمال کرے اور نہ دوسرے کے حوالے کرے۔قرآن مجيد نے اسے بھى بد ترين جرم قرار ديا هے اور اس کى روک تھام کے لئے مثبت اور منفى دونوں راستے اختيار کئے ہيں۔
کبھي مثبت طريقہ سے خرچ کرنے کى دعوت دى هے:
‘‘ ۔ ۔ ۔ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ’’ (سورہ حشر،آیت۷)
مال کو خرچ کرو تاکہ صرف دولت مندوں کے درميان گھوم پھر کر نہ رہ جائے۔
‘۔۔۔ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ۔۔۔ ’’سورہ بقرہ ،آیت ۲۱۹)۔پيغمبر! يہ آپ سے سوال کرتے ہيں کہ کيا خرچ کريں؟ تو آپ کھہ ديجئے کہ جو تمھارى ضرورت سے زيادہ هے سب خرچ کردو۔
‘‘ وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ۔ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ’’(سورہ معارج ،آیت ۲۴۔۲۵)
” صاحبان ايمان کي ايک علامت يہ بھى هے کہ ان کے اموال ميں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محروم افراد سب کا ايک معين حصہ هوتا هے۔
ان تعليمات کے علاوہ مختلف قسم کے اموال پر زکوٰة کا واجب هونا۔ اور تمام قسم کى آمدنيوں کے سال کے تمام هونے پر خمس کا واجب هونا اس بات کى علامت هے کہ اسلام کى نگاہ ميں مال کي حفاظت کا مقصد اپنے گھر ميں حفاظت نھيں هے بلکہ خزانہٴ قدرت الھي ميں محفوظ کردينا هے جھاں کسى قسم کا خطرہ نھيں رہ جاتا هے اور مال برابر بڑھتا رھتا هے۔ دس گنا سے لاکھ گنا تک اضافہ معين هے اور اس کے بعد مزيد اضافہ رحمت پروردگار سے وابستہ هے۔
دوسري طرف قرآن مجيد نے منفى لھجہ ميں ان تمام طريقوں پر پابندى عائد کردى هے جن سے مال منجمد هو جانے کا خطرہ هے۔ ارشاد هوتا هے:
‘‘۔۔۔ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ۔ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ’’(سورہ توبہ،آیت ۔۳۴۔۳۵)
جولوگ سونے چاندى کو ذخیرہ کرتے ہيں اور راہ خدا ميں خرچ نھيں کرتے ہيں،آپ انھيں دردناک عذاب کى بشارت دے دیجئے۔جس دن اس سونے چاندي کو آتش جھنم ميں تپايا جائے گااور اس سے ان کى پيشانياں،پھلواورپشت کوداغا جائے گاکہ يھى تم نے اپنے لئے ذخيرہ کيا هے تو اب اپنے ذخيرہ کے عوض ميں عذاب کا مزہ چکھو۔
‘‘۔۔۔وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ’’( سورہ بقرہ،آیت ۱۹۵)
راہ خدا ميں خرچ کرو اوراپنے کو اپنے ھاتھوں ھلاکت ميں مت ڈالو۔
اس فقرہ ميں دونوںطرح کى ھدایات پائى جاتي ہيں۔يہ مقصد بھى هے کہ راہ خداميں خرچ کرواوربخل وکنجوسى کے ذریعہ اپنے کو ھلاکت ميں مت ڈالو۔اوريہ مقصد بھى هے کہ اتنا زيادہ خرچ نہ کروکہ اپنے کوھلاکت ميں ڈال دو۔اس احتمال کى بنا پرخرچ کا تعلق راہ خدا کے علاوہ ديگر راستوں سے هوگااس لئے کہ راہ خدا ميں خرچ کرناانفاق اور خیر هے،اور خير ميں اسراف کا کوئى امکان نھيں هے جس طرح کہ اسراف ميں کسى خير کا امکان نھيں هے۔
واضح رهے کہ سونے چاندى کے خزانہ بنانے کى طرح ديگر ضروریات زندگى کا احتکار بھى اسلام ميں جائز نھيں هے اور اس نے واضح لفظوں ميں اعلان کر دیا هے کہ احتکار کرنے والا خطاکارهوتا هے اور اس کے مزاج ميں جلّادیت اور بے رحمى پائى جاتى هے،وہ مال کى اھميت کا احساس رکھتا هے اور انسانى ضروریات يا زندگى کى کسى اھميت کا قائل نھيں هے۔
احتکار کے معنى ہيں کہ غلات اور اجناس کى طرح کى وہ اشياء جن پر سماجى زندگى کا دارومدار هے انھيں روک کر رکھا جائے اور قیمت زیادہ هونے پر فروخت کيا جائے جب کہ سماجى زندگى خطر ہ ميں هو اور دوسرا کوئى اس کمى کا پورا کرنے والا نہ هو ۔ورنہ اگر دوسرے بیچنے والے شریف افراد موجود ہيں يا کسي ايک انسان کے فروخت نہ کرنے سے سماجى زندگى کو کوئى خطرہ لاحق نھيں هوتا هے تو قيمت کے اضافہ کے امکان کى بنا پر مال کو روک کر رکھنا مطلق طور پر حرام نھيں هے۔
اسلام فائدہ کمانے يا تجارت کے ھنر استعمال کرنے کا مخالف نھيں هے۔وہ مال کو اس قدر اھميت دینے کا مخالف هے کہ جان بے قیمت هوجائے اور سماجى زندگي خطرہ ميں پڑجائے۔
قرآني مالیات کا مطالعہ کرنے والا جانتا هے کہ مال قرآن مجيد کے نزديک خير،برکت ،محترم اور معزّز بھى هے اور يھي مال نحوست ،شقاوت اور شیطنت کا ذریعہ بھى هے۔اب يہ انسان کے اختیار ميں هے کہ وہ اس مال کے ذریعہ کس منزل پر فائز هونا چاھتا هے اور اپنے کو انسانيت یا شیطنت کى کس برادرى ميں شامل کرنا چاھتا هے۔؟