اسلامی دنیا میں علمائے اسلام کا طرز زندگی بھت اھمیت کا حامل ہے۔ میں نے بھت سے لوگوں کو یہ کھتے ھوئے سنا ہے کہ علماء سے سیاست کا کوئی تعلق نھیں، علماء فقط نماز پڑھائیں، لوگوں کو اذان دینا سکھائیں، تجوید پڑھائیں، نکاخ کے صیغے پڑھیں اور اگر کوئی دنیا سے رخصت ھو جائے تو زیادہ سے زیادہ اس کا نماز جنازہ پڑھائیں۔ علاوہ ازیں اگر محلے والے کسی کام کے لئے چندہ مانگنا چاھتے ھوں تو چندے کے لئے حدیث یا آیت کا بتانا بھی علماء کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگ تو یہ بھی کھتے ہیں کہ ھم علماء کے جوتے پالش کرنے بلکہ سر پر اٹھانے کے لئے تیار ہیں، لیکن خدا را علماء میدان سیاست سے نکل جائیں، اس میدان کو صرف ھمارے لئے چھوڑ دیں۔
بھرحال آیئے اب اس مسئلے کو حقائق کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو ھمیں بخوبی اندازہ ھو جائے گا کہ ھر نبی اپنے دور میں ایک عالم، پیش امام، ایک مبلغ، ادیب اور ایک بھترین سیاستدان تھا۔ جب یہ بات واضح ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں تو ھمیں ماننا پڑے گا کہ علماء کو انبیاء سے جو ارث ملی ہے، اس میں سیاست بھی شامل ہے۔ وہ لوگ جو دین کو سیاست سے جدا سمجھتے ہے، اگر وہ سمجھنا چاھیں تو ان کے لئے عرض ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) بھی ایک بھترین سیاستدان تھے، پیغمبر اسلام (ص)فقط مبلغ نھیں تھے۔
علامہ اقبال کے نزدیک بھی دین اور سیاست کی جدائی کا نتیجہ چنگیزی ہے۔ حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ سیاست کیا ہے۔؟ امام نے جواب میں فرمایا: سیاست خدا کے حقوق، زندہ لوگوں کے حقوق اور مردہ لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کا نام ہے، خدا کے حقوق یہ ہیں کہ جس بات کا حکم دے، اس کو انجام دیا جائے اور جس سے منع کرے، اس سے پرھیز کریں، زندہ لوگوں کے حقوق یہ ہیں کہ لوگوں سے متعلق جو فرائض ہیں، ان کو انجام دیا جائے، ان کی خدمت کی جائے، قائد اسلامی سے مخلص رھا جائے، جب تک کہ وہ خدا سے مخلص ہے اور جب وہ منحرف ھوجائے تو اسکے خلاف آواز بلند کرنا۔ مردہ لوگوں کے حقوق یہ ہیں کہ ان کی خوبیوں کا ذکر کرنا اور ان کی برائیوں کو یاد نہ کرنا، کیونکہ خدا انکے اعمال کی باز پرس کے لئے موجود ہے۔ اب ھم امام حسن علیہ السلام کے اس فرمان کو غور سے پڑھیں تو ھم پر واضح ھوجائے گا کہ علماء ھی بھترین سیاستدان ہیں۔
ھم دیکھیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے میں بنی امیہ اور بنی عباس اقتدار کی جنگ میں مصروف تھے، اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ھوئے آپ اور آپ کے والد بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کو پھیلانا شروع کیا اور اگر یہ کھا جائے کہ آپ دونوں نے اس زمانے میں پھلی اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تو کچھ غلط نہ ھوگا۔ اس یونیورسٹی کا مقصد خالص اسلام کی ترویج تھا، اس کے ساتھ ساتھ امام صادق علیہ السلام نے اپنے زمانے کے خلیفہ کو یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ حکومت اور معاشرے کی رھبری ھمارا حق ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے منصور دوانیقی کے زمانے میں جبکہ بنی عباس اپنی حکومت قائم کرچکے تھے، لیکن حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے ھر مخالف کو تھہ تیغ کر رھے تھے، حضرت نے اس وقت بھی اپنے اقوال کے ذریعے سے خلیفہ تک یہ بات پھنچائی کہ حکومت اور معاشرے کی قیادت ھمارا حق ہے اور اس کے ساتھ ساتھ امام نے ان شعیان کو جو ظلم و ستم کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یہ سمجھنے لگے تھے کہ حکومت کوئی الگ چیز ہے اور دین ایک دوسری چیزی، ان کے لئے بھی یہ واضح کر دیا کہ حکومت حق ولایت ہے۔ اب ھم یھاں ذرا بھی غور فکر کریں تو ھمیں یہ سمجھنے میں مشکل نھیں ھوگی کہ سیاست سے علماء کا تعلق ہے یا نھیں۔
آگے جا کے ھم دیکھیں تو آئمہ علیھم السلام کی زندگی میں بھی ایک قطعی اور مشترک اصول جو کہ تمام زاویوں سے نظر آتا ہے، وہ سیاست میں شرکت کرنا ہے۔ المختصر یہ کہ آئمہ معصومین علیھم السلام کی زندگیوں کو سیاست سے جدا کیا ھی نھیں جاسکتا۔
اسی لئے امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ ”خدا کی قسم اسلام پورے کا پورا سیاست ہے، اسلام کو غلط طریقہ سے لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔" امام خمینی (رہ) کی قیادت اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اگر معاشرے کی سیاسی رھنمائی علمائے اسلام کے ھاتھوں میں آجائے تو پوری دنیا کا نقشہ ھی تبدیل ھو جائے گا، لیکن اگر معاشرے کی سیاسی قیادت مغرب زدہ لوگوں اور دین سے عاری افراد کے ھاتھوں میں چلی جائے تو اس کا نتیجہ وھی نکلے گا جو آج ھم سب کے سامنے ہے۔
تحریر: ابراھیم صابری
سیاست ۔۔۔ اسلام کی حریف یا رفیق
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1596