یمن مغربی ایشیا میں واقع مشرق وسطٰی کا ایک مسلم ملک ہے۔ اس کے شمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔ یمن کا دارالحکومت صنعاء ہے اور اس کی قومی زبان عربی ہے۔ یمن کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہے۔ بیشتر لوگ عربی بولتے ہیں۔ مشرق وسطٰی میں یمن عربوں کی اصل سرزمین ہے۔
یمن قدیم دور میں تجارت کا ایک اھم مرکز تھا، جو مصالحوں کی تجارت کے لئے مشھور تھا۔ یمن ایک قدیم عمرانی تھذیب و ترقی کی شاھد سرزمین ہے، جو افریقہ اور عرب کے تجارتی قافلوں کی محفوظ راہ گزر تھی۔ یمن ھزاروں سال قبل مسیح سے سائنس، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میں درجہ کمال پر فائز تھا۔
دنیا کے سب سے پھلے ذخیرہ آب کی تعمیر یمن میں ھی ھوئی تھی۔ جس کے اثرات آج بھی مغرب میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ملکہ بلقیس جس کی سلطنت سلیمان علیہ السلام کے ھد ھد نے دریافت کی تھی، اسی یمن کا حصہ تھی، جس کا تذکرہ بائبل اور قرآن مجید میں بھی ہے اور کثیر منزلہ عمارات بنانے کی ابتدا بھی یمن میں ھی ھوئی تھی۔
ابرھہ جو خانہ کعبہ کی طرف سے ابابیلوں کے حملوں کا شکار ھوگیا تھا، اسی یمن کا باشندہ تھا۔ تبع بھی اسی یمن کے ایک بادشاہ کا لقب تھا، جس نے یثرب کی کھجوروں والی سرزمین میں توریت کے علماء کو گھر بنوا کر دیئے اور آنے والے نبی آخرالزماں کی بعثت سے پھلے ھی ان پر ایمان لانے کا اعلان کیا اور آپ کے نام ایک خط لکھا، جو آپ تک پھنچا تو آپ نے قبول فرما کر ان کے ایمان کی گواھی دی۔
یہ تو یمن کی مختصر سی تاریخ ہے، اس لئے اب یمن کی تاریخی حقیقت اور اھمیت کو مدنظر رکھتے ھوئے احادیث اور معصومین علیھم السلام کی روایات کی روشنی میں یمن کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔
یمن کی تازہ صورتحال کے بارے میں ساری دنیا کو دانستہ طور پر کنفیوژ کیا جا رھا ہے۔ عوام تک وھی معلومات پھنچائی جا رھی ہیں، جن کو استعماری ایجنٹ ڈکٹیٹ کر رھے ہیں۔
امام زمان(عجل اللہ تعالی) کے عالمی انقلاب کے حوالے سے یمن کو بھت اھمیت حاصل ہے۔ مستند احادیث و روایات سے یمن کا انقلاب ثابت ہے۔ ان روایات کے مطابق یھاں سے ھدایت یافتہ پرچم بلند ھوگا اور امام مھدی(عجل اللہ تعالی) کے ظھور کے لئے راہ ھموار کرے گا۔
زمانہ ظھور میں ھدایت کے لئے اٹھنے والے پرچموں میں سب سے زیادہ ھدایت والا پرچم یمن سے نکلے گا۔ اس سلسلے میں امت مسلمہ کو دانستہ طور پر ورغلایا جا رھا ہے اور ان قوتوں کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کی جا رھی ہے جو صھیونیت کی نصرت یافتہ ہیں۔
مستند کتب میں مذکور ہے کہ ظھور امام سے قبل جنگ و جدل کا دور دورہ ھوگا اور اس وقت یمانی پرچم تم کو امام مھدی(عجل اللہ تعالی) کے ظھور کی دعوت دے گا، پس وھی مسلمان ھوگا جو اس پرچم کے خلاف نھیں ھوگا۔
حدیث رسول(ص) ہے کہ ملک عدن (یمن) سے ایک ایسی آگ ظاھر ھوگی کہ لوگ اور بندر و سور وغیرہ اکٹھے اس سے بچنے کے لئے بھاگیں گے اور وہ ان کا پیچھا کرے گی، اس دوران میں بھت سے گر جائیں اور اس آگ کا لقمہ بن جائیں گے۔( الملاحم والفتن، علی بن طاؤس)
اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب حجاز (سعودی عرب) اور مدر (یمن کے شھر صنعاء سے 20 میل دور یمنی بستی) میں آگ ظاھر ھو جائے تو اس وقت ظھور قائم(عجل اللہ تعالی) کی توقع رکھو( الزام المناصب، ص 125،ج2)
امام الرضاعلیہ السلام سے روایت ہے کہ جب کندہ (بنو کندہ یمنی عربستان کا قبیلہ ہے) کے پرچم خراسان میں مرتکز ھو جائیں تو ظھور کو قریب سمجھو( الزام المناصب)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: تین آدمیوں خراسانی، سفیانی اور یمانی کا خروج ایک ھی سال ایک ھی ماہ اور ایک ھی روز میں ھوگا۔ اس وقت ھدایت یعنی کامیابی کے لئے یمانی کے پرچم سے بھتر پرچم کوئی نہ ھوگا۔(غیبت طوسی)
رسول خدا(ص) فرماتے ہیں: تین پرچم ایک سال، ایک مھینے اور ایک دن قیام کریں گے، سفیانی، خراسانی اور یمانی اور ان سب میں سے زیادہ خالص پرچم یمانی کا ھوگا کہ جو حق کی طرف دعوت دے گا۔(ارشاد مفید، ص 339بحارالانوار)
امام جعفر صادق علیہ السلام اس یمنی شخص کے نسب کے بارے میں فرماتے ہیں’’خروج رجل من ولد عمی زید بالیمن‘‘ ایک آدمی ھمارے چچا زید کی اولاد میں سے یمن سے قیام کرے گا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مزید روایت ہے کہ شام سے سفیانی اور یمن سے یمانی کا خروج ھوگا۔ سفیانی مکہ کا رخ کرے گا اور مکہ و مدینہ کے مابین بیدا کی زمین سفیانی لشکر سمیت دھنس جائے گی اور آل محمد علیھم السلام کا ایک مرد رکن و مقام کے مابین قتل کیا جائے گا، جبکہ سفیانی جوار کوفہ میں مارا جائے گا۔ اس وقت ندائے آسمانی ظاھر ھوگی اور ظھور قائم ھوگا:(اکمال الدین۔۔۔نورالابصار باب ۲،صفحہ 55عربی)
رسول اللہ کی ایک اور حدیث ہے، جس میں آپ اس لشکر یمانی کی تعریف میں فرماتے ہیں: یمانی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے شیعوں میں سے ھوگا۔ یمانی اور سفیانی کا قیام دو ریس کے گھوڑوں کی مانند ھوگا۔(غیبت نعمانی، ص 123بحارالانوار، ج 52)۔ یمن کی اس اھمیت کے حوالے سے ھمیں آج یمن کے سیاسی حالات کی طرف متوجہ رھنا چاھیے۔
مستند احادیث و روایات سے ثابت شدہ ہے کہ یمن کی موجودہ جنگی صورت حال اشارہ ہے کہ ظھور امام مھدی(عجل اللہ تعالی) قریب تر ہے اور اس بات سے دجال کی شیطانی طاقتیں استعمار اور صھیونیت بھی اپنی تیاری کچھ ظاھری طور پر کر رھا ہے، کچھ پس پردہ پوشیدہ طور پر اس سلسلے میں امریکی حکومت ایک مخصوص مدت کے بعد غیر حکومتی افراد کی دسترس میں کاغذات دیتی ہے، جسے Declarsificd Information کھتے ہیں کہ مطالعے سے 1940ء کی دھائی میں جب ایلون ٹافلر کی کتاب تیسری موج(rd wave3) والے حالات سامنے آئے تو CIA کے کھاتوں میں شیعہ فرقہ ایک بے ضرر اور کسی حد تک احمقانہ فرقہ سمجھا جاتا تھا، جو ایک ایسے شخص کے منتظر ہیں جو سینکڑوں سال زندہ رھنے کے بعد دوبارہ ایک ایسے سال میں ظھور کرے گا، جب وہ مشرق سے پیام دے گا تو مغرب میں اس کے پیروکار اپنی ھتھیلیوں پر اس پیغام کو سن سکیں گے۔
مگر صورت حال 180 درجے تبدیلی ھوگئی، چونکہ جو چیزیں سینکڑوں سال پھلے سینہ بہ سینہ بیان ھوچکی تھیں، وہ اب تیسری موج کے بے رحم دھارے پر سوار بھت قریب حقیقت کا روپ دھارتی نظر آنے لگی تھیں اور اسی بنا پر CIA میں ایک مخصوص تحقیقاتی سیل بنایا گیا اور پھر ھولناک بات سامنے آئی کہ شیعہ آبادی دنیا میں موجود قیمتی ترین خطے میں آباد ہے، یعنی تیل سے مالا مال علاقے میں۔ اس طرح دنیا کی توانائی کی نبض کہ جس پر جو بھی قبضہ جما لے، پوری دنیا کا کنٹرول ھاتھ میں لے سکتا ہے، جسے سیاسی اصطلاح میں Heart Land سے تعبیر کیا جاتا ہے، جھاں دنیا کی شہ رگ موجود ہے، لیکن قدرت کا کرشمہ کہ یہ Heart Land شیعہ سیاسی جغرافیائی (Shia Geopoliticl) حدود میں ھی واقع ہے۔
یعنی اگر فقط خلیج فارس کے ارد گرد کے ممالک کا حساب لگایا جائے تو یھاں دنیا میں پائے جانے والے تیل کا 80% موجود ہے اور یھاں کی 3.81 ملین افراد کی آبادی میں 62% شیعہ ہیں (ایران، عراق، سعودی عرب، امارات، بحرین، کویت، قطر اور عمان) عراق کا جنوب، ایران، سعودی عرب کا مشرقی حصہ ایران کے مغرب میں واقع کویت اور ابو ظھبی (امارات) کے گردونواح ان سب علاقوں میں تیل موجود ہے۔ ان ممالک میں شیعہ آبادی ہے اور پھر عراق کی حالیہ صورت حال، لبنان کی حزب اللہ، فلسطین کی حماس اور جھاد اسلامی، مصر کے اخوان المسلمین سارے وہ عوامل ہیں، جن کی موجودگی، مھدویت کے نظریہ اور شیعہ سیاسی جغرافیے کے بڑھتے دائرے کا اسرائیل اور امریکا کی من مانی خصلت کے سامنے ایسا بھیانک منظر ہے، جس نے ان کے حکام کی نیندیں چرا لی ہیں۔
دوسری طرف مھدوی نظریئے کے تحت اسی علاقے میں امام مھدی(عجل اللہ تعالی) کا ظھور اور ارماجدون (Armageddon) کے معرکے کے لئے آمادہ یھودی بھی خاموش تماشائی بنے نھیں بیٹھے ہیں بلکہ اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ حق کی اس شمع کو بجھانے کی خاطر ھر قسم کے شیطانی اور دجالی حربوں کے ساتھ تیاری میں مصروف ہیں۔
شیعہ مورد اطمینان روایات میں امام مھدی (عجل اللہ تعالی) کے ظھور کے وقت سب سے پھلے ملحق ھونے والا یمانی لشکر یمن اور نجران سے بڑھے گا اور اس علاقے میں اسرائیل 1967ء کی جنگ میں 33 مربع کلو میٹر پر مشتمل ''صنافیر'' نامی جزیرہ جو سعودی ملکیت ہے، ھتھیائے ھوئے ہے اور آلِ سعود، آلِ یھود کے اس اقدام پر دم سادھے بیٹھے ہیں، جبکہ اس جزیرے کو اسرائیل نے مخفی فوجی جزیرہ بنا رکھا ہے اور اسے مکمل کیمو فلیج حالت میں کسی کو داخلے کی اجازت بھی نھیں ہے۔
مصری مشاورتی کونسل کے رکن محمد عبدالسمیع کے العالم نیٹ ورک پر انٹرویو کے مطابق سعودی حکومت نے کبھی اس مسئلہ پر آواز ھی نھیں اٹھائی!!۔ دوسری طرف اسرائیل نے بھی اب تک اس جزیرے سے کوئی کارروائی انجام نھیں دی، تاکہ کسی کی نظروں میں نہ آئے۔ پھر قریب واقع صعدہ کی زیدی آبادی کو اپنے وسائل کے باوجود محرومیت کا شکار رکھنا، ان پر اور ان کی مذھبی سرگرمیوں پر کڑی پابندی اور ساتھ ھی ملاحیط کے علاقے سے انسانی اور منشیات کی یمنی فوج کی پشت پناھی سے سمگلنگ اور وھاں پر نشہ اور فحاشی کا پھیلانا سب کچھ اتفاقی باتیں نھیں ہیں (جبکہ جب سے الحوثیوں کا اس علاقے پر تسلط قائم ھوا ہے، انھوں نے اس سمگلنگ کو مکمل طور سے روکا ھوا ہے اور وہ ناجائز ذرائع آمدن استعمال نھیں کر رھے)۔
دوسرا لشکر جو امام مھدی(عجل اللہ تعالی) سے منسلک ھونا ہے، وہ روایات میں خراسانی سید کا لشکر ہے اور اس علاقے میں بھی امریکی اور مغربی فوجوں کی تعیناتی خاص طور سے ایران کے صوبے خراسان کی سرحد پر افغانستان میں اور دوسرا افغانستان کے شیعہ صوبے ہرات میں بھی امریکی چھاؤنی اور وھاں سے امریکا مخالف گورنر کی جگہ اپنے منظورِ نظر شخص کو منصوب کرنا اور اسی طرح آذربائیجان (باکو) میں شیعوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا اور ان سے ان کی مذھبی آزادی سلب کرنا (حالیہ چند ھفتوں میں 3 مساجد مختلف بھانوں سے مسمار جبکہ کئی مساجد اور مدارس سِیل کر دیئے گئے ہیں) اور وھاں اسرائیلی اور امریکی میزائل سسٹم کے نصب کے لئے کوشش، شیعہ نقطۂ نگاہ سے اس ایک اور اھم علاقے میں دجّالی سیاست کا اجراء ہے۔
لھذا مھدویت کے نظریئے کے بغیر آج کی صورت حال کا جائزہ لینا سراسر بے وقوفی ہے اور یمن کا مسئلہ اسی مھدوی نظریہ کے تناظر میں اھمیت اختیار کئے ھوئے ہیں۔ جھاں حوثی یمنیوں کے ساتھ لڑائی میں یمن کی فوج کے ساتھ سعودی عرب کی جارحیت جاری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اردنی فوج، امریکی امداد اور برطانیہ کا اثر و رسوخ بھی شامل ہے۔
سعودی عرب جو درپردہ تو یمنی صدر کے ساتھ پوری طرح سے موجود تھا لیکن 26 مارچ 2015ء کو براہ راست اس نے یمن کے عوام پر اپنی جارحیت شروع کر دی۔ فضائی کارروائی کے ذریعے، یمن کی خانہ جنگی اور سعودی عرب کی بمباری کے بعد ملک کے تقریباً تمام بڑے شھر تباہ ھوچکے ہیں، بنیادی سھولتیں ٹھپ ھوچکی ہیں۔ یمنی ذرائع نے ایک رپورٹ میں کھا ہے کہ سعودی جنگی طیاروں نے صعدہ کے خمیس مران اور اشعف علاقوں میں ھسپتالوں اور طبی مرکز کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
اس کے علاوہ سعودی عرب، یمن کے ھوائی اڈوں اور بندرگاھوں کو بند کرکے اس ملک کے عوام تک امدادی سامان پھنچنے میں رکاوٹ ڈال رھا ہے۔ یمنی ذرائع کا کھنا ہے کہ سعودی عرب کے ان اقدامات سے یمن میں ایک بڑا انسانی المیہ رونما ھوسکتا ہے۔
درایں اثنا ڈاکٹر زود آؤٹ بار ڈرنامی تنظیم کے سربراہ نے یمن میں المناک انسانی صورت حال خصوصاً یمن کے بھت سے علاقوں میں صحت کے مسائل کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
سحر میری (الیزابتہ) الیزابتہ اینجرس نے ایک فرانسیسی جریدے کو انٹرویو دیتے ھوئے کھا کہ یمن میں بھت سے زخمیوں کو علاج معالجے کی سھولتیں میسر نھیں ہیں اور بھت سی امدادی تنظیموں کو بمباری والے علاقوں میں بیماروں اور زخمیوں تک ادویات پھنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
آل سعود کی جارحیت کے نتیجے میں یمن کے عوام کو غذائی اشیاء، ادویات اور زندگی کی تمام بنیادی اشیاء کی شدید ضرورت ہے۔ یمن کے عوام ایسے عالم میں نھایت شدید اور سخت ایام گزار رھے ہیں کہ انسانی حقوق اور انسانی وقار و عزت کا دفاع کرنے والی تنظیمیں خاموشی اختیار کرکے یمن کے مظلوم عوام کی کسمپرسی کا مشاھدہ کر رھی ہیں۔
برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق یمن پر سعودی عرب کے ایک سو طیارے ھر روز حملے کر رھے ہیں اور ان میں سے پچاس طیارے برطانوی ساخت کے ھوتے ہیں۔
برطانیہ سے شائع ھونے والے اخبار گارڈین نے برطانیہ کی جانب سے ریاض کو دی جانے والی وسیع فوجی اور سیاسی مدد کی جانب اشارہ کرتے ھوئے لکھا ہے کہ سعودی عرب نے یمن میں جو جرائم اور مظالم انجام دیئے ہیں، ان کے سلسلے میں برطانیہ برابر کا شریک ہے۔
برطانوی اخبار گارڈین نے اپنی اشاعت میں مزید لکھا کہ برطانیہ سعودی عرب کے ھاتھ اسلحہ فروخت کر رھا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ برطانیہ نے اس عرصے کے دوران میں سعودی عرب کی قیادت والے اتحاد کو ھتھیار فروخت کرنے کے علاوہ ظالم عرب حکام کو فوجی مشاورت کی خدمات بھی فراھم کی ہیں۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق اقوام متحدہ کی 51 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے مطابق یمن پر سعودی عرب نے جنگ مسلط کرکے بڑے پیمانے پر جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔
اس رپورٹ میں اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں سعودی عرب کے مکروہ، بھیانک اور خبیث چھرے کو نمایاں کرتے ھوئے لکھا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی شھری آبادی، بے گھر ھونے والے افراد، پناہ گزینوں اور کیمپوں، شادی کی تقریبات اور دیگر عوامی اجتماعات، بچوں کے پارک، ان کے سکول، کالج، یونیورسٹی، شھریوں کی گاڑیوں، مسافر بسوں، مارکیٹوں، فیکٹریوں، ایئر پورٹ، ھسپتال اور دیگر عوامی مقامات کو نشانہ بنا رھے ہیں۔
صنعاء کے ایئر پورٹ اور حدیدہ کی بندرگاہ پر بھی بمباری کی گئی ہے۔ 63 مصروف بازاروں پر سعودی عرب اٹیک کر چکا ہے۔ 2.3 ملین یمنی اس مسلط کردہ جنگ کی وجہ سے بے گھر ہیں کیونکہ ان کے گھر تباہ ھو چکے ہیں، 75،250 گھر تباہ ھو گئے ہیں۔ 10،000 یمنی خاندان گھر کے بغیر ہیں۔ 316 دنوں میں سعودی عرب نے 163،000 فضائی حملے کئے۔ 3 سعودی ھوائی بموں نے 15 منٹ میں یمن کے دارالحکومت پر بمباری کرکے 10،000 خاندانوں کے گھروں کو تباہ کیا۔ 10 ملین یمنی بچے بھوک کی قلت سے مر رھے ہیں۔ ادویات اور میڈیکل کی سھولت نہ ھونے کی وجہ سے لاکھوں یمنی ایسے ھی مر رھے ہیں۔ یمن کے سکول تباہ و برباد ھو چکے ہیں اور جو ہیں وہ بند ھوچکے ہیں کیونکہ بجلی ہے نہ پانی اور نہ کتابیں۔ والدین خوفزدہ ہیں بچوں کو سکول نھیں بھیج رھے۔
اقوام متحدہ کے مطابق 20 ملین افراد بھوک کا شکار ھو رھے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے مطابق تیل اور توانائی کی کمی کے باعث غذائی قلت پیدا ھو رھی ہے۔ یمن میں سعودیوں کے مظالم نے امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
ھیومن رائٹس واچ نے یمن میں سعودی عرب کی وحشیانہ اور مجرمانہ بمباری کو انسانیت کے خلاف بھیانک اور ھولناک جرائم میں شمار کرتے ھوئے کھا ہے کہ یمن میں سعودی عرب کی وحشیانہ جنگ انسانیت کے خلاف جنگ ہے۔
ھیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطٰی اور افریقہ کے نمائندے احمد بن شمسی کا کھنا ہے کہ یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحاد انسانیت سوز مظالم روا رکھے ھوئے ہے اور یمن میں سعودی عرب انسانیت کے خلاف بھیانک اور ھولناک جرائم کا ارتکاب کر رھا ہے۔
انھوں نے کھا کہ سعودی عرب یمن کے نھتے عوام کے خلاف کلسٹرول بموں اور ممنوعہ ھتھیاروں کا وسیع پیمانے پر استعمال کر رھا ہے جبکہ عالمی ادارے سعودی عرب کے جرائم پر خاموش تماشائی بنے ھوئے ہیں۔
سعودی اتحاد نے یمن کے مختلف علاقوں پر CBU58 قسم کے کلسٹر بموں کا استعمال کیا ہے، جن کو 1978ء میں امریکی ریاست ٹیسنیی میں بنایا جاتا تھا۔ سعودی عرب عالم اسلام کا خادم نھیں بلکہ مسلم امہ کے لئے ایک بھت بڑی مصیبت ہے۔
دوسری طرف سعودی عرب کا سال 2016ء کے لئے 327 ارب ریال خسارے کا بجٹ پیش کردیا گیا ہے۔ بجٹ میں آئندہ سال کے دوران اخراجات کا تخمینہ 840 ارب ریال اور آمدنی کا تخمینہ 513 ارب ریال لگایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2015ء کے دوران میں 608 ارب ریال آمدنی ھوئی۔ یمن کی جنگ کی وجہ سے سعودی بجٹ کو شدید خسارے کا سامنا ہے۔ یمن پر حملے کے حوالے سے ماھرین کا کھنا ہے کہ اس ملک پر سعودی عرب کی فوجی جارحیت کا خرچ پچاس ارب ڈالر تک جا پھنچا ہے اور یہ ایسے میں ہے کہ جب سعودی عرب، امریکا، فرانس اور برطانیہ کے ساتھ ھتھیاروں کی خریداری کے معاھدے بھی کر رھا ہے، جبکہ بعض عرب ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب نے امریکا اور اسرائیل کے بھت سے جاسوس سیٹلائٹس کو کرائے پر لیا ہے اور ان میں سے ایک سیٹلائٹ یمن کے ساتھ سعودی عرب کی سرحدوں کو کنٹرول کرنے کے لئے مخصوص ہے، جبکہ ایک سیٹلائٹ فوجی اھداف کو واضح اور معین کرنے کے لئے ہے۔ اس کے علاوہ دیگر سیٹلائٹس یمن کے ساتھ جنگ سے متعلق کارروائیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے ہیں۔ اس کے باوجود یمن کی عوام کے حوصلے پست نھیں ھوئے بلکہ وہ دلیری سے ان جارح افواج کا مقابلہ کر رھے ہیں۔
امریکا بھی القاعدہ کے بھانے نہ صرف براہ راست بمباری میں مصروف ہے بلکہ اس نے نام نھاد اور کٹھ پتلی یمنی صدر اور اس کے حواریوں پر مشتمل حکومت کی امداد بھی بڑھا دی ہے، کیونکہ یمن ایک انتھائی اسٹرٹیجک مقام بحیرہ احمر کے باب المندب (دھانے کا نام) پر واقع ہے، جھاں سے سعودی عرب، خلیج فارس ،عراق، افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک ملائیشیا اور انڈونیشیا سے رابطہ قائم رکھا جاسکتا ہے۔
لھذا استعماری طاقتیں اس ملک پر اپنا مھرہ برسر اقتدار رکھنا چاھتی ہیں۔ یمن کے عوام کی اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو وہ قبائلی جنگجو ہیں اور اپنے ملک کے دفاع کے لئے مر مٹنے کے لئے تیار ہیں اور وہ اپنی سرزمین کے خلاف کسی بھی سازش کو قبول نھیں کرتے۔ شکست سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کا ھی مقدر بنے گی۔
یمن میں تبدیلیاں بھت تیزی سے آرھی ہیں اور لگ رھا ہے کہ امام مھدی(عجل اللہ تعالی) کی حمایت و نصرت میں یمانی انقلاب راستے میں ہے۔ ظھور امام مھدی(عجل اللہ تعالی) کے حوالے سے احادیث و روایات کو اگر آج کی موجودہ سیاسی، معاشی، ثقافتی صورتحال کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو بھت عجیب و غریب منظر نامہ سامنے آنے لگتا ہے۔ لھذا یمن کے مظلوم عوام ضرور سرخرو ھوں گے اور آخر کار کامیابی یمنی عوام کو ھی حاصل ھوگی۔
تحریر: سیدہ ھما مرتضٰی
مظلوم یمن کا مستقبل
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1605