انسانی زندگی میں عبدیت اور حریت کا مزاج بھی عجب ہے۔ جہاں انسان اپنے عبدی ماحول میں اطمینان محسوس کرتا ہے، وہاں حریت کے ماحول میں زندگی بسر کرنے میں نہ صرف زیادہ اطمیان محسوس کرتا ہے بلکہ فتح اور فخر و مباہات کے ساتھ خود کو کامیاب لوگوں میں شمار کرتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عارضی اور ابدی زندگی کی کامیابی جہاں بہترین عبدیت کے مرہون احسان ہوتی ہے، وہاں ان دونوں زندگیوں کی کامیابیوں کو تکمیل کی انتہا اور بام عروج تک پہنچانے کے لیے حریت کا مقام بھی اپنے مقام پر مستند اور مسلّم ہے۔ ایک بہترین عبد تو بہترین حُر بن سکتا ہے، مگر ہر عبد کبھی حُر نہیں بن سکتا۔ اگرچہ عبودیت اور حریت دونوں ہی معبود برحق و حقیقی کی اعلیٰ نعمات ہیں لیکن خود معبود نے یہ نعمات ہر عبد میں یکجا نہیں فرمائیں۔ یہ اس کا فیصلہ ہے کہ کس انسان کو عبد ہونے کا شرف عطا فرما دے اور کس انسان کو عبد کے ساتھ حُر ہونے کی فضیلت بھی بخش دے۔
اسلامی تاریخ میں لمحہ موجود تک ہمیں بے شمار عابد بھی مل جائیں گے اور بے شمار زاہد بھی، با وصف بندے بھی مل جائیں گے اور باکردار شخصیات بھی، لیکن حریت پسندوں اور شہداء کی تعداد نسبتاً کم نظر آئے گی۔ انسان کی معراج ہی یہی ہے کہ اس کی دنیوی زندگی عبودیت اور حریت کے سائے میں بسر ہو اور اس کی موت کا وقوع شہادت کے ذریعے ہو جائے۔
یہی وجہ ہے کہ انبیاء و رسل سے لے کر ایک عام دین دار حتیٰ کہ عاصی انسان بھی خود کو ایک عبد اور حُر کی شکل میں زندہ اور ایک شہید کی صورت مرنے کی دعا اور خواہش رکھتا ہے۔ تاریخ نے ایسے لاکھوں انسانوں کا ذکر اپنے اندر سمویا ہے کہ جن کی زندگی تو عبدیت و حریت میں بسر ہوئی مگر موت کے وقت انہیں شہادت نصیب نہیں ہوئی بلکہ طبعی موت کے راستے مالک حقیقی تک پہنچے۔
ان عرائض کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ انسان خوش بختی کے آخری مقام پر فائز ہوتا ہے، جو اپنی زندگی عبدیت و حریت کے سائے میں گزار کر زندگی کا اختتام شہادت پر کرے۔ انہیں محدود و مخصوص و گنے چُنے اور خوش بخت لوگوں میں شھید قاسم سلیمانی، شھید ابو مہدی مہندس اور شھید محسن فخری زادہ شامل ہیں۔
شھید قاسم سلیمانی نے پہلے عبدیت کے راستے دین اور احکام دین پر عمل کرنے کو اپنی عادت بنایا۔ امام خمینی اور دیگر روحانی شخصیات سے علمی و فکر و اصلاحی و روحانی استفادہ کیا، اعلیٰ و شفاف کردار کے ذریعے اپنی شخصیت تعمیر فرمائی۔ ریاضت و اوراد و وظائف اور عبادت کے ذریعے اپنی عبدیت کو مضبوط و راسخ کیا۔ سیرتِ امامِ حسین (ع) اور قیادتِ امام راحل کی روشنی اور انقلابِ اسلامی کی موجودگی سے بھرپور استفادہ لیتے ہوئے خود کو حُرّیت پسندی کا عادی و عامل بنایا۔ جب اتنے اعلیٰ مدارج اور مراحل طے کر لئے جائیں تو شہادت خود منتظر رہتی ہے کہ وہ عبد حُر کب میری آغوش میں آتا ہے۔؟
شھید قاسم سلیمانی نے باسٹھ سالہ مختصر زندگی میں متعدد اور مختلف اہداف پر کام کیا۔ بیش جہاتی انسان نے جہاں انقلابِ اسلامی کی داخلی حفاظت کے لیے کام کیا، وہاں انقلابِ اسلامی کو خارجی حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی لاجواب حکمت عملی اختیار کی۔
انھوں نے جہاں ایران میں موجود انقلابیوں کے حوصلے کا سامان کیا، وہاں ایران سے باہر ہر انقلابی کے لیے مشعل عمل بنے۔ شھید سلیمانی نے جہاں اپنے ملک کے حساس اثاثوں کو دشمن کی دسترس سے دور رکھا، وہاں امامینِ معصومین (ع) کے روضہ ہائے مبارک کی صورت مقاماتِ مقدّسہ کو ہر جارح کے نجس ہاتھ سے دور رکھنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔ جہاں ایران کی سرزمین کو امریکہ و اسرائیل کی جارحیت سے محفوظ رکھا، وہاں شام و عراق کو بھی ان نجس ممالک کے وجود سے پاک کرنے میں زندگی صرف کر دی۔ جہاں اپنی دھرتی سے مجاہدینِ خلق اور جنداللہ جیسی استعماری کٹھ پتلیوں کو ناکام کیا، وہاں القاعدہ اور داعش جیسے خطرناک اور رسوائے زمانہ اسلام دشمن گروہوں کی نابودی اور رسوائی کا زبردست انتظام کیا۔
شھید قاسم سلیمانی دورِ حاضر میں حُریت کی علامت اور آزادی کا نشان ہیں۔ وقت کے یزید کو نہ صرف للکارنے بلکہ ہر میدان میں شکست سے دوچار کرنے کا اعزاز صرف اور صرف قاسم سلیمانی کے حصے میں آیا ہے۔ چاہے وہ ایران کا محاذ ہو یا عراق کا۔ یمن کی تحریک ہو یا بحرین کی۔ عراق کا میدان ہو یا شام کا۔ کشمیر کی تحریک ہو یا فلسطین کی، ہر مقام اور ہر مرحلے پر قاسم سلیمانی صف اول میں نظر آئے گا۔
سیرتِ حسین (ع) پر عامل انسان کا ایسا رعب و دبدبہ استعمار و استکبار پر طاری ہوا کہ انھوں نے راستے سے ہٹانے کے لیے سازشوں کے شدید سخت جال نہایت تیزی سے بننا شروع کیے۔ تین بار بڑے حملوں کے باوجود شھید سلیمانی اور ان کے جانثار دوست محفوظ رہے، تاکہ خدا نے جو امور ان کے ذمہ کر دیئے تھے، انہیں مکمل کیا جا سکے۔
خیال کیا جا رہا تھا کہ قاسم سلیمانی کو راستے سے ہٹا کر اب امریکہ و اسرائیل سکھ کا سانس لیں گے اور اگلی طویل مدت تک ایسی کوئی غلطی نہیں کریں گے، کیونکہ ان کا سب سے بڑا دشمن اور ان کے راستے کا بڑا کانٹا نکل گیا ہے، لیکن محسن فخری زادہ کی شہادت نے ثابت کر دیا ہے کہ دونوں استعماری طاقتیں ابھی تک بوکھلائی ہوئی ہیں، انہیں دنیا کا ہر آزادی پسند بالخصوص ایران کے ہر حریت پسند انسان میں قاسم سلیمانی نظر آتا ہے، تبھی وہ جارحیت سے باز نہیں آتے، لیکن امریکہ و اسرائیل کو یاد رکھنا چاہیئے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی حریت پسند زندہ ہے، ان دونوں کے خلاف مزاحمت اور مقاومت جاری رہے گی۔ چاہے غدار مسلمانوں بالخصوص بعض عرب ممالک کی سازشیں جاری رہیں۔
اسرائیل کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی رہیں۔ فلسطینیوں کے خون سے غداری کی جاتی رہے۔ قبلہ اول کا سودا کیا جاتا رہے۔ صھیونی ریاست کے استحکام کے لیے اسرائیل کی حمایت کی جاتی رہے، لیکن قاسم سلیمانی کے جانباز اور ہم فکر ہر دور میں ان دو فتنوں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ دنیا کے ہر انسان کو بالعموم اور ہر مسلمان کو بالخصوص قاسم سلیمانی اور ان کے رفقاء کا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ جنھوں نے انھیں داعش جیسے فتنوں سے نجات دلائی۔ آج اگر داعش کو لگام نہ ڈالی جاتی تو داعش کا وجود دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نجاست پھیلا رہا ہوتا۔
تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
شھید قاسم سلیمانی، حریت کی علامت
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1311