13 جمادی الثانی وہ تاریخ ہے جس میں بہ روایتے جناب ام البنین سلام اللہ علیھا نے انتقال فرمایا اور اس دن کو اسلامی دنیا خاص کر اسلامی جمھوریہ ایران میں ماؤں کی عظمت و تکریم اور راہ حق میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شھداء کی زوجات کو خراج عقیدت کے طور پر منایا جاتا ہے۔
آپ کے والد گرامی ابوالمجْل حزّام بن خالد قبیلہ بنی کلاب(۱) سےتعلق رکھتے تھے جبکہ آپ کی مادر گرامی کا نام تاریخ میں لیلی یا ثمامہ بنت سھیل بن عامر بن مالک کے طور پر ذکر ھوا ہے(۲) ۔آپ کے سلسلہ سے ملتا ہے کہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی رحلت کے بعد خود انھی کی وصیت پر عمل کرتے ھوئے جب آپ نے اپنے لئے شریکہ الحیات کو تلاش کرنا چاھا تو اپنے بھائی عقیل سے جو نسب شناسی میں مشھور تھے، ایک نجیب الطرفین ، شریف خاندان کے بارے میں مشورہ کیا تو جناب عقیل نے آپ کا نام تجویز کرتے ھوئے کھا عربوں میں بنی کلاب کے مردوں جیسا کوئی دلیر مرد نھیں دیکھا جا سکتا ہے۔
اس طرح حضرت علی(ع) نے آپ سے شادی کی۔ جس کے نتیجہ میں پروردگار نے آپ کو جناب عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان کی صورت میں چار بیٹے عطا کئے(۳) یوں تو آپ کا نام فاطمہ بنت حزام تھا لیکن ان بیٹوں کی بنیاد پر آپ کو ام البنین(۴) خطاب کیا گیا ۔آپ کے یہ چاروں بیٹے کربلا میں اپنے بھائی اور امام وقت، حضرت سید الشھدا (ع) کے رکاب میں شھادت کے عظیم درجے پر فائز ھوئے۔
جب آپ کو اپنے بیٹوں کی شھادت کی خبر ملی تو آپ نے برجستہ کھا :“اے کاش میرے بیٹے اور جو کچھ زمین اور آسمان کے درمیان ہے میرے حسین(ع) پر فدا جاتے اور وہ{ سید الشھداء علیہ السلام }زندہ ھوتے” ۔ آپ کو شعر گوئی پر بھی عبور حاصل تھا اوراسی لئے آپ کو صاحب فضل شاعرہ جانا جاتا تھا۔(۶) چنانچہ آپ نے حضرت عباس علیہ السلام کی شھادت کی خبر سنی تو ایک مرثیہ پڑھا جس کے کچھ اشعار کا مفھوم یہ ہے:
” اے وہ جس نے عباس{ع} کو دشمن پر حملہ کرتے ھوئے دیکھا ہے جو دشمن کا تعاقب کر رھا تھا۔ سنا گیا ہے کہ میرے بیٹے کے ھاتھ جدا ھوگئے تھے اور اس کے سر پر گرز مارا گیا تھا۔ اے میرے لعل اگر تیرے ھاتھ میں تلوار ھوتی تو کوئی تیرے نزدیک نھیں آسکتا”۔ (۷﴾
ھمارا کروڑوں درود و سلام ھو اس ماں پر جس نے اپنے چار بیٹے راہ خدا میں قربان کر دئیے جن میں ایک بیٹا علمدار کربلا جیسا بھی تھا جسے قمر بنی ھاشم کھا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود اس ماں کی آرزو یہ تھی کہ اس کا سب کچھ چھن جاتا لیکن امام وقت پر آنچ نہ آتی ۔
سلام ھو اس ماں پر جس نے ایسے بیٹے کی تربیت کی جس کے کٹے ھاتھ جنرل قاسم سلیمانی کے ھاتھوں کی شکل میں نمایاں ھو کر دین کی طرف بڑھنے والے ھاتھوں سے نبرد آزما ہیں ۔
شک نھیں کہ ھماری مائیں بھنیں اگر جناب ام البین جیسی خواتین کی زندگی کو اپنا نمونہ عمل بنا لیں تو سماج و معاشرہ کے حوالے ایسے بچوں کو تربیت کر کے پیش کر سکتی ہیں جو ھماری طرف بڑھتے ھوئے ظلم و ستم کے ھاتھ کاٹ سکیں لیکن اس کے لئیے ضروری ہے کہ ھماری خواتین پھلے مرحلہ میں اپنے دور کے تقاضوں سے آشنا ھونے کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ بھی ھوں اور تعلیم یافتہ ھونے کا مطلب یہ نھیں کہ محض دنیاوی تعلیم ،بلکہ دنیا کے ساتھ ساتھ علم دین سے بھی آشنا ھوں کہ ایسے بچوں کی تربیت کی جا سکے جو ھر محاذ پر اپنے ھمارے سماج کے رکھوالے ھوں چاھیں وہ علمی محاذ ھو سماجی یا پھر معیشتی و ثقافتی ۔
ایسے میں جناب ام البنین کا آفاقی کردار ھمیں دعوت دے رھا ہے کہ اگر ھم دینی اصولوں کی رعایت کرتے ھوئے اپنی زندگی کو آگے بڑھائیں تو عباس(ع) تو نھیں سیرت ابو الفضل العباس پر چلنے والے ان غلاموں کو ضرور معاشرہ کے حوالے کر سکتی ہیں جو پرچم دار کربلا تو نھیں لیکن فکر کربلا کا پرچم ضرور اٹھائیں گے ۔
ھمارا سلام ھو ان ماوں پر جو جناب ام البین جیسی عظیم ماں کی سیرت پر عمل کرتے ھوئے اپنے گود کے پالوں کو سجا کر اس میدان کارزار میں بھیج رھی ہیں جو آج شام میں حق و باطل کی پھچان کا ذریعہ بنا ہے ،جس کا سرا 61 ھجری کے معرکہ کربلا سے جڑا ہے۔
یقینا چاھے اسلامی جمھوریہ کے شھدا ھوں، یا افغانستان کے فاطمیون و سرزمین پاکستان کے زینبیوں، چاھے وہ حزب اللہ کے فداکار و جانباز سپاھی ھوں یا حشد الشعبی کے جیالے سب کے سب اگر باطل کے خلاف ڈٹے ھوئے ہیں اور باطل پرست طاغوتی طاقتوں کے ماتھوں پر پسینہ کے قطرے ہیں کہ ان حق پر مر مٹنے والوں نے معرکہ کا رنگ ھی بدل کر رکھ دیا ہے ، جن کے سامنے نہ توپ و ٹینک کے آگ اگلتے دھانے کام آ رھے ہیں نہ میزائلیں اور جنگی طیارے ان کے عزم و حوصلہ کو پسپا کرنے میں کامیاب ہیں تو یہ نتیجہ ہے ان ماوں کی تربیت کا جنھوں نے اپنے بچوں کو علمدار کربلا کی شجاعت کی داستانیں سنا سنا کر یوں بڑا کیا ہے کہ وہ بھوکے پپاسے مظلومیت کے ساتھ اپنے وطن سے کوسوں دور فرات حق پر قبضہ جمائے ہیں۔
سلام ھو ان ماوں پر جنھوں نے پرچم عباس کی چھاوں میں اپنےشیروں کو یزیدیت کو پسپا کرنے کی تلقین پر مشتمل لوریاں کچھ اس طرح سنائیں کہ فکر یزیدیت کو کھیں اماں نھیں ہے جھاں یہ سر اٹھاتی ہے وھیں کنیزان ام البین کے شیر پھنچ جاتے ہیں ۔
پروردگار ان تمام ماوں کا سایہ مجاھدین راہ حق پر قائم رکھے جو دشمنان دین سے مقابلہ کے لئے سب کچھ چھوڑ کر نکل پڑے ہیں ان کے پاس اگر کچھ ہے تو ماں کی دعائیں اور بس ۔
تحریر سید نجیب الحسن زیدی
حوالہ جات
[۱] طبری، تاریخ، ج۴، ص۱۱۸.
[۲] ابن عنبہ، عمدۃ الطالب،ص۳۵۶؛ غفاری، تعلیقات بر مقتل الحسین، ص۱۷۴.
[۳] اصفھانی، مقاتل الطالبیین، ص۸۲ -۸۴؛ ابن عنبہ، عمدۃ الطالب، ص۳۵۶؛ حسّون، اعلام النساء المؤمنات، ص۴۹۶ا.
[۴] ۔ بیٹوں کی ماں
[۵] حسون، اعلام النساء المؤمنات، ص۴۹۶-۴۹۷؛ محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج۳، ص۲۹۳.
[۶] اعیان الشیعہ، ج۸، ص۳۸۹.
[۷] ۔محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج۳، ص۲۹۴ و تنقیح المقال، ج۳، ص۷۰
جناب ام البنین سلام اللہ علیھا، اور ھماری پاکیزہ مائیں
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1389