www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

703272
علماء فضائل کی دو قسمیں بیان کرتے ہیں۔ ایک فضائل ذاتی اور دوسری فضائل نسبی۔ فضائل ذاتی سے مراد وہ فضائل ہیں، جو کسی شخصیت کے اندر ذاتی طور پر موجود ھوتے ہیں۔ فضائل نسبی وہ صفات ہیں، جو دوسری چیز کے ساتھ نسبت دینے سے اس کے اندر لحاظ ھوتی ہیں۔ حضرت فاطمۃ زھراء علیھا السلام اور حضرت مریم سلام اللہ علیھا میں دونوں طرح کی صفات اور فضائل ہیں۔ وہ فضائل جو کسی اور سے منسوب ھونے کی وجہ سے ان میں پائے جاتے ہیں اور وہ فضائل بھی پائے جاتے ہیں، جو کسی سے منسوب ھوئے بغیر خود ان کی ذات کے اندر موجود ہیں۔ اس مختصر مقالہ میں ھم حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا اور حضرت مریم سلام اللہ علیھا کے فضائل کا تقابلی جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
1۔ خاندانی شرافت
قانون وراثت کے مطابق والدین کی صفات جیسے نجابت و شرافت وغیرہ فرزند کی طرف منتقل ھوتی ہیں۔ ابن عساکر اور ابن اسحاق کے بیان کردہ شجرہ نسب کے مطابق حضرت مریم سلام اللہ علیھا کے والد گرامی جناب عمران حضرت داؤد علیہ السلام کی نسل سے اور بنی اسرائیل کے امام تھے۔ ان کی خاندانی شرافت کے لئے اتنا ھی کافی ہے کہ جناب عیسٰی علیہ السلام جیسے اولوالعزم اس خاندان سے آئے۔ قرآن کریم میں اس خاندان کے بارے میں ارشاد ھوتا ہے:(ان اللہ اصطفٰی آدم و نوحا و آل ابراھیم و آل عمران علی العالمین) "بے شک اللہ نے آدم، نوح، آل ابراھیم اور آل عمران کو تمام عالمین پر برگزیدہ فرمایا۔"
جناب زھراء سلام اللہ علیھا کی خاندانی شرافت تمام مسلمانوں کیلئے روشن ہے، سب سے اھم نکتہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے اس خاندان سے محبت کو اجر رسالت قرار دیا ہے۔ امام رضا علیہ السلام کی روایت کے مطابق اوپر والی آیت میں آل ابراھیم سے مراد خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے۔ اس کے علاوہ آیت تطھیر میں اھل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں واضح طور پر فرمایا ہے۔ سورۃ ابراھیم میں اس خاندان کو شجرۃ مبارکۃ سے تعبیر کیا ہے، اسی طرح سورہ انسان اھل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں نے نازل ھوئی ہے۔
2۔ والدین
جناب مریم سلام اللہ علیھا کے والد گرامی جناب عمران تھے اور ان کا سلسلہ نسب حضرت داؤد علیہ السلام سے ملتا ہے۔ امام صادق علیہ السلام واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ جناب عمران اور جناب زکریا دونوں اپنے دور کے پیغمبروں میں سے تھے۔ جناب حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کے والد گرامی محمد بن عبداللہ خاتم انبیاء اور خاتم الرسل ہیں۔ آپ تمام مخلوقات سے اشرف و اعلٰی ہیں، انھی کی وجہ سے خداوند عالم نے کائنات کو خلق فرمایا: "یا احمد! لولاک کما خلقت الافلاک" اے احمد میں تجھے خلق نہ کرتا تو کائنات کو خلق نہ کرتا۔ جناب مریم سلام اللہ علیھا کی والدہ اپنے زمانے کی عبادت گزار خاتون تھیں اور صاحب اولاد نھیں تھی۔ انھوں نے خدا سے اولاد کی دعا کی تو لطف الٰھی سے حاملہ ھوئیں، ان کی شرافت اتنی تھی کہ خدا ان کی نذر قبول کرکے فرماتا ہے (فتقبلھا ربھا) "اس کے رب نے اسے قبول کیا۔" جناب زھراء سلام اللہ علیھا کی والدہ گرامی وہ عظیم خاتون ہیں، جس کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔ (واللہ ما اخلف لی خیرا منھا ، لقد اٰمنت بی اذکفر الناس صدقتنی اذکذبنی الناس ۔۔۔۔۔) "خدا کی قسم! مجھے خدیجہ سے بھتر بیوی عطا نھیں کی گئی۔ اس نے اس وقت مجھ پر ایمان لایا، جب لوگ میرا انکار کر رھے تھے۔ اور اس وقت میری تصدیق کی، جب لوگ مجھے جھٹلا رھے تھے۔" دوسری جگہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب زھراء سلام اللہ علیھا سے فرماتے ہیں (ان بطن امک کالامامۃ و عاء) "گویا تیری والدہ کا شکم امامت کے لئے ایک ظرف کی مانند تھا۔" جناب خدیجہ نے اپنا سارا مال راہ اسلام میں خرچ کیا۔ جناب خدیجہ ان چار خواتین میں سے ہیں کہ بھشت ان کی مشتاق ہے۔
3۔ اسم گذاری
جناب مریم سلام اللہ علیھا کا نام ان کی والدہ نے رکھا، جیسا کہ ارشاد ھوتا ہے:(انی سمیتھا مریم) "میں نے اس بچی کا نام مریم رکھا" جس کا معنی عابدہ اور خدمتگزار کے ہے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا نام خداوند عالم کی جانب سے معین ھوا ہے، جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا کے نزدیک فاطمہ سلام اللہ علیھا کے نو اسماء ہیں: فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاھرہ، زکیہ، رضیہ، محدثہ اور زھراء۔ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب فاطمہ سلام اللہ علیھا کی ولادت ھوئی تو خدا نے ایک فرشتے کو بھیجا، تاکہ نام فاطمہ کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر جاری کرے اور اس طرح آپ کا نام فاطمہ رکھا گیا۔
4۔ ظاھری حسن
امام باقر علیہ السلام جناب مریم سلام اللہ علیھا کے بارے میں فرماتے ہیں:(اجمل النساء)"وہ ساری عورتوں سے زیادہ خوبصورت خاتون تھیں۔" دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے دن ان عورتوں کے سامنے جو اپنی خوبصورتی کو فساد کا بھانہ قرار دیتی ہیں، جناب مریم سلام اللہ علیھا کو پیش کیا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم مریم سلام اللہ علیھا سے بھی زیادہ خوبصورت تھیں۔؟
امام موسٰی کاظم علیہ السلام جناب فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا کے بارے میں فرماتے ہیں:(کانت فاطمۃ سلام اللہ علیھا کوکبا دریا بین النساء العالمین) "حضرت زھراء سلام اللہ علیھا عالمین کی تمام عورتوں کے درمیان ستارہ ضوفشاں ہیں۔" بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کو زھراء ان کے نورانی چھرے کی وجہ سے کھا گیا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: "فاطمۃ حوراء الانسیۃ" فاطمہ انسانی شکل میں حور ہیں۔ مجموعہ روایات سے معلوم ھوتا ہے کہ جناب سیدہ کے چھرے سے نور پھوٹتا تھا اور وہ چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا تھا، جب مسکراتی تھیں تو ان کے دانت موتی کی طرح چمکتے تھے۔
5۔ ایمان کامل
حضرت مریم سلام اللہ علیھا اور حضرت زھراء سلام اللہ علیھا دونوں ایمان کامل کے درجہ پر فائز تھیں، جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:(کمل من الرجال کثیر و لم یکمل من النساءالا مریم بنت عمران و آسیۃ امراۃ فرعون و فاطمہ) "مردوں میں سے بھت سارے لوگ ایمان کامل کے درجے پر فائز تھے، لیکن عورتوں میں سے سوائے مریم بنت عمران، آسیہ اور فاطمہ کے کوئی کامل نھیں۔"
6۔ ظاھری آلودگیوں سے پاک
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو خط نجاشی کو لکھا، اس میں جناب مریم سلام اللہ علیہا کو بتول کے نام سے یاد فرمایا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق مریم سلام اللہ علیھا اور فاطمہ سلام اللہ علیھا دونوں بتول تھیں۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ بتول سے مراد کیا ہے؟ تو فرمایا:(البتول لم ترحمرۃ قط ای لم تحضن فان الحیض مکروہ فی بنات الانبیاء) "بتول یعنی وہ خاتون جس نے کبھی سرخی نھیں دیکھی ھو، یعنی کبھی حائض نہ ھوئی ھو، کیونکہ حیض انبیاء کی بیٹیوں کیلئے ناپسند ہے۔"
قندوزی نے ینابیع المودۃ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کو بتول اس لئے کھا گیا ہے، کیونکہ خداوند عالم نے انھیں حیض و نفاس سے دور فرمایا ہے۔ جناب زھراء سلام اللہ علیھا کے لئے صفت طھارت کا ھونا قطعی امر ہے، جبکہ جناب مریم سلام اللہ علیھا کے بارے میں روایات مختلف ہیں، بعض روایات کے مطابق خاص دونوں میں جناب مریم سلام اللہ علیھا مسجد سے باھر جایا کرتی تھیں۔
7۔ کفیل اور سرپرست
جناب مریم سلام اللہ علیھا کی والدہ گرامی ان کی ولادت سے پھلے ھی فوت ھوچکی تھی، ان کی والدہ ان کو معبد کے لئے نذر کرچکی تھی، جب مریم سلام اللہ علیھا معبد منتقل کر دی گئی تو معبد کے راھبوں کے درمیان ان کی کفالت کے بارے میں اختلاف ھوا، اس لئے قرعہ اندازی ھوئی تو جناب زکریا کا نام آیا، جو کہ بی بی مریم سلام اللہ علیھا کے خالو تھے۔(و کفلھا زکریا) جناب فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا کے کفیل اور سرپرست ان کے بابا حضرت محمد مصطفٰی ہیں۔ حضرت زکریا علیہ السلام جب جناب مریم سلام اللہ علیھا کے محراب عبادت میں داخل ھوتے تھے تو غیر موسمی پھل دیکھ کر حیران ھو جاتے تھے، لٰھذا پوچھتے تھے:(کلما دخل علیھا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یا مریم سلام اللہ علیھا انی لک ھذا) اسی طرح بی بی دو عالم فاطمہ سلام اللہ علیھا کی کرامات دیکھ کر اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے سلمان و ابوذر اور بی بی فضہ حیران ھو جاتے تھے۔
8۔ عصمت اور طہارت
خداوند عالم نے جناب مریم سلام اللہ علیھا کو نجاستوں سے پاک فرمایا:(و اذ قالت الملائکۃ یا مریم سلام اللہ علیھا ان اللہ اصطفک و طھرک۔۔۔۔۔)(وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کھا بے شک اللہ نے تمھیں برگزیدہ کیا ہے اور تمھیں پاکیزہ بنایا ہے۔ جناب زھراء سلام اللہ علیھا کیلئے اللہ تعالٰی فرماتا ہے:(انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا)"اللہ کا ارادہ بس یھی ہے، ھر طرح کی ناپاکی کو اھل بیت! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے، جسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔" یقیناً فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا قطعی طور اس آیت کی مصداق ہیں۔ بھت سارے اھل سنت مفسرین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیھا جزء اھل بیت اور اس آیت میں شامل ہیں۔
9۔ تمام خواتین پر فضیلت
جناب مریم سلام اللہ علیھا کو اپنے زمانے کی تمام عورتوں پر فضیلت حاصل ہے، جبکہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کو تمام زمانوں کی عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ خداوند عالم جناب مریم سلام اللہ علیھا کے بارے میں فرماتا ہے:(ان اللہ اصطفاک و طھرک و اصطفاک علی نساء العالمین) جناب زھراء سلام اللہ علیھا کی فضیلت تمام زمانے کے عورتوں پر ہے اور اس کے بارے میں مختلف روایات موجود ہیں۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:(کانت مریم سیدة نساء زمانها اما ابنتی فاطمه فهی سیدة نساء العالمین من الاولین و الاخرین)"جناب مریم اپنے زمانے کی تمام عورتوں کی سردار تھی، لیکن فاطمہ تمام زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں۔" جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا محراب عبادت میں کھڑی ھوتی تھیں تو 70 ھزار مقرب فرشتے ان کو سلام کرتے تھے اور اور کھتے تھے، اے فاطمہ! خداوند عالم نے تجھے چن لیا، پاک کر دیا اور تجھے تمام عورتوں پر فضیلت دی ہے۔
10۔ فرشتوں سے ھم کلام ھونا
جناب مریم سلام اللہ علیھا محدثہ تھی اور جبریل ان پر نازل ھوتے تھے:(قالت الملائکہ یا مریم سلام اللہ علیھا ان اللہ یبشرک ۔۔۔۔) "جب جناب مریم سے فرشتوں نے کھا اے مریم! خدا تجھے اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے۔" اسی طرح دوسری جگہ جناب مریم سلام اللہ علیھا سے گفتگو کرتے ہیں:(فقال انما انا رسول ربک لاھب لک غلاما زکیا) جناب مریم سلام اللہ علیھا جب حاملہ ھوئیں اور بھت زیادہ غمگین ھوئیں تو آواز آئی اے مریم غمگین نہ ھوجاؤ:(فناداھا من تحتھا الا تحزنی) جناب فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا بھی محدثہ تھیں، امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کو محدثہ کھتے ہیں، کیونکہ فرشتے آسمان سے ان پر نازل ھوتے تھے اور اسی طرح ندا دیتے تھے، جیسے جناب مریم سلام اللہ علیھا کو دیتے تھے۔ مصحف فاطمہ فرشتوں سے فاطمہ سلام اللہ علیھا کی گفتگو کا نتیجہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:(ان عندنا مصحف فاطمہ)"ھمارے پاس مصحف فاطمہ سلام اللہ علیھا ہے۔" حضرت زھراء جب اپنے بابا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بھت زیادہ غم و اندوہ سے دچار ھوئیں تو خداوند عالم نے ان کو تسلی دینے کیلئے جبرئیل اور فرشتوں کو بھیجا، تاکہ ان کو تسلی دیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق حضرت زھراء کی سب سے بڑی فضیلت 75 یا 95 دن تک جبرئیل امین کا مسلسل در خانہ زھرا پر نازل ھونا ہے اور یہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا سے مخصوص فضیلت ہے۔
11۔ کرامت اور تصرف تکوینی
حضرت مریم سلام اللہ علیھا نے خدا کے حکم سے کھجور کے خشک درخت کو ھلایا تو فوراً پھل دار درخت بنا اور تازہ کھجوریں نکل آئیں اور جناب مریم سلام اللہ علیھا نے انھیں تناول کیا۔ (وھزی الیک بجذع النخلۃ ۔۔۔۔ جنیا) "اس کھجور کے درخت کی ٹھنی کو ھلاؤ، تمھارے لئے تازہ کھجوریں گریں گی۔" جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا بھی صاحب کرامات تھیں اور آپ کے بھت سارے معجزات آپ کے تصرف تکوینی کی نشان دھی کرتے ہیں۔ جیسا کہ چکی کا خود بخود چلنا، بچوں کے جھولے کا خود بخود جھولنا، غذا کا آمادہ ھونا وغیرہ۔ یہ آپ کے تصرفات تکوینی کی مثالیں ہیں۔ حضرت ابوذر غفاری کھتے ہیں: کہ مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام علی علیہ السلام کو بلانے کے لئے بھیجا، جب میں امام علی علیہ السلام کے گھر گیا اور آواز دی، لیکن کسی نے جواب نھیں دیا، لیکن میں نے دیکھا کہ چکی خود بخود چل رھی ہے اور گندم آٹے میں تبدیل ھو رھی ہے، جبکہ کوئی بھی چکی کے پاس موجود نھیں ہے۔ میں واپس رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یارسول اللہ میں نے ایسی چیز دیکھی، جس کی مجھے سمجھ نھیں آرھی، میں حیران ھوں، امام علی علیہ السلام کے گھر میں چکی خود بخود چل رھی تھی اور کوئی بھی چکی کے پاس نھیں تھا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ھر لحاظ سے خداوند عالم نے میری بیٹی کے دل کو یقین سے اور اس کے وجود کو ایمان سے پر کر دیا ہے۔
12۔ بھشتی غذا کا ملنا
بی بی مریم سلام اللہ علیھا کی کرامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بھشتی کھانے خدا کی طرف سے ان کو میسر ھوتے تھے:(کلما دخل علیھا زکریا۔۔۔ وجد عندھا رزقا ۔۔۔۔بغیر حساب) حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے لئے بھی مختلف مواقع پر بھشتی غذا میسر ھوئی۔ جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں: ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت بھوکے تھے اور آپؐ حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کے گھر تشریف لائے اور کھانے کا سوال کیا۔ حضرت زھراء سلام اللہ علیھا نے جواب دیا کہ گھر میں کچھ بھی نھیں، یھاں تک کہ حسنین بھی بھوکے ہیں۔ رسول خدا واپس چلے گئے، اتنے میں ایک عورت نے دو روٹیاں اور گوشت کا ایک ٹکڑا جناب حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کی خدمت میں لے کر آئی۔ آپؑ نے اسے پکایا اور رسول خدا ﷺ کو کھانے پر دعوت دی، درحالیکہ حسنین علیھم السلام اور حضرت علی علیہ السلام بھی بھوکے تھے۔ آپ نے غذا کے برتن کو رسول خدا ﷺکے سامنے رکھ دیا۔ رسول خداﷺ نے جب برتن کو کھولا تو برتن گوشت اور روٹیوں سے بھرے ھوئے تھے۔ پیغمبر اکرم ﷺنے حضرت زھراء سلام اللہ علیھا سے سوال کیا بیٹی اسے کھاں سے لائی ھو۔؟ آپؑ نے فرمایا:(هو من عند الله ان الله یرزق من یشاء بغیر حساب) "یہ اللہ کی طرف سے ہے اور خدا جسے چاھتا ہے بےحساب رزق عطا کرتا ہے۔" رسول خدا نے فرمایا:(الحمد لله الذی جعلک شبیهة سیدة نساء بنی اسرائیل)"تمام تعریفین اللہ کے لئے، جس نے تجھے مریم جیسا قرار دیا۔" حضرت زھراء سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں کہ اس غذا کو تمام ھمسائیوں نے بھی تناول کیا اور خدا نے اس میں برکت عطا کی۔
13۔ مصائب و آلام
مشکلات کمال کے راستے میں ایک موثر عامل اور تقرب الٰھی میں ایک اھم کردار ادا کرتی ہیں، لٰھذا خداوند عالم کے تمام اولیاء خاص مصائب و آلام کا شکار بھی ھوئے ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:(ان اشد الناس بلاء النبیون ثم الوصیون ثم الامثل فالامثل ۔۔۔۔) جناب مریم سلام اللہ علیھا بھی بھت سارے مصائب اور مشکلات میں مبتلا ھوئیں، پوری زندگی والدین سے جدا ھونا، بچپن میں بیت المقدس کی خدمتگزاری، تمام تر طھارت کے باوجود لوگوں کے ان کے بارے میں سوء ظن کرنا اور تھمت لگانا، جناب عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کسی کا پاس نہ ھونا، باپ کے بغیر بچے کی پرورش کرنا، یہ سارے مصائب و مشکلات جناب مریم سلام اللہ علیھا پر آئے۔ جناب زھراء سلام اللہ علیھا کے مصائب و مشکلات بے شمار ہیں۔ جب مادر گرامی کے شکم میں تھیں، تب بھی اپنی والدہ کی تنھائی اور پریشانی کو درک کرتی تھیں، جب آپ دنیا میں تشریف لائیں تو اپنے بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام تر مشکلات اور اذیتوں کا مشاھدہ کیا۔ پیدائش کے چند سال بعد اپنے بابا کے ساتھ شعب ابی طالب میں میں محصور ھوئیں اور اس کے بعد رسول خدا کے ساتھ ھجرت کی۔ غزوہ احد کے موقع پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک تھیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد زھراء پر مصائب کا ھجوم آیا اور ایک نئی رخ سے مصائب کا آغاز ھوا اور آپ مسلسل گریہ کرتی رھیں۔ آپ کا پھلو شکستہ ھوگیا، آپ کا فرزند محسن شھید ھوا، اس قدر مصیبتیں آئیں کہ آپ موت کی تمنا کرنے لگیں۔
14۔ موت کی آرزو
جناب مریم سلام اللہ علیھا شدت غم اور لوگوں کے جھٹلانے کی وجہ مرنے کی آرزو کرتی ہیں :(یا لیتنی مت قبل ھذا)"اے کاش میں اسے پھلے مرگئی ھوتی۔" جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا بھی شدت غم کی وجہ سے مرنے کی آرزو کرتی تھیں اور فرماتی تھیں:(اللھم عجل وفاتی سریعا) "خدایا! جلد از جلد میری موت آئے" خداوند عالم نے بھی ان کی دعا قبول کی۔
15۔ روزہ سکوت
حضرت مریم سلام اللہ علیھا نے خدا کے حکم سے نادان لوگوں کی اھانت کے مقابلے میں سکوت کا روزہ رکھا تھا اور ان کے ساتھ بات کرنے کو اپنے اوپر حرام قرار دیا تھا (فلن اکلم الیوم انسیا) "میں آج کسی آدمی سے بات نھیں کروں گی۔" جناب فاطمہ زھرا نے بھی خلیفہ اول و دوم کے سامنے سکوت اختیار کیا اور ان سے بات کرنے کو اپنے اوپر حرام قرار دیا اور فرمایا کہ میں ھرگز ان سے بات نھیں کروں گی:(واللہ لااکلمک ابدا)"خدا کی قسم! میں تم سے ھرگز بات نھیں کروں گی۔"
16۔ پاکیزہ فرزند
حضرت مریم سلام اللہ علیھا کے بارے میں قرآن میں آیا ہے:(اللتی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا) "مریم بنت عمران نے اپنی عصمت کی حفاظت کی ہے، ھم نے اپنی روح اس میں پھونک دی۔" خداوند عالم نے ان کی پاکیزگی کے نتیجے میں اپنی روح ان میں پھونک دی، جس کے نتیجے میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت ھوئی۔ خداوند عالم نے جناب زھراء سلام اللہ علیھا کو ان کی پاکدامنی کے نتیجے میں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام جیسے طاھر فرزند عطا کئے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:(ان فاطمۃ سلام اللہ علیھا احصنت فرجھا فحرم اللہ ذریتھا علی النار) "بے شک فاطمہ سلام اللہ علیھا نے اپنی عصمت کی حفاظت کی، پس خدا نے ان کی نسل پر آگ حرام کر دی۔" حسان بن ثابت اسی بات کو شعر کی صورت میں بیان کیا ہے:
و ان مریم سلام اللہ علیھا احصنت فرجھا و جاءت بعیسی علیہ السلام کبدر الدجی
فقد احصنت فاطمۃ سلام اللہ علیھا بعد ھا و جاءت بسبطی نبی الھدی
بے شک جناب مریم سلام اللہ علیھا نے اپنی عصمت کی حفاظت کی اور چاند جیسے حضرت عیسٰی علیہ السلام دنیا میں لائیں۔
فاطمہ سلام اللہ علیھا نے بھی اپنی عصمت کی حفاظت کی اور رسول خدا کے دو نواسوں کو دنیا میں لائیں۔
علامہ اقبال حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے فرزند اکبر امام حسن مجتبٰی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کھتے ہیں:
آن یکی شمع شبستان حرم
حافظ جمعیت خیر الامم
اسلامی تاریخ کی یہ وہ درخشاں ترین شخصیت ہے، جنھوں نے ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ ایک نازک دور میں بکھرنے سے بچایا اور یہ ثابت کر دیا کہ امت کی شیرازہ بندی میں امام کی حیثیت، نظامِ کائنات میں سورج کی مانند ھوتی ہے۔
تا نشیند آتشِ پیکارو کین
پشتِ پا زد برسرِتاجِ ونگین
امام حسین علیہ السلام کے بارے میں کھتے ہیں:
آن دگر مولائے ابرارِ جھان
قوتِ بازوئے احرارِ جھان
تمام عالم کے ابراروں کے مولا و سردار سید الشھداء امام حسین علیہ السلام ہیں، دُنیا میں جتنے بھی حریت پسند لوگ ہیں، ان سب کی قوتِ بازو اور جس کے تذکرے سے عزم ملتا ہے، وہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کا بیٹا حسین علیہ السلام ہے۔
17۔ عبادت و بندگی
قرآن کریم حضرت مریم سلام اللہ علیھا کے بارے میں فرماتا ہے:(و کانت من القانتین) ان آیات سے معلوم ھوتا ہے کہ جناب مریم سلام اللہ علیھا مسلسل اطاعت، نماز، طولانی قیام اور دعا میں مشغول رھتی تھیں۔ ابن خلدون لکھتا ہے کہ جناب مریم سلام اللہ علیھا نے اس قدر عبادت کی کہ لوگ ان کی مثال دیتے تھے۔ جناب مریم سلام اللہ علیھا محراب میں خدا کی عبادت میں مشغول رھتی تھی۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا بھی محراب عبادت میں خدا سے راز و نیاز کرتی تھیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:(اذا قامت فی محراباا ۔۔۔۔ نورھا لاھل السماء) "جب وہ محراب عبادت میں کھڑی ھوتی تھیں تو اھل آسمان کیلئے ان کا نور چمکتا تھا۔" جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا نے بھی اپنی مختصر زندگی میں اس قدر عبادت کی کہ امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے شب جمعہ اپنی والدہ کو محراب عبادت میں دیکھا کہ وہ مسلسل رکوع و سجود بجا لاتی رھیں، یھاں تک کہ صبح کی سفیدی نمودار ھوئی اور میں نے سنا کہ مومن مردوں اور عورتوں کیلئے دعا کرتی تھیں۔ حسن بصری کھتا ہے کہ اس امت میں فاطمہ سلام اللہ علیھا سے بڑھ کر کوئی عبادت گذار نھیں ملتا، اس قدر عبادت میں کھڑی رھیں کہ ان کے پاؤں میں ورم آچکے تھے۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کی عبادت و قنوت اس حد تک تھی کہ آپ مصداق آیہ کریمہ(الذین یذکرون اللہ قیاما و قعوداً) تھیں۔
18۔ معصوم کے ھاتھوں غسل
جناب مریم سلام اللہ علیھا کی وفات کے بعد جناب عیسٰی علیہ السلام نے انھیں غسل دیا۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کو بھی امام علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا۔ مفضل نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا فاطمہ سلام اللہ علیھا کو کس نے غسل دیا تھا، فرمایا: امیر المومنین علیہ السلام نے۔ مفضل کھتا ہے میں یہ بات سن کر حیران ھوا، لھذا امام نے فرمایا گویا تم یہ بات سن کر غمگین ھوئے ھو، میں عرض کیا جی ھاں میری جان آپ پہ قربان! ایسا ھی ہے۔ امام نے مجھ سے فرمایا غمگین نہ ھو جاؤ، کیونکہ فاطمہ سلام اللہ علیھا صدیقہ تھیں اور سوائے صدیق کے کوئی غسل نھیں دے سکتا تھا۔ کیا تم نھیں جانتے کہ مریم سلام اللہ علیھا کو سوائے عیسٰی علیہ السلام کے کسی اور نے غسل نھیں دیا۔
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی
حوالہ جات:
1۔ امام حافظ، عماد الدین، قصص الانبیاء، ص ۵۴۰
2۔ آل عمران: ۳۳
3۔ شوریٰ : ۲۳
4۔ طباطبائی، محمد حسین، المیزان، ج۳، ص: ۱۶۶
5۔ الاحزاب: ۳۳
6۔ ابراھیم: ۲۴
7۔ طباطبائی، محمد حسین، المیزان، ج۲، ص: ۱۸۴
8۔ قزوینی، محمد کاظم، فاطمہ من المھد الی اللحد، ص: ۶۳
9۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۱، ص۱۹۴
10۔ آل عمران، ۳۷
11۔ محدث اردبیلی، کشف الغمہ، ج۱، ص ۴۷۹
12۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص: ۴۳
13۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج ۴۳، ص ۵۳
14۔ آل عمران: ۳۶
15۔ طباطبائی، محمد حسین، المیزان، ج۳، ص: ۱۷۳
16۔ محدث اردبیلی، کشف الغمہ، ج:۱، ص ۴۳۹
17۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص: ۱۳
18۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار ج۱۴، ص۲۰۴
19۔ ایضاً، ص: ۱۹۲
20۔ بحرانی، ھاشم بن سلیمان، البرھان فی تفسیر القرآن، ج۴، ص: ۶۶
21۔ قزوینی، محمد کاظم، فاطمہ من المھد الی اللحد، مترجم الطاف حسین ص۲۳۱
22۔ ایضاً، ص: ۱۸
23۔ سیوطی، عبدالرحمن، الدر المنثور، ج۲، ص: ۲۳
24۔ آیتی، عبدالمحمد، تاریخ ابن خلدون، ج۱، ص ۴۳۴
25۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج ۴۳، ص: ۱۴
26۔ قندوزی، سلیمان، ینابیع المودۃ، ص: ۳۲۲، حدیث:۹۳۰
27۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ص ۱40، ص۱۹۷
28۔ حافظ، عماد الدین، قصص الانبیاء، ص:۵۴۰
29۔ آل عمران، ۳۶
30۔ آل عمران: ۳۷
31۔ آل عمران: ۴۲
32۔ الاحزاب:۳۳
33۔ طبرسی، جامع البیان فی تفسیر القرآن، ج: ۲۲، ص: ۷، سیوطی، عبدالرحمن، الدرالمنثور، ج۵، ص: ۱۹۸، قندوزی، سلیمان، ینابیع المودۃ، ج۱، ص:۳۱۹
34۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص: ۲۲، ۲۴، ۷۸
35۔ مکارم شیرازی، زہراء برترین بانوی جہان
36۔ ایضاً، ص: ۴۹
37۔ آل عمران: ۴۵
38۔ مریم: ۱۹
39۔ مریم: ۲۴
40۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص ۷۸
41۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص ۷۹
42۔ مریم: ۲۵
43۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص: ۲۹
44۔ ایضاً: ص: ۴۵
45۔ ایضاً: ص:۳۰
46۔ آل عمران:۳۷
47۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص ۲۷، ۳۱ اور ۷۷
48۔ زمحشری نے کشاف میں اور سیوطی نے درالمنثور میں سورۃ آل عمران کی آیت 37 کی تفسیر میں اس واقعے کو نقل کئے ہیں۔
49۔ خمینی رحمۃ اللہ علیہ، روح اللہ، چہل حدیث ص: ۲۰۳
50۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار ج ۴۳، ص: ۴۳۲
51۔ نجمی محمد صادق، سیری در صحیحین، ص ۳۲۴
52۔ ایضاً، ص: ۳۲۵
53۔ مریم: ۲۳
54۔ دشتی، محمد، فرھنگ سخنان حضرت زھرا، ص: ۱۷۷
55۔ مریم: ۲۶
56۔ قزوینی، محمد کاظم، فاطمہ من المھد الی اللحد، ص: ۵۷۱
57۔ تحریم: ۱۱
58۔ شافعی، ابراہیم، فرائد السمطین، ج۲، ص ۶۵
59۔ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص: ۵۰
60۔ تحریم: ۱۲
61۔ آیتی، عبدالحمید، تاریخ ابن خلدون، ج:۱، ص: ۱۶۰
62۔ ابن بابویہ، محمد بن علی، علی الشرائع ص: ۱۸۱
63۔ ابن بابویہ، محمد علی، علل الشرائع، ص: ۱۸۲
64۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج ۷۶، ص: ۸۴
65۔ آل عمران:۱۹۱
66۔ ابن بابویہ، محمد علی، علل الشرائع ص: ۱۸۴

Add comment


Security code
Refresh