رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی شکایت آج بھی جاری ہے، آج بھی آپ(ص) نے اللہ کی بارگاہ میں مسلمانوں کی عظیم جماعت کی شکایت کررھے ہیں کہ انھوں نے قرآں کو فراموشی کے سپرد کردیا ہے، قرآن جو رمز حیات ہے اور وسیلہ نجات، فتح و نصرت اور حرکت و ترقی کا سرمایہ، خوبصورت کپڑوں میں بالائے طاق رکھا گیا ہے؛ مسلمانوں نے قرآن کو ـ جو فردی اور سماجی حیات کا پورا منصوبہ اور کامل پروگرام ہے ـ اپنی زندگی سے الگ کررکھا ہے اور حتی کہ اپنے مدنی اور فوجداری قوانین کے لئے قرآن کے دشمنوں کے سامنے کاسۂ گدائی لے کر کھڑے نظر آرھے ہیں۔
ھم جب تاریخ کی کچھ اقوام کے حالات میں غور کرتے ہیں تو ان کی سماجی اور فردی حیات میں بھی ایک گمشدہ شیئے کا سراغ ملتا ہے کہ گویا ان ھی پوری سعادت و خوشبختی اسی گمشدہ شیئے کے مرھون تھی جو کہ مفقود ھوچکی ہے۔ وہ گمشدہ شیئے جس کو انبیاء کی دعوت پر لبیک کھنے والوں نے پا لیا اور آب حیات کے اس سرچشمے سے فیضیاب ھوتے رھے۔
جی ھاں! جو کچھ خداوند متعال نے اپنے انبیاء کے توسط سے لوگوں پر نازل کیا اور انھیں راہ ھدایت کی طرف بلایا وھی ھمارا گمشدہ ہے جسے راہ حق میں دعوت رب کے سامنے سرجھکانے والوں نے پالیا ہے لیکن ھم اسے کھو چکے ہیں، تو کیا ھم اللہ کے سامنے سرتسلیم کرنے والوں میں شامل نھیں ہیں، اگر ہیں تو ایسا کیوں ہے؟
قرآن کریم تمام ھدایتوں کا جامع اور تمام حکمتوں کا مستجمع، اللہ کا عظيم عطیہ ہے جسے اس سے افضل الانبیاء اور سید المرسلین کے توسط سے نازل کرکے ھم پر احسان فرمایا اور ائمہ کے الھی تقرر و انتصاب کے ذریعے ھمارے لئے دین کے بھترین والی اور قرآن کے حقیقی مفسرین بھیجے ہیں اور یوں اکمال دین اور اتمام نعمت کا اعلان ھوا ہے۔
قرآن اپنے اعلان اور معصومین علیھم السلام کی احادیث کے مطابق ان تمام منصوبوں اور پروگراموں کا جامع ترین مجموعہ ہے جو فردی اور سماجی سعادت و کامیابی کے لئے انسان کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہے جیسا کہ اللہ نے سورہ نحل کی آیت 89 میں ارشاد فرمایا:
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَاناً لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ؛ اور ھم نے آپ پر وہ کتاب نازل کی ہے جو ھر بات کو کھول کر بیان کرتی ہے اور سرِ تسلیم خم کرنے والوں کے لئے سراسر ھدایت، رحمت اور بشارت ہے۔
قرآن انسان کی ابدی لا جواب سوالات کا جواب ہے اور انسانی حیات کے تمام شعبوں کےلئے پروگرام رکھتا ہے زندہ جاوید ہے رجوع کرو اور جواب پاؤ لیکن رجوع نھیں کیا جاتا اور جواب کھیں ڈھونڈنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، متروک اور مھجور ہے قرآن ھمارے درمیان۔
گوکہ محض تلاوت بھی اس مھجوریت کا علاج نھیں ہے اور ممکن ہے پھر بھی قرآن خوبصورت صوت و لحن میں ڈوب کر ھمارے ھاتھ سے نکل جائے لیکن راستہ ہے یاد رکھنے کا، یاددھانی کرانے کا، قرآن کے مفاھیم کی فھہم کا اور اس کی تاریخ سے درس سماج و سیاست و جنگ و امن سیکھنے کا اور اس کے احکام سے راہ حیات سنوارنے کا۔
یہ اس راقم کا دعوی نھیں ہے بلکہ اور حدیث کا اعلان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے شکایت کی ہے ان لوگوں کی جنھوں نے اس قرآن کو مھجور چھوڑا ہے اور عجب یہ کہ جنھوں نے مھجور چھوڑا ہے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کا دشمن قرار دیا ہے جو کہ مجرمین کی جماعت سے ہیں۔۔۔۔ یا اللہ تیری پناہ ۔۔۔ غور و تدبر تو کریں سورہ فرقان کی آیات 30 اور 31 میں:
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً ٭ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوّاً مِّنَ الْمُجْرِمِينَ وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِياً وَنَصِيراً؛ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ نے عرض کیا اے میرے پروردگار! میری قوم (امت) نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا ہے ٭ اور اسی طرح ھم نے ھر نبی کیلئے مجرموں میں سے بعض کو دشمن بنایا اور آپ کا پروردگار راھنمائی اور مدد کیلئے کافی ہے۔
اس آیت کریمہ کے گھرے معانی میں غور و تدبر ـ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے امت کی طرف سے قرآن کو تنھا چھوڑے جانے کی شکایت واضح و آشکار طور پر بیان کی ہے ـ بھت باعث برکت ھوگا۔
تفسيرنمونہ:
بار خدايا، میری قوم نے قرآن کو ترک کردیا ہے!
چونکہ سابقہ آیات کریمہ میں ھٹ دھرم مشرکوں اور بےایمان افراد کی بھانہ جوئیوں کی طرف اشارہ ھوا ہے۔ یھاں پھلی زیر بحث آیت کریمہ بارگاہ رب متعال میں ـ قرآن کے ساتھ امت کے طرز سلوک کی نسبت ـ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی سخت ناراضگی اور شکایت ہے جھاں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے خداوند متعال سے عرض کیا:
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً؛ اے میرے پروردگار! میری قوم (امت) نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا ہے۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کا یہ کلام اور یہ شکایات آج بھی باقی اور جاری ہے، جو اللہ کی بارگاہ میں مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت کی شکایت کررھے ہیں کہ انھوں نے قرآن کو تنھا اور مھجور چھوڑا ھوا ہے۔ وہ قرآن جو رمز حیات ہے اور وسیلۂ نجات، قرآن جو حرکت اور ترقی کا سبب ہے، قرآن جو زندگی کے پروگراموں کا مجموعہ ہے، میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ دیا ہے اور اپنے مدنی اور فوجداری قوانین وضع کرنے کے لئے اجنبیوں کے سامنہ کاسہ گدائی لے کر جاتی ہے۔
اسی وقت اگر ھم بھت سے اسلامی ممالک ـ بالخصوص وہ جو مشرق و مغرب کے ثقافتی تسلط کے سائے میں جی رھے ہیں ـ کی موجودہ صورت حال پر غور کریں تو دیکھ لیں گے کہ قرآن ان کی زندگی میں ایک نمائشی کتاب کی شکل اختیار کرچکا ہے، وہ صرف قرآن کے خوبصورت کو خوبصورت آوازوں میں اپنے ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر کرتے ہیں یا یہ الفاظ اور آیات مساجد کی دیواروں پر لگی کاشیوں پر ـ فن تعمیر کی خوبصورتیوں کے طور پر ـ نظر آتی ہیں؛ نئے گھر کے افتتاح، مسافر کی حفاظت، بیماروں کی شفا [مرحومین کے ایصال ثواب کی خاطر] یا زيادہ سے زیادہ ثواب کے لئے قرآن سے استفادہ کرتے ہیں۔
حتی کہ کبھی وہ قرآنی آیات پڑھ کر ان سے استدلال و استناد کرتے ہیں تا کہ اپنی غلط باتوں اور غلط فیصلوں کو انحرافی تفسیر ـ تفسیر بالرأے ـ کے ذریعے درست ثابت کرکے جتائیں۔
بعض ممالک میں تحفیظ القرآن کے نام پر وسیع اور عریض مدارس دکھائی دیتے ہیں جھاں بےشمار لڑکے اور لڑکیاں حفظ قرآن میں مصرف ہیں؛ حالانکہ اسی اثناء میں ان کے افکار یا تو مغرب سے یا مشرق سے اخذ کرتے ہیں اور اپنے قوانین اور ضوابط و قواعد اسلام کے بیگانوں سے سے مستعار لئے ھوئے ہیں اور قرآن صرف ایک آڑ ہے ان کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے لئے۔
بے شک آج بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اللہ سے فریاد کررھے ہیں کہ "میری قوم نے اس قرآن کو ترک کردیا ہے، مھجور چھوڑا ہے، مھجور مغز و متن کے لحاظ سے، متروک فکر تدبر کے لحاظ سے اور اس کے تعمیری افکار اور پروگراموں اور منصوبوں کے لحاظ سے۔
اگلی آیت میں خداوند متعال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو دلاسہ دے رھا ہے جنھیں اپنے دشمنوں کی طرف سے اس صورت حال کا سامنا تھا؛ اور ارشاد فرماتا ہے:
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوّاً مِّنَ الْمُجْرِمِينَ؛ اور اسی طرح ھم نے ھر نبی کیلئے مجرموں میں سے بعض کو دشمن بنایا۔
ارشاد ھوتا ہے: صرف آپ ھی نھیں ہے کہ اس جماعت کی شدید دشمنی کا سامنا کررھے ہیں، بلکہ تمام انبیاء کو ایسی ھی صورت حال کا سامنا تھا کہ مجرموں کی ایک جماعت ان کی مخالفت پر اتر آتی تھی لیکن جان لیجئے کہ آپ تنھا اور بے یار و یاور نھیں ہیں اور آپ کے لئے یھی کافی ہے کہ خدا آپ کا ھادی و راھنما ہے: وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِياً وَنَصِيراً۔
اے میرے حبیب! نہ تو ان کے وسوسے آپ کو گمراہ کرسکتے ہیں ـ کیونکہ خدا ھی آپ کا ھادی و راھنما ہے ـ اور نہ ھی ان کی سازشیں آپ کو توڑ سکتی ہیں ـ کیونکہ آپ کا حامی و ناصر و مددگار آپ کا پروردگار ہے جس کا علم تمام علموں سے برتر و بالاتر اور اس کی قدرت تمام طاقتوں پر فوقیت رکھتی ہے۔
اتفاق سے قرآن کی مھجوریت و تنھائی کا اھم اور افسوسناک مسئلہ حال حاضر تک ھی محدود نھیں ہے اور اسلام کے بعض ادوار میں حتی یہ کیفیت اس سے بھی زیادہ افسوسناک تھی اور قرآن اس سے کھیں زیادہ مھجور و تنھا تھا۔
حالیہ چند صدیوں میں جمال الدین اسد آبادی (افغانی)، شیخ محمد عبدہ وغیرہ جیسے علماء نے امت مسلمہ میں قرآن کی مھجوریت کے المیے کو سمجھ لیا اور اس کے مقابلے میں جدوجھد کے لئے کمربستہ ھوئے۔
انھوں نے اس حقیقت پر زور دیا کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں منصوبہ سازی کے سلسلے میں قرآن کی قوت بےمثل ہے، قرآن کے ساتھ انسیت اور دوستی کس قدر لذت آفریں ہے، اور خواص کے درمیان قرآن ان غلط افکار کے خلاف جدوجھد کی جو قرآن کو مھجور اور تنھا کردیتے ہیں اور ان افکار و نظریات کے خلاف اٹھ کھڑے ھوئے جو قرآن کی افادیت کو کم کردیتے ہیں اور اگر ان افکار و نظریات کی پیروی کرے تو قرآن سے کم از کم فیض اٹھانے کے قابل ھونگے۔
سید جمال الدین اسد آبادی نے اپنی ایک تقریر کے ضمن میں کھا:
بار خدایا! تیرا ارشاد ہے کہ:
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ؛ اور جنھوں نے ھماری راہ میں جدوجھد کی، انھیں ھم اپنی راھوں پر لگاتے ہیں اور یقینا اللہ اچھے کردار والوں کے ساتھ ہے۔ (سورہ عنکبوت، 69)
۔۔۔ صاحبو! انسانی مثالی شھر (یا مثالی معاشرہ Utopia) اور سعادت انسانی کی صراط مستقیم قرآن ہے، مقدس اور گرامی دستور جو تمام عالمی ادیان حقہ کی شرافت کا ثمرہ اور دین اسلام کی خاتمیت مطلقہ کا برھان ہے روز قیامت تک، اور دونوں جھانوں کی سعادت اور دونوں حیاتوں کی کامیابی۔
آہ و افسوس، کہ کس قدر فرط غفلت کا شکار ھوکر مھجور و مترو ھوچکا ہے، مقدس اور گرامی دستور جس کے ضیاء بخش انوار کی ایک مختصر سی جھلک نے عالم قدیم اور دنیائے جدید کو اُس حقارت و خفت سے اس تھذیب و تمدن تک پھنچایا ہے۔
آہ آہ! کس طرح آج قرآن کریم کے تمام فوائد اور افادیتوں کو جھل و غفلت کی وجہ سے ذیل کے امور تک محدود کیا گیا ہے:
شب جمعہ مرحومین کی قبروں کے اوپر تلاوت؛ روزہ داروں کی مصروفیت؛ مساجد میں پرانے اور نئے نسخوں کا ڈھیر بنانا (الفاظ جمال الدین اسد آبادی یا افغانی صاحب کے ہیں مترجم کو معاف کیا جائے)؛ گناھوں کا کفارہ؛ مکتب و مدرسے میں وسیلہ معاش برائے استاد؛ نظر بد کا علاج؛ نذر و تعویذ؛ جھوٹی قسم؛ گداگری کا وسیلہ؛ بچوں کے لنگوٹ کی زینت؛ زنانہ صدری کی زینت؛ نانبائی کا بازوبند؛ بچوں کی مالا؛ مسافرین کی حمائل؛ جن زدہ اور آسیب زدہ افراد کا اسلحہ؛ چراغان کی زینت؛ طاق نصرت (محراب فتح) کی نمائش؛ گھر کا سامان منتقل کرنے کا مقدمہ (سب سے پھلے قرآن مجید لے جایا جاتا ہے)؛ زورخانہ کے کارکن کی تعویذ برائے حفاظت، روس و ھند کا مال التجارہ، کتب فروشوں کا سرمایہ، راستوں اور گذرگاھوں میں بےتقی عورتوں اور بےحیثیت مردوں کا سرمایۂ گدائی۔
آہ، وا اسفا! ایک سورہ والعصر ـ جو صرف تین آیتوں پر مشتمل ہے ـ اصحاب صفہ کی تحریک کی بنیاد ٹھہری، جنھوں نے اسی مختصر سورہ مبارکہ کے مقدس فیض مکی بت خانے کا شرکستان ـ ھجرت سے قبل تک ـ بستان وحدت اور یزدان خانۂ بطحا میں بدل دیا۔
آہ و افسوس! یہ مقدس آسمانی کتاب، یہ حضرت سبحانی کی تصنیف گرامی، یہ انسانوں کی تمام سعادتوں کا سرمایہ، آج دیوان سعدی، دیوان حافظ، مثنوی رومی اور دیوان فارض سے بھی کم ھی قابل اعتناء و اھتمام ہے اور ھر معنی اور موعظے میں ان کے حوالے دیئے جاتے ہیں قرآن کو چھوڑ کر۔
نہ صرف ایسا نھیں ہے بلکہ جب ایک اجتماع میں اشعار پڑھے جاتے ہیں، سانسیں تہہ دل سے لی جاتی ہیں، آنکھیں، منہ اور کان کھلے کے کھلے۔۔۔ اور کس قدر قرآن اس کے برعکس کھیں بھی کسی کی قیل و قال و فکر اور کام میں آڑے نھیں آتا (اور ان تمام امور کے سامنے قرآن کو وقت نھیں دیا جاتا)۔
واحد راہ علاج و نجات اس حقیقت میں منحصر ہے کہ:
مسلمانوں میں سے ھر فرد کو چاھئے کہ قرآن کے مطابق ـ قرآن کے قدم پر قدم رکھ کر اور اطاعت کاملہ کرتے ھوئے ـ عمل کرے، سب اسلام کے صدر اول میں اپنے صالح اور نیک اسلام کی پیروی کریں اور خلوص نیت، باطنی طھارت اور ایثار و قربانی، نفرت، بخل، لالچ، حماقت و سادگی، عیاشی اور عشرت پرستی، واجبات کی پابندی اور محرمات سے پرھیز ـ جو ھمارے اسلاف کی سعادت و سیادت کا سبب تھا ـ کو رو بہ عمل لائیں اور لوگوں کو اس کی طرف بلائیں۔
دوسری طرف سے قرآن کریم مسلمانوں کو قرآن میں غور و تدبر کرنے اور اس کے ساتھ مانوس ھونے کی دعوت دیتا اور فرماتا ہے:
"كِتابٌ أَنْزَلْناهُ إِلَيْكَ مُبارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آياتِهِ وَ لِيَتَذَكَّرَ أُولُوا الْأَلْبابِ؛ اور جنھوں نے ھماری راہ میں جدوجھد کی، انھیں ھم اپنی راھوں پر لگاتے ہیں اور یقینا اللہ اچھے کردار والوں کے ساتھ ہے"۔ (سورہ عنکبوت، آیت 7)
تلاوت، قرآن کے ساتھ قربت اور انسیت کے اسباب فراھم کرتی ہے اور یہ عمل قرآن میں غور و تدبر، اس سے سبق لینے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کا سبب ھوسکتا ہے۔
"فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ؛ اب جتنا قرآن تم آسانی سے پڑھ سکتے ھو اتنا ھی پڑھ لیا کرو"۔ (سورہ مزمل، آیت 20)
اور امام جعفر صادق علیہ السلام مسلمانوں کو روزانہ کم از کم 50 آیات قرآنی کی تلاوت کی دعوت دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:
"اَلقُرْآنُ عَهْدُاللّهِ اِلى خَلْقِهِ، فَقَدْ يَنْبَغي لِلْمَرْءِ المُسْلِمِ اَنْ يَنْظُرَ فِى عَهْدِهِ، وَاَنْ يَقْرَأ مِنْهُ فى كُلِّ يَوْمٍ خَمْسينَ آيةً؛ قرآن خدا کا عھد ہے جو اس نے اپنے بندوں سے لیا ہے؛ ایک مسلمان پر فرض ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے اس عھدنامے پر غور کرے اور ھر روز اس کی پچاس آیتوں کی تلاوت کرے"۔ (وسائل الشیعۃ، ج4، ص849)
ھمارے دینی منابع میں تسلسل کے ساتھ قرآن کی جاری و ساری تلاوت کی ترغیب دلائی گئی ہے کیونکہ یہ عمل قرآن کے ساتھ انسیت کا سبب ہے اور مسلسل تلاوت اور قرآن کے ساتھ مؤانست آیات الھیہ میں غور و تدبر کے اسباب فراھم کرتی ہے اور مھم قرآنی معارف و تعلیمات کے بحر بےکراں سے درس آموزی اور ان معارف و تعلیمات پر عمل کرنے کی طرف بڑا قدم ھوگی۔
قرآن کی تلاوت، قرآن کے ساتھ مؤانست، معارف قرآن کی فھم اور اس میں غور و تدبر اور اس پر عملدرآمد، فردی اور اجتماعی سوالات اس کے سامنے پیش کرنا اور جواب حاصل کرنا اور قرآنی معارف کی بنیاد پر فردی اور معاشرتی زندگی کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنا، قرآن کے آگے ایک مسلمان شخص اور اسلامی معاشرے کے فرائض کا کچھ ہی حصہ ہے جس تک پھنچنے کے لئے ھمیں طویل مسافت طے کرنا پڑ رھی ہے کیونکہ ھم نے اس کی قربت کو ضروری نھیں سمجھا ہے، اور بےحاصل ظواھر اور بےجا رونمائیوں سے عبور نھیں کرسکے ہیں اور قرآن کو مسلمانوں کی فردی اور معاشرتی حیات کے متن و مرکز میں نھیں لاسکے ہیں۔ یہ قرآن کی مھجوریت کے معنی ہیں گوکہ ممکن ہے ـ اور عمل میں بھی ایسا ھی ہے ـ کہ گلی کوچوں میں آرائشی قرآنوں کی رونمائی کی جائے اور اس کے معانی کو چھوڑ کر اس کے ظواھر کو بازیچہ بنایا جائے۔
ترجمہ: فرحت حسین مھدوی
پیغمبر﴿ص﴾ نے خدا سے اپنی امت کے کونسے گناہ کی شکایت کی؟
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1583