ایک زمانہ تھا جب مسلمان یورپ، برطانیہ وغیرہ میں اجنبی تھے۔ اھل یورپ نے مسلمانوں کے لیے دروازے ضرورکھولے، مگر ان کے دل نھیں کھلے تھے،لیکن آج اسلام امریکا و برطانیہ سمیت پورے یورپ میں بڑے جوش وخروش سے پھیل رھا ہے، اسلامی لٹریچر تقسیم ھو رھا ہے۔ لوگ قرآنی تعلیمات، حقائق، سچائی اور دلائل پر مبنی ریسرچ اور تحقیق کے بعد اسلام میں داخل ھو رھے ہیں۔
برطانوی جریدے اکانومسٹ کی گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک میں لوگ تیزی سے اسلام قبول کررھے ہیں۔ نائن الیون کے بعد صرف برطانیہ میں ایک لاکھ لوگ اپنا پرانا مذھب چھوڑ کر اسلام میں داخل ھوچکے ہیں۔
ویلز یونیورسٹی کے محقق کیون بروس کے مطابق ھر سال 5200 افراد دائرہ اسلام میں داخل ھورھے ہیں۔اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنھوں نے مسلمانوں کے ساتھ قابل ذکر وقت گزارا اور ان سے متاثر ھوئے۔ برطانیہ میں نسلی امتیاز اور اخلاقی اقدار کے فقدان کی وجہ سے لوگ اسلام جیسے امن پسند مذھب کی جانب راغب ھو رھے ہیں۔
انگلینڈ میں تقریباً ساڑھے 7 ملین، فرانس میں 5 ملین اور جرمنی میں چار ملین سے زاید مسلمان موجود ہیں، ان بڑے ممالک کے علاوہ اسپین، اٹلی، ڈنمارک، ناروے، ھالینڈ، یونان وغیرہ میں بھی مسلمان موجود ہیں، جن میں سے اکثر پاکستان، بھارت، بنگلا دیش سے تعلق رکھتے ہیں۔
یورپ میں اچھی خاصی تعداد ان نو مسلموں کی بھی ہے، جو مسلمان تو ھوچکے ہیں، مگر انگریزی رسم و رواج کی وجہ سے انھوں نے اپنے آپ کو چھپا رکھا ہے، کیونکہ انگریزی سماج آج بھی اسلام قبول کرنے والوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ گیرارڈ بیٹن جیسے لوگوں کی سرپرستی میں میڈیا بلاوجہ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈاکرتا نھیں تھکتا۔مسلمانوں کے خلاف ھر طرح کا تعصب برتا جاتا ہے، لیکن ان تمام سختیوں اور پروپیگنڈے کے باوجود اسلام یورپ میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رھا ہے۔ اس بڑھتی ھوئی آبادی اور اسلام کی مقبولیت سے امریکا و برطانیہ سمیت پورا یورپ خاصا پریشان دکھائی دیتا ہے، اسی لیے آئے دن گیرارڈ بیٹن اور ٹیری جونز جیسے متعصب لوگ یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ھوئی تعداد سے خوفزدہ ھوکر اسلام کی توھین پر اتر آتے ہیں۔
کبھی نعوذ باللہ دنیا کی مقدس ترین کتاب قرآن مجید کو آگ لگاکر اپنے بغض کا اظھار کیا جاتا ہے اور کبھی قرآن مجید کے بعض حصوں سے لاتعلقی کے اظھار کا کھا جاتا ہے۔کبھی خانہ کعبہ و مدینہ منورہ پر حملے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اورکبھی مساجد کے مینار گرانے، مساجد کو مسمارکرنے اور مساجدکی تعمیر پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور کبھی حجاب پر پابندی لگاکر مسلمانوں کو ستایا جاتا ہے۔
برطانیہ میں مسلمان ھونے والی آبادی کا 66 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے، برطانیہ میں عام افراد تیزی سے اسلام کی جانب راغب ھورھے ہیں گزشتہ چند برس میں ایک لاکھ سے زائد افراد دینِ حق قبول کرچکےہیں۔ ان میں اکثریت سفید فام نوجوان خواتین کی ہے جبکہ گزشتہ برس 5000 سے زائد برطانوی دائرہ اسلام میں داخل ھوئے ہیں۔ گزشتہ 10 برس کے مقابلے میں برطانیہ میں اسلام قبول کرنے والے افراد کی تعداد دگنی ھوچکی ہے۔ ان میں اکثریت نوجوان سفید فام خواتین کی ہے جو معاشرے کی بے راہ روی اور مادہ پرستی سے سخت نالاں ہیں۔ یہ خواتین روحانی سکون کی تلاش میں تھیں جو انھیں اسلام میں ملا ہے۔ برطانیہ میں کثیرالمذھبی تنظیم ’فیتھ میٹرز‘ نے ایک طویل سروے کے بعد کھا ہے کہ برطانیہ میں اسلام تیزی سے فروغ پارھا ہے اور اسے قبول کرنے والے خواتین و حضرات کے مطابق اسلام پر عمل پیرا رھتے ھوئے برطانیہ میں رھا جاسکتا ہے کیونکہ یہ معاشرے سے ’مکمل مطابقت‘ رکھتا ہے۔ واضح رھے کہ سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر کی سالی لورین بوتھ نے جب اسلام قبول کیا تو اس کے بعد بھی دینِ اسلام کے دائرے میں داخل ھونے کا رجحان بڑھا اور برطانوی ذرائع ابلاغ میں اس کا بھت چرچا ھوا تھا۔
تاھم فیتھ میٹرز نے کھا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی جانب سے اسلام قبول کرنے کا مقصد یہ نھیں کہ وہ مغربی طرزِ زندگی کے خلاف ہیں بلکہ عام نارمل افراد دین کی جانب مائل ھورھے ہیں اور وہ اسلام کو مغربی معاشرے اور اقدار کے ساتھ ھم آھنگ بھی سمجھتے ہیں۔
سروے کے مطابق گزشتہ 12 ماہ میں 5200 افراد نے اسلام قبول کیا جن میں لندن کے لوگوں کی تعداد 1400 ہے ۔ اسلام لانے والے دوتھائی افراد میں سفید فام خواتین شامل ہیں جن کی اوسط عمر 27 سال ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کھا گیا ہےکہ اسلام قبول کرنے کے بعد بعض افراد نے دھشت گردی کی کارروائیاں بھی کیں جن میں نک ریئلی بھی شامل ہے جس نے کیل بم سے برسٹل کے ایک ریستوران کو اڑانے کی کوشش کی ۔ دوسری جانب جوتے میں بم چھپانے والے رچرڈ ریڈ اور 7 جولائی کے بم دھماکوں میں حصہ لینے والے گرمین لنڈسے بھی برطانوی نومسلم تھے۔
رپورٹ میں کھا گیا ہے کہ اسلام قبول کرنے والے افراد کی بھت قلیل تعداد ھی شدت پسندی کی جانب مائل ہے جنھیں ایک چھوٹی اقلیت قرار دیا جاسکتا ہے تاھم سوان سی یونیورسٹی کی جانب سے کیے گئے اس سروے میں نومسلم خواتین و حضرات نے برطانوی ماحول کے منفی پھلوؤں پر بھی بات کی تھی۔
ان کے نزدیک شراب نوشی، منشیات، اخلاقی گراوٹ، جنسی بے راہ روی اور خریداری و مادہ پرستی کا جنون برطانیہ کے تاریک پھلو ہیں۔ اسلام قبول کرنے والے ھر چار میں سے ایک نے اعتراف کیا ہے کہ ایک باعمل مسلمان برطانوی معاشرے سے فطری طور پر متصادم ہے ۔ 50 فیصد خواتین نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسکارف پھنا جبکہ 5 فیصد نے برقع کا انتخاب کیا۔ نصف سے زائد افراد نے کھا کہ اسلام اپنانے کے بعد انھیں اپنے خاندان کے منفی رویے کا سامنا ھوا۔
برطانیہ میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد:
خوبصورت، مضبوط اور عالیشان عمارتوں، صاف ستھری شاھراھوں پر دوڑتی موٹر گاڑیوں اور بھترین نظم و ضبط والا شھر لندن ان دنوں تھذیبی تبدیلی کے دور سے گذر رھا ہے۔ پھلے جھاں عام طور پر مغربی تھذیب ھی نظر آتی تھی وھاں آج مشرقی اقدار کی جھلک بھی دکھائی دینے لگی ہے۔ اب یھاں صرف انگریزی طرز زندگی ھی نھیں دکھائی دیتی بلکہ اسلامی تمدن کی روشنی بھی دکھائی دینے لگی ہے۔ یھاں مسلمانوں کی تعداد بھت تیزی سے بڑھ رھی ہے۔ یہ بات صرف لندن ھی کی نھیں بلکہ پورے انگلینڈ کی ہے۔
دوسرے لفظوں میں فی الحال برطانیہ میں اسلام کی بادبھاری چل رھی ہے اور اس کی تازگی، خنکی اور خوشبو کا احساس ھر کسی کو ھورھا ہے۔ پیغام توحید و رسالت مغربی افکار واقدار کے تاروپود بکھیر رھا ہے اور حق و صداقت کی کرنیں اھل کلیسا کے دل و دماغ کو روشن کر رھی ہیں۔
برطانوی حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار اور مختلف تحقیقات کے نتیجے ظاھر کرتے ہیں کہ یھاں اسلام پسندوں کی تعداد میں اضافہ ھورھاہے اور عیسائیوں کی تعداد گھٹ رھی ہے۔ مسجدیں آباد ھو رھی ہیں اور چرچ ویران ھورھے ہیں۔ نئی نئی مسجدیں خوب تعمیر ھورھی ہیں یا پرانی عمارتوں کو خرید کر مسجد میں تبدیل کیا جا رھا ہے تو دوسری طرف عیسائیوں کی عدم توجھی کے سبب گرجا گھروں کو بند کیا جا رھا ہے۔ کئی جگہ تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ گرجا گھروں کے مالکان نے انھیں مسلمانوں کے ھاتھوں فروخت کردیا کہ وہ اسے مسجد بنا لیں۔ یہ صورت حال جھاں عیسائیت کے خیر خواھوں کے لئے فکر کا سبب ہے وھیں اسلامی داعیوں کے لئے باعث مسرت ہے۔ اس سے مغربی شھریوں کا مذھب کے تعلق سے مثبت رویہ کھا جاسکتا ہے کہ ایک طرف جھاں اسلام کی مخالفت ھوتی ہے وھیں دوسری طرف اس کے بارے میں عوام اچھے خیالات بھی رکھتے ہیں۔
سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذھب:
برطانیہ میں ھوئے ایک نئے ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ اس ملک میں اسلام سب سے تیزی سے بڑھنے والا مذھب ہے۔ وھیں، چرچ آف انگلینڈ کو کم تعداد میں پیروکار مل رھے ہیں۔ نیٹسین کے برطانوی سوشل ایڈٹس یوٹس سروے کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں چرچ آف انگلینڈ کے 20 لاکھ پیروکار کم ھوئے ہیں تو دین اسلام کے ماننے والوں کی تعداد میں10 لاکھ تک کا اضافہ ھوا ہے۔ تاھم، اب بھی برطانیہ میں سب سے زیادہ تعداد کسی بھی مذھب کو نھیں ماننے والوں کی ہے۔ یہ برطانیہ کی کل آبادی کے قریب نصف (49 فیصد) ہیں۔
1983ء میں برطانیہ میں ملحد کل آبادی کے 31 فیصد اور ایک دھائی پھلے کل آبادی کے 43 فیصد تھے۔ 1983ء میں برطانیہ میں کسی بھی مذھب کو نہ ماننے والوں کی تعداد 1.28 کروڑ تھی جو 2014 میں بڑھ کر 2.47 کروڑ ھو گئی۔ نیٹسین کے سروے سے نکلے نتائج کے مطابق، برطانوی بالغ کافی کم تعداد میں چرچ آف انگلینڈ کے پیروکار بن رھے ہیں۔ 1983ء میں 40 فیصد لوگ چرچ کے پیروکار تھے، 2014ء میں ان کا فیصد گھٹ کر 17 رہ گیا۔ چرچ آف انگلینڈ کے پیروکاروں کی تعداد میں گزشتہ ایک دھائی میں سب سے زیادہ ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ نیٹسین کی ناومی جونز کے مطابق 1983ء میں اسلام کو ماننے والوں کی تعداد کل آبادی کی محض 0.6 فیصد تھی جو 2014ء میں بڑھ کر تقریبا 5 فیصد تک پھنچ گئی ہے۔ انھوں نے کھا کہ کیتھولکوں کی تعداد 30 سالوں سے تقریبا ایک سی رھی ہے۔
اسی طرح برطانوی سرکار نے جو 2011ء کے اعداد وشمار جاری کئے ہیں، ان کے مطابق برطانیہ میں مسلمانون کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ھوا ہے اور عیسائیوں کی آبادی کم ھوئی ہے۔ آبادی کے متعلق یہ اعداد و شمار بھت سی زمینی حقیقتوں کو ظاھر کرتے ہیں اور مستقبل کے حالات کی پیشین گوئی بھی۔ اس سینسس کے مطابق 2001ء اور 2011ء کے دوران عیسائیوں کی آبادی میں گیارہ فیصد کی کمی آئی ہے۔ پھلے ان کی آبادی 3۔38 ملین تھی جو اب ۲. ۳۳ ملین رہ گئی ہے۔ جبکہ دس سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں۸۰ فیصد کا اضافہ ھوا ہے۔ ۲۰۰۱ء میں مسلمانوں کی آبادی ۵.۱ ملین تھی جو ،اب بڑھ کر ۷.۲ ملین ھوگئی ہے۔
دوسرے الفاظ میں اسلام برطانیہ کا دوسرا سب سے بڑا مذھب بن چکا ہے۔ مسلمانوں کے بعد تیسری سب سے بڑی اکثریت ھندو ہیں جن کی آبادی ۱۷۰۰۰،۸ ہے۔ یھاں سکھ ۲۳۰۰۰،۴ ، بدھسٹ ۴۸۰۰۰،۲ اور یھودی ۶۳۰۰۰،۲ ہیں۔ اس سینسس میں برطانیہ کی کل ابادی ۰۶.۲۶ ملین بتائی گئی ہے۔ ۲۰۰۱ء میں عیسائی ۷۲ فیصد تھے، جو اب دس برس میں گھٹ کر ۵۹ فیصد ھوچکے ہیں۔ اسی میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسلمان جو دس برس قبل محض تین فیصد تھے اب بڑھ کر پانچ فیصد تک پھنچ گئے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کو ان اعداد کو قبول کرنے سے گریز ہے اور وہ مانتے ہیں کہ ان کی تعداد اس سے کھیں زیادہ ہے۔
مسلمانوں کا کھنا ہے کہ مردم شماری میں مذھب کا خانہ لازمی نھیں بلکہ اختیاری ہے لھذا ھرکوئی اپنے مذھب کے بارے میں جواب نھیں دیتا۔ اس رپورٹ کے مطابق 7.2 فیصد شھریوں نے اپنے مذھب کے بارے میں نھیں بتایا ہے۔ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ جن لوگوں نے اپنے مذھب کے بارے میں جواب نھیں دیا ہے ان میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔
لامذھبیت میں اضافہ:
برطانیہ میں مذھب بیزار طبقے کی تعداد میں بھی اضافہ ھوا ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد 83 فیصد بڑھی ہے۔ 2001ء میں 7.7 ملین لوگوں نے بتایا تھا کہ وہ کسی بھی مذھب پر عمل نھیں کرتے، جب کہ 2011ء میں 14.4 ملین لوگوں نے خود کو لامذھب ظاھر کیا۔ گویا برطانیہ کی آبادی کا ایک تھائی حصہ لامذھب ہے اور کسی بھی مذھب میں یقین نھیں رکھتا۔ مشرقی انگلینڈ کے ناروچ کے 42فیصد سے زیادہ لوگوں نے خود کو لامذھب ظاھر کیا۔ برطانیہ میں 2012ء کے دوران ایک سروے کیا گیا جس سے یہ ظاھر ھوتا ہے کہ نئی نسل مذھب بیزاری میں دوسروں کے مقابلے پیش پیش ہے۔ نوجوان عام طور پر مذھب میں دلچسپی نھیں دکھاتے، مگر دوسری طرف ایک سروے ظاھر کرتا ہے کہ یھاں جو لوگ اسلام قبول کرتے ہیں ان میں کثریت نوجوانوں کی ھوتی ہے۔ مذھب اسلام پر عمل کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کا ایک بڑا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ دوسرے ملکوں سے لوگ ھجرت کرکے آئے ہیں اور عیسائیوں نے بھی اسلام قبول کیا ہے۔
مھاجر مسلمان:
برطانیہ کا قانون بیرون ملک سے آنے والوں کے لئے انتھائی نرم ہے، لھذا لوگ آسانی سے ویزا حاصل کرلیتے ہیں اور یھاں آکر ایک مدت گذارنے کے بعد یھیں کے ھوکر رہ جاتے ہیں۔ جو بچے یھاں پیدا ھوتے ہیں وہ نہ صرف برطانیہ کے شھری ھوجاتے ہیں بلکہ ان کی تعلیم و تربیت اور علاج و معالجہ کا خرچ بھی یھاں کی حکومت اٹھاتی ہے۔ بچے کی پیدائش سے ھی اس کے لئے وظیفہ شروع ھوجاتا ہے۔ اس قانون کا مسلمان بھی خوب فائدہ اٹھا رھے ہیں اور بھارت و پاکستان نیز مشرق وسطیٰ سے آکر یھاں بس رھے ہیں۔
اسلامک مشن کالج، گلاسگو کے لکچرر مولانا فروغ القادری بتاتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر گیا، بھار(بھارت) کے رھنے والے ہیں مگر اب برطانیہ کے شھری بن چکے ہیں اور ان کے چاروں بچوں کی پیدائش یھیں ھوئی۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ انھوں نے ندوۃ العلماء لکھنو سے فضیلت کی اور برطانیہ آکر انگلش میں ایم اے کی ڈگری لی۔ وہ انگلینڈ میں ایک شاندار زندگی جی رھے ہیں، جو بھارت میں رھتے ھوئے کبھی ممکن نہ تھا۔ انھیں کی طرح لاکھوں برطانوی مسلمان کسی دوسرے ملک میں پیدا ھوئے مگر یھاں آکر بس گئے ہیں۔ مشرقی لندن کا ٹاور ھلمٹ علاقہ 34فیصد سے زیادہ مسلم آبادی والا علاقہ ہے، جبکہ برطانوی مسلمانوں کی چالیس فیصد آبادی لندن میں ھی رھتی ہے۔
نو مسلم:
برطانیہ میں اشاعتِ اسلام مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کا ایک اھم سبب ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یھاں ھر سال 5000 افراد اسلام قبول کرتے ہیں جن میں 70فیصد خواتین ھوتی ہیں اور یہ تعداد روز بروز بڑھ رھی ہے۔ ھر مھینے سینکڑوں افراد اسلام قبول کر رھے ہیں۔ ان کی تعداد اب لاکھوں تک پھنچ چکی ہے۔ ان اعدادوشمار پر نظر رکھنے والے مانتے ہیں کہ عنقریب اسلام قبول کرنے والوں کی سالانہ تعداد 14000سے 250000 کے بیچ ھوجائیگی۔ ایک سروے کے مطابق اسلام قبول کرنے والوں میں 70فیصد سیاہ فام اور جوان ھوتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کی اوسط عمر 27سال ھوتی ہے۔
اسلام ھی کیوں؟:
سوانسی یونیورسیٹی کی کیون برک نے ایک سروے کیا جس میں پایا کہ اسلام قبول کرنے والوں میں بیشتر وہ لوگ تھے جو برطانوی سماج کے منفی رخ سے نالاں تھے۔وہ شراب نوشی اور نشہ خوری کو ناپسند کرتے تھے اور جنسی بے راہ روی کو بھی اچھی نظر سے نھیں دیکھتے تھے۔ اسلام قبول کرنے والے یھاں کے سرمایہ دارانہ نظام کو بھی ناپسندکرتے تھے اور انھیں ان تمام مسائل کا حل اسلام میں نظر آیا۔ سروے کے مطابق جن خواتین نے اسلام قبول کیا ، ان میں سے نصف نے حجاب پھننا شروع کردیا اور پانچ فیصد نے تو برقع کے ذریعے اپنے چھرے کو بھی ڈھک لیا۔اسلام قبول کرنے والوں میں بڑی تعداد قیدیوں کی بھی پائی گئی۔ جیلوں میں بند لوگ یکسوئی کے ساتھ اسلام کے مطالعے کا موقع پاتے ہیں اور اسے اپنا لیتے ہیں۔ جیلوں میں بند لوگوں میں بڑی تعداد میں مسلمان بھی شامل ہیں۔
آخر اتنی تیزی سے برطانوی اسلام کی طرف کیوں آرھے ہیں؟
اس سوال کا جواب یھاں کے سماجی حالات پر نظر رکھنے والے یہ دیتے ہیں کہ عیسائیت اور یھودیت نے یھاں اپنی روحانی کشش کھودی ہے، اب جنھیں دل و دماغ کا سکون چاھئے وہ اس کی تلاش میں اسلام کا سھارا لیتے ہیں۔ عام طور پر یھاں کا معاشرہ مذھب میں زیادہ دلچسپی نھیں لیتا۔ عیسائیوں کا ایک چھوٹا سا طبقہ ھی چرچ جاتا ہے اور وہ بھی صرف اتوار کو۔ عیسائیوں کی عدم توجھی کے سبب حال ھی میں 1600 گرجا گھروں کو ھمیشہ کے لئے بند کردیا گیا۔ اندازہ ہے کہ مستقبل قریب میں مزید گرجا گھر بند ھوجائیں گے۔ یہ سروے جس نے عیسائیوں کی مذھب میں کم ھوتی دلچسپی کو ظاھر کیا ہے، خود عیسائیوں کی ھی ایک مذھبی تنظیم نے کیا ہے۔
یورپ میں جھاں ایک طرف مسلمانوں کے لئے کچھ چیلنج ہیں تو دوسری طرف ایک بڑا طبقہ ان کا بانھیں کھول کر استقبال بھی کرتا ہے۔ یھاں عیسائیت کے لئے جو مایوس کن صورتحال ہے، وھی اسلام کے لئے خوش آئند بھی ہے۔ یھاں بیشتر لوگ مذھب میں دلچسپی نھیں لیتے اور برائے نام عیسائی ہیں مگر جیسے ھی وہ اسلام اور قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں، انھیں تازگی کا حساس ھوتا ہے اور اسے قبول کر کے وہ روحانی سکون محسوس کرتے ہیں۔ یھاں اسلام کی اشاعت میں روایتی مسلمانوں کا کوئی اھم رول نھیں ہے، بلکہ یہ اسلام کی اپنی کشش ہے کہ لوگ اس سے متاثر ھورھے ہیں۔
خود نومسلم اسلام کی تبلیغ کا کام کرتے ہیں اور دوسروں کو اسلام کے قریب لاتے ہیں۔ خود مخالفین کی کوششیں بھی اسلام کے فروغ کا باعث بنتی ہیں، جسے قرآن کی زبان میں کھا جائے تو اللہ تعالیٰ شر میں بھی خیر کا پھلو نکال لیتا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو احساس ھوتا ہے کہ اسلام کی کشش اور نومسلم بھائیوں کی کوشش یھاں زیادہ کام کر رھی ہے، مگر روایتی مسلمانوں میں کوئی تبدیلی نھیں دکھائی دیتی۔ ان کی وھی رفتار بے ڈھنگی یھاں بھی نظر آتی ہے جو دنیا کے دوسرے ممالک میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ یھاں بھی جرائم، تشدد اور منشیات اور جسم فروشی کے دھندوں میں ماخوذ ھوتے ہیں اور جیل جاتے ہیں۔ ان کے بچے بھی مذھب بیزار ھورھے ہیں اور اپنی تھذیب وزبان سے دور ھوتے جارھے ہیں۔ کم مسلمان ایسے ہیں جو اسلام اور مشرقی کلچر کی پاسداری کرتے ہیں۔
یورپ کو لاحق تشویش:
مغرب میں نئی مسلمان نسل تعداد اور معیار دونوں حوالوں سے بھت اھم ہے۔ گو یہ کثیر ثقافتی جھت ہے، تاھم مغربی تھذیب کے لیے مسئلہ بن چکی ہے۔ یھی وجہ ہے کہ اب مسلمان تارکین وطن کا یورپ کی جانب بھاؤ مغرب کے لیے تشویشناک ھوچکا ہے۔ تارکین وطن مخالف تحریک پورے مغرب میں نمایاں ھوچکی ہے۔ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے رجحانات سامنے ہیں۔ حال ھی میں آسٹریا کے وزیرداخلہ وولف گینگ سوبوٹکا نے بیان دیا کہ جھاں تک ملک کی داخلی سلامتی اور عوامی نظم و ضبط کا تعلق ہے، مجھے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کون میرے ملک میں داخل ھو رھا ہے۔
اقوام متحدہ جینیوا کے ڈائریکٹر مائیکل مولرنے خبردار کیا ہے کہ یورپ کمر کس لے، افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطٰی سے لاکھوں تارکین وطن کا سیلاب براعظم یورپ امڈنے والا ہے۔ دو مئی کو یورپی یونین کمشنر برائے تارکین وطن دمترس آورمپولوس نے آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی، ناروے اور سوئیڈن سے کھا ہے کہ آئندہ چھ ماہ تک شینگین سرحدوں کا کنٹرول سخت کر دیں۔
غرض، یورپی مسلمانوں کی تعداد اور معیار کا ھر دو جانب سے سدباب کیا جا رھا ہے۔ اس معیاری تعداد پر قابو پانے کے لیے آنے والوں کا راستہ روکنا اور بسنے والوں کو بھاگنے پر مجبورکرنا ہے۔ دھشت گرد واقعات کی ھاھاکار بےسبب نھیں ہے۔ ایک تیسری پالیسی بھی ہے، وہ یہ کہ جومسلمان مرعوب و محکوم ہیں، ان کی مطلوب محنت مزدوری اور ممکنہ روشن خیالی کا امکان باقی رکھا جائے۔
یورپ میں اسلام کے ابھرتے ھوئے نوجوان چھرے کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ اس مزاحمت کے بھی تین مراحل ہیں۔
پھلا مرحلہ کھتا ہے کہ مسلمان مغرب میں بخوشی رھیں، مگر اسلام کے لیے کوئی جگہ نھیں۔ اس مؤقف کی بھت مثالیں ہیں۔
دوسرا مرحلہ کھتا ہے کہ مسلمانوں کے ہمراہ اسلام بھی بخوشی قبول کیا جاسکتا ہے، مگر یہ اسلام مغرب کی مرضی کا ھوگا۔ یعنی مغرب کے معیار و اقدار پر اصلاح شدہ ھوگا۔ اصلاح شدہ سے کیا مراد ہے؟ یہ طارق رمضان کا اسلام ھوسکتا ہے، لبرل روشن خیالوں کا اسلام ھوسکتا ہے، یا گولن کا اسلام ھوسکتا ہے۔ جس میں اسلامی قوانین اور تھذیبی حاکمیت و جامعیت کا کوئی امکان موجود نہ ھوگا۔
مزاحمت کا تیسرا مرحلہ خوف و دھشت اور قتل وغارت ہے۔
پھلے دونوں مرحلے سیاسی اور نفسیاتی نوعیت کے ہیں۔ پھلے مرحلے کی مناسب مثال امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور پورے مغرب کا عمومی رویہ ہے۔ دوسرے مرحلے کی مناسب مثالوں میں فرانس کے تازہ تازہ صدرامینیول میکخواں اور امریکہ کے باسی صدر براک اوباما ہیں۔ یہ مسلمانوں کا خوف کم کرتے ہیں، مگر پالیسیاں بدلنے کی قوت نھیں رکھتے۔ اس لیے کہ مزاحمت کا تیسرا مرحلہ عملی ہے۔ اس مرحلے پر عملدرآمد کا اختیارسیاستدانوں اورحکومتوں کے ھاتھ میں نھیں۔ یہ اختیارات صرف ایک حکومت کے ھاتھ میں ہیں، جو مغرب کی کُل معیشت پر قابض ہے اوراسلام سے حالت جنگ میں ہے۔
مغربی ممالک میں مسلم برادری کے خلاف حملوں کا بڑھتا ھوا رجحان بھی اسی نفرت کے اظھار کا ایک طریقہ ہے۔ چند ماہ قبل برطانیہ میں ٹیل ماما نامی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف 18 ماہ کے دوران اقلیتی مسلمانوں کے خلاف مجموعی طور پر 12 سو سے زاید حملے کیے گئے اور حملوں کا یہ رجحان وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رھا ہے۔
برطانیہ میں ایک مسلمان عورت نے ٹیل ماما ادارے کو بتایا کہ مجھ پر کئی مرتبہ حملہ کیا گیا، مجھ پر تھوکا گیا، مجھے مارا پیٹا گیا، حتی کہ جب میں حاملہ تھی، مجھے میرے بیٹے اور میرے خاوند کے سامنے روندھا تک گیا۔ یورپی یونین کی ایجنسی برائے بنیادی حقوق سے تعلق رکھنے والی کاٹیا اینڈروسز کے بقول ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ اور فرانس مسلمانوں کے خلاف ھونے والے حملوں کا مرکز ہیں۔ یورپ میں مسلمانوں کے ساتھ اس امتیازی سلوک کو دیکھتے ھوئے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی نو مسلم خواھر نسبتی اور ممتاز صحافی بوتھ نے اپنے ایک بیان میں کھا تھا کہ برطانوی مسلمانوں کی تعداد میں اضافے سے کسی کو خوفزدہ ھونے کی ضرورت نھیں، انھیں چاھیے کہ مسلمانوں سے خوش رھیں۔ اگر مسلمانوں کی تعداد بڑھ رھی ہے تو یہ ملک کے لیے اچھی بات ہے، مسلمان پرامن لوگ ہیں۔
حقیقت یھی ہے کہ اسلام امن و آشتی اور انسانیت کی بھلائی کا درس دیتا ہے، اسی عالمگیر سچائی کی جانچ پڑتال کے بعد یورپ میں اسلام کے دامن عافیت میں پناہ لینے والوں کی اکثریت مشھور و معروف اور پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہے۔ یورپ میں گزشتہ سال اسلام کے دائرے میں داخل ھونے والے صرف چند معروف نام ذکرکیے جاتے ہیں۔ عرب ٹیلنٹ ایوارڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی امریکی پاپ گلوکارہ 23سالہ جنیفر گراوٹ، بین الااقوامی شھرت رکھنے والے فلپائن کے شھرہ آفاق گلوکار فریڈی ایگوئلر، جرمنی کی طرف سے تھائی لینڈ میں بطور سفیر کام کرنے والی یاسمین، فرانس کی معروف گلوکارہ میلنئی جارجیا دیس المعروف دیام، فتنہ فلم کے پروڈیوسر ارنائوڈفانڈورن، ان سب کے مطابق اسلام کے مکمل مطالعہ کے بعد ھم نے اسلام قبول کیا۔ ان کے علاوہ بے شمار ایسے نام بھی ہیں جو منظرعام پر نہ آسکے۔ باکسر محمدعلی، ایوان ریڈلی مریم، محمد یوسف مبلغ یورپ، سمیرا نامی معروف عیسائی رھنما، ماھر تعلیم پروفیسرکارل مارکس، ڈاکٹر ولیمز، برطانوی ماڈل کارلے واٹس اور معروف پاپ سنگر مائیکل جیکسن کے ایک بھائی اور بھن سمیت سیکڑوں ایسے معروف افراد تھے جنھوں نے مختلف ادوار میں اسلام کی ابدی صداقت اور حقانیت کے سامنے سر تسلیمِ خم کیا۔ معروف پاپ سنگر مائیکل جیکسن اور شھزادی ڈیانا کے بارے میں بھی ان کے نھایت قریبی حلقوں کی طرف سے بار ھا کھا جاتا رھا ہے کہ وہ بھی مسلمان ھوگئے تھے۔
ان بڑی بڑی سمجھدار شخصیات سمیت مسلمان ھونے والوں کے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے کے بعد مسٹر گیرارڈ بیٹن کے اسلام کے معاملے میں بغض و عناد سے کام لینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نھیں آتی۔ اگر انھیں زبردستی اسلام قبول کروایا جاتا یا پھر یورپ میں اسلام قبول کرنے والے افغانستان و عراق سمیت اسلامی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے گیرارڈ بیٹن کے ھم مذھبوں کی طرح یورپ میں خون کی ھولی کھیلتے تو شاید اس بغض کی کوئی وجہ تراشی جاسکتی تھی، لیکن جب ایسا کچھ بھی نھیں تو گیرارڈ بیٹن کواسلام سے خوفزدہ نھیں ھونا چاھیے۔
حالانکہ یورپ کے نو مسلموں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کو کونسی چیز اسلام کی طرف کھینچ لاتی ہے تو جواباً کھتے ہیں کہ اسلام امن و آشتی کا مذھب ہے، اس سے ھمیں روحانی سکون ملتا ہے۔ جب یورپ کے لوگ خود امن و سکون کی زندگی قبول کررھے ہیں توگیرارڈ بیٹن ان کی زندگی کا سکون کیوں چھیننا چاھتا ہے؟
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ
مغرب میں اسلام کی طرف بڑھتا میلان
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1572