www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

704904
قبلۂ اول کا تقدس اس کے نام سے ھی عیاں ہے اور اس کی تقدیم و تقدس کیلئے یہ امر کافی ہے کہ اسے مسلمانان عالم کے قبلہ اول ھونے کا شرف حاصل ہے خدا کے اس مقدس گھر کی جانب رخ

کرکے اولین و سابقین مومنوں نے امام المرسلین کی پیشوائی میں نماز ادا کی۔
خداوند قدّوس نے اپنے محبوب کو معراج پر لے جانے کیلئے روئے زمین پر اسی مقدس مقام کا انتخاب کیا۔ جب سے اس کی بنیاد پڑی ہے خاصان خدا بالخصوص پیغمبروں نے اس کی زیارت کو باعث افتخار جانا ہے۔ بیت المقدس بارگاہ خداوندی کے ان اولین سجدہ گزاروں اور توحید پرستوں کا مرکز اول ہے جن کے سجدوں نے انسانیت کو ھزار سجدے سے نجات دلادی۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ جو بیت المقدس مدت مدید سے خداجو افراد کے واسطے خدا نما ثابت ھوا۔ جس نے پریشان فکروں کو مجتمع کر کے مسلمانوں کو مختلف الجھتی اور پراگندگی سے بچایا۔ جس نے فرزندان تو حید کی قوت بندگی کو مرتکز (Concentrate)کیا ۔جس کی بنیاد خدا کے ایک برگزیدہ پیغمبر نے رکھی ھوو ھی قبلہ اول آج صھیونیت کے نرغے میں ہے۔ اور بزبان حال دنیا کے تمام مسلمانوں سے اپنی بازیابی کا مطالبہ کررھا ہے۔ اور ساتھ ھی ساتھ ان کی زبوں حالی پر نوحہ کناں بھی ہے۔
قبلہ اول اس اسرائیل کے قبضے میں ہے کہ جس کے لغوی معنی ہیں ''خدا سے گتھم گتھا ھونے والا''۔یہ معنی یھودیوں کی ایک معتبر کتا ب ( The Holy Sepulchre) میں بیان کئے گئے ہیں۔انسائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر کے مطابق ''لفظ اسرائیل ''کے معنی '' خدا کے ساتھ کشتی کرنے والا '' ہیں۔(بحوالہ یھودی پروٹوکولز از: وکٹر ای مارسڈن )۔اس بات سے بخوبی اندازہ ھوتا ہے کہ اسرائیل کی بنیاد ھی خدا ستیزی کے تصور پر مبنی ہے۔
یقیناًھرباغیرت مسلمان کے دل میں یہ بات کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے کہ خدا کا یہ گھر اسی خدا ستیز ریاست کے قبضے میں ہے۔ وہ اسکی جب چاھے بے حرمتی کا مرتکب ھوسکتی ہے اور کب سے اس تاک میں ہے کہ اسے مسجد اقصی کی مسماری کا موقع فراھم ھوجائے۔
ظاھرہے کہ صھیونی حکومت اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ عالم اسلام کے نزدیک بیت المقدس کامسئلہ کافی حساسیت کا حامل ہے۔ لھذا اس مکار حکومت نے بھی اپنی توسیع پسندی کے ایجنڈے میں یروشلم کو ھی مرکزی اھمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ جس طرح عیسائی پادری اور حکمران صلیبی جنگوں سے قبل اور ان جنگوں کے دوران عیسائیوں کو غلط بیانی کے ذریعہ اکساتے تھے کہ وہ اس مقدس شھر کے حقیقی وارث ہیں۔ نیز اسی شھر میں حضرت مسیح دوبارہ ظھور فرمائیں گے وہ ھرسال اپنے پیروکاروں سے کھتے تھے کہ اگلے سال حضرت عیسی کا ظھور اسی شھر میں ھوگا۔ لھذا اس شھر کا ھمارے قبضے میں ھونا نھایت ھی اھم ہے۔
اسی فارمولے پرعمل کرتے ھوئے اسرائیل کے پھلے وزیر اعظم ڈیوڈبن گوریان نے صھیونی ایجنڈے کی سنگ بنیاد اس بیان سے ڈالی تھی کہ "یروشلم یھودی ریاست اسرائیل کا جزولاینفک ہے"۔ حالانکہ اقوام متحدہ نے اس شھر کی بین الاقوامی حیثیت کے پیش نظریروشلم کو Corpus Separationیعنی "جدا گانہ شھر" قرار دیا تھا اور یہ بات بہ اتفاق رائے اقوام متحدہ میں طے پائی تھی کہ اس پر یھودی یا عرب حکمرانی کے بجائے اقوام متحدہ کے ماتحت ایک بین الاقوامی حکومت ھوگی۔ لیکن اسرائیلی حکومت نے امریکہ اور برطانیہ کی پشت پناھی کے بل پر ابتدا سے ھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو درخوار اعتنا نہ جانا اور مسلسل خلاف ورزی کرتا آرھا ہے۔
اقوام متحدہ میں بھی رسماً اسرائیل کے خلاف قرار دادوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا غالبا اسرائیل دنیا بھر میں واحد ریاست ہے کہ جس کے خلاف اقوام متحدہ میں سب سے زیادہ قرار دادیں پیش ھوئیں۔
بھرعنوان اسرائیل کی یھی کوشش رھی کہ یروشلم ان کے ناجائز قبضے کے پرکار کا مرکزی نقطہ رھے۔ مسلمانوں کے مقاماتِ مقدسہ ان کے زیر نگین رھیں۔ اس سلسلے میں غاصب اسرائیلی حکومت نے یروشلم کے متعلق یہ تصور کیا کہ یہ شھر یھودی ریاست کا دارالحکومت ھوگا۔ چنانچہ ١٩٤٨ ء سے قبل اسرائیل نامی ملک نام ونشان تک دنیا کے نقشے پر نھیں ملتا ہے ۔ اور عالمی طاغوت کی ایک سازش کے تحت1948 میں اس کاقیام عمل میں آیا تھا۔ اسرائیل کو وجود بخشنے کے مغربی یروشلم کو اسرائیل پارلمنٹ کے لئے منتخب کیا گیا ۔ 1967 ء میں اسرائیل اور چند ایک عرب ممالک کے مابین جنگ ھوئی ۔اسرائیل نے اپنے سرپرست ممالک کی حمایت کے بل بوتے پر اپنے دشمنوں کو شکت دی ۔جس سے وہ مزید جری ھو گیا اور اس نے مشرقی یروشلم پر بھی اپنا ناجائز قبضہ جما لیا۔پورے مشرقی یروشلم پر جبری قبضے کو آج تک عالمی برادری نے تسلیم نھیں کیا۔لیکن اسرائیل نے عالمی برادری کے موقف کو کبھی بھی خاطر میں نھیں لایا۔
اسرائیل کے ایک سابقہ وزیر اعظم اسحاق رابن کے یہ ھیجان انگیز الفاظ قابل توجہ ہیں کہ "ھر یھودی چاھے وہ مذھبی ھو یا لادینی (سیکولر)اس کا عھد کرتا ہے کہ اے یروشلم! اگر میں تجھے بھول جاوں تو میرا دایاں ھاتھ برباد ھو"۔ صھیونیوں نے بیان بازی پر ھی اکتفا نھیں کیا (اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی طرح)ایک منظم اور مستحکم پالیسی ترتیب دی اور اسے عملی شکل دینے کے سلسلے میں کئی ظالمانہ اور کٹھور اقدامات اٹھائے۔دجل و فریب کے تمام ممکنہ ھتھکنڈے استعمال کئے۔ فلسطینی مسلمانوں کو شھر بدر کرکے اس میں یھودیوں کو بڑے ھی شدو مد سے بسایا۔ وقتاًفوقتاًاس شھر میں اسلامی شعائر و آثار مٹانے کی کوشش کیں حتیٰ کہ مسجد اقصیٰ میں آگ بھی لگادی۔بیت المقدس میں عبادت پر پابندی لگا دی۔
بارھا مسجد اقصی کے فرش کو فلسطین کے نمازیوں کے خون سے رنگین بنایا گیا۔ ا سرائیل کی نیت اور کاروائیوں کے پیش نظر 1986 میں اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر 19 کے تحت اسرائیلی اقدامات کی شدید مذمت کی گئی جب مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی توھین کی گئی تھی۔ مگر دوسری جانب امریکی جائنٹ چیفس آف اسٹاف کی ایک خفیہ رپورٹ زیر نما 1948/11 مورخہ 31 مارچ 1948 کے مطابق عظیم اسرائیل کا جو خاکہ تیار ھوا تھا اس پر اسرائیلی صھیونیت اور عالمی سامراجیت مرحلہ وار عمل پیرا ہے اور اس سلسلے میں عرب کی آمریت اپنے آقاوں کے مقاصد کی آبیاری میں مشغول ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جس شجرِ ملعونہ (گریٹر اسرائیل)کی عرب حکمران آبیاری کررھے ہیں۔ اس کے مھیب سائے ان کے شاھی محلوںاور حکومتی ایوانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق گریٹر اسرائیل کے چند ایک درج ذیل اھداف مقرر ھوئے ہیں۔
1۔ ابتدا میں فلسطین کے ایک حصے پر یھودی اقتدار
2۔ پھر فلسطین میں یھودیوں کا غیر محدود داخلہ(جو اب تک جاری ہے﴾
3۔ پھر، پوری فلسطین پر یھودی اقتدار کی توسیع
4۔ اسکے بعد اردن، لبنان، شام (بلکہ اس کے آگے)ارضِ اسرائیل کی توسیع
5۔ پھر، پورے شرقِ اوسط پر اسرائیل کو فوجی، سیاسی اور معاشی تسلط۔(بحوالہ مغرب اور عالم اسلام۔۔۔ ایک مطالعہ۔۔ از خرم مراد﴾
بھرحال اسرائیل آزادی قدس و فلسطین کے سر خیلوں کے ٹھکانے لگانے کے پلان پر عمل پیرا ہے۔اور آزادی پسند فلسطینیوں کا دائرہ حیات تنگ کر نے پر کمر بستہ ہے۔اس کا زندہ ثبوت غزہ کا طویل مدتی محاصرہ ہے ۔جسے غزہ ایک عرصے سے انسانی بحران سے دوچار ہے۔ڈیڑھ ملین نفوس پر مشتمل ایک انسانی بستی کھلی قید میں مقید ہے بنیادی سھولیات مفقود ہیں ۔پوری دنیا سے تمام قسم کی ارتباطی راھیں مسدود ہیں۔بے سرو سامانی کے عالم میں اھلیانِ غزہ کا ایک ایک لمحہ بھاری ہے۔
یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ اپنی انتھک لگن اور محنت کے بل بوتے پر صھیونیوں نے پو ری دنیا پر اپنا اثر و رسوخ قائم کیا ھوا ہے۔ اس چھوٹی سی قوم نے اقوام عالم کو اپنے فریب کاریوں کے دام میں اسیر کر لیاہے۔حتیٰ کہ امت مسلمہ جیسی عظیم ملت بھی اس کی چالبازیوں کے سامنے فی الوقت بے بس دکھائی دے رھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ چھوٹی سی قوم منظم و متحد اور متعھد ہے جب کہ بحیثیت مجموعی امت مسلمہ انتشار و افتراق اور بد عھدی میں اسوقت یگانہ روزگار ہے۔
قابل ستائش بات یہ ہے کہ ایک جانب اگر بیت المقدس کے قریب و جوار میں اسرائیلی حکومت نے ھزاروں فلسطینیوں کو شھید کیا تاکہ وہ شعائر اللہ کی تعظیم اور بیت المقدس کی بازیابی کے ارادے سے باز آجائیں تو دوسری جانب حضرت ابراھیم کی سنت کی تقلید میں سینکڑوں فلسطینی والدین نے اپنے لخت ھائے جگر قبلہ اول کی تقدیس میں قربان کئے۔
افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ہے کہ ان کی عظیم قربانیاں رائیگان ھوتی دکھائی دیتی ہیں کیونکہ ما سوائے چند مسلم ممالک فلسطینیوں کی نمائندگی اورحمایت کرنے سے کترارھے ہیں ۔ مسجد اقصی کے درو دیوار مظلوم فلسطینیوں کی حالت زار پر لرزاں و ترساں ہیں اور مسلم حکومتوں کے سربراہ اپنے عشرت کدوں میں بے حس و حرکت پڑے ہیں۔
ان شعائر اللہ کا اغیارکے قبضے میں ھونا اور ان کی روزانہ توھین در اصل مسلمانان عالم کی لاچاری و محکومی کی کھلی دلیل ہے۔ جھاں تک مسجد اقصی کی بازیابی کا تعلق ہے یہ کسی خاص خطہ یا فرقہ کے مسلمانوں کے مذھبی جذبات سے وابستہ نھیں ہے بلکہ مذھبی اور اخلاقی طور پر فرض عائد ھوتا ہے کہ عالمی پیمانے پر حتی الوسع آزادی قدس کی تحریک کا اھتمام کریں۔ جو جذباتی وابستگی، روحانی وابستگی اور قلبی احترام کعبہ شریف کے تئیں دنیا بھر کے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے۔ وھی احترام و تقدیس قبلہ اول کے حوالے سے بھی ھونا چاھئے تو پھر اس طرح کے سوالات حقیقی مسلمان کے دل کو بے چین کیوں نہ کریں کہ بیت المقدس کی صھیونیت کے چنگل سے رھائی کے سلسلے میں عالمی پیمانے پر کوئی تحریک چلائی کیوں نھیں جاتی؟ کیوں اس مسئلے کو طاق نسیاں کے حوالے کیا گیا ہے؟ کیوں اس معاملے میں مسلم حکومتیں بالخصوص مشرق و سطٰی اور عرب ریاستوں کے حکمران سرد مھری کے شکار ھوئے؟
یہ صورت حال ایک حساس مسلمان کا سکونِ قلب غارت کیوں کرنہ کرے کہ ایک طرف عھد حاضر کا ابرھہ جدید کیل کانٹوں سے لیس ھوکر برسوں سے مرکز اول پرقابض ہے اور عالم اسلام کے لیڈر محض دعا کرتے ہیں کہ رب کعبہ ایک بار پھر سے لشکر ابابیل فضائے فلسطین میں بھیج دے۔ محض دعاوں پر انحصار کرنے والے لیڈرانِ قوم کی یہ نفسیات پوشیدہ نھیں رہ پائی کہ وہ ایک غیر حقیقی طرز عمل اختیار کئے ھوئے ہیں نیز حرکت و عمل اور قربانی کیلئے آمادہ نھیں ہیں۔ اسی لئے محض نیک جذبات سے کام چلا لیتے ہیں۔
واضح رھے کہ ربِ لامکان چاھے تو آج کے جدید دور میں بھی معجزہ ابابیل دھرا کر اپنے گھر کو اسرائیلی غاصبوں کے قبضے سے آزاد کراسکتا ہے۔ لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ پھر قریبا 58ممالک پر مشتمل ایک ارب سے زائد مسلمانوں کا وظیفہ کیا ہے؟
خانہ کعبہ پر ابرھہ کی فوج کشی کے زمانے کی صورت حال اور مسجد الاقصی کے گردا گرد صھیونی حصار کا مسئلہ مختلف ہے۔ اس زمانے میں کوئی مسلم ریاست تھی نہ توحید پرستوں کی کوئی پھچان تھی۔ برعکس اس کے آج دنیا کے کونے کونے میں مسلمان قوم واحد یعنی امت مسلمہ سے منسلک ہیں۔ اور اللہ کے گھر کی محافظت ان کی ملی ذمہ داری ہے۔ یقینا اللہ مسلمانوں کا ناصر و مددگار ہے لیکن اس الھی قانون سے یہ ملت بھی مستثنیٰ نھیں ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نھیں بدلی نہ ھو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
اس مسئلے کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عالم اسلام کے عظیم رھنما اور بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی علیہ رحمہ نے اپنے انقلاب کی بنیاد نہ صرف اسی مسئلے پر رکھی بلکہ انقلاب کے بعد اسی کی خاطر اپنا سب کچھ داوٴں پر لگا دیا ۔
واضح رھے یہ جو اسلامی جمھوریہ ایران کے تیئں مغربی ممالک خصوصاً طاغوتی طاقتیں مخاصمانہ رویہ ا ختیار کئے ھوئے ہیں اس کی بنیادی وجہ قدس کی بازیابی اور آزادیٔ فلسطین کے تئیں مضبوط موقف اور مستحکم ارادہ ہے۔
پچھلے سینتیس سالہ اقتصادی پابندی ملت ایران پر عائد کردی ۔آئے روز اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے دھمکیوں پر دھمکیاں دی جارھی ہیں جن کے ذریعے اعصابی جنگ سماں ایران کے سیاسی فضا میں باندھا جاتاہے یھاں تک کہ بڑے بڑے علماو فضلا ، سائنس دانوں ،اور سیاست دانوں کو قتل اسی قصور میں قتل کیا گیا کہ ایران خطے میں فلسطین کا واحد اور زبردست حامی ہے اس نکتے کی مزید وضاحت کے لئے کھا جا سکتا ہے کہ آٹھ سالہ دفاع مقدس(ایران پر سابق عراقی صدر کا حملہ اور ایرانیوں کا دفاع)کے دوران جو لاکھوں ایرانی نوجوان شھید ھوئے وہ بظاھر ملکی دفاع میں کام آئے لیکن اس تنازے کی گھرائی و گیرائی کے پیش نظر کھا جا سکتا ہے کہ نو جوانوں نے قدس کی حرمت ، اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔
کیونکہ یہ تمام حربے ایران کے خلاف صرف اور صرف اس عناد میں آزمائے جا رھے ہیں کہ وہ فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کا سب سے بڑا حمایتی ہے بلا خوفِ تردید کھا جا سکتا ہے کہ اگر آج ایران اپنی خارجہ پالیسی میں مسٔلہ فلسطین و قدس کے چیپٹر کو بند (close) کر دے تو پھر شرعی نظام حکومت اسرائیل اور اربابِ اسرئیل کے نظر میں قبیح ھو گا نہ ایران کے ایٹمی پلانٹ سے اقوام عالم کوئی خطرہ لاحق ھو گا اگر چہ بالفرض اس میں جوھری بم بھی تیار ھوگا ۔گویا ھر اسلامی ملک بشمول ایران کی اسلام نوازی کا معیار یھی ہے کہ وہ مظلوموں کی حمایت کی خاطرپوری دنیا سے کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتا ھو اور اس سلسلے میں اپنے وجود تک کو مٹانے پر آمادہ رھو۔ اگریہ عنصر ملکی خارجہ پالیسی میں شامل نہ ھو تو سمجھ لیجئے کوئی لاکھ شرعی نظام کی دھائی دے(جیسا کہ بعض اسلامی ممالک میں دیکھنے کو ملتا ہے) اسکے اس دعوے کی کوئی وقعت نہ ھو گی۔
لھذا جب تک ایران فلسطین سمیت تمام مظلومان جھاں کی حتی الوسع پشت پناھی کر رھا ہے اس کے اسلامی نظام کی آبرو باقی ہے یھی وجہ ہے کہ بانی انقلاب امام خمینی نے بیت المقدس اور فلسطین کے موقف میں سر مو بھی پیچھے ھٹے نہ ھی اس معاملے میں کسی مصلحت سے کام لیا۔یہ ان کی پر خلوص جدوجھد کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں مسلمان بلا لحاظ مسلک و مشرب امام خمینی کی آواز پر لبیک کھتے ھوئے یوم القدس مناتے ہیں اور مختلف انداز سے فلسطینیوں کے ساتھ اظھار یکجھتی کر رھے ہیں امام خمینی کی نظر میں قدس کی بازیابی ان مسائل میں سے تھی جن کو اولیت حاصل تھی اور وہ عالم اسلام میں اس کی اھمیت اجاگر کرنے میں کامیاب بھی ھوئے انھوں نے ایک عظیم ترین دن اس کے لئے وقف کیا جس سے اندازہ ھوتا ہے کہ امام خمینی کے دل میں بیت المقدس کی آزادی کا جذبہ کس قدر موجزن تھا
امام خمینی کی نظر میں بیت المقدس باطل کے خلاف ایک فروزاں علامت ہے جسے راہ حق میں جدوجھد کرنے والے اپنے لئے مینارہ ھدایت سمجھتے ہیں ۔لیکن امت اس مسٔلے کو شایانِ شان مقام دینے میں ابھی تک کامیاب ھوتی نظر نھیں آتی اگر قدس اور اس جیسے جملہ ملی مسائل کو امتِ مسلمہ واقعاًسنجیدگی سے لے لیتی تو عالم کی نوعیت کچھ اور ھوتی ۔
جب کوئی کسی ایسے مسئلے کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاھرہ کرتی ہے تو جان لیجئے وہ اپنے دشمن کو غیر شعوری طور یہ پیغام دیتی ہے کہ اس ملت کے ساتھ کسی بھی قسم کی دست درازی آسان سی بات ہے اسی غیر سنجیدگی ، سرد مھری ، اور جمود زدگی کا منطقی نتیجہ ہے جو میانمار جیسی بھیمت کی صورت میں سامنے آتی ہے۔نیز ڈونلڈ ٹرمپ بھی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے لئے ھرزہ سرائی نہ کرتا۔
بقلم: فدا حسین بالھامی

Add comment


Security code
Refresh