میں پاراچنار میں چھوٹا موٹا کاروبار کرتا تھا، جس کے لئے مجھے بھت دیر تک کام کرنا پڑتا، اس وجہ سے ھمیشہ گھر تاخیر سے آنا میری مجبوری تھی۔ اس دن بھی میں رات کو دیر سے گھر آیا تھا تو ماں کی کھانسی نے میرا استقبال کیا، جس سے اندازہ ھوگیا کہ میری ماں میرے آنے کا انتظار کر رھی تھی۔ آتے ھی مجھے کھا بیٹا آج پھر لیٹ آئے ھو، حالات خراب ہیں، یوں رات کو دیر سے آنا ٹھیک نھیں۔ اس دوران بابا بھی اٹھ گئے تھے، انھیں سمجھایا کہ کیا کریں، کام ھوتا ہے اور یہ میری مجبوری ہے، اس دوران بیوی نے کھانا گرم کر دیا تھا۔ اس نے بھی کھانا رکھتے ھی کھا کہ آج بھی ننھی پری تمھارا انتظار کرتے کرتے سوگئی۔ وہ فرمائش کر رھی تھی کہ اس دفعہ بابا مجھے گڑیا لاکر دیں گے، کیونکہ مجھے مس نے کھا ہے کہ وہ اس دفعہ فرسٹ آئی ہے اور ساتھ میں بابا مجھے چاکلیٹ کا ڈبہ بھی لاکر دیں گے۔ میری بیوی ایک ھی ٹون میں لگی ھوئی تھی، میں نے پری کو سوتے ھوئے پیار کیا اور مصمم ارادہ کر لیا کہ کل پری کی فرمائش پوری کروں گا۔ جونھی وہ سکول سے آئے گی، اس کے لئے میں گڑیا لا کر دوں گا، کیونکہ اس کا رزلٹ تب تک نکل چکا ھوگا۔
صبح میری بیٹی نے مجھے نیند سے جگایا کہ بابا میرا آج رزلٹ ہے، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ مجھے گڑیا انعام میں دو گے اور ساتھ میں چاکلیٹ کا وہ بڑا والا ڈبہ بھی۔ وہ بھی اپنی ماں پر گئی تھی، بغیر کسی وقفہ کے بات کر رھی تھی۔ میں نے ناشتہ کرکے گھر والوں اور ننھی پری کو الوداع کھا۔ ابھی میں اپنی جگہ بھی نھیں پھنچا تھا، جونھی مرکزی امام بارگاہ کے نزدیک پھنچا ایک زور دار دھماکہ ھوگیا۔ پھر کچھ دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ھمارے جسموں کو اٹھایا جا رھا تھا۔ ھماری روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ میرے ساتھ میرے بھت سے اور لوگوں کی نعشوں کو بھی لوگ اٹھا رھے تھے۔ جس میں ایک بچے کی نعش بھی تھی۔ ھر طرف خون ھی خون تھا، گوشت کے چیتھڑے نظر آرھے تھے۔ کچھ لوگوں کا تو نام و نشان نھیں تھا۔ ھمارے گھر والوں کو اطلاع کر دی گئی کہ ملک کی بقا کے لئے شھید ھوگئے ہیں۔ اسپتال میں، میں نے دیکھا کہ میڈیا کی چکا چوند روشنی میں مذمتی بیانات جاری تھے۔ ھمارے بڑے ٹی وی چینلوں پر آرھے تھے، کیونکہ انھیں موقع مل گیا تھا۔ مگر کسی کو ھماری ماؤں، بھنوں، بھائیوں، باپ کی پروا نھیں تھی اور نہ ھی ننھے معصوم فرشتوں کی فکر تھی۔
ایک حادثہ تھا ھوگیا، جس طرح اس سے پھلے حادثے ھوگئے تھے۔ ھم بھی اس حادثے کا شکار ھوگئے، پتہ نھیں ھمارے بعد کس کی باری ہے۔ ھمیں بکسوں میں ڈالا گیا، ھمیں گھر لایا گیا، جو ماں، بیوی، بھن بھائیوں، رشتہ داروں کا حال تھا، کلیجہ پھٹ رھا تھا مگر ھم کچھ بھی نھیں کرسکتے تھے۔ میری بیوی میرے سرھانے کھڑی تھی اور میری ننھی پری بے خبر ھوکر ابو ابو کر رھی تھی اور مجھ سے چاکلیٹ اور گڑیا کی فرمائش کر رھی تھی۔ سکول میں دیا جانے وال کپ اس کے ھاتھ میں تھا، جس سے وہ پیار کر رھی تھی۔ قربان جاؤں میں پری کے، جس کی فرمائش میں پوری نھیں کرسکا۔ میری ننھی پری مجھ سے لپٹ گئی تھی اور مجھے صبح کی طرح اٹھا رھی تھی۔ اسے پتہ نھیں تھا کہ بابا اب اُٹھنے والا نھیں ہے، اب بابا صرف خوابوں میں نظر آئے گا۔ میری ماں پر غشی کے دورے پڑ رھے تھے۔ بھن بے ھوش تھی، بھائی آپے سے باھر تھے، باپ دنیا کے لئے دکھاوا کر رھا تھا کہ شھید ھوا ہے میرا بیٹا، مجھے فخر ہے، مگر اندر سے وہ ٹوٹ چکا تھا۔ یہ صرف میرے خاندان کا حال نھیں تھا، سب کے گھروں میں ھماری موت کے ساتھ ھماری مائیں مر گئی تھیں۔
ھمیں دفنایا گیا اور قصہ ھی ختم ھوگیا، اوپر آکر دیکھا تو ٹی وی پر پانامہ کا قصہ چل رھا تھا، رات کو دھماکے کی کوئی خبر ٹی وی پر نھیں تھی۔ یعنی ھمارا خون اتنا سستا ھوگیا ہے کہ اب حکومت کو کوئی فرق ھی نھیں پڑتا۔ سارے سیاست سیاست کھیل رھے تھے، ھمارا خون رائیگاں گیا۔ یھی سوچتے ھوئے میں دوسرے جھاں پھنچ گیا تھا، جھاں پر مجھ سے پھلے پچاس ھزار سے زیاہ پاکستانی لوگ موجود تھے، جن میں عورتیں، بوڑھے، جوان، اور بچے موجود تھے، جنھوں نے ھمارا استقبال کیا۔ میں نے وھاں آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں، باچا خان یونیورسٹی کے جوانوں، کوئٹہ کے وکلاء، کوئٹہ ٹریننگ سنٹر سمیت بھت سے شھیدوں کو دیکھا۔
انھوں نے وھاں پر ھم سب کا استقبال کرتے ھوئے ایک سوال کیا کہ کیا ھمارے قاتلوں کو پتہ لگ چکا ہے۔؟ ایک شھید نے کھا کہ میں تو بھت پھلے ایک دھماکے میں شھید ھوا ھوں، جب دھشت گردی کے خلاف جنگ شروع ھوئی تھی تو ایک دھماکے میں میری جان چلی گئی تھی، میرے قاتلوں کو تو حکومت نے پکڑ لیا ھوگا۔؟
آرمی پبلک سکول کے بچوں کے چھروں پر سوال تھا، ھمارا کیا قصور تھا، ھم تو معصوم تھے۔ ھم نے تو دنیا نھیں دیکھی تھی۔ الف، ب، پ، 1 2 3 سے تو آگے گئے ھی نھیں تھے۔ میں نے اور میرے دیگر ساتھیوں نے جواب دیا آپ اپنی بات کر رھے ھو، ھم کو خود پتہ نھیں کہ ھمیں کیوں مارا گیا ہے اور وہ ھمیں حیرانی سے دیکھ رھے تھے، کیونکہ جو بھی نئے لوگ شھید ھو کر آتے ہیں، ان سب کا یھی سوال ھوتا ہے کہ ھمیں خود پتہ نھیں کہ ھمیں کیوں شھید کیا گیا ہے تو آپ لوگوں کو کیا بتائیں۔؟ یہ سوال ان کا سب سے ھوتا ہے، جو شھید ھوکر آتے ہیں، وھی سوال ھم سے بھی کیا گیا۔
اب میں یہ سوال اے میری قوم، میرے پاکستانی بھائیوں بھنوں میں آپ لوگوں سے کرتا ھوں کہ آخر ھم سب کا قصور کیا تھا۔؟ ھمیں کیوں مارا گیا۔؟ اس سوال کا جواب آپ اپنے حکمرانوں سے پوچھو! کیونکہ آپ لوگ حیات ھو، ورنہ کل کو آپ بھی یہ سوال یھاں آکر سب سے کرو گے کہ ھمارا قصور کیا تھا۔؟ ھمیں کیوں مارا گیا۔؟
پاراچنار شھر میں داخل ھونے کیلئے آرمی، ایف سی اور لیوی فورس کی درجنوں چیک پوسٹوں سے قطاروں میں کھڑے ھو کر سخت چیکنگ کے بعد گزرنا پڑتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس قومی شناختی کارڈ نھیں یا شناختی کارڈ میں اس کے نام کی لکھائی دھندلائی ھوئی ہے تو اس شخص کو شھر میں داخل ھونے کی اجازت ھی نھیں دی جاتی اور سکیورٹی رسک کے نام پر ایک کلو یوریا کھاد بھی پاراچنار لے جانے کی اجازت نھیں ملتی۔ مگر اس کے باوجود ایک مناسب وقفے کے بعد اسلحے اور گولہ بارود سے لیس گاڑی شھر کے وسط میں جا کر پھٹ جاتی ہے۔ ایسے میں اگر میں یہ بولوں کہ یہ سب کچھ ریاست ھی کروا رھی ہے اور ساری دھشت گردی خود حکومتی ادارے کی سرپرستی میں ھو رھی ہیں تو پھر مجھے غدار اور ملک دشمن کھا جاتا ہے۔
آخر ھمارا قصور کیا تھا۔؟
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1433