www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

100600
دنیا میں کافی عرصے سے سیاسی جلسوں میں لفظ انقلاب کا استعمال عام ھوتا جا رھا ہے۔ جھاں بھی دیکھا جائے تو لوگ انقلاب کی خواھش لئے نظر آتے ہیں، ایک ایسی تبدیلی جس سے انکی معاشی، معاشرتی اور سیاسی حالت بھتر ھو جائے۔
انقلاب اورعام سماجی تبدیلی میں فرق کو سمجھے بغیر کئی جلسوں میں انقلاب کی امید دلائی جاتی ہے، حالانکہ یھاں پر انقلاب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کھتے ہیں انقلاب آتش فشاں پھاڑ سے نکلنے والے لاوے کی طرح ھوتا ہے، ایک ایسی تبدیلی جو کم وقت میں زیادہ بڑے درجے پر ھوتی ہے۔ انقلاب ایک ایسی تبدیلی ہے جو موجودہ ضابطوں کو ختم کرتی ہے، خصوصاً سیاسی ڈھانچے میں نمایاں تبدیلیاں لاتی ہے۔
انقلاب کے اثرات کا تعلق انقلاب کے دائرہ کار اور اسکو برپا کرنے والوں پر ھوتا ہے کہ وہ کس حد تک انقلاب کے نظریات پر پابند رھتے ہیں اور ان نظریات کو پھیلانے اور عملی کرنے میں کتنی کوشش کی جاتی ہے۔
بعض انقلابات ایسے بھی آئے ہیں جو اپنے آغاز میں ھی اپنے راستے سے منحرف ھوگئے اور عوام کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنے ہیں۔ عموماً انسانی معاشروں میں آنے والے انقلابات کے پس پردہ عوامل اور اسباب ایک ھی ہیں، تاھم زمان، مکان اور عوام کی مشکلات کے حوالے سے ان میں کافی فرق بھی پایا جاتا ہے۔ جیسے روسی انقلاب ایک طرح سے نظریاتی ہے، جس کا مقصد کمیونسٹ معاشرہ بنانا تھا۔ اسی طرح فرانس کا انقلاب بھی بادشاھی نظام کے خلاف تھا اور عوام کا نعرہ بھی آزادی، مساوات اور اخوت تھا۔
انقلابات کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات عیاں ھوتی ہے کہ تقریباً تمام عظیم انقلابات (جیسے فرانس کا انقلاب، روس کا انقلاب، امریکن انقلاب و غیرہ) کا بیشتر حصہ جھاں انسانی حقوق کے لئے تھا، وھاں اپنی نوعیت میں مادی بھی تھا، یعنی صرف روٹی و کپڑے اور دوسرے مادی ضروریات پر زور دیا گیا تھا۔
اس لحاظ سے ایران کا اسلامی انقلاب مختلف ہے، کیونکہ یھاں پر انسان کی مرکزیت ھونے کے بجائے خدا تعالٰی کی حاکمیت پر زور دیا گیا۔ لا شرقیہ اور لا غربیہ کی صدا بلند کی گئی اور صرف اللہ تعالٰی کے حضور جھکنے کے علاوہ ھر قسم کے استکبار کی نفی کی گئی۔
اگر آپ فرانسیسی انقلاب یا پھر روسی انقلاب پر نظر ڈالیں تو معلوم ھوگا کہ اس میں مذھب کی نفی کی گئی ہے۔ روسی انقلاب جس کی بنیاد کارل مارکس کے نظریات تھے، میں واضح طور پر مذھب کو عوام کی افیون کھا گیا ہے کہ جس سے لوگوں کو چھٹکارا دلانا لازمی ہے، لیکن ایران کا اسلامی انقلاب ایسا نھیں ہے۔ یھاں انسانی کرامت کی بات کی گئی ہے، انسانی حقوق پر بھی زور دیا گیا ہے اور ملکی استقلال اور آزادی کے لئے بھی کوششیں کی گئیں، لیکن ان سب کے ساتھ بندگی اور عبودیت کو بھی محور رکھا گیا۔ اسی وجہ سے اس کو صرف ایران کا انقلاب یا جمھوری انقلاب نھیں کھا گیا بلکہ اسلامی انقلاب کا نام دیا گیا ہے۔
ایک اور اھم فرق جو ایران کے اسلامی انقلاب اور دیگر انقلابات میں دیکھنے کو ملتا ہے، وہ لیڈرشپ ہے۔ قیادت کا فقدان بھی کئی انقلابات میں انحراف کا باعث بنتا ہے۔ اگر قیادت صالح نہ ھوگی، قیادت میں خلوص نہ ھو اور محض دکھاوے کے لئے کام کرے تو انقلاب اپنے اھداف تک پھنچنے میں ناکام ھو جاتا ہے۔ مثلاً فرانس کے انقلاب عظیم کو ھی لے لیجیے۔ عوام نے کئی مشکلات کے ساتھ ایک بادشاھت کا خاتمہ کیا، لیکن قیادت کے انحراف اور کئی دوسرے مسائل کی وجہ سے جمھوری حکومت قائم نہ ھوسکی۔
ناپلئون کے ذریعے کئی عرصے بعد تک بادشاھت کا سلسلہ چلتا رھا اور پھر کھیں جا کر جمھوری حکومت وجود میں آئی۔ لیکن یہ چیز ایران کے اسلامی انقلاب میں دیکھنے کو نھیں ملتی۔
آیت اللہ خمینی کی قیادت اس لحاظ سے مثالی ہے اور پھر آیت اللہ خمینی کے بعد سید علی خامنہ ای کی قیادت بھی انقلاب سے منحرف نھیں ھوئی۔ انقلاب اسلامی ایران کی انفرادیت کی ایک اور وجہ اس کا اسلامی اقدار کی بنیادوں پر ھونا ہے۔ اس لحاظ سے یھاں پر مذھبی علماء کا کردار قابل ملاحظہ ہے، جنھوں نے انتھائی خوف و خطر کے ماحول میں بھی مساجد و منابر سے لوگوں کو حقائق بتانے کا فریضہ ادا کیا ہے۔
انقلاب اسلامی ایران کی انفرادیت کے بارے میں خود سید علی خامنہ ای بھی فرماتے ہیں: ’’انقلاب اسلامی ایک استثناء ہے۔ انقلاب اسلامی معین مقاصد کے ساتھ ایک حرکت تھی۔ اگرچہ وہ معین مقاصد جو کئی جگھوں پر کلی تھے، تدریجاً جزئی صورت اختیار کرتے گئے اور ان کا مفھوم و معنی واضح ھوتا گیا، لیکن مقاصد روشن مقاصد تھے۔ اسلام خواھی، استکبار دشمنی، ملک کے استقلال کی حفاظت، انسانی کرامت، مظلوم کا دفاع، علوم و فنون کا حصول اور ملک کی معشیت میں ترقی، یہ سب انقلاب کے مقاصد تھے۔
انسان جب امام خمینی کے بیانات کو دیکھتا ہے اور انقلاب کے اسناد کو بھی دیکھتا ہے تو اسے معلوم ھو جاتا ہے کہ ان سب کی جڑیں اسلامی ہیں۔ عوامی ھونا، عوام کے ایمان، عوامی محرکات اور جذبات پر منحصر ھونا انقلاب کی اصلی بنیادوں میں سے ہیں۔ یہ راہ جاری ہے، منحرف نھیں ھوئی نہ ھی رخ موڑا ہے۔ آج انقلاب کے بتیس سال گزر گئے ہیں، یہ بھت اھم واقعہ ہے۔" (انقلاب کی 32ویں سالگرہ پر خطاب سے اقتباس﴾
جھاں تک انقلاب اسلامی ایران کے اثرات کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ خطے میں انقلاب کے بعد طاقت کا توازن ویسا نھیں رھا جیسا کہ استعمار چاھتا تھا۔ فلسطین میں مظلوم فلسطنیوں کی حمایت اور اسلامی مقاومت کو مضبوط کرنا انقلاب اسلامی کا بھت بڑا کارنامہ ہے۔
اسی طرح داعش کے مقابلے میں کامیاب اتحاد بننا اور خطے کو اس خطرے سے محفوظ کرنے میں اسلامی جمھوریہ ایران کی کوششیں اس کے عالمی طاقت ھونے کا ثبوت ہیں۔ یہ اس حال میں ہے کہ انقلاب سے پھلے ایران استعماری طاقتوں کا آلہ کار تھا اور اب یھی مملکت انقلاب اسلامی کی وجہ سے استعماری طاقتوں کے مدمقابل کھڑی ہے۔ انقلاب اسلامی نے صرف ملک کے اندر ھی نھیں بلکہ عالمی سطح پر بھی گھرے نقوش چھوڑے ہیں۔ جھاں جھاں بھی انقلاب اسلامی کی آواز پھنچی، وھاں پہ بیداری اسلامی کی لھر بنتی گئی۔ مسلم ممالک میں انقلاب اسلامی کی لھر خودی یعنی اپنے اسلامی شناخت کی طرف واپسی اور معنویت کی طرف آنے کا پیغام لے کر آئی۔ عالمی سطح پر بھی ایران کے انقلاب اسلامی کے اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نھیں ہیں۔ اس کا ایک واضح ثبوت لاطینی امریکہ میں ایران کا بڑھتا ھوا اثر و رسوخ ہے۔ نہ صرف استعمار ستیزی، نظریاتی اور معاشرتی لحاظ سے بلکہ ثقافتی لحاظ سے بھی انقلاب اسلامی نے گھرے اثرات چھوڑے ہیں۔
مغربی ثقافت جس کا اھم عنصر سیکولرزم ہے، کی ترویج جو انقلاب سے پھلے ایرانی معاشرے میں کی جاتی تھی (اور اب بھی دیگر ممالک میں کی جا رھی ہے) کے برخلاف انقلاب اسلامی نے اسلامی ثقافت کو ابھارا اور اس کی ترویج کی، جس کا ایک اھم نتیجہ ھم ایران کی فلمی صنعت کی صورت میں دیکھ رھے ہیں، جھاں اسلامی اقدار کو اھمیت دی جاتی ہے۔
اسی کی طرف امام خمینی اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ہیں: "ثقافت، ملت کی اساس ہے، ایک قوم کی قومیت کی بنیاد ہے اور ایک قوم کی خود مختاری کی اساس ہے۔ لھذا یہ شاھی حکومت ھماری ثقافت کو استعماری اور سامراجی بنانے کے درپے ہے۔ ایسی صورت حال میں جب ملت ایران نے اپنی پھچان، اپنی ثقافت اور اپنی ذاتی اقدار کو شاھی حکومت کے استبدادی قدموں تلے روندے جاتے ھوئے دیکھا تو اس مسلط کردہ شاھی نظام حکومت کے خلاف آواز بلند کی اور اغیار کی پیروی کی قید سے آزاد حکومت کے قیام کے لئے انقلاب برپا کیا۔ ایسا انقلاب کہ جس کی جڑیں اس سرزمین کی ثقافت کی گھرائی میں تھیں، ایسا انقلاب کہ جس کا مقصد، اسلامی حکومت کی برقراری، دنیا میں سیکولرزم سے انکار اور الٰھی افکار و نظریات کا زندہ کرنا تھا۔‘‘ (امام خمینی کے بیانات سے اقتباس) کئی مسلم ممالک خاص طور پر پاکستان میں انقلاب اسلامی کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے اس کو شیعی انقلاب کا نام دیا گیا اور اس کی مخالفت میں شیعہ ھراسی اور تفرقہ انگیزی سے کا م لیا جا رھا ہے۔ ھر چند کئی مسلم مفکرین اور رھنماؤں جیسے کلیم صدیقی، قاضی حسین احمد، مولانا مودودی اور شھید عارف حسین الحسینی نے انقلاب اسلامی کو پاکستانی عوام تک پھچانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور اس کے بارے میں پیدا کئے جانے والے شبھات کو دور کرنے کی کوشش کی، لیکن پھر بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ھر کوئی انقلاب اسلامی کو جیسے ہے، ویسے ھی سمجھنے کی کوشش کرے اور تعصبات کو چھوڑ کر تحقیق اور حقیقت پسندی سے کام لے۔ تبھی ایک اُمت واحدہ کا تصور عملی شکل اختیار کرسکے گا کہ جو اس انقلاب کا سب سے بڑا مقصد ہے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی، شاہ کی حکومت کی سرنگونی اور اسی طرح انقلاب کے بعد مشکلات و مصائب پر قابو پانا، تمام دنیا بالخصوص اسلامی ممالک میں وسیع پیمانے پر انعکاس کا سبب بنا۔ اس طرح کہ دنیا کی بڑی طاقتیں پریشان ھوگئیں کہ بیسویں صدی کے اس نئی و عجیب موجود سے کیسا برتاؤ کریں اور وہ اسے ایک ناقابل انکار حقیقت کے عنوان سے قبول کرنے پر مجبور ھوئے۔
اسلامی انقلاب کی معرفت اور اس کے ساتھ برتاؤ کے سلسلہ میں مغربی ممالک میں سمیناروں، کانفرنسوں اور سیاسی مٹینگوں کا سلسلہ روز بروز بڑھتا جا رھا ہے اور یہ بذات خود اسلامی انقلاب کے دشمنوں کی توجہ اور پریشانی کی علامت ہے، لیکن آج اسلامی انقلاب کے دوست و دشمن اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسلامی انقلاب مستحکم و پائیدار ھوا ہے اور اسلامی جمھوریہ کا نظام، عالمی سامراجی طاقتوں کی طرف سے سازشوں، تختہ الٹنے کی بغاوتوں، فوجی حملوں، اقتصادی محاصروں اور دوسری تمام آزمائی گئی ریشہ دوانیوں کے باوجود ناقابل شکست و زوال ہے۔
دنیا کے اکثر ممالک، اس حقیقت کو قبول کرکے اسلامی جمھوریہ کے طولانی مدت تک باقی رھنے کی بنیاد پر اس کے ساتھ اپنے سیاسی و اقتصادی روابط کو منظم کر رھے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب دنیا کی سامراجی طاقتوں کے سامنے اسلامی جمھوری نظام کے فوری نابود ھونے کا مسئلہ نھیں ہے، بلکہ یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ اس انقلاب کو کس طرح اپنے ملک کی سرحدوں کے اندر محصور و محدود کیا جائے اور دوسرے معاشروں بالخصوص اس کے ھمسایہ ممالک میں اس کے پھیلنے میں رکاوٹ ڈالی جائے، لیکن وہ اپنے ان عزائم میں بھی کامیاب نھیں ھوئے۔ اس لئے آج کل اسلامی انقلاب کو اسلامی شدت پسندی کا نام دے کر ایک خطرہ کے طور پر پیش کیا جا رھا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسلامی ممالک مکتب اسلام کی پیروی کرنے کو سامراجی ظلم کے چنگل سے آزادی کا تنھا راستہ سمجھتے ہیں۔
تحریر: امل موسوی

Add comment


Security code
Refresh