فرانس میں پیدا ھونے والا ایک نوجوان ہے جس کا سلسلہ نسب چند نسلوں کے فاصلے سے ایک ایشیائی یا افریقی ملک تک جا پھنچتا ہے لیکن مغرب میں چند عشروں تک زندگی بسر کرنے کے باعث اس کا طرز زندگی مکمل طور پر مغربی ھو چکا ہے۔
جب وہ صدر بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے شام جانا چاھتا تھا تو کوئی اس کے فیصلے میں رکاوٹ نہ بنا۔ بھت آسانی سے شام گیا، قتل و غارت کی اور انسانوں کو قتل کرنے کے مختلف طور طریقے اچھی طرح سیکھے۔ اچھی طرح وحشی ھونے کے بعد کسی نہ کسی طرح اپنے یورپی وطن واپس آنے میں کامیاب ھو گیا۔
اب وہ ایک خونخوار حیوان صفت انسان میں تبدیل ھو چکا ہے اور انسانوں کو قتل کرنا اس کے بائیں ھاتھ کا کھیل ہے۔ گلے کاٹنا، عزتیں لوٹنا اس کا معمول کا کام بن چکا ہے۔
اگر اس سے ان بھیمانہ اقدامات کی وجہ پوچھی جائے جن میں وہ بھت حد تک ماھر بھی ھو چکا ہے تو اس کے ذھن میں موجود تکفیری گروہ کے طرز تفکر جواب دے گا: "جو شخص ھم جیسا نھیں اس کا خون بھانا جائز ہے۔۔۔ سب مشرک اور کافر ہیں مگر وہ افراد جو ھم جیسا سوچتے ہیں، ھم جیسا لباس پھنتے ہیں اور ھم جیسی زندگی بسر کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ ھم شیرخوار بچوں کو قتل کر کے ان پر احسان کرتے ہیں کیونکہ وہ بڑا ھو کر مشرک، کافر، مجوسی اور رافضی ھی تو بننا تھا جس میں ھم رکاوٹ بن گئے"۔
یہ ان نیلی آنکھوں والے تکفیری دھشت گردوں کی صورتحال کا مختصر تذکرہ ہے جو جس وقت عراق یا شام جا رھے تھے کسی نے انھیں نھیں روکا کیونکہ یہ طے پا چکا تھا کہ یہ افراد اسلام کے نام پر عام شھریوں کے قتل عام اور اپنے مجرمانہ اقدامات کی تصاویر اور ویڈیوز شائع کر کے وہ کام کر دکھائیں گے جو گذشتہ کئی صدیوں سے عالمی استعماری طاقتیں مظلوم اسلام کے ساتھ نہ کر پائیں۔
ان افراد نے اپنے مجرمانہ اقدامات کے ذریعے کچھ سالوں میں ھی استعماری اھداف کو پایہ تکمیل تک پھنچانا تھا اور ایران کی سربراھی میں خطے میں سرگرم اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل اھم ملک شام میں اسلامی مزاحمت کے حامی صدر بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹ کر اسرائیل کی قومی سلامتی کی ضمانت فراھم کرنا تھا تاکہ اس طرح غاصب صھیونی رژیم سکھ کا سانس لے سکے۔
لیکن گذشتہ چند ماہ سے جنگ کا پانسہ ھی پلٹ چکا ہے۔ عراق، شام، لیبیا اور افغانستان کے عوام کی بھادری اور شعور و آگاھی، عوامی رضاکار فورسز کی تشکیل اور جنرل قاسم سلیمانی کی شجاعانہ قیادت کے باعث نام نھاد اسلامی خلافت کا تصور وھم بن کر ختم ھو چکا ہے۔
اب ماضی کی طرح تکفیری دھشت گرد عناصر کی جانب سے قتل و غارت، جنگ افروزی اور مغربی ایشیا اور افریقہ کے مختلف شھروں پر قبضے کا سلسلہ ختم ھو چکا ہے۔
عراق میں صرف موصل کا شھر داعش کے قبضے میں ہے جبکہ شام میں حلب کی آزادی کے بعد تکفیری دھشت گرد عناصر کا کام تمام ھونے والا ہے (انشاءاللہ)۔
اگر ھم کچھ عرصے سے دیکھ رھے ہیں کہ تکفیری دھشت گرد عناصر خودکش دھماکوں کے ذریعے عام شھریوں کے قتل عام میں مصروف ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حالات میں تبدیلی نے انھیں اپنی اسٹریٹجی میں تبدیلی لانے پر مجبور کر دیا ہے۔
البتہ صرف خودکش حملوں میں اضافہ جیسا کہ بغداد کے بازار میں بڑا خودکش دھماکہ ھوا جس میں 300 عام شھری جاں بحق ھو گئے اور عراق کی تاریخ کا سب سے بڑا دھشت گرد حملہ قرار پایا، ھی اس تبدیلی کا بنیادی حصہ نھیں بلکہ داعش کی اسٹریٹجی میں تبدیلی کا بنیادی حصہ دھشت گرد عناصر کی مغربی ایشیا سے مرکزی یورپ منتقلی اور نقل مکانی پر مشتمل ہے۔
آج داعش ٹھیک اسی طرح جیسے عراق اور شام میں اپنی طاقت کا مظاھرہ کرتا تھا پیرس، نائس، نارمنڈی، برسلز، میونخ، اوھائیو وغیرہ میں طاقت کا مظاھرہ کر رھا ہے۔ عراق اور شام سے واپس پلٹنے والے تکفیری دھشت گردوں کو قتل و غارت کی لت پڑ چکی ہے۔
ایسا محسوس ھوتا ہے کہ مغربی ایشیا اور افریقہ میں لاکھوں بیگناہ انسانوں کے قتل نے ان کی درندگی کی پیاس نھیں بجھائی۔ داعش نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب تک پیرس میں 200 افراد، نائس میں 84 افراد، آرلینڈو میں 54 افراد، برسلز میں 40 افراد، سان بیرنارڈینو میں 14 افراد، نارمنڈی میں 3 افراد اور سڈنی میں 2 افراد کو قتل کر چکے ہیں۔
اسی طرح ان کے اعلان کے مطابق وہ جرمنی کے دو شھروں آنسباخ اور وورٹسبورگ میں بالترتیب 23 اور 14 افراد کو زخمی کر چکے ہیں۔ یہ حملے خودکش، بم دھماکوں، فائرنگ، تلوار، خنجر اور کلھاڑی کے ذریعے انجام دیے گئے ہیں۔ ٹھیک عراق اور شام کی طرح داعش نے اعلان کیا ہے کہ دھشت گرد حملے جاری رھیں گے۔
اس وقت مغربی ممالک میں دھشت گردانہ حملے اس قدر زیادہ ھو چکے ہیں کہ کوئی ان حملوں کی خبر سن کر حیرت کا اظھار نھیں کرتا۔ ٹھیک شام اور عراق کی طرح۔ یورپ اور امریکہ میں بھی دھشت گردانہ حملوں کی خبریں آھستہ آھستہ معمول کی خبروں میں تبدیل ھوتی جا رھی ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کسی دھشت گردانہ حملے میں ھلاک ھونے والے افراد کی تعداد دس سے کم ھو تو وہ کوئی اھم خبر محسوب نھیں ھوتی۔
ٹھیک عراق اور شام کی طرح۔ جب ھم یورپ میں بیگناہ شھریوں پر ھونے والے دھشت گردانہ حملوں کی تصاویر کا مشاھدہ کرتے ہیں تو واضح طور پر شھریوں کے خوف اور وحشت اور اسی طرح حکمرانوں کے اضطراب اور پریشانی کو دیکھ سکتے ہیں۔
یورپی شھری ایک گولی یا دھماکے جیسی چیز کی آواز سن کر تعجب کا اظھار نھیں کرتے اور کسی کا انتظار کئے بغیر فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور پرامن پناھگاہ کی تلاش میں مصروف ھو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ھر لمحہ دھشت گردانہ حملہ انجام پانے کی توقع رکھتے ہیں۔ ٹھیک عراق اور شام کے عوام کی طرح۔ تکفیری دھشت گرد عناصر کا قصہ یھیں ختم نھیں ھوتا۔ وہ آج جدید یورپ میں سرگرم عمل ھو چکے ہیں۔
ابھی چند دن پھلے ھی یہ خبر سننے میں آئی کہ ایک 19 سالہ نوجوان نے اپنے دوستوں کی مدد سے فرانس کے شھر سینٹ ایٹن میں نارمینڈی چرچ (پیرس کے شمال مغرب میں 125 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قصبہ) کے پادری سمیت چند افراد کو یرغمال بنایا اور آخر میں پادری کا گلا کاٹ دیا اور یہ نعرہ بلند کیا: "میں ایک داعشی ھوں"۔ البتہ یہ خبر مغربی ممالک میں اس سے قبل انجام پانے والے دھشت گردانہ حملوں کے برعکس ایک معمولی خبر نہ تھی۔
اس دھشت گرد حملے میں ھلاک ھونے والے افراد کی تعداد کم ھونے کے باوجود جس چیز نے اس کی خبر کو اھم بنایا وہ اخبار ڈیلی میل کے بقول داعش سے وابستہ دھشت گرد کی جانب سے قتل ھونے والے شخص کا گلا کاٹنا تھا۔
یہ وہ اقدام تھا جس کے بارے میں کوئی بھی مغربی حکومتی عھدیدار وھم و گمان بھی نھیں کر سکتا تھا کیونکہ گذشتہ 5 برس کے دوران مغربی ممالک نے تکفیری دھشت گرد گروہ داعش کی کسی بھی مدد – زور دے کر کھتا ھوں کہ کسی بھی مدد – سے دریغ نھیں کیا تھا۔
جب ھم رائٹرز (Reuters) اس رپورٹ کا مطالعہ کرتے ہیں جس میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ "دھشت گردوں نے مغربی انٹیلی جنس اداروں کو مشکل میں ڈال دیا ہے" اور اس کے ساتھ ساتھ یورپی حکمرانوں کے بار بار دیے جانے والے اس بیان کہ "عراق اور شام سے سینکڑوں دھشت گرد واپس لوٹ چکے ہیں اور مختلف یورپی ممالک میں موجود ہیں اور دھشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کر رھے ہیں" پر نظر دوڑاتے ہیں اور فورا یہ سننے میں آتا ہے کہ برطانوی حکومت نے کھا یقینا برطانیہ میں بھی مشابھہ دھشت گردانہ حملے رونما ھوں گے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یورپ میں دیگر وحشیانہ دھشت گردانہ حملوں کی توقع رکھنی چاھئے۔
اب مغربی دنیا ٹھیک عراق اور شام کی طرح صرف اقتصادی بحران سے ھی روبرو نھیں بلکہ اسے سیکورٹی بحران کا بھی سامنا ہے۔ یہ سب کچھ صرف آغاز ہے۔ خدا جانتا ہے ان بے عقل اور بے شعور حیوان صفت دھشت گردوں کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے مغربی دنیا کو کس قدر وقت اور پیسے صرف کرنے پڑیں گے۔
یہ وہ خطرہ تھا جس کے بارے میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تین سال قبل جب مغربی ممالک میں کوئی ایسا واقعہ رونما بھی نھیں ھوا تھا مغربی دنیا کو خبردار کرتے ھوئے کھا تھا: "وہ وقت زیادہ دور نھیں جب یہ (دھشت گرد) گروہ انھیں ممالک کیلئے وبال جان بن جائیں گے جو آج اس کی مدد کر رھے ہیں اور آخرکار یہ ممالک بھت زیادہ اخراجات اور نقصان برداشت کر کے انھیں ختم کرنے پر مجبور ھو جائیں گے"۔ [2 جون 2014ء، امیر کویت سے ملاقات کے دوران]۔
مغربی ممالک آج ماضی کی طرح اس خودساختہ سیکورٹی بحران کو اسلام فوبیا میں تبدیل کر کے خطرے کو موقع میں تبدیل کرنے پر بھی قادر نھیں رھے۔ مغربی طاقتوں کی جانب سے تمام تکفیری دھشت گرد گروھوں کے خاتمے کیلئے سنجیدہ اور موثر اقدام کے علاوہ ھر دوسرا اقدام نہ صرف انھیں درپیش اس خطرے کو برطرف نھیں کرے گا بلکہ درپیش خطرے کو مزید بڑے خطرے میں تبدیل کر دے گا۔
جرمنی میں نسل پرستانہ حملوں میں 8 گنا اضافہ سیکورٹی بحران کے مقابلے میں مغربی ممالک کے انھیں غلط اقدامات اور پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ آج کے بعد مغربی حکمرانوں کی جانب سے دھشت گردانہ حملوں کو اسلام فوبیا پھیلانے کیلئے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا نتیجہ برعکس ھو گا اور ان کو درپیش سیکورٹی بحران اور بدامنی شدید سے شدیدتر ھوتی جائے گی۔
ھماری نظر میں اس مسئلے کا راہ حل لیبیا یا عراق پر فوج کشی یا ھوائی حملے نھیں بلکہ تمام مسائل اور مشکلات کا واحد راہ حل یہ ہے کہ مغربی طاقتیں ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر مبنی پالیسی اور اقدامات ترک کر دیں۔ تکفیری دھشت گردی کا شکار ممالک میں عوامی رضاکار فورسز اور ان کی اپنی مسلح افواج تکفیری گروھوں کا خاتمہ کرنے کیلئے کافی ہیں۔
اگر مغربی ممالک اپنے سے دھشت گردی کا خطرہ دور کرنے کے خواھاں ہیں تو انھیں چاھئے کہ وہ پھلے مرحلے پر خود سے شروع کریں۔ دھشت گردی کا اچھا یا برا ھونا یا سیاہ اور سفید ھونا کوئی معنی و مفھوم نھیں رکھتا۔
تمام دھشت گرد برے ہیں اور سیاہ ہیں۔ عالمی سطح پر موجود سیکورٹی بحران کا واحد راہ حل دھشت گرد گروھوں کی حمایت اور مدد ختم کرنے میں مضمر ہے۔ دھشت گرد عناصر اپنے لئے خوبصورت نام انتخاب کرتے ہیں جیسے "فرینڈز آف سیریا" یا "فری آرمی" لیکن اس کے باوجود وہ برے ھی ہیں۔
وہ 11 سالہ فلسطینی بچہ جو تالیسمیا کا مریض بھی تھا امریکہ کی نظر میں اعتدال پسند گروہ "نورالدین زنکی" کے دھشت گردوں سے درخواست کرتا رھا کہ میرا گلا نہ کاٹو، اگر مجھے مارنا ھی ہے تو گولی مار دو لیکن ان درندہ صفت دھشت گردوں نے ان کی ایک نہ سنی اور اس کا گلا کاٹ دیا۔
دوسرے مرحلے پر مغربی ممالک خطے میں اپنے اتحادی ممالک پر توجہ دیں۔ خطے میں موجود آل سعود، آل ثانی وغیرہ جیسی رجعت پسند عرب حکومتوں پر دباو بڑھا کر تکفیری دھشت گرد گروھوں کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح تکفیری طرز فکر کا پرچار کرنے والے دینی مدارس کی بندش جیسا اقدام تکفیری دھشت گردی کے خاتمے میں موثر ثابت ھو سکتا ہے۔
دنیا بھر میں مذھبی رجحانات رکھنے والے جوانوں کو دینی آگاھی اور شعور فراھم کرنے سے بھی تکفیری طرز فکر کا خاتمہ ممکن ہے۔
یہ وھی اقدام ہے جس کے تحت ولی امر مسلمین امام خامنہ ای چند بار مغربی جوانوں کے نام محبت آمیز خط لکھ چکے ہیں اور اس میں انھیں اسلام کے بارے میں آزاد ذھن سے تحقیق کی دعوت دے چکے ہیں۔
اس میں کوئی شک نھیں تکفیری دھشت گرد گروہ داعش کی بانی قوتوں نے اسے ھمیشہ باقی رھنے کیلئے تشکیل نھیں دیا۔ داعش کی تشکیل سے ان کا اصل مقصد اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانا تھا۔ لھذا جب تک اسرائیل کی غاصب صھیونی رژیم دنیا میں موجود ہے اس وقت تک داعش جیسے اور دھشت گرد گروہ تشکیل پاتے رھیں گے اور دنیا میں بدامنی اور سیکورٹی بحران موجود رھے گا۔ ٹھیک عراق اور شام کی طرح مغربی ممالک کی نجات کا واحد راہ حل بھی اسرائیل کا خاتمہ اور نابودی ہے۔
تحریر: جعفر بلوری
ٹھیک عراق اور شام کی طرح
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1428