سعودی حکومت ایک تاریخی اسٹراٹیجکی کمپیٹیشن میں خود کو شام اور مصر کے مقابلے میں دیکھنا چاھتی تھی، لیکن طاقت کا شیرازہ بکھرنے سے اس ملک کا حال اب یہ ھوگیا ہے کہ پیسے کی کمی پوری کرنے کے لئے مالیات اور ٹیکس وصول کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نھیں بچا۔
غیر سرکاری تنظیموں نے اس ملک میں اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں، قبائلی اختلافات آسمان چھونے لگے، پارٹیوں اور شخصیتوں میں اختلاف اوج پکڑنے لگا اور نتیجے کے طور پر دنیائے عرب میں اس ملک کی حیثیت و آبرو خاک میں ملتی جا رھی ہے۔
آل سعود کو ھمیشہ اس بات کا شدید صدمہ تھا کہ دنیائے عرب میں اس کی چودھراھٹ نھیں چلتی۔ اس وجہ سے اس نے تکفیری وھابی افکار کی حقیقت کو آشکار کرنے میں احتیاط سے کام لیا کہ کبھی عالم اسلام کے علماء کی جانب سے اسے شدید اللحن ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اگرچہ سعودی عرب نے عربی ممالک کے ساتھ مقابلے کے رسمی مواقع ھاتھ سے نھیں جانے دیئے، لیکن اس وجہ سے کہ آل سعود کے پاس مصر، شام اور عراق کی مانند پختہ رھبروں کا فقدان تھا اور ہے، اسے اندرونی طور پر انتھائی کمتری کا احساس ہے، جس کو پورا کرنے کے لئے وہ ان ممالک کی باصطلاح تیشہ بہ ریشہ می زند، جڑیں کاٹنا چاھتا ہے۔
مشرق وسطٰی کے حالیہ پانچ سالوں کے حالات کی تبدیلی، سعودی حکمرانوں کے لئے ایک گولڈن چانس تھا کہ وہ اس تاریخی ننگ و عار کے دھبوں کو دھونے کی کوشش کرتے اور دنیائے عرب و اسلام میں ایک بنیادی رکن کی حیثیت اختیار کر لیتے۔
گذشتہ چند سالوں میں سعودی عرب نے اپنی خارجہ پالیسی کو بدلتے ھوئے دفاعی سیاست کے بجائے جارحانہ پالیسی اپنائی اور علاقے کے حالات کو بحران کی دلدل میں دھکیلنے کے لئے بنیادی کردار ادا کیا۔
شامی حکومت کے مخالفین کی کھلی حمایت، شام سے باھر مخالف پارٹیوں کی منظم تربیت، ملک کے اندر مسلح افراد کی مالی امداد، ان کے لئے اسلحے کی فراھمی اور لاجسٹک سپورٹ، شام کے سیاسی نظام کے خلاف بین الاقوامی محاذ آرائی، شامی حکومت کو گرانے کے لئے بین الاقوامی سطح پر اجلاسوں کا انعقاد اور آخرکار نام نھاد داعش مخالف اتحاد قائم کرکے بشار الاسد کو اپنے آگے جھکانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اس راہ میں اپنا سارا سرمایہ صرف کر دیا۔
لیکن درحقیقت سعودی بادشاھت کو شام میں دو بڑی مشکلات کا سامنا ہے، ایک طرف سے وہ بشار الاسد کو حافظ اسد کی ثقافت کا وارث سمجھتی ہے، جو اتنی آسانی سے اس کے شکار میں آنے والا نھیں اور دوسری طرف سے بشار الاسد کو مزاحمت کا اصلی محور اور ایران کا اتحادی دیکھتی ہے، جو اس کی آنکھوں میں تنکے کی طرح کھٹکتا ہے۔
ایران کا ڈراونا خواب اس ملک میں انقلاب اسلامی کی کامیابی سے علاقے میں سعودی عرب کی مرکزیت کے خواب پر سایہ فکن ھوگیا، یھاں تک کہ بھت سارے مغربی تجزیہ نگار شام، عراق، لبنان، بحرین اور یمن میں سعودی عرب کے منفی کردار کو علاقے میں ایران کے نفوذ کے خلاف کھلی دشمنی سے تفسیر کرتے ہیں۔ یہ ایرانی شامی گٹھ جوڑ، شام کے حالیہ پانچ سالہ بحران کی وجہ سے روس کے تیسرے ضلع کی حیثیت سے شمولیت کے ساتھ ایک جیو اسٹریٹیجیک (Geostrategic) اور جدید سکیورٹی میں تبدیل ھوچکا ہے کہ جس نے سعودی عرب کی شام میں حاکمیت کے خواب کو چکنا چور کر دیا ہے۔
جیسا کہ سعودی عرب کی موسمی رشوتیں، مصر کو اپنا پیرو نہ بنا سکیں، مختلف دھشتگرد ٹولیوں داعش، جبھۃ النصر، القاعدہ اور دوسرے دسیوں دھشتگرد گروھوں پر سینکڑوں ارب ڈالر کا اسراف سعودی عرب کے لئے رھگشا ثابت نہ ھوا اور آج امریکہ، ترکی، قطر، عرب امارات اور اسرائیل کی نیابت میں جنگ لڑنے والے دھشتگردوں کے ساتھ سعودی عرب بھی شکست کے دھانے پر پھنچ چکا ہے اور آخرکار شام میں بغاوتی حکمت عملی کے دلدل میں پھنس کر رسوائی کا منہ دیکھ رھا ہے۔
سلطنتوں کے عروج و زوال کے بارے میں پال کینیڈی کے نظریہ کی بنا پر امریکی براہ راست اپنے دشمنوں سے مقابلہ یا مطلوبہ علاقوں پر چڑھائی کی ھمت نہ رکھنے کی صورت میں مجبور ہیں کہ عربی سپاھیوں کو استعمال اور قومی ترقیاتی فنڈ کے صندوقوں کو مشرق وسطٰی میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے خالی کریں۔ یہ ناتوانی اور بے رغبتی، صرف امریکیوں سے مخصوص نھیں، بلکہ نیٹو اور مغربی ممالک مخصوصاً برطانیہ جس کا ھر جنگ میں امریکہ کے ساتھ ھونا ضروری ہے، کو بھی شامل ہے۔
امریکہ نے گذشتہ پانچ سال میں یہ تجربہ حاصل کر لیا ہے کہ شام میں بغاوت مخصوصاً اب جب مزاحمتی محور اور شامی عوام بشار الاسد کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، دھشتگردوں کے ذریعے ممکن نھیں ہے، لھذا امریکہ کو اپنی لڑاکا یونٹوں کو شامل کئے بغیر ایک عربی غربی گٹھ جوڑ کے ذریعے شام کی دراندازی میں وارد ھونا پڑے گا، تاکہ شام کے راستے سے علاقے کی فتح کی کنجی اور مشرق وسطٰی میں اپنی بے آبروی کی عمارت کی تعمیر نو میسر ھوسکے۔
قطر اور عرب امارات تو دوسری صف میں کھیل کھیل رھے ہیں، لیکن سعودی عرب اور ترکی نے اپنی ھر چیز کو شام میں کامیابی کی دم سے باندھ رکھا ہے۔
ترک فوج نیٹو کے بغیر شام میں داخل ھونے کی جرات نھیں کرسکتی، سعودی عرب یمن میں حوثی رضاکاروں کے ساتھ دست و گریباں ہے، اپنی ناکارہ زمینی فوج کے ذریعے وہ تیرہ مھینے کے عرصے سے یمن میں معمولی سی کامیابی بھی حاصل نھیں کرسکا اور صرف اپنے تین سو لڑاکا طیاروں کو امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کی رھبری میں یمن کے مظلوم عوام پر بم برسانے میں مصروف عمل ہے۔
یمن کی جنگ کے دلدل میں پھنسنے کے ساتھ ساتھ داخلی سکیورٹی کے خدشات آل سعود کی ایک چھارم فوج کو اپنی طرف مشغول کئے ھوئے ہیں، لیکن بظاھر میڈیا کا دل خوش کرنے کے لئے، شام کے شمالی علاقوں اور عراقی سرحدوں پر ڈیڑھ لاکھ فوجی بھیجنے کی بات کرنا آل سعود کا ایک اور خواب ہے، جبکہ معلوم نھیں بھتہ خور چند ملکوں کی شراکت سے دس ھزار فوجی بھی اسے مل پائیں یا نھیں۔
سعودی عرب جانتا ہے کہ اس کی ناکارہ فوج شام میں کوئی موثر کردار ادا نھیں کرسکتی اور امریکہ بھی روس کے انتباہ کی وجہ سے اس ملک کی دلدل میں گھسنے اور مشرق وسطٰی میں عظیم جنگ کی ذمہ داری اٹھانے کی براہ راست جرائت نھیں کرسکتا۔
لھذا سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کو تل ابیب بھیجا گیا کہ اسرائیل اور صھیونی لابی کے سامنے دست نصرت دراز کریں۔ لیکن صھیونی حکام بھی سعودی چاپلوسیوں کو خوب سمجھ چکے ہیں اور کئی مرتبہ اس کا تجربہ بھی کرچکے ہیں، وہ کبھی بھی ایسی جنگ میں وارد ھونے کی کوشش نھیں کریں گے، جس میں دوسری جانب حزب اللہ ھو۔ لھذا ان کی یہ کوشش ہے کہ وہ دوسروں کو شام کے دلدل میں پھنسائے رکھیں اور اپنا مطلب نکالتے رھیں۔
جیسا کہ سعودی اور امریکی حکام جانتے ہیں کہ علاقے کی کسی بھی بڑی جنگ میں پھلا شکار اسرائیل اور خلیج فارس میں تیل کے کنویں ھوں گے، جس کا انتظار شام کے اسکڈ میزائل اور حزب اللہ کا زلزال شدت سے کر رھے ہیں، لھذا وہ ایسی غلطی کرکے اپنی نابودی کا سامان کبھی فراھم نھیں کریں گے۔
سعودی عرب کے سر پر جو جنون سوار ہے، وہ صرف اس کے بھتہ خور کٹھ پتلی اتحادیوں کی وجہ سے ہے، جو شام کی جنگ میں قربانی کا بکرا بن رھے ہیں اور وہ بھی تبھی تک سعودی حکام کے پیچھے پیچھے مے مے کرتے آئیں گے، جب تک اس سے بھتہ ملتا رھے گا۔
سعودی عرب کی یہ پالیسی اسے کھیں کا نھیں چھوڑے گی، چونکہ شام میں جنگ بندی کو بھی ایک ھوشیار منصوبہ بندی کے تحت تکفیری، وھابی دھشتگردوں کی نابودی کے لئے ایک نیا مرحلہ قرار دیا جا رھا ہے۔ اسی وجہ سے نہ صرف امریکہ بلکہ ترکی، سعودی عرب، لبنان اور اسرائیل بھی جنگ بندی پر کسی پابندی کا ثبوت نھیں دے رہے ہیں، بلکہ صرف مجبوری کی حالت اور برائے نام دھشتگردی سے مقابلے کے مسئلہ سے گزرنے کے لئے نیز جنیوا میں ایک سیاسی پوائینٹ حاصل کرنے کے لئے یہ زھر کا گھونٹ پی رھے ہیں۔
جیسا کہ خود امریکیوں نے کھا کہ آئندہ کچھ دنوں میں اس جنگ بندی کی خلاف ورزی ھو جائے گی۔ یقیناً شام پر آل سعود کی چودھراھٹ کا خواب یا صرف ایک آرزو بن کر رہ جائے گا یا اس تاریخی سعودی بادشاہ کی عمر کو کوتاہ اور صھیونی حکومت کو جھنم کے دھانے تک پھنچائے گا کہ اس صورت میں امریکہ کو بھی ناقابل جبران مشکلات کا سامنا کرنا ھوگا۔
تحریر: یوسف حسن مصری
ترجمہ: الف۔ع۔ جعفری
کیا شام میں سعودی عرب کا خواب پورا ھوگیا؟
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1774