بچپن کا زمانہ بھی کیا خوبصورت زمانہ تھا۔ خوشیاں ھی خوشیاں تھیں۔ نہ کمانے کی فکر، نہ پڑھنے لکھنے کا بوجھ، نہ گھریلو مسائل، نہ معاشرتی الجھنیں۔ نہ لمبی لمبی آرزوئیں، نہ لین دین کی مشکلات، نہ گھر والوں کی فکر، نہ ملت کی سوچ، نہ بھوک پیاس کا احساس، نہ تھکاوٹ کی شکایتیں، غرض خوشیاں ھی خوشیاں تھیں۔ دوستوں کے ساتھ کھیل کود میں سارا وقت گزر جاتا تھا۔ نہ مجھے ٹیلی ویژن دیکھنے کا شوق تھا، نہ فیس بک اور وٹس ایپ کی لت، نہ موبائل کے نہ ملنے پر والدین سے شکایتوں کے انبار لگاتا تھا، نہ انٹرنیٹ کی سھولت فراھم نہ کرنے پر والدین پر نالاں تھا۔ کھیل کود سے تھک ھار کر شام کو جب گھر لوٹتا تھا، تب ماں کی مامتا دن بھر کی تھکاوٹ پر غالب آجاتی تھی۔ وقت گزرتا گیا۔ مجھ میں اچھے برے کی تمیز کی صلاحیت ظاھر ھونے لگی۔
میرے بابا مجھے اپنے ھمراہ مسجد لے جایا کرتے تھے۔ میں نماز کے دوران انکی نماز کی ادائیگی کو دیکھتا رھتا تھا۔ کبھی کبھار اس کی نقل اتارنے کی کوشش بھی کرتا تھا۔ جس سے میرے بابا بھت خوش ھوجاتے اور میری حوصلہ افرائی کیا کرتے تھے۔ میں گھر کے باھر اپنے کھیل کود میں مگن رھتا، لیکن جونھی نماز کا وقت آپھنچتا، تب میرے بابا مجھے صدا دیا کرتے تھے۔ میں دوڑ کر ان کے ساتھ مسجد چلا جاتا تھا۔ بسا اوقات انعام کے طور پر نماز کے بعد دوکان سے میرے لئے بسکٹ اور مٹھائیاں بھی خریدتے تھے۔ جس کے باعث اذان سنتے ھی میرے اندر خوشی کی لھر دوڑنے لگتی تھی۔ جب میں دس بارہ سال کا ھوا، تب میرے بابا آھستہ آھستہ مجھے بتانے لگے بیٹا! نماز جمعہ کا نام کیا تم نے سنا ہے؟
میں نے اثبات میں جواب دیا اور کھا: بابا جان آپ ھر ھفتے جمعے کے دن جس نماز کے لئے جاتے ہیں، وھی آپ کی مراد ہے نا؟ بابا نے مسکراھٹ کے ساتھ سر ھلایا اور کھا بیٹا تم ھمیشہ مجھے اپنی کامیابی کے لئے دعا کی التماس کرتے رھتے ھو۔ امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے: وہ اوقات جس میں دعائیں قبول ھوتی ہیں، ان میں سے ایک جمعے کے دن نماز جمعہ کے دو خطبے ختم ھونے سے نماز کے لئے صف بندی مکمل ھونے تک ہے۔(۱) ساتھ ھی آپ کا یہ فرمان بھی ہے: ھر وہ قدم جو نماز جمعہ کی طرف بڑھتا ہے، اللہ تعالٰی ایسے فرد کے جسم پر جھنم کی آگ کو حرام قرار دیتا ہے۔(۲) میرے سکول کے امتحانات نزدیک تھے اور میں اس حوالے سے بھت پریشان تھا۔ اس حدیث کے سنتے ھی میرے اندر امتحان میں کامیابی کے حوالے سے امید کی ایک کرن پیدا ھوگئی۔ جھنم کے حوالے سے خوفناک واقعات جو بچپنے سے سنتا آرھا تھا، اس حوالے سے بھی میں بھت پریشان رھتا تھا اور میں اپنے تئیں کھتا رھتا تھا کہ اس جھنم سے تو مجھے بچنا ھی چاھئے۔
آج جب میرے بابا نے معصوم امام کے فرمان کو میرے سامنے رکھا، تب میری خوشی کی انتھا نہ رھی۔ میں نے فوراً پوچھا بابا جان یہ نماز کیسے پڑھی جاتی ہے؟ انھوں نے کھا: بیٹا نماز تو صرف دو رکعت پر مشتمل ہے، امام جمعہ اس سے پھلے دو خطبے دیتے ہیں، اس میں وہ وعظ و نصیحت کرتے ہیں، جمعہ پورے ھفتے کے دنوں میں سب سے بافضیلت دن ہے۔ اس دن سارے مسلمان ایک جامع مسجد میں جمع ھوتے ہیں۔ اس سے مسلمانوں کا اتحاد بڑھتا ہے، مومنین ایک دوسرے سے ملتے ہیں، اس سے اللہ بھت خوش ھوتا ہے۔ ھمارے پیارے رسول کا فرمان ہے: ھر جمعے کا دن تمھارے لئے ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ہے۔ حج کا ثواب نماز جمعہ میں شرکت کے لئے جلدی کرنے کے بدلے ملتا ہے اور عمرے کا ثواب نماز جمعہ ختم ھونے کے بعد عصر کی نماز کے لئے انتظار کرنے کے بدلے ہے۔(۳)
ساتھ ھی ھمارے ھر دلعزیز امام حضرت علیعلیہ السلام کا فرمان ہے: میں چھ افراد کو جنت کی ضمانت دیتا ھوں، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو نمازجمعہ کے لئے جاتے ھوئے اس دنیا سے چل بسے۔(۴) جمعے میں شرکت کے حوالے سے میرا اشتیاق اتنا بڑھا، جسے بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نھیں۔ اتفاق سے وھی دن جمعے کا دن تھا، میرا اصرار بڑھتا گیا، بابا میں آج ھی آپ کے ساتھ جمعے پر ضرور جاؤں گا۔ بابا نے کھا: بیٹا جمعے پر جانے کے لئے ایک خاص اھتمام کے ساتھ جانا چاھئے۔ کسی عام انسان سے ملنے کے لیے ھم نھیں جارھے بلکہ ھمارے خالق سے ملنے جارھے ہیں۔ اس کے سامنے میلے کپڑے میں جانا مناسب نھیں۔ آج تو سرکاری چھٹی ہے۔ اس زمانے میں تو اسلامی تعلیمات کے مطابق جمعے کو ھی چھٹی ھوا کرتی تھی اور جمعے کی تیاری کے لئے جمعرات کو ھاف ڈے ھوتا تھا۔ کل پرسوں جاکر میں تمھارے لئے نئے کپڑے اور عطر لیکر آؤں گا۔ اگلے جمعے کو ایک خاص اھتمام کے ساتھ میں تجھے اپنے ساتھ لے چلوں گا۔ان وعدوں کے بعد میں نے اپنے بابا کو اجازت دیدی اور وہ جمعے پر چلے گئے۔
میں شدت سے اگلے جمعے کا انتظار کر رھا تھا۔ ھر دن مجھے ایک سال محسوس ھو رھا تھا۔ اگلے روز بازار جاکر ایک خوبصورت سا لباس میرے لئے خرید لیا۔ درزی سے اسے سلوایا گیا۔ میں شدت سے اس دن کا انتظار کر رھا تھا۔ اس کی خوشی اپنی جگہ ایک الگ سی ھوتی تھی۔ جمعے کا دن آپھنچا، تب میرے بابا نے کھا: بیٹا! ویسے تو عام حالت میں بھی صاف ستھرا رھنا اسلامی نقطہ نگاہ سے ایمان کا جزو سمجھا جاتا ہے، لیکن جمعے کے غسل کی ایک خاص اھمیت بھی بیان ھوئی ہے، لھذا جمعے پر جانے سے پھلے ھمیں غسل کرنا چاھئے۔ کیونکہ ھمارے پیارے رسول کے زمانے میں بعض افراد اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول رھتے تھے اور نھائے بغیر، گندے کپڑوں میں مسجد جاتے تھے، بو آنے کے باعث ان کے اردگرد والے نمازیوں کو کافی تکلیف ھوتی تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی کے حکم سے ھمارے رسول نے اس غسل کی کافی تاکید کی ہے اور بھت زیادہ اس کی فضیلت بھی بیان کی ہے۔
ھماری روایات کی رو سے وہ شخص جو ھر جمعے کو غسل انجام دیتا ہے، اس کا جسم قبر میں بھی ھمیشہ سالم رھتا ہے۔ میں نے پوچھا بابا یہ غسل کیسے کیا جاتا ہے؟ انھوں نے کھا: بیٹا پھلے غسل جمعہ کی نیت کرو! اسے زبان پر لانا ضروری نھیں، صرف دل میں تصور کرلیں تو کافی ہے، پھر سر اور گردن کو مکمل دھونا، پھر جسم کے دائیں اور سب سے آخر میں بائیں طرف کو دھونا۔ میں نے ان کی نصیحت پر عمل کرتے ھوئے خوشی خوشی غسل کیا۔ نئے کپڑوں کے ساتھ بابا عطر بھی لائے تھے۔ نیا لباس پھن کر عطر سے معطر ھوکر ایک نئے ولولے اور شوق کے ساتھ ھم جمعے کے لئے نکلے۔ ھمارے گھر سے جامع مسجد کا فاصلہ دس کلومیٹر تھا۔ ھم جامع مسجد پھنچ گئے، بھت بڑی مسجد تھی۔ ھزاروں کی تعداد میں لوگ وھاں جمع تھے۔ میرے ھم عمر افراد بھی تھے، جوان و عمر رسیدہ، امیر و غریب سب تھے۔
گلدستہ اذان سے اذان ھوئی۔ ایک نورانی چھرے والے عالم دین ھاتھ میں ایک خوبصورت عصا لئے اسٹیج پر چلے گئے۔ حمد و ثنا کے بعد وعظ و نصیحت شروع کی۔ انھوں نے کھا: ھمیں چاھیے کہ خدا کی اطاعت کریں، عبادت الٰھی میں سستی نہ برتیں، دوسرے لوگوں کا حق نہ کھائیں، بزرگوں کا احترام کریں، اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں، والدین کی اطاعت کو اپنے اوپر فرض سمجھیں، ھمیشہ سچ بولنے کی عادت ڈالیں، جھوٹ، دھوکہ، فریب، غیبت اور بھتان سے اجتناب کریں۔ اس طرح کی بھت ساری مفید باتیں انھوں نے کیں۔ میں بڑی دلچسپی سے یہ ساری باتیں سنتا رھا، لیکن درمیان میں، میں اپنے بابا سے مزید سوالات کرنے لگا۔ میرے بابا نے کھا: بیٹا یہ دو خطبے بھی نماز جمعہ کا حصہ ہیں، لھذا خطبے کے درمیان ھمیں خاموشی اختیار کرنا چاھیے، میں ان کے حکم کی تعمیل میں خاموش ھوگیا۔
نماز جمعہ اختتام پذیر ھوئی، ھم مسجد سے باھر نکلے، ھمارے والد کے بھت سارے دوست احباب وھاں جمع تھے، مجھے پھلی بار دیکھ کر وہ لوگ بھت خوش ھوئے، انھوں نے میری کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔ میرے والد نے بھی اس دفعہ میرے لئے ایک خوبصورت سائیکل خرید لی۔ میں خوشی سے آپے سے باھر ھو رھا تھا۔ میں واپس گھر آنے پر اصرار کر رھا تھا، تاکہ میں اپنے بھائی بھنوں کو اپنی خوبصورت سائیکل دکھا سکوں۔ سپھر 4 بجے ھم گھر لوٹ آئے۔ میرے والد گرامی نے کھا میرے بیٹے نے آج پھلی مرتبہ نماز جمعہ میں شرکت کی ہے، اس لئے میں نے اسے یہ سائیکل خرید کر دی ہے۔ جب میرے چھوٹے بھن بھائیوں نے یہ بات سنی تو انھوں نے بھی اصرار کرنا شروع کیا کہ بابا جان اگلے جمعے پر ھمیں بھی ساتھ لیکر چلئے گا۔ میرے بابا کھنے لگے: پھلے تم گاؤں کی مسجد میں جانے کی عادت ڈالو، جب تم لوگ اس کی عمر کو پھنچو گے، تب تمھیں بھی ساتھ جامع مسجد جمعے کے لئے لے چلوں گا۔
اس کے بعد میں ھر ھفتہ جمعے پر جایا کرتا تھا۔ امام جمعہ کی وعظ و نصیحت کو غور سے سنتا تھا اور پورا ھفتہ اس پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کرتا تھا، اس سے میری زندگی بالکل بدل گئی۔ اس کے بعد سے میں ایک نئے عزم کے ساتھ والدین کا احترام کرنے لگا، چھوٹے بھن بھائیوں کے ساتھ ھمیشہ شفقت سے پیش آنے کی کوشش میں مجھے لطف محسوس ھونے لگا، معاشرے میں ھر چھوٹے بڑے کا احترام اور سلام میں ان سے پھل کرنے کی عادت ڈالی، یھاں سے میں نے بھت ساری اچھی عادتیں اپنے اندر پیدا کیں اور بھت ساری اخلاقی کمزوریوں کا ازالہ بھی کیا۔ آھستہ آھستہ میری عمر بلوغت کے قریب پھنچ گئی، بلوغت کو پھنچنے تک میرے تحت شعور میں یہ بات مکمل طور پر بیٹھ چکی تھی کہ مجھے جمعے کی نماز کو کسی صورت ترک نھیں کرنا چاھیے۔ میں جب حد بلوغت کو پھنچا تو میرے والدین نے بھرپور طریقے سے جشن بلوغت کا اھتمام کیا۔ ارد گرد کے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی مدعو کیا۔ سارے رشتے دار میرے لئے گفٹ لیکر آئے تھے، وہ سب بھرپور طریقے سے مجھے احساس ذمہ داری دلا رھے تھے۔
اتنے میں میرے والد گرامی نے مجھے ایک اور نئے کپڑوں کا ایک اور سوٹ پھنایا اور مھمانوں کے سامنے مجھ سے یوں مخاطب ھوئے: بیٹا! آج تک میں تمھاری ھر حرکت اور بات پر نگرانی کرتا تھا۔ میری یہ کوشش رھتی تھی کہ تجھے دین و ملت کے لئے ایک مفید سرمایہ بناوں۔ آج سے تم خود معاشرے کے ایک ذمہ دار فرد بن گئے ھو۔ اب معاشرے کو تم لوگوں نے ھی چلانا ہے۔ یہ جشن تمھیں دینی اور معاشرتی ذمہ داریاں سونپنے کیلئے منایا گیا ہے۔ اب تم سے چھوٹے بھائیوں کی ھر حرکت پر تمھاری نظر ھونی چاھیے۔ اب تم خود کھرے کھوٹے میں تمیز کر سکتے ھو۔ اب میں دوبارہ تمھیں جمعہ جماعت کے لئے لیکر نھیں جاوں گا۔ اب تم خود اس کی اھمیت سے کماحقہ آگاہ ھوگئے ھو۔ لھذا تمھیں خود سے ان عبادات میں بھرپور شرکت کرنا ھوگی۔ میں غور سے انکی نصحیتوں کو سنتا رھا، اس وقت تک میں جمعہ جماعت میں شرکت کے ذریعے اکثر بنیادی اعتقادی اور فقھی مسائل سے آگاہ ھوچکا تھا۔ اب ھر نماز کے لئے امام جماعت کو بلانے میں خود جاتا تھا، مسجد کے چراغ میں خود جلاتا تھا، دوسرے دوستوں کو مسجد کی طرف میں خود بلاتا تھا،یوں میں ایک سلجھا ھوا صوم و صلاۃ کا پابند مسلمان بنا۔ اب مجھے محسوس ھوا کہ جمعہ جماعت میں شرکت تربیتی حوالے سے ھمارے اوپر کتنے اچھے اثرات مرتب کرتی ہیں۔
تحریر: ایس ایم شاہ
منابع
1۔ تهذيب الأحكام، ج 3، ص 235 ۔
2۔ الأمالى للصدوق، ص. 366۔
3۔ بحارالأنوار، ج 86، ص 214۔
4۔ وسائل الشيعه، ج 7، ص 308۔
مسلمانوں کی تربیت میں نماز جمعہ کا کردار
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 2258