گذشتہ کئی سالوں سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ممالک خطے اور دنیا میں ایک ابھرتی ہوئی نئی طاقت کے بارے میں خبردار کرتے آئے ہیں اور اپنی خارجہ پالیسی میں اس نئی طاقت کو کنٹرول کرنے کیلئے تمام تر ہتھکنڈے بروئے کار لائے ہوئے ہیں۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے شھید قاسم سلیمانی کے اہلخانہ اور شھید قاسم سلیمانی کی شخصیت متعارف کروانے کیلئے تشکیل پانے والی فاونڈیشن کے اراکین سے ملاقات کے دوران انہیں قومی اور امت مسلمہ کا ہیرو قرار دیا اور کہا: "شھید قاسم سلیمانی ایران اور ایرانیوں کی اقدار کا مجسم نمونہ ہیں۔ ان کی شہادت اسلامی دنیا میں مزاحمت کی تشکیل اور فروغ کا پیش خیمہ ہے۔" دشمن بہت اچھی طرح اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ شھید قاسم سلیمانی خطے اور دنیا میں ایرانی قوم کی تسلیم شدہ طاقت میں فیصلہ کن کردار کے حامل تھے۔ آج ایران کی نظریاتی طاقت دنیا کی تمام جغرافیائی اور فکری حدود پار کر چکی ہے۔
دشمن کہتا ہے کہ آج ایران دنیا کی سب سے بڑی غیر جوہری طاقت ہے۔ اس طاقت کے پیچھے ایسے مجاہدین کا عزم راسخ پایا جاتا ہے، جن کی شخصیت اور سوچ میں ایک طاقتور مکتب فکر جلوہ گر ہے اور اس مکتب فکر نے انہیں اسلامی دنیا کے سب سے بڑے عرفاء اور فلسفیوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ ان کے بقول ایمان کے ساتھ دفاع کیلئے اسلحہ ضروری تو ہے لیکن کافی نہیں ہے۔
ایران میں غیر مساوی جنگ کیلئے جو اسلحہ تیار کیا گیا، ان کے پیچھے شھید قاسم سلیمانی اور شھید محسن حججی جیسے افراد موجود تھے، جنھوں نے دشمن سے ہر قسم کی پہل کرنے اور حتیٰ روک تھام کی خاطر جنگ کا موقع سلب کر لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران میں "ٹریگر میکانزم" ہر دن، ہر گھنٹہ اور حتی ہر لمحہ کیلئے فعال ہے۔ لہذا حتی خواب میں بھی ایران سے فوجی ٹکراو کا تصور ان کیلئے اذیت کا باعث ہے۔
ان کے برعکس جو یہ کہتے ہیں کہ دشمن نے خطے میں جارحانہ پوزیشن اختیار کر رکھی ہے، ایران اور دنیا کے فوجی تھنک ٹینکس کی ذہانت آمیز تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ دشمن کی پوزیشن "دفاعی" ہے اور وہ خطے سے فرار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن نے اس طاقت کے بانیوں کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ لہذا شھید محسن فخری زادہ اور دیگر شھید ہونے والے جوہری سائنسدانوں کو سائنسدان اور اس طاقت کے بانیوں اور شھید قاسم سلیمانی کو اس طاقت کے محافظوں اور اس کی ضمانت فراہم کرنے والوں کے طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک طرف پینٹاگون کے جرنیل اور نیٹو کے سربراہان ایرانی قوم کی طاقت سے کانپ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف بعض احمق سیاست دان دشمن کی جانب سے جنگ کے خطرے کا ڈھونگ رچانے میں مصروف ہیں۔ اگرچہ شھید قاسم سلیمانی کی شہادت کو ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے، لیکن ان کا نام ایران اور دنیا کی سیاست کے آسمان پر چمک رہا ہے۔
آج دنیا کے سیاسی تحقیقاتی اداروں اور فوجی یونیورسٹیوں نے اپنی توجہ اس نکتے پر مرکوز کر رکھی ہے کہ ایران کی تسلیم شدہ فوجی طاقت کیونکر تشکیل پائی اور اس طاقت کے تشکیل پانے میں شھید قاسم سلیمانی نے کیا مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ایسی شخصیت جس نے اپنی عمر کے چالیس سال مختلف جنگوں میں گزارے۔ ایران عراق آٹھ سالہ جنگ سے لے کر اسرائیل کی غاصب صھیونی رژیم کے خلاف جہاد کی فرنٹ لائن تک اور وہاں سے لے کر عراق اور شام میں تکفیری دھشت گرد گروہ داعش کے خلاف جنگ تک۔
ایران، عراق، اسلامی مزاحمت کے تمام حصوں اور دنیا کے پانچ براعظموں میں ان کی شہادت کے حیرت انگیز اثرات عظیم اور بے مثال عوامی اجتماعات کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ دنیا کے فوجی ماہرین حیرت زدہ ہیں کہ شھید قاسم سلیمانی نے کیسے خالی ہاتھ جوانی کے عالم میں ایک ڈویژن کے کمانڈر کی حیثیت سے اپنے کام کا آغاز کیا اور آخرکار سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سربراہ کی حیثیت سے دنیا کے سب سے زیادہ شرپسند عناصر کے مقابلے میں جان ہتھیلی پر رکھے دسیوں ڈویژنز کی کمان کی اور فتح حاصل کی۔
شھید قاسم سلیمانی کی شخصیت کے فکری اور شخصیتی پہلو اب تک سب کیلئے غیر واضح ہیں۔ ہمیں ان کے "ذہن" میں جا کر وہاں سے ان کے "دل" تک جانا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ وہاں کیا گزر رہی ہے؟ انھوں نے اپنے سیاسی، الہیٰ اور فوجی وصیت نامے میں خود ہمارا یہ کام آسان کر دیا ہے۔ لہذا ان کے وصیت نامے کا جائزہ لے کر کچھ حد تک ان حقائق کو پانا ممکن ہے اور ان کی "سوچ کی دنیا" اور "عالمی سوچ" کو دیکھا جا سکتا ہے۔
اپنے وصیت نامے کی روشنی میں شھید قاسم سلیمانی انبیاء الہیٰ، ائمہ معصومین علیہم السلام، امام خمینی رہ اور امام خامنہ ای مدظلہ العالی کو انسانی تاریخ میں ایک الہیٰ سلسلہ سمجھتے ہیں اور انہیں "دنیا اور عالم خلقت کی جان" کہتے ہیں۔ شھید قاسم سلیمانی دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں اس سلسلے کے سپاہی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ انسانی تاریخ میں حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا اور ان کی پاکیزہ نسل کو ایک الہیٰ اور نجات بخش راستے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
شھید قاسم سلیمانی اپنے وصیت نامے میں اس تہذیب کو "اسلام کا حقیقی عطر" جانتے ہیں، جو اہلبیت اطہار علیہم السلام نے قرآن کریم سے تمسک کے ذریعے تشکیل دی ہے۔ وہ روحانیت، نور اور سکون کی تلاش میں تھے اور اس تلاش کے دوران انبیاء اور اولیاء الہیٰ کے سلسلے تک پہنچ گئے۔ وہ کہتے ہیں: "اس راستے میں میرا اصلی سرمایہ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور اہلبیت اطہار علیہم السلام پر گریہ و زاری، مظلوم اور غریب افراد کا دفاع کرنا، وہ دو ہاتھ جو میں نے ہمیشہ خدا کی بارگاہ میں دعا کیلئے اٹھائے ہیں اور وہ دو پاوں ہیں، جن کے ذریعے میں نے انبیاء الہیٰ کے اہداف کی خاطر ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک صحرا سے دوسرے صحرا اور ایک بیابان سے دوسرے بیابان تک کا سفر کیا ہے۔
شھید قاسم سلیمانی اپنے اس روحانی سفر کے دوران "ولایت" جیسے تابناک گوہر تک پہنچے تھے اور اپنے وصیت نامے میں جگہ جگہ ایرانی قوم، اپنے ساتھیوں اور مجاہدین فی سبیل اللہ، دنیا کی اقوام، علماء اور مراجع عالی قدر اور سیاست دانوں پر اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ نظریہ ولایت فقیہ اور ولی فقیہ کا ایمانی دفاع ہی آخرت کی نجات، ملک کی نجات اور عالم بشریت کی نجات کا واحد راستہ ہے۔
شھید قاسم سلیمانی اسلامی جمھوریہ ایران کو اسلام اور تشیع کی سرحد اور ایران کو امام حسین علیہ السلام کا قلعہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلامی جمھوریہ ایران حرم ہے، اگر یہ حرم باقی رہ جائے تو دوسرے حرم بھی بچ جائیں گے۔ اگر یہ حرم باقی نہ رہا تو حرم ابراہیمی (ع) اور حرم محمدی (ص) بھی باقی نہیں بچیں گے۔
وہ اپنے وصیت نامے میں لکھتے ہیں: "اسلامی جمھوریہ ایران سے امریکہ کی دشمنی کی بنیاد اس خیمے کو آگ لگانا ہے۔" وہ اس کے بعد تین بار خدا کی قسم اٹھا کر لکھتے ہیں: "اگر اس خیمے کو نقصان پہنچا تو قرآن کو نقصان پہنچے گا، بیت اللہ الحرام اور مدینہ منورہ، نجف، کربلا، کاظمین، سامرا اور مشہد کو بھی نقصان پہنچے گا۔" یہ بات کسی حوزہ علمیہ کے عالم کی زبان سے نہیں کہی جا رہی بلکہ والفجر 8، طریق القدس، فتح المبین، بیت المقدس اور سینکڑوں دیگر آپریشنز میں شامل سینیئر سپاہی کی زبان سے کہی گئی ہے۔ یہ سپاہی کہتا ہے کہ ان آپریشنز میں زمین اور آسمان سے بم، گولیاں، مارٹر گولے اور میزائل برستے تھے اور ہم اپنے دل اور بدن کو خدا کے سپرد کر دیتے تھے اور ایران اور اسلام کا دفاع کرتے تھے۔
ولایت کا دفاع، ولایت فقیہ کے مقام اور اہمیت کا دفاع اور ولی فقیہ کی حمایت اس شھید کی زندگی کا نچوڑ ہے، جو 33 روزہ جنگ میں صھیونیوں کے مقابلے میں فرنٹ لائن پر موجود تھا اور شام اور عراق میں وحشی اور خونخوار ترین تکفیری دھشت گرد گروہ داعش کے خلاف نبرد آزما رہا اور اگلی صفوں میں فوجی آپریشنز کی کمان سنبھالے رکھی اور خطے کے قارونوں کے خلاف برسرپیکار یمنی مجاہدین کی بھی حمایت کی۔
انھوں نے تحقیقاتی اداروں کے کمرے میں بیٹھ کر نہیں بلکہ ایک واچ ٹاور سے ایرانی قوم، خطے کی اقوام، دنیا کے لوگوں اور اہم شخصیات کو مخاطب قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جنازے میں سب شریک تھے، تاکہ اس بات کا اعلان کر سکیں کہ ہم تیرا پیغام سننے اور تیرے مکتب میں شامل ہونے کیلئے حاضر ہیں۔ شھید قاسم سلیمانی کے جنازے میں شریک افراد کی آنسو بھری آنکھیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انھوں نے شھید کے پیغام کو پا لیا ہے۔ وہ پیغام جسے رھبر معظم انقلاب امام خامنہ ای نے "مکتب" قرار دیا ہے۔
شھید قاسم سلیمانی کے مکتب کا مرکز و محور ولایت فقیہ اور ولی فقیہ کی ذات ہے۔ اسی طرح اس مکتب کی دیگر تعلیمات اسلامی انقلاب، اسلامی نظام اور اسلامی جمھوریہ ایران سے متعلق ہیں۔ ہمارے سامنے ایک جامع مکتب، مکمل فکری نظام اور حتی عملی نظام موجود ہے۔ اس مکتب میں شھید قاسم سلیمانی کا عمل ان کی باتوں سے زیادہ دکھائی دیتا ہے اور اس مکتب کی کشش کا راز بھی اسی نکتے میں پوشیدہ ہے۔
شھید قاسم سلیمانی ایک قومی ہیرو اور امت مسلمہ کا پہلوان اور مجاہد فی سبیل اللہ ہونے کے ناطے ولایت فقیہ سے متعلق ان علمی اور نظریاتی نتائج تک پہنچے ہیں۔ وہ گذشتہ چالیس سال کے دوران اپنی مجاہدانہ سرگرمیاں پوشیدہ رکھنے کی تگ و دو کرتے رہے، لیکن خدا نے انہیں ایران اور دنیا کے سیاسی آسمان پر سورج کی طرح چمکانے کا ارادہ کر لیا اور وہ بھی خدا کے ارادے پر راضی ہوگئے۔ وہ خود دکھاوے کے خواہشمند نہیں تھے۔ شھید قاسم سلیمانی کے دوست اور مجاہد ساتھی جان لیں کہ انہیں ان کی شخصیت پوری دنیا میں متعارف کروانا ہوگی اور آزادی و نجات کی اس شمع کو دنیا بھر میں روشن رکھنا ہوگا۔
تحریر: محمد کاظم ابنارلوئی
مکتب شھید قاسم سلیمانی پر ایک نظر
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1393