8 شوال کا دن مسلم امہ کو ہمیشہ کے لیے بدنام کر گیا، جس دن مسلمانوں نے اپنے رسول کی اکلوتی بیٹی کے مزار کو مسمار کر دیا۔ ھر عقلمند قوم اپنے محسنین کو یاد رکھتی ہے، لیکن بعض متعصب لوگوں نے مسلمان قوم کو ایسا بدنام کیا کہ ہمیشہ کے لیے سر جھکا دیئے اور تعجب اس بات پر ہے کہ جس نے یہ گناہ کبیرہ انجام دیا، وہ خود نسل در نسل بادشاھت کا وارث بنا تھا اور آج سینکڑوں سال بعد بھی اسی کی نسل کا احترام نہ فقط اھل حجاز بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے واجب سمجھا جاتا ہے، کیونکہ وہ بیت اللہ کے خادم سمجھے جاتے ہیں اور جو بیت اللہ کے وارث سمجھے جاتے تھے، ان کی اولاد کا کوئی احترام نہیں بلکہ وہ تاریخ میں ہمیشہ واجب القتل قرار پائے، بلکہ کام ایک درجہ اس سے بھی آگے چلا گیا کہ جو ان سے محبت کی وجہ سے منسوب ھو جائے، اس کا یہ گناہ بھی ناقابل بخشش ہے۔
آج جس وقت یہ تحریر لکھ رھا ہوں، اسی اثناء میں خبر آئی ہے کہ جناب عمر بن عبد العزیز کی قبر کی بے حرمتی کرنے والوں کو سوریہ کی فوج نے دھر لیا ہے۔ آج بہت سارے علماء ایک تابعی جناب عمر بن عبد العزیز کی قبر کی بے حرمتی پر سراپا احتجاج ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ایک تابعی کی قبر کی بے حرمتی یقیناً حرمت شرعی رکھتی ہے، لیکن اگر جنت البقیع میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی اور نواسوں کی قبروں کی بے حرمتی نہ ھوتی تو آج یہ کام نہ ھوتا۔ تکفیری سوچ، جس نے آج پوری دنیا کو ذبح خانہ میں تبدیل کر دیا، اس کی جڑیں بہت پہلے سے آبیاری ھوتی رھی ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم مسلمان ایک برائی کو برائی کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے ہمیشہ پہلے فرقہ واریت کے ترازو پر تولتے ہیں اور دل ہی دل میں خوشی محسوس کرتے ہیں کہ الحمد للہ یہ ھمارے فرقہ کا کام نھیں، یہ دوسری تنظیم، دوسری پارٹی، دوسری تحریک کے افعال ہیں۔
درحالیکہ ھم یہ بھول جاتے ہیں کہ دشمن خصوصاً استعمار خبیث ھمیں فرقہ کی وجہ سے نھیں بلکہ محمد رسول اللہ کی وجہ سے قتل کر رھا ہے۔ دشمن پہلے فرقہ میں تقسیم کرتا ہے، پھر ھر گروہ کو اپنا اسلحہ بیچتا ہے، با الفاظ دیگر پہلے بیماری پیدا کرتا ہے، پھر اس کے علاج کے عنوان سے پیسہ لوٹا جاتا ہے، پھر ھمارا خون بہا کر ھمیں بدنام بھی کرتا ہے اور آخر پر ھمارا ہمدرد بن کر معدنیات کی صورت میں موجود سارا سرمایہ لوٹ جاتا ہے۔
اگر اس کھیل میں دیکھا جائے تو بات بہت واضح ہے کہ ایک گروہ ھمیشہ اور ھر میدان میں شکست کھا رہا ہے اور دوسرا گروہ پہلے گروہ کی فرقہ بندی کی وجہ سے ھمیشہ جیت رہا ہے۔ درحالیکہ پہلے گروہ کے پاس اتحاد کے لیے بہت عظیم سرمایہ توحید، نبوت، قرآن کی شکل میں موجود تھا اور ہے۔ ہم توحید و نبوت کو سرمایہ حیات و ممات بنانے کی بجائے ایک بدبودار مائع (پٹرول) کو اپنی زندگی کا محور بنا بیٹھے۔
افسوس کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں مسلم امہ کی باگ ڈور تھی، وہ خود اسلام سے کوسوں دور تھے اور چند من گھڑت تنگ دل عالم نما لوگوں کا آلہ کار بن کر اسلام کو بدنام کرتے ھوئے تفریق کا سبب بنے، لیکن اس سے بڑھ کر افسوس یہ ہے کہ کئی سالوں سے آنے والے ان کی نا اھل جانشین بھی امریکہ جیسے ظالم جابر درندہ کی غلامی کو باعث فخر سمجھتے ھوئے مسلمانوں کے درمیان ابھی تک آتش تفریق روشن کیے ھوئے ہیں۔
دنیا پرست جو اپنے آپ کو ملت کا خادم کہہ کر لوگوں کے مال و دولت پر قبضہ کرنا ھدف بنائے ھوئے تھے، ہمیشہ سے انھوں نے مختلف وسائل کو بروئے کار لاتے ھوئے لوگوں کے احساسات و جذبات سے استفادہ کرتے ھوئے ملت کو کوڑی کے داموں بیچ کر بیرون ملک جائیداد بنانے کو باعث عزت و افتخار سمجھا اور روز اول سے اگر کوئی ابوذر پیدا ھوا تو مختلف طریقوں سے اسے راستہ سے ھٹا دیا گیا، اس طرح یہ امت ھمیشہ سے ہی دردمند افراد سے محروم رھی۔ یہ کوئی ایک یا دو سو سال کی بات نہیں بلکہ ہمیشہ سے مطلب پرست لوگ حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے اسلام اور مسلمان امت کے درد کو بہانہ بناتے رھے، لیکن اتنے اسلام شناس کہ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی بیٹی کا مزار تک قبول نہیں اور جنھیں صادق و امین کی زبان صادق کھتی تھی، انھیں شدت پسندی نے ربذہ کے صحراء میں پھنچا دیا۔
جب تک امت اسلامی کے نچلی سطح والے دردمند افراد اس امت کی باگ ڈور نھیں سنبھالیں گے، اس وقت تک یہی ضمیر و ملت فروش لوگ ملت کا سرمایہ لوٹ لوٹ کر امریکہ اور اس کے حواریوں کو خوش کرتے رھیں گے۔
قرآن کی صراحت مطابق یھودی کبھی ھمارے دوست نہیں ھوسکتے، بس اس قرآنی معیار کو مدنظر رکھتے ھوئے ہم فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ ارطغرل جو اسرائیل کے ساتھ دوستی کے ہاتھ بڑھا رھے ہیں یا بڑھانا چاھتے ہیں، وہ بھی اپنے آپ کو مسلم امہ کا لیڈر سمجھتے ہیں، جبکہ ان کے مدمقابل ایک چھوٹے سے عرب ملک کی ایک ذیلی تنظیم اسرائیل دشمن خدا کو ناکوں چنے چبوا دیتی ہے۔
اسلام نے آج بھی اپنی راھیں مشخص کر رکھی ہیں، ھل من مدکر کی صدائیں آج بھی اسلامی فضاؤں میں گونج رھی ہیں۔ اگر ھم اصحاب بلکہ تابعی کی قبر کی بے حرمتی پر بے چین ہیں، جو کہ حق ہے اور بے چین ھونا بھی چاھیئے تو ھمیں سب سے پہلے بنت رسول اللہ کی قبر کی کئی سالہ بے حرمتی کا جبران کرنا ھوگا۔
تحریر: جمشید علی
بأي ذنب قتلت؟
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1142