تاريخ ميں عورت کی داستان دردناک ہے، جسمانی اعتبار سے مرد سے كمزور ہونے کی بناء پر ظالم و جابر ہميشہ اس کی شخصيت كو پامال كرتے تھے۔ اس سلسلہ ميں کیسے کیسے مظالم ڈهائے گئے، خاص طور پر عرب كے اس ماحول ميں عورت کی شخصيت كو كس طرح كچلا گيا، وه مال کی مانند عورت کی خريد و فروخت كرتے تھے اور ان كے لئے ميراث کا قائل ہونا تو دور کی بات لڑكی كی پيدائش كو ہی باعث زلت اور عار سمجھتے تهے اور تاريخ شاہد ہے کہ اپنے ہی جگر گوشوں كو زنده درگور كر كے بھی كوئی خفت محسوس نہيں كرتے تهے۔ اس سلسلہ میں قانون فطرت كا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ليكن جب اسلام نے انسانی اقدار كو زنده كرنے كے لئے ميدان ميں قدم ركها تو جاہلیت کے ساتھ سخت مقابلہ کیا اور عورت كی پامال شده شخصيت كو زنده كيا۔ ہجرت كے 5ويں سال عورت کی شخصيت كو نئی زندگی عطا کرنے کے لئے اور اس کی اہميت كی مزيد تائيد كے لئے سوره احزاب کی 35ویں آيہ نازل ہوئی، يہ آيہ جو تمام اقدار كو بيان كرنے والی ہے، جس ميں عورت اور مرد كے انسانی اقدار كو يكساں بياں كيا گيا۔
خداوند عالم نے عورت کی شخصيت كو انسانی معاشره ميں مزید اجاگر كرنے كے لئے اپنے حبيب كو ايک ايسی بيٹی عطا کی جس كے ساتھ رسول اكرم كا رھن سہن اور سيده كونين كی عملی زندگی ديكھ كر اسلامی اور انسانی معاشره ان سے درس لے اور ان كو اپنی زندگی كے لئے نمونہ عمل قرار دے۔ حضرت فاطمه زہرا سلام اللہ علیھا کی زندگی كا ہر پہلو الٰہی اقدار سے عبارت تها اور اسلامی تعليمات كا ایک مجسمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی شكل ميں خداوند متعال نے عطا کی جو علم و دانش، حجاب و عفت، ازدواج اور شوہر كے انتخاب، فن شوہر داری اور اولاد کی تربيت، گهريلو اقتصاد کی مدد، اسلام كے لئے عورتوں كا سياسی اور اجتماعی ميدان ميں حضور و...... ميں آج كی خواتين كے لئے ایک مكمل نمونہ عمل ہے، لہٰذا آج كی خواتين کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس عظيم ہستی كو اپنے لئے آئيڈيل بنائیں تاكہ ان كی پيروی كركے سعادت كی منازل طے کر سکیں۔ قرآن مجيد نے رسول اكرم (ص) كو پوری انسانيت كے لئے نمونہ عمل قرار ديا ہے، "لَقَد كَانَ لکم فِي رَسُولِ للهِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ"۔
(1)رسول اکرم (ص) نے اپنی بیٹی کی تربيت ميں اپنی تمام تر كوششيں بروی كار لائیںم وہ ایک بےمثال خاتون كے طور پر صنف نسواں كے لئے نمونہ عمل بنیں۔ آپ نے اپنی بيٹی كی اس طرح تربيت كی کہ حضرت فاطمه سلام اللہ علیھا ،سيدۃ نساء عالمين كے لقب کی مستحق بنیں، چونكہ آپ ایک خاتون تھیں لہٰذا زياده صنف نسواں كےلئے نمونہ عمل بنیں۔ آپ کے سارے کمالات صرف ان تین فضیلتوں میں منحصر نہیں کہ آپ حضور صلی اللہ کی بیٹی اور علی (ع) کی زوجہ اور حسنین (ع) کی ماں ہیں، بلکہ آپ کے کچھ اور کمالات تھے جن کی وجہ سے آپ مذکورہ فضیلتوں کی مالکہ بنیں، آپ میں کچھ ایسے کمالات تھے جنہوں نے آپ کو اس قابل بنایا کہ آپ ان تین نسبتوں (دختر رسول، ہمسر علی و مادر حسنین )بنے اگرچہ بعض کتابوں میں آیاہےرسول کی اورب ھی بیٹیاں تھیں۔ (2) بالفرض اگر مان بھی لیں تو اس سے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی عظمت میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ آپ کی فضیلت اور عظمت میں اضافہ کاسبب بنتا ہے۔ شیعہ سنی کتابوں میں دوسری بیٹیوں کی عظمت و فضلیت کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا لیکن آپ کی فضیلت کے لئے اتنا کافی ہے کہ رحمت للعالمین نے آپ کو (سیدة نساءالعالمین) عالمین کی عورتوں کے لئے سردار قرار دیا چونکہ آپ ایک خاتون تھیں، لہٰذا صنف نسواں کے لئے سردار اور نمونہ عمل بنیں۔
مقام حضرت فاطمه سلام الله عليها:
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے فضائل خدا كے ہاں بہت زياده ہیں، جن ميں سے كچھ كا ادراک ہمارے لئے ممكن نہيں ہے جن كے بارے ميں خداوند عالم اور معصومين (ع) ہی جانتے ہيں۔ امام زمان عجل الله فرجه الشريف فرماتے ہیں، "وَ فِی اِبنَةِ رَسُولِ اللهِ لِی اُسوَةٌ حَسَنَةٌ۔" دختر رسول خدا كی زندگی ميرے لئے نمونہ عمل ہے۔ (3) آپ روی زمين پر حجة خدا تهيں اور پيامبر اكرم كو جب بهی موقع ملتا تها اس بی بی دو عالم كی فضيلت اور منزلت بيان فرماتے تهے تاكہ اس قيمتی گوهر كی قدر كو لوگ جان ليں پيغمبر اكرم نے زهرا سلام اللہ علیھا کی خشنودی اور ناراضگی كو خدا كی خشنودی اور ناراضگی قرار ديا، "اِنّ اللهَ يَغضِبُ لِغَضَبِ فَاطِمَة ويَرضی لِرِضَاھا" (4)
زهرا مرضيه سلام اللہ علیھا بندگی كے مصلے پر:
فاطمہ زهرا عبوديت و بندگی و خودسازی و كمال كا مظهر تھیں وه اپنی جوانی كے اوج ميں عابدوں كے لئے فخر كا سبب بنیں، آپ شادی كی پہلی رات میں بهی ہدف خلقت سے غافل نہيں رہیں اور اپنے همسر (علی) سے عبادت كرنے كی اجازت مانگتی نظر آتی ہیں، آپ كی ایک معنوی يادگار آپ كی تسبييحات ہيں، جس كا اثر وضعی (ظاہری اثر) بهی ہے، يہ وه برترين ذكر ہے جس كا ثواب ہزار ركعات نماز مستحبی كے برابر قرار ديا گيا ہے۔
حضرت فاطمه سلام اللہ علیھا کی علمیت:
انسان كے لئے علم و دانش كا ہونا ایک بہت بڑی فضيلت ہے اور خداوند عالم نے انسانوں كے لئے عظيم سرمايہ قرار ديا ہے، علم كامل انبيا (ع) اور معصومين (ع) كے اختيار ميں یے تاكہ انسانوں كی ہدايت كريں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا انہی افراد ميں سے تهیں آپ نے اپنے علم كو خدا سے كسب كيا اسی لئے آپ كے القابات میں سے ايک مُحدَّثَه ہے، يعنی فرشتے آكر آپ کو آیندہ پیش آنے والے امور کے علوم سناتے تهے (4)۔ مجموعی طور پر ہماری روایات سے استفادہ ہوتا ہے مصحف فاطمہ لکھنے والا امیرالمومنین (ع) تھے،حمادبن عثمان نے امام صادق (ع) سے مصحف فاطمہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ (ع) نے فرمایا جو بھی جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا سے سنا آپ لکھتے گئے یہاں تک کہ ایک بڑی مصحف بن گئی۔ (5) آج ہمارا عقيده ہے كہ مصحف فاطمہ سلام اللہ علیھا امام زمانہ (ع) كے پاس موجود ہے آپ كی كنیز فضہ آپ كے جوار ميں ره كر اس مقام تک پہنچیں، نه صرف حافظ قرآن تھیں بلكہ بيس سال تک ہر بات كا جواب آيات قرآنی سے ديا كرتی تھیں۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا زھد كے ميدان ميں:
آپ نے اپنی پوری زندگی ميں ہميشه زهد اور قناعت اور دنيا سے بےرخی كی طرف دعوت دی اور وه خود بهی اسی ميدان ميں بےمثال تهیں، علی (ع) فرماتے ہيں تمام زہد قرآن كے دو الفاظ ميں ظاہر ہوتے ہيں، "لِکَیْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَکُمْ وَ لاتَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ" جو تمہارے ہاتھ سے نكل جائے اس كا افسوس نہ كرو اور جو مل جائے اس پر غرور نہ كرو۔ (8 ) زہد كے آثار میں سے ايک ساده زندگی گزارنا، ساده لباس پہننا آسائش اور آرام طلبی كے ساتھ مقابلہ كرنا اور تجمّل گرائی سے پرہيز كرنا ہے۔ حضرت فاطمه زهرا سلام اللہ علیھا نے زہد كو اپنی زندگی كے تمام پہلوؤں ميں جگہ دی تاكہ معاشرے كا نادار اور غريب طبقہ آپ كی ساده زيستی كو ديكھ كر بےصبری كا مظاہره نہ كرے۔ آپ پيوند لگی ہوئی چادر پہنتی تھیں، جس سے متاثر ہوكر شمعون (يہودی) مسلمان ہو جاتا ہے، آج ہمارے معاشرے ميں خواتين كی اكثريت نے مغربی طرز زندگی كو اپنے لئے رول ماڈل بنا ركها ہے اور اسلامی تہذيب و تمدن سے دور ہوتی جا رہی ہيں، اگر مسلم خواتين غرب كی نقالی چهوڑ ديں اور اسلامی اقدار كی پاسداری كريں تو آرام و آسانی اور سكون پهر سے ايک مرتبہ ہمارے معاشرے ميں پلٹ كر آ سكتے ہيں۔
فاطمه زهرا سلام اللہ علیھا حيا و حجاب كا مجسمہ:
آپ حجاب و عفت اور حيا كا مكمل نمونہ تهيں، آپ تمام دينی و سياسی و اجتماعی ميدانوں ميں حجاب كامل كے ساتھ حاضر ہوئيں، آپ نے اپنے حجاب كے ذريعے معاشرے كو يہ پيغام ديا کہ حجاب كی وجہ سے عورت محدود اور مقيد نہيں ہوتی اسلام اور حق و حقیقت كے دفاع ميں عورت بہترين انداز ميں اپنا رول ادا كر سكتی ہے آپ حجاب كامل كے ساتھ مسجد گئيں، خطبہ ديا اور ولايت كا دفاع كيا، شهيد مطهری فرماتے ہيں حضرت فاطمہ كے اس خطبے نے خواتين كے لئے بہت سی چيزيں واضح كردیں كه ايک مسلمان عورت كی ذمہ داری اور حدود كو معين اور مشخص كرديا۔
فاطمه زهرا سلام اللہ علیھا كا صبر اور حلم:
صبر ان اطاعتوں ميں سے ہے، جن کے لئے آیات و روایات میں بےشمار وعدے کئے ہیں قرآن كےمطابق صبر كرنے والوں كو بےحساب اجر ديا جائے گا۔ "اِنّمَا یوفی الصّابِرونَ اَجْرُهُمْ بِغَيْرِ حِسَاب.." آپ صبر كا ايک مكمل نمونہ تهیں، روايات ميں صبر كی تين قسميں بیان ہوئی ہیں۔(1) مصيبت كے وقت صبر (2) اطاعت كے موقع پر صبر (3) معصيت و گناه كے موقع پرصبر (اصول كافی ج 4باب صبر)۔ ان تمام موقعوں پر آپ پيكر صبر بن كر نظر آتی ہیں، آپ نے اپنی پوری زندگی ميں كبهی بهی اميرالمومنين علی عليہ السلام سے كسی بهی چيز كا تقاضا نہيں كيا، آج ہماری خواتين جو كہ جناب زهرا كی كنيز ہونے كا دم بهرتی ہيں، مذكوره چيزوں كا خيال ركهتی ہيں؟؟ جتنا زمانہ ماڈرن ہوتا جا رہا ہے، اتنا ہی سیرہ جناب سیدہ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔
گهريلو كاموں كی مديريت اور خانواده كے اقتصادی امور ميں مدد:
اپنے گھروالوں كے اقتصادی امور ميں آپ كی مدد بےمثال تهی، اپنے والد بزرگوار كے ساتھ كی زندگی كے دوران اسراف و تجمل گرائی اور تفاخر سے پرہيز كو سيكها اور اميرالمومنين (ع) كے گهر ميں بهی مذكوره باتوں كا مكمل خيال ركهتی تھیں اور ايک بہترين ماں كی حيثيت سے گهر كو چلايا اس مديريت كا الہام رسول گرامی سے ليا تها۔ رسول اكرم (ص) نے گهريلو كام كو اس طرح سے تقسيم كيا تها، باہر كا كام علی (ع) كے ذمہ اور گهر كے اندر كا كام جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا كے حصے ميں آيا اور دونوں ميں روح تعاون اور ہمكاری موجود تهی، كبهی علی (ع) گهر ميں خمير بناتے اور روٹی پكاتے تهے اور جب علی (ع) جنگوں ميں جاتے تو باہر كا كام جناب فاطمه سلام اللہ علیھا خود ہی انجام ديتی تهیں۔
شوهر كے انتخاب كے معيارات اور فاطمه سلام اللہ علیھا كی ازدواجی زندگی:
ازدواج انسان كی زندگی كے بہت بڑے اتفاقات ميں سے ايک ہے، اگر ہم كفو اور مناسب همسر مل جائے، تو دنيا اور آخرت دونوں كی سعادت كا مالک بن سكتا ہے، خاندان کی تشكيل كے لئے سب سے پہلا قدم خواستگاری ہے، حضرت زہرا اور علی عليهما الاسلام كا ازدوج سوره رحمٰن كی آيات انیس، بیس، اکیس، بائیس "مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیانِ* بَیْنَهُما بَرْزَخٌ لایَبْغِیانِ *یَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ* الْمَرْجانُ...*" كا مصداق ہے۔ (الدرالمنثور فی تفسير المآثور ج 6 ص143) امام صادق عليہ السلام سے مروی ہے، مرج البحرين يلتقيان سے مراد نبوت اور ولايت كے دريا کا آپس ميں مل جانا ہے اور لوءلوء والمرجان سے مراد حسنين عليهما السلام ہيں۔ (تفسير قمي ج2 ص244)۔ آپ كی ازدوج سے ملنے والا درس يہ ہے كه لڑکے اور لڑكيوں كی شادی مناسب وقت ميں كر دينی چاہيئے تاكہ مناسب عمر ميں بچے ہو جائیں اور اپنی جوانی ميں بچوں كی صحیح تربيت كر سکیں والدين كی جوانی، بچوں كے سالم اور صحت مند پيدا ہونے ميں زیادہ مؤثر ہےاور آج سوشل میڈیا نے بدتمیزی کا جو طوفان کھڑا کر دیا ہے، اس سے جوان طبقے کا اور بھی زیادہ بےراہ روی کا شکار ہونے کا خطرہ ہے لہٰذا مناسب وقت میں شادی فیزیکلی اور معنوی، دونوں حوالے سے انتہائی اہم ہے۔
فاطمه زهرا سلام اللہ علیھا نے اپنے مهریہ كے ذريعے دنيا كی عورتوں كو يہ پيغام ديا كه عورت كی خوشبختی مهريہ زياده ركهنے ميں نہيں ہے، بلكه شوہر كی اقتصادی زندگی كے ساتھ مناسب ہو چونكہ مهريہ ايک تحفہ اور هديه هے، جس ميں مرد كی رضامندی اور خوشنودی كا خيال ركهنا لازمی ہے۔ پيغمبر اكرم (ص) اپنی بيٹی كی رضايت كے بغير كسی كو بهی مثبت جواب نہيں ديا، شوہر كے انتخاب ميں بيٹی كی رضايت كا مكمل خيال ركها گيا، آپ صلّی اللہ عليه وآلہ والسلام نے داماد كو كسی طرح كے بهی اضافی اخراجات دينے پر مجبور نہيں كيا، حضور صلی الله عليه وآله وسلم كے فرمان كے مطابق شادی كے دن وليمہ كی غذا كا كچھ حصہ مدينہ كے فقراء اور مساكين كے گهروں ميں بهيج دیا گیا تاكہ اس شادی كی خوشی ميں سب شریک ہوں، اس میں بھی ہمارے لئے درس ہے، ہمیں اپنے کام اور رسومات کو چیک کرنے کی ضرورت ہے۔ نبی کی سنت کس طرف جارہی ہے اور ہم کس طرف۔۔۔۔آج شادیوں میں امیروں کی بہت آؤ بھگت ہوتی ہے، بےتحاشا دولت اسراف ہوتی ہے دکھاوے اور ریاکاری کے لئے،
لیکن ان غریبوں کا کوئی پوچھنے والا ہے جو ایک وقت کی روٹی کا محتاج ہیں؟؟ (این تذھبون ۔۔۔۔) اسلامی معاشرہ کس سمت جا رہا ہے آج ہمارے معاشرے پر مکمل مغربی تھذیب حاکم ہے، اس منحوس سائیہ کو ختم کرنے کے لئے اسلامی اصولوں اور تہذیب و تمدن کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی سیاسی اور مبارزاتی زندگی:
انسان کی زندگی کے مختلف پہلو ہیں انسان کامل ہمیشہ ان تمام پہلوؤں کو دین کے سانچے میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی پوری زندگی ہمیشہ دینی اقدار کے ساتھ ہماہنگ ہوتی ہے، جناب سیدہ کونین فاطمہ زہرا کی زندگی کا ہر پہلو الٰہی اقدار سے عبارت تھا آپ کی خانوادگی زندگی اقتصادی زندگی معاشی زندگی اجتماعی زندگی سیاسی زندگی ۔۔۔۔۔۔خلاصہ آپ کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں الٰہی اقدار نظر آتی تھیں، آج ہمارے معاشرے میں آپ کی زندگی کے جس پہلو کو سب سے کم اہمیت اور کم توجہ دی جاتی ہے وہ آپ کی مبارزاتی اورجھادی پہلو ہے آپ کے اخلاقی اور عبادی پہلوؤں اور باقی فضیلتوں کا تذکرہ توہم زیادہ کرتے ہیں، (البتہ کرنا بھی چاہیئے) لیکن معاشرے میں شعور بصیرت اور بیداری لانے کے لئے ان (مبارزاتی اور جھادی) پہلوؤں کو زیادہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہےتاکہ لوگ اپنی دینی ذمہ داریوں سے لاتعلق نہ رہیں۔
جب حق کو اس کے اصل محور سے دور کیا گیا تو اس وقت ہرطرف خاموشی چھائی ہوئی تھی، ایسے موقع پر جناب سیدہ کونین اپنی ذمہ داریوں سے لاتعلق نہیں رہیں اور میدان میں حاضر ہوئیں اور ولایت و امامت کا دفاع کیا، آپ نے انصار اور مہاجرین کے ضمیروں کو جھنجوڑا اور ان کی خوب ملامت و سرزنش کی اور خصوصا انصار پر سخت تنقید کی۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کو اس بات پر سخت تعجب ہے یہ انصارجو ایک زمانے میں اسلام کے دست و بازو ہوا کرتے تھے، رسول گرامی اسلام کے حامی و مددگار تھے ، جو اس وقت خاموش ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ خاندان پیامبر پر ظلم ہورہا ہےاور خاموش اس ظلم کو صحیح قرار دے رہے ہیں بلکہ ان کے ساتھ تعاون بھی کررہے ہیں اوریہ ایک ایسا جرم ہےجو کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔ آپ فرماتی ہیں فدک کے معاملے میں تمہارا سکوت، فدک تو ان تمام انحرافات کےسلسلے کی ایک کڑی ہے،وہ انتقام کی بس ایک چنگاری ہے، بہت بڑے منصوبےکا ایک حصہ ہے، اس طرح تم لوگوں کا خاموش رہنا اسلام مخالف قوتوں کے لئے پھلنے اور پھولنےکا سبب بنےگا، یہ عظیم خاتون ان کی روح کے دوسرے حصےکی طرف متوجہ ہوتی ہے اور اس خاموشی کی وجہ بیان کرتی ہیں فرماتی ہیں بات یہ ہےکہ تم آرام طلب ہوگئےہو، تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہےہو، خلافت کا جو صحیح حقدار ہےاس کو الگ کر دیا گیا ہے اور خاموش بیٹھےہو۔۔۔۔۔۔
تحریر: محمد علی شریفی
حوالہ جات:
1۔ سورہ احزاب،21
2۔ زندگانی فاطمہ زہراء، (ڈاکٹر جعفر شہیدی)، ص23
3۔ بحار، ج43، ص 22
4۔ امالی طوسی، ص 427، المستدرک علی الصحیحین، ج 3، ص 154
5۔ ثواب الاعمال، شیخ صدوق، ص 264
6۔ بحار، ج 26، ص 18
7۔ کافی، ج 1، ص 240
8۔ سورہ حدید، آیہ 23
9۔ اصول کافی، ج 4، باب صبر
10۔ الدرالمنثور فی تفسیرالمآثور، ج 6، ص143
11۔ تفسیر قمی، ج 2، ص 244
12۔ زہراء برترین بانوی جہان، (آیت اللہ مکارم شیرازی)، ص 205۔۔۔۔۔۔
حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا ھر دور کی خواتين کیلئے نمونہ عمل
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1121