آج پوری مسلم دنیا ایک شدید انتشار و خلفشاری میں مبتلا ہے، ھر جگہ فساد برپا ہے، قتل و غارتگری کا بازار ھر چھار سمت گرم ہے، مسلمانوں کی دنیا آباد ہے نہ آخرت، مسلم حکمران انا پرستی، مفاد پرستی اور آپسی منافرت، تنگ نظری و تعصب کے شکار ہیں۔ ھونا بھی یھی تھا کہ جس امت نے آپسی یگانگت و وحدت کے بجائے تفرقہ کو اپنا لیا ھو اس کے ھاتھ دنیا آتی ہے نہ آخرت۔ آج مسلم دنیا میں جھاں دیکھا جائے غیر یقینی صورتحال درپیش ہے۔ مسلمان کھیں بھی امن و سکون کی زندگی نھیں گذار رھے ہیں، تمام مسلم ممالک قتل و غارتگری، تشدد و بربریت، ناانصافی و تسلط کے شکار ہیں۔ ھمیں دیکھنا ھوگا کہ کیونکر مسلمانوں پر یہ آفتیں اور یہ مصائب و آلام کے پھاڑ ٹوٹ رھے ہیں۔ ھمیں مسلم دنیا میں پائے جانے والے تفرقے اور انتشار کی وجہ جاننی ھوگی۔ ھمیں جاننا ھوگا کہ کیونکہ ’’خیرِ امت‘‘ اور ’’افضل امت‘‘ کا خطاب پانے والی امت آج سرگرداں و پریشان ہے۔ آج ھمیں مسلم حکمرانوں کے انحراف و غیر کی آلہ کاری کی وجہ تلاشنی ھوگی۔
ھمیں جاننا ھوگا کہ جو خیرِ امت کھلائی جاتی تھی کیوں تذلیل کی شکار ھوگئی۔ ھمیں اس بات کا اندازہ لگانا ھوگا کہ کیوں ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کے خون کا پیاسا بن گیا ہے۔ ھمیں غور و خوض کرنا چاھیے کہ کیوں ڈینمارک جیسا چھوٹا ملک کھلے عام مسلمانوں کے مقدسات کی توھین کئے جارھا ہے اور کیوں مسلمان اس پر کوئی ردعمل نھیں دکھا پا رھے ہیں۔ ھمیں ان اسباب کی نشاندھی کرنی ھوگی جن کی وجہ سے ڈیڑھ ارب مسلمان ایک دوسرے سے لاتعلق بن بیٹھے ہیں۔ بقول نجم الدین اربکان ’’ڈیڑھ ارب ھوکر بھی ’’ابابیلوں‘‘ کے منتظر مسلمان کہ وہ آئیں اور اور اسی لاکھ اسرائیلیوں سے ھماری جان جھڑائیں، بخدا آج اگر ابابیل آئیں تو وہ اپنے کنکر یھودیوں کو نھیں، مسلمانوں کو ماریں گے۔‘‘ ایک بڑی طاقت لیکن منتشر و پراکندہ۔ آج مسلمان وحدت کو معیوب اور تفرقہ کو عبادت سمجھتے ہیں۔
ھمیں مسلمانوں کے اس موجودہ انتشار، منافرت، تضاد و خلفشاری کی وجہ معلوم کرنی چاھیے۔ ھمیں دیکھنا ھوگا کہ جو امت کسی زمانے میں ایک دوسرے کے بھائی و ھمداد ھوکر ان کے ھم و غم میں شریک رھتے تھے کیوں آج ایک دوسرے کی دشمنی پر اتر آئے ہیں۔ یہ دیکھنا ہے کہ پوری امت کیوں پریشان و حیران ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس بات کا اندازہ ھونا چاھیے کہ دشمن نے ھمیں حقوق البشر اور خود کے دفاع کے نام پر کتنا کمزور کردیا ہے، ھمیں انسانیت کی تعظیم، انسانوں کے ساتھ ھمدردی، آپسی محبت و اخوت، باھمی ربط و تعلق سے کتنا دور کردیا ہے۔
آج امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور ان کے آؒلہ کار سمیت کوئی بھی جابر و ظالم ملک جب چاھے دنیا کے دوسرے خطوں خاص کر مسلم ممالک پر حملہ آور ھوتا ہے، وھاں آباد لوگوں کی نیند حرام کرتے ہیں، اکثر مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا جاتا ہے، مقاومتی جوانوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، بچوں اور بوڑھوں کو بموں کی یلغار سے تباہ کیا جاتا ہے۔ عورتوں کی عصمتیں لوٹی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کے املاک کو تباہ کیا جاتا ہے، دھشتگردی کو قابو پانے کے نام پر کھلی دھشتگردی جاری رکھی جاتی ہے، مسلمانوں کو ان کے اپنے ممالک سے بے دخل کیا جاتا ہے، غرض مسلمانوں کے لئے اب کوئی جای پناہ نظر نھیں آتی۔ اس تشویشناک صورتحال کے ھوتے ھوئے بھی مسلم امہ غفلت کی نیند سو رھی ہے، ایک مسلمان فرد دوسرے مسلمان بھائی سے غافل۔ ایک مسلم ملک دوسرے مسلم ملک سے لاتعلق۔ ایک دوسرے کی قتل و غارتگری پر خاموشی۔ تمام مسلمانوں اپنے ذاتی مفادات کی پیروی میں سرگرم اور سرگرداں۔ اسلام، مسلمان اور مقدسات اسلامی کی کسی کوئی فکر نھیں۔ امت کی آفات اور امت کے درد کی کسی کو پرواہ نھیں، یھی وجہ ہے کہ دشمن اسلام ھر نئے دن مقدسات اسلام کی توھین کررھے ہیں۔
اب ان حالات کے پیش نظر ھماری ذمہ داری کیا بنتی ہے، مسلمانوں کو اس تفرقہ و انتشار کے دلدل سے کیسے نجات مکن ہے۔ واقعاً ایسے حالات اور سنگین ترین صورتحال سے ھمیں اتحاد اسلامی کا عملی مظاھرہ و آپسی اخوت ھی نجات دلا سکتی ہے۔ آپسی روابط استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اتحاد اسلامی کا عملی مظاھرہ ھی سیرت رسول اللہ (ص) کی حقیقی پیروی ہے۔ مسلمانوں کو ایک بار پھر سے اپنے اصل کی طرف واپس پلٹنا ھوگا۔ اسلام، قرآن اور نبی اکرم (ص) کی سیرت اور آپ کی تعلیمات کو از سرنو سمجھنا ھوگا۔ یہ وقت ہے کہ مسلمان احکامات اسلامی اور تعلیمات اسلامی کا عملی نمونہ اور کردار پیش کریں۔ علماء، مفکرین، دانشور کی ذمہ داریاں تمام طبقات سے زیادہ ہیں، انھیں اپنی کاوشوں کا مرکز سیرت رسول پاک (ص) کی روشنی میں تقریب بین المذاھب کو بنانا ھوگا۔ ھم مسلمان ھی ہیں جو تمام انسانیت کے لئے خیر، امن، سلامتی اور امنیت کے باعث بن سکتے ہیں۔
مایوس بشریت کی بیماری کا واحد علاج سیرت پاک (ص) کی پیروی ہے۔ ھم مسلمانوں کو عزم کرنا ھوگا کہ رسول اکرم (ص) کی حقیقی پیروی کریں گے۔ انتشار نہ پھیلائیں گے نہ ایسی کسی سازش کا حصہ بنیں گے۔ مسلمانوں کے تشخص کی بحالی، مسلمانوں کا کھویا ھوا وقار واپس لوٹانے کے لئے بھترین موقعہ ’’ھفتہ وحدت‘‘ ہے۔
دین ناب محمدی (ص) کے مبلغین و دانشوروں کو چاھئیے کہ ہفتہ وحدت کے ان ایام میں وہ رسول نازنین (ص) کی حیات طیبہ سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ انھیں بتائیں کہ رسول اللہ (ص) نے مسلمانوں کی آپسی اخوت و ھم آھنگی کے لئے کتنی مشقتیں اٹھائیں۔ انھیں بتائیں کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد وحدت امت تھا۔ دنیا کو بتائیں کہ انبیاء کرام (ص) کا مشن انسانوں کے درمیان امن و سلامتی، اخوت و بھائی چارگی، مساوات و برابری، ھمدلی و ھم آھنگی قائم کرنا تھا۔
ھفتہ وحدت سننِ انبیاء کی احیاء کا یہ بھترین زمانہ ہے۔ ھفتہ وحدت ھی امت کی نجات کا باعث ہے۔ ھفتہ وحدت میں ھی مسلم امہ کی طاقت مضمر ہے۔ آج کے دور میں اتحاد اسلامی کی ضرورت تمام ادوار سے زیادہ ہے۔ دور حاضر میں دینداری سے زیادہ اھم دین شناسی ہے۔ آج کے لمحوں کی خطا و غفلت کا جبران آئندہ دسیوں نسلوں کے ھاتھوں ممکن نھیں۔ رسول اللہ (ص) کے تئیں بھترین خراج ’’وحدت اسلامی‘‘ ہے، منتشر معاشرے کو میلاد النبی (ص) منانے کا حق نھیں ہے۔ متحد ھونگے تو ھماری کوئی حیثیت ہے۔ متحد ھوں گے تو یہ امت امتِ مصطفٰی (ص) کھلائی جائے گی۔ وحدت آئینِ اسلامی ہے۔ وحدت منشور و مشنِ انبیاء ہے۔
تحریر: جاوید عباس رضوی
سیرت النبی (ص) کی پیروی مسلم امہ کی سربلندی
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 3972