بحمد اللہ عاشقان حسینی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نجف سے کربلا پورے تزک و احتشام و عزت و وقار کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے، امریکہ، یورپ و افریقہ سے لے کر ھندو پاک اور لبنان و شام نیز دنیا کے گوشے گوشے سے عشق حسینی کے قطرے اس سمندر کا حصہ بنے دنیا کے پرامن و باوقار انسانی مارچ کے ایک حسین منظر کو پیش کر رھے ہیں۔ یقیناً یہ ھماری عزت، ھمارے وقار اور عزاء سیداشھداء کے سائے میں ھماری سربلندی ساری دنیا کے سامنے وہ اظھار ہے، جسے دائمی بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ نجف سے کربلا تک اپنی روح کو پاکیزہ بنانے کے ساتھ اپنی فکر کو فکر کربلا سے متصل کیا جائے۔ آپ اگر تحریک کربلا پر نظر ڈالیں تو آپ کو تین ایسے اھم عناصر نظر آئیں گے، جو کربلا میں بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔
ا۔ عنصر عقل و منطق
۲۔ عزت و سربلندی اور شجاعت ( حماسہ﴾
۳۔ جذبات و احساسات
ھم بلا شبہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں، جو تحریک سید الشھداء کے فکری سرمایہ کو اپنے کاندھوں پر ایک ستون و پلر کی حیثیت سے اٹھائے ھوئے ہیں۔
چنانچہ ھمیں صرف راستہ ھی نھیں چلنا ہے بلکہ راستہ چلتے چلتے اپنے مقصد کی طرف یوں گامزن ھونا ہے کہ اپنا جائزہ لیتے ھوئے چلنا ہے، یہ دیکھنا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے جو کربلا تعمیر کی تھی، وہ کھاں پر ہے اور ھم کھاں ہیں۔ چنانچہ ھم اگر ھم عالم اسلام کی صورت حال کا ایک جائزہ لیں تو ھمیں اپنے اس موجودہ دور میں کربلا سے ھٹ کر وہ شخصیتیں نظر نھیں آتیں، جو قوم کی جذبات و احساسات میں تلاطم بپا کرکے انھیں عزت و سربلندی کی راھوں کی طرف چلنے کے لئے ابھاریں، ایک عجیب قسم کا ھوکا عالم ہے، جیسے موت کے فرشتے نے آکر پوری ملت اسلامیہ کا گلا دبا دیا ھو اور اس کی سانس اکھڑ رھی ھو، ھم ایسے ھی بے حس و حرکت پڑے ہیں، دشمن ھمارے خلاف مسلسل سازشیں کر رھا ہے اور ھمیں ذرا بھی خطرے کا احساس نھیں ہے، بلکہ انتھائی ڈھٹائی و ذلت کے ساتھ ھم کاسہ گدائی لئے دوسروں کے در پر اپنے تحفظ و اپنی بقا کی بھیک مانگتے نظر آرھے ہیں، یہ فکر کربلا سے دوری کا نتیجہ ہے، ورنہ جھاں فکر کربلا ہے، ھم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح سے تمام تر مشکلوں کے باجود کربلائی مزاج رکھنے والے لوگ باطل پرست طاغوتی طاقتوں سے نبرد آزما ہیں اور زمانے کی یزیدیت مل کر بھی ان کا کچھ نھیں بگاڑ پا رھی ہے۔
نہ اقتصادی ناکہ بندی، نہ ھی دنیا میں الگ تھلگ کر دینے کی پالیسی، کوئی بھی سیاست فکر کربلا کے سامنے چلتی نظر نھیں آرھی ہے۔ ایسے میں کیا ضروری نھیں کہ ملت اسلامیہ مل بیٹھ کر غور کرے اور سمجھے کہ سربلندی و عزت خیمہ حسینی کے سوا کھیں اور نھیں ملنے والی ہے۔ اس لئے عزت و سربلندی اگر چاھیئے تو در حسین پر سر جھکانا ضروری ہے اور اگر ھم در حسین پر سر جھکالیں گے تو دنیا و آخرت کی سربلندی ھماری جھولی میں خود آجائے گی، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ حسینی کردار کو اپنے وجود میں اتارا جائے، محض بڑی بڑی باتوں اور نعروں سے کچھ ھونے والا نھیں ہے۔ امت مسلمہ کا جو حال ہے، وہ تو ھم دیکھ ھی رھے ہیں کہ کس طرح بڑی ڈھٹائی سے ساری دنیا کو مشرک کہہ کر خود کو پرچم توحید کا وارث قرار دینے والے ملک کو مسلسل فضیحت کا سامنا کرنا پڑ رھا ہے اور ان کے اپنے ھی آقا نے آنکھیں دکھاتے ھوئے آئینہ بھی دکھا دیا کہ اگر ھماری بیساکھی نہ ھو تو تم دو ھفتے بھی چلنے کے لائق نھیں۔
یہ بات اپنے آپ میں قابل غور ہے کہ یہ فضیحت و خفت انھیں کے دامن گیر ہے، جو دعویٰ توحید تو کرتے ہیں، لیکن روح توحید سے بے خبر ہیں۔ اس لئے کہ پیغام حسینی سے لا تعلق ہیں۔
اس کے بر خلاف جھاں حسینی پیغام ہے، وھاں چالیس سال کا عرصہ ھونے آیا، ساری توانائی صرف کر لینے کے باجود بھی دشمن کو سوائے شکست کے کچھ نھیں نصیب ھوا ہے۔ خیر یہ تو امت مسلمہ دیکھ ھی رھی ہے کہ جھاں حسینت ہے، وھاں عزت و وقار کا عالم کیا ہے، جھاں حسینیت سے فرار ہے، وھاں کی ذلتوں کا عالم کیا ہے، لیکن ھمیں اگر ملکی سطح پر بھی اپنے معاشرہ کو عزت و سربلندی عطا کرنا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان راھوں کی جستجو کی جائے، جس پر چل کر کربلا والے رھتی دنیا تک منارہ عزت بن گئے اور اس کے لئے زبانی جمع خرچ نھیں، ان راھوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، جو عزت و سربلندی پر منتھی ھوتی ہیں، جب ھم ان راھوں پر غور کرتے ہیں تو ھمارے سامنے چند اھم عوامل آتے ہیں، جنھیں عوامل و اسباب عزت کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔
عوامل و اسباب عزت:
1۔ تقویٰ الھیٰ:
تقویٰ کی بنیاد پر یوں تو بھت سے بندگی کے گوھر نکھرتے ہیں اور پروردگار متقی کو بے شمار انعامات سے نوازتا ہے، ان بھت سے انعاموں میں ایک معنوی انعام عزت ہے۔ حدیث میں ہے ’’لاعزٌ اعز من التقویٰ‘‘:’’کوئی عزت تقویٰ سے زیادہ عزیز نھیں ہے۔‘‘[1]
ایک اور مقام پر ارشاد ھوتا ہے: «من اراد ان یکون اعز الناس فلیتق الله عزوجل‘[2]"جو لوگوں میں سب سے زیادہ عزت مند ھونا چاھتا ہے، ضروری ہے کہ تقویٰ الھیٰ اختیار کرے۔" تقویٰ سے بڑی کوئی پناہ گاہ نھیں، جس میں انسان جب داخل ھو جائے تو دشمن اسے ھرا نھیں سکتا اور اسے بے عزت نھیں کرسکتا، جو تقویٰ کی پناہ میں آگیا، اس کے مقابل جس نے فسق و فجور کیا، وہ ذلیل خوار ھونے والا ہے۔
چنانچہ امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «اعلموا عباد الله ان التقوی دار حصن عزیز والفجور دار حصن ذلیل; "جان لو اے بندگان خدا، تقویٰ ایسا قلعہ ہے، جو انسان کو ناقابل شکست بناتا ہے اور فسق فجور ایسا محل ہے، جو انسان کو ذلیل و رسوا کرتا ہے۔"[3] ایک تپتے بے آب و گیاہ صحرا میں شہید ہونے والے امام حسین علیہ السلام اور انکے اصحاب با وفا آج شہید ہو کر بھی لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں حصار تقویٰ کی بنیاد پر۔ اور محلوں میں رہنے والا یزید خوار و ذلیل ہے، اپنے فسق و فجور کی بنیاد پر۔ آج اگر مسلمانوں کو خود انکے ممالک میں کہیں بے عزتی جھیلنی پڑ رہی ہے تو بیرونی عوامل تو اپنی جگہ ہیں ہی، ایک درونی عامل یہی ہمارے گناہ ہیں، ہمارے وجود کے اندر تقویٰ کا نہ ہونا ہے۔ اس لئے کہ اگر ہمارے وجود کے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے تو ممکن نہیں کہ ذلتیں ہمارے دامن گیر ہو جائیں۔ جب تقویٰ نہیں ہوتا تو ہم اسکے در پر کاسہ لیسی کرنے پہنچتے ہیں، جسکی بنیاد پر ہمیں ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
2۔ قرآن کریم:
انسان کے لئے ایک بڑا سبب وسیلہ خود قرآن کا ہے، انسان اگر قرآن سے مانوس ہے تو ذلیل و خوار نھیں ھوسکتا، اس لئے کہ یہ کتاب عزت بخشنے والی کتاب ہے، آج دنیا میں مسلمان ذلیل و رسوا ہیں تو قرآن کو چھوڑنے کی بنیاد پر۔ شاید اسی لئے ماضی میں جب مسلمان قرآن سے وابستہ تھا تو اس کی حالت اتنی غیر نہ تھی، جتنی آج ہے، کیا ھی خوب کھا تھا علامہ اقبال نے:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ھوکر
اور تم خوار ھوئے تارک قرآں ھوکر
قرآن کی پناہ میں جو آگیا، وہ کیونکر ذلیل و خوار ھوسکتا ہے، جبکہ خود قرآن اس کا محافط ھو۔ امام علی علیہ السلام قرآن کے سلسلہ فرماتے ہیں:’’وعزا لا تهزم انصاره وحقا لا تخذل اعوانه‘‘[4] "یہ ایسی (عزت بخشنے والی) کتاب ہے، جو اپنے دوستوں کو ایسی طاقت دیتی ہے کہ وہ شکست نہ کھا سکیں اور ایسی حقیت ہے کہ اپنے دوستوں کو رسوا نھیں ھونے دیتی۔"
کتنے ذلیل و خوار تھے قرآن کو چھوڑنے والے اور کتنے عزیز تھے، قرآن کو اپنے وجود میں اتارنے والے کہ کٹے ھوئے گلے نوک نیزہ پر بھی تلاوت قرآن کرکے اپنی شکست ناپذیری اور خدا کے حضور اپنے عزیز ھونے کا اعلان کر رھے تھے اور سروں کو کاٹنے و نیزوں پر چڑھانے والے اپنے جسموں پر سر ھونے کے بعد بھی ذلیل و رسوا تھے، کس طرح قرآن سے تمسک عزت دیتا ہے اور کس طرح قرآنی تعلیمات کو بھلا دینے سے انسان ذلیل ھوتا ہے، یہ کربلا بتا رھی ہے۔
آج بھی وہ حسین عزیز ہے، جسے تلاوت قرآن پسند تھی اور اس کے چاھنے والے عزیز ہیں، لیکن وہ یزید پلید جو جاھلیت کے اشعار پر ناز کرتا تھا، آج لعنتوں کا طوق لئے گھوم رھا ہے۔ اب اسی معیار پر ھم خود کو تول لیں کہ جھاں مشاعروں کا دور قرآن کی بزم سے زیادہ ھو، مشاعروں میں ایک بھیڑ امڈی ھو، لیکن قرآن کے دروس کا نام سن کر سانپ سونگھ جاتا ھو اور اگر کھیں کوئی خوش لحن قاری کسی محفل میں پھنچ جائے تو لوگ اس کا استقبال کرنے کے بجائیں گھڑیاں دیکھنے لگیں اور قوالیوں اور نغموں کی محفلوں میں گھڑیاں اتار کر پھنچیں تا صبح محفلیں جمی رھیں، ھلڑ ھنگامہ رھے، قھقھوں کے ساتھ ساتھ واہ واہ اور داد دینے کا سلسلہ رھے تو انسان کو سوچنا چاھیئے کہ وہ کدھر جا رھا ہے۔ اب اگر قرآن پر غور تو دور اس کی تلاوت بھی بھاری پڑے تو ایسے معاشرہ پر ذلتوں کے سائے نھیں منڈلائیں گے تو اور کیا ھوگا۔؟
3۔ اللہ کی ذات پر بھروسہ:
اسباب عزت میں ایک بڑا سبب جس کی بنا پر انسان ھمیشہ عزت کے ساتھ جیتا ہے، خدا پر بھروسہ اور توکل ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں: «الغنی والعز یجولان فی قلب المؤمن فاذا وصلا الی مکان فیه التوکل اقطناه[5]; "بے نیازی و عزت مومن کے دل میں جولانی کرتے رھتے ہیں اور جب وہ ایسی جگہ پھنچ جاتے ہیں، جس میں توکل ھو تو اس پر تصرف کر لیتے ہیں۔"
شاید امام محمد باقر علیہ السلام کی یہ حدیث یہ بتانا چاھتی ھو کہ بے نیازی و عزت دو ایسی چیزیں ہیں، جو اس وقت تک انسان کے وجود میں نھیں سماتیں، جب تک اس کے دل میں توکل نہ ھو۔
جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے بھی ایک دوسرے انداز میں اسی بات کو یوں فرمایا ہے: «ان العز والغنی خرجا یجولان، فلقیا التوکل فاستوطنا[6] "بیشک عزت و بے نیازی نکل گئیں اور حرکت کرنے لگیں، پس ان کی ملاقات توکل سے ھوئی، وھیں انھوں نے اپنا وطن بنا لیا۔"
شاید مفھوم حدیث یہ ہے کہ عزت و بے نیازی اس وقت تک نھیں آتیں، جب تک توکل نہ ھو اور ایک عزت مند و بے نیاز انسان وھی ھوتا ہے، جو اللہ پر بھروسہ کرتا ھو۔
ظاھر ہے جب وہ خدا پر بھروسہ کرے گا تو این و آن کے سامنے دست سوال دراز نھیں کرے گا، جس کی بنا پر اسے کسی کے سامنے ذلیل نھیں ھونا پڑے گا، اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ پر بھروسہ و توکل کیسا ھونا چاھیئے۔
توکل وہ ہے، جس کے سلسلہ سے امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں:"من اتکل علی حسن اختیار الله تعالی له لم یتمن غیر ما اختاره عزوجل له":"جو اللہ کے حسن اختیار (انتخاب) پر توکل کرے، وہ ان چیزوں کی تمنا نھیں کرتا جسے اللہ نے اس کے لئے نھیں چنا ہے۔" توکل یہ ہے کہ انسان سب کچھ خدا پر چھوڑ دے، بندگی کرے اور بس، اپنی کوشش کرے، لیکن یہ نہ سوچے کہ میں کر رھا ھوں، توفیقات کو بھی اپنے مالک کی عنایت جانے، اسی پر بھروسہ کرے اور اسی کی طرف بازگشت کو اپنے دل سے قبول کرے۔
جیسا کہ امام حسین علیہ السلام اپنے وصیت نامے میں بیان فرماتے ہیں: "وهذه وصیتی الیک یا اخی وما توفیقی الا بالله علیه توکلت والیه انیب …[7]"اور یہ میری وصیت ہے تمھارے لئے، اے میرے بھائی کہ کوئی توفیق حاصل نھیں ھوتی مگر خدا کی جانب سے، اسی پر بھروسہ ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔"
اگر ھم کربلا کی آفاقی تعلیمات پر غور کریں تو ھمیں کربلا میں خدا پر بھروسہ و توکل اپنی عالی ترین منزل پر نظر آتا ہے، توکل اگر روایت کے بموجب عزت و بے نیازی کے لئے وطن کی حیثیت رکھتا ہے تو اب ھمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی خاص پارٹی یا تنظیم کا دامن تھام لینے سے ھمارا کام نھیں چلے گا، اس لئے کہ ممکن ہے کوئی پارٹی کسی خاص زمانے میں ووٹوں کی بنا پر ھم پر مھربان ھو، لیکن الیکشن کے بعد ھی اپنا رنگ دکھانے لگے۔
لھذا یہ بات ھرگز صحیح نھیں ہے کہ اگر کوئی اگر مختلف مذاھب کے درمیان ایک کثیر اللسانی ملک میں رھتا ہے تو سوچے کہ اگر ھمیں ایک کثیر المذاھب اور کثیر اللسانی ملک میں رھنا ہے تو کسی نہ کسی پارٹی کا دامن تو تھامنا ھی ھوگا، انسان اگر خود پر بھروسہ کرتے ھوئے اللہ کا دامن تھامے تو اس کے اندر یہ دم بھی پیدا ھوگا کہ اپنی کنڈیشن کسی بھی پارٹی کے سامنے رکھ سکتا ہے کہ اگر تمھیں اس جمھوری ملک میں ھمارے ووٹوں کی ضرورت ہے تو یہ ھمارے جائز مطالبات ہیں، پھلے ان پر عمل کرکے دکھاو اور یہ کچھ ایسے مطالبات ہیں، جن پر عمل اقتدار کے بعد یقینی ہے تو ان کی عملی ضمانت دو، اس کے بعد ھم فیصلہ کریں گے کیا کرنا ہے، لیکن یہ بات تبھی ھوسکتی ہے، جب ھمارے سامنے اپنا وجود نہ ھو بلکہ خدا کا وجود ھو۔
لیکن ھماری بدقسمتی تو ہے یہ ہے کہ چاھے ھمارا اپنا ملک ھو یا ملک سے باھر کا مسلم معاشرہ، ھر طرف دوسروں کی طرف ھم حسرت سے دیکھتے نظر آتے ہیں اور خدا پر بھروسہ کرتے ھوئے اپنے بل پر کچھ کرنے کے لئے تیار نھیں، نتیجہ یہ ہے کہ زمانہ ھمیں بری طرح ذلیل کرتا ہے اور ھم میں سے بعض ذلتوں کے طوق ڈالے عزتوں کو تلاش کرنے میں سرگراں نظر آتے ہیں۔ اگر ھم اپنی روح کو کربلا کے ساتھ متصل کر لیں تو یقیناً ایک ھی مقام پر ھمیں یکجا وہ ساری چیزیں مل سکتی ہیں، جن کی بنیاد پر ھم دنیا میں سربلندی کے ساتھ جی سکیں، اس لئے کربلا کی روح کی فریاد ہے "ھییات منا الذلہ۔۔۔" اور یہ اربعین امام حسین علیہ السلام اسی ھیات منا الذلہ کی ایک ادنیٰ تفسیر ہے، بات تو تب ہے جب ھم اسی تفسیر کو یھیں چھوڑ کر نہ جائیں بلکہ اپنا سرمایہ سمجھ کر وھاں لے جائیں، جھاں سے آئے ہیں۔
کاش اربعین کی معنویت، اربعین کا عشق، اربعین کی صداقت، اربعین میں لوگوں کے درمیان ایمانی جذبہ، عشق حسینی کی یہ حرارت یہ سب نجف سے کربلا پھنچ جانے کے بعد ختم نہ ھو جائے اور ھم اسے بچا کر اپنے اپنے وطن تک لے جا سکیں کہ اگر ایسا کر لیا تو یقیناً ھم کہہ سکیں گے کہ ھم منارہ عزت و سربلندی، سید الشھداء کا چھلم منا کر واپس پلٹے ہیں، وہ حسین جس نے گھوڑوں کی سموں سے پامال ھونا گوارا کیا، لیکن اپنی آبرو و عزت کا سودا نھیں کیا تو پھر ھم کیونکر اس کے چھلم سے پلٹ کر آنے کے بعد بھی دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا ھوسکتے ہیں، ھرگز نھیں کہ کربلا میں سربریدہ لاشوں سے سے نکلنے والی آواز اب بھی آ رھی ہے، "ھیات منا الذلہ"
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
حواشی:
1۔ نھج البلاغہ، کلمات قصار،۳۷۱۔
2۔ بحارالانوار، ج 70، ص 285، حدیث 7
3 ۔ نهج البلاغه، محمد دشتی، ص 292، خطبه 157
4 ۔ نھج البلاغہ، خطبه 198، ترجمہ دشتی، ص 418
5 ۔ میزان الحکمہ، ج 5، ص 1959، حدیث 12862
6 ۔ میرزا حسین نوری، مستدرک الوسائل، ج 11، ص 218، حدیث 12793.
7۔ ملحقات احقاق الحق، ج 11، ص 602
اربعین سیدالشھداءعلیہ السلام، عزت و سرافرازی کی میعاد گاہ
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1263