www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

203182
سوشل میڈیا نے ضابطہ اخلاق کے لئے کوئی جگہ نھیں چھوڑی اور جس کو جو بھی لکھنا آتا ہے لکھ دیتا ہے، وہ بھی لکھ دیتے ہیں جو اگر کسی کتاب اور مکتوبہ جرائد میں کچھ لکھ لیں تو شاید انھیں عدالت سے سزا ھوجائے، لیکن یھاں نہ تو کوئی قدغن ہے اور نہ ھی کوئی پولیس اور قاضی، اور پیچھے سے کچھ لوگ کچھ چیزوں کو کنٹرول بھی کرتے ہیں اور غیر محسوس انداز سے کچھ سمتیں بھی متعین کرتے ہیں۔
مؤمنین کے درمیان تنازعات کھڑے کرنے کے لئے مختلف قسم کے مسائل اٹھائے جاتے ہیں؛ اور بڑی ھوشیاری سے تمام فریقوں کے مشترکہ مقدسات کی بےحرمتی کرتے اور کراتے ہیں؛ جن میں سے ایک یہ موضوع بھی ہے کہ "کیا ائمہ اھل بیت کے سوا کسی اور کو امام کھنا جائز ہے؟"؛ چنانچہ راقم الحروف نے یھاں کچھ جملے تحریر کئے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ کچھ مؤمنوں کے اذھان روشن ھوجائیں۔
لفظ امام دو صورتوں میں استعمال ھوتا ہے:
1۔ عام: جیسے امام جمعہ، امام جماعت، امام مسجد وغیرہ
2۔ خاص: جیسے امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام ۔۔۔
جو حضرات غیر اھل بیت کے سوا کسی کے لئے امام کے لفظ کے استعمال کو جائز نھیں جانتے ان کی مراد دوسری قسم کی امامت ہے جو مطلقا ائمہ معصومین علیھم السلام کے لئے مختص ہے؛ کیونکہ پھلی قسم کی امامت کی نسبت دوسروں کو دینا، جائز ہے اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے۔
مراجع تقلید کو بھی امام کھا جاتا ہے اور عربی میں تو یہ بالکل عام سی بات ہے: امام سید محمد حسن شیرازی، امام کاشف الغطاء، امام خوئی، امام خمینی، امام خامنہ ای، امام سیستانی وغیرہ
کچھ لوگ تو امامت کو دونوں صورتوں میں سب کے لئے استعمال کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔
ھمارے پاس بھی کچھ دلائل ہیں جنھیں پڑھیں گے تو پشیمان نہ ھوں گے:
زیارت جامعہ سے رجوع کرتے ہیں جو امام شناسی کا ایک مکمل کورس ہے:
1۔ ھم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں:
"الْمُتَقَدِّمُ لَهُمْ مارِقٌ، وَالْمُتَاَخِّرُ عَنْهُمْ زاهِقٌ وَاللّازِمُ لَهُمْ لاحِقٌ؛ جو آپ (ائمہ) سے قدم آگے بڑھائیں وہ مارقین یعنی اطاعت حق سے خارج ھونے والے اور امام واجب الاطاعہ کی اطاعت چھوڑ دینے والے ہیں۔، جو آپ سے پیچھے رھیں وہ ایک دم نیست و نابود ھو جانے والے ہیں اور آپ کے ساتھ ساتھ چلیں وہ لاحقین اور آپ سے آملنے والے اطاعت گذار ہیں۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:
"وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ؛ جو رسول عطا کریں اسے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز آؤ، اور اللہ سے ڈرو یقینا اللہ سخت سزا والا ہے۔ (1)
اور ھمارا ایمان ہے کہ کلام اللہ حق ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اس کے رسول اور ائمہ طاھرین علیھم السلام، خدا کے اولیاء اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے خلفاء اور جانشین ہیں چنانچہ جو وہ عطا کریں ھمیں لینا پڑے گا اور جو حکم دیں گے تعمیل کرنا پڑے گی اور جس چیز سے روکیں گے، باز آنا پڑے گا بصورت دیگر ناکثین، قاسطین اور مارقین کے زمرے میں شمار ھونگے۔
ارشاد رب متعال ہے:
وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ؛ اور ھمارا مقصود یہ ہے کہ احسان کریں ان پر جنھیں دنیا میں دبایا یا پیسا گیا تھا اور انھی کو پیشوا قرار دیں، انھی کو آخر میں قابض و متصرف بنائیں (2)
نیز خداوند متعال نے مختلف لوگوں کو امام اور ائمہ کے نام سے یاد کیا ہے:
لفظ امام:
تو ھم نے ان (اصحاب ایکہ) سے بدلہ لیا اور یہ دونوں امام مبین (بمعنی شاھراہ عام) پر ہیں جو نمایاں ہے۔ (3)؛ جس دن ھم ھر دور کے لوگوں کو ان کے امام (بمعنی پیشوا) کے ساتھ بلائیں گے۔ (4)؛ اور اس کے پھلے موسیٰ کی کتاب امام (بمعنی پیش رو) بن کر آئی تھی۔ (5)؛ اور ھمیں پرھیز گاروں کا امام (بمعنی رھبر و پیش رو) بنا۔ (6)
لفظ ائمہ:
اور ائمۂ کفر (یعنی کفر کے سرغنوں) سے جنگ کرو (7)؛ اور انھیں ھم نے قرار دیا ایسے امام (بمعنی عمائد) جو آگ کی طرف بلاتے تھے (8)؛ اور ان (بنی اسرائیل) میں سے ھم نے کچھ امام (راھنما) قرار دیئے۔ (9)
احادیث شریفہ میں بھی امام کا لفظ مختلف لوگوں کے لئے استعمال ھؤا ہے مثبت عنوان سے بھی اور منفی عنوان سے بھی:
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
"مَنْ نَصَبَ نَفْسَهُ لِلنَّاسِ إِمَاماً فَلْيَبْدَأْ بِتَعْلِيمِ نَفْسِهِ قَبْلَ تَعْلِيمِ غَيْرِهِ وَلْيَكُنْ تَأْدِيبُهُ بِسِيرَتِهِ قَبْلَ تَأْدِيبِهِ بِلِسَانِهِ وَمُعَلِّمُ نَفْسِهِ وَمُؤَدِّبُهَا أَحَقُّ بِالْإِجْلَالِ مِنْ مُعَلِّمِ النَّاسِ وَمُؤَدِّبِهِمْ؛ جس نے اپنے آپ کو لوگوں کا امام مقرر کیا وہ دوسروں کو تعلیم دینے سے پھلے اپنے آپ کو تعلیم دے اور اپنی ذات اور روح کی تعمیر کرے اور زبان کے ذریعے سکھانے سے قبل اپنے کردار سے لوگوں کو تعلیم دے؛ کیونکہ جو اپنے آپ کو تعلیم دے اور ادب سکھائے، اس شخص سے کھیں زیادہ اجلال و تعظیم کا لائق ہے، جو دوسروں کو تعلیم دیتا اور ادب سکھاتا ہے"۔ (10)
امام سجاد علیہ السلام رسالۂ حقوق میں فرماتے ہیں:
"فَحُقُوقُ أَئِمّتِكَ ثَلَاثَةٌ أَوْجَبُهَا عَلَيْكَ حَقّ سَائِسِكَ بِالسّلْطَانِ ثُمّ سَائِسِكَ بِالْعِلْمِ ثُمّ حَقّ سَائِسِكَ بِالْمِلْكِ وَ كُلّ سَائِسٍ إِمَامٌ؛ آپ کے ائمہ (حکام اور راہنماؤں) کے حقوق کی تین قسمیں ہیں: سب سے زیادہ واجب حق تم پر اس شخص کا ہے جو طاقت (اور شرعی صلاحیت) کے ذریعے تمھارے معاملات کا انتظام و انصرام کرتا ہے؛ بعدازاں اس شخص کا حق جو علم آموزی کے ذریعے تمھاری پرورش کرتا ہے؛ اور پھر اس کا حق جو حکومت و مملکت میں تیرا امام (پیشوا) ہے اور ھر راھنما اور سرپرست امام ہے۔
چنانچہ ھم دیکھ رھے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور اھل بیت علیھم السلام کی دسوں حدثیوں میں لفظ امام بصورت عام دوسروں کے لئے استعمال ھؤا ہے۔ اور اس لفظ کے دوسروں کے لئے استعمال سے 12 ائمۂ طاھرین علیھم السلام کی امامت خاصہ کو کوئی گزند نھیں پھنچتی۔نتیجہ:
آیات کریمہ میں اچھے اماموں اور برے اماموں کا تذکرہ گذرا، ایک آیت میں فرمایا گیا ہے اللہ مستضعفین کو امام بنائے گا، اور امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا کہ جو اپنے آپ کو لوگوں کا امام قرار دے، تو اسے اپنی تعلیم اور تربیت کو مقدم رکھنا چاھئے اور امام سجاد علیہ السلام نے ھر سرپرست کو امام قرار دیا تو اب میں کون ھوں اور میری اوقات کیا ہے کہ کھتا پھروں کہ لفظ امام کا استعمال غیر معصوم کے لئے جائز نھیں ہے! لگتا ہے کہ اگر ھم اپنی طرف سے معصوم کے احکامات کو نظرانداز کریں تو ممکن ہے کہ مارق اور زاھق کا مصداق ٹھہریں جیسا کہ امام علی نقی الھادی علیہ السلام نے زیارت جامعہ میں فرمایا ہے:
"المُتَقَدِّمُ لَهُمْ مارِقٌ وَالمُتَأَخِرُ عَنْهُمْ زاهِقٌ؛ (11) ان سے آگے نکلنے والا دین سے خارج اور ان کے پیچھے رہ جانے والا نیست و نابود نابود ھونے والا ہے"۔
2- کسی بھی شیعہ منبع اور ماخذ میں کھیں بھی نھیں ملتا کہ ائمۂ اھل بیت علیھم السلام نے اپنے سوا کسی اور کے لئے لفظ امام کے استعمال سے منع کیا ھو۔
3۔ قدیم علماء کی روایت تھی کہ بطور مثال ان کے رسالوں کی جلد پر لکھا ھوتا تھا: "الامام"؛ جیسے الامام سید محمد حسن شیرازی،الامام سید ابوالقاسم خوئی، وغیرہ۔
4. قرآن میں ائمہ کے مصادیق مختلف ہیں۔
پس ھمارے بارہ امام بطور خاص امام ہیں، لیکن ابراھیم علیہ السلام بھی امام ہیں، حضرت رسول اکرم(ص) بھی امام ہیں، بنی اسرائیل کے پیغمبر بھی امام ہیں جو اللہ کے حکم پر لوگوں کی ھدایت کا بیڑا اٹھائے ھوئے ہیں۔ حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کو بھی رتبہ امامت حاصل ہے۔
5۔ اھل سنت اپنے مجتھدین اور محدثین کو امام کھتے ہیں جیسے: نعمان بن ثابت = امام ابو حنیفہ؛ محمد بن ادریس شافعی = امام شافعی؛ احمد بن حنبل شیبانی = امام احمد؛ مالک بن انس اصبحی؛ محمد بن اسماعیل بخاری = امام بخاری؛ مسلم بن حجاج نیسابوری = امام مسلم وغیرہ۔ ہم امام جماعت، امام جمعہ، نماز عید کے امام، مسجد کے امام یا پیش امام کو بےدھڑک امام کہہ دیتے ہیں لیکن اگر کھیں کہ امام خمینی یا امام خامنہ ای تو تنگ نظر حضرات فورا موقف اپناتے ہیں۔
چنانچہ انصاف سے کام لینا چاھئے، اپنے جسم پر اور اپنے مکتب کے پیکر مظلوم پر اتنے زخم نھیں لگانا چاھئے، جبکہ مکتب کو فکری، علمی میدانوں میں بھی اور حتی کہ میدان جنگ میں بھی دشمنوں اور مخالفین کا سامنا ہے، اور ھم بےخبری میں تمام تر مسائل اور اختلافات کو مکتب کے اندر دھکیل دیتے ہیں، اس سے فائدہ کس کو ملتا ہے؟ کیا مکتب تشیع مظلوم نھیں ہے؟ اگر ہے تو کیا ھم خود اس پر ظلم نھيں کررھے۔۔۔
قابل ذکر ہے کہ جو لوگ امام خمینی اور امام خامنہ ای کو امام کھتے ہیں اس وقت اگلے مورچوں میں مقدسات کے دفاع میں مشغول ہیں اور جان کا نذرانہ پیش کررھے ہیں اور کم ھی ملیں گے ایسے جو لفظ امام کے اطلاق پر تو رد عمل ظاھر کرتے ہیں لیکن دفاع کے میدانوں میں دور دور تک بھی نھیں دکھائی دیتے۔ اور امام خامنہ ای اس زمانے میں پوری امت کے علمدار ہیں، اور نوجوانان شیعہ دنیا کے گوشوں گوشوں سے آکر ان کے فرمان پر مقدسات اسلامی کے تحفظ کے لئے جانیں نچھاور کررھے ہیں۔
سوال : کیا واقعی امام خمینی اور امام خامنہ ای کے پیروکار انتھا پسند ہیں؟ کیا وہ انھیں امام معصوم(ع) کے برابر سمجھتے ہيں؟
جواب: ھرگز نھیں؛ مغربی اور ماسونی اصطلاح میں ھر اس شخص کو انتھا پسند مسلمان کھا جاتا ہے جو دین اسلام کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنا چاھتے ہیں اور اور اسلام کے تمام احکام اور تعلیمات کے عملی نفاذ کے قائل ہیں؛ وہ جو قرآن کی تمام تعلیمات اور تمام آیات کی پابندی کے قائل ہیں، وھی جو ظلم کے خلاف جھاد کے قائل ہیں اور استکباری اور یھودی سازشوں اور ان کی یلغار کا سد باب کرنے کے قائل ہیں اور وہ جو مغربی منصوبوں کی پیروی کے بجائے خود سوچنے اور منصوبہ سازی کرنے اور اپنی تھذیب کے مطابق اپنی قوم کے امور کے انتظام کے قائل ہیں۔ اور امام خمینی اور امام خامنہ ای کے پیروکار اتفاق سے اسی طرز فکر کے حامل ہیں اور قرآن کے مکمل نفاذ کے قائل ہیں جھاں ارشاد ھؤا ہے:
خداوند متعال نے یھودیوں سے ارشاد فرمایا:
"أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ؛ تو کیا تم کتاب کے کسی جزو کو تو مانتے ھو اور کسی جزو سے انکار کرتے ھو؟"۔ (12)
"إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً؛ بلاشبہ وہ جو اللہ اور اس کے پیغمبر کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے پیغمبروں میں تفریق کرناچاھتے ہیں کہ ھم کچھ پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ کا انکار کرتے ہیں اور اس کے بیچ میں ایک راستہ اختیار کرنا چاھتے ہیں"۔ (13)
چنانچہ اگر ان بزرگواروں کے پیروکار پورے قرآن کو مانتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں تو وہ درحقیقت اللہ کے سچے بندے ہیں اور پھر وہ میدان میں جاکر جان ھتھیلی پر رکھ کر عملی صورت میں بھی جھاد اور تقابل کی آیات کو نافذ کرتے ہیں لھذا پھلی بات تو یہ ہے کہ اگر انتھا پسندی یھی ہے تو یہ باعث فخر ہے ایک مسلمان کے لئے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بھت سے ایسے بھی ہیں جو حتی کہ امام معصوم کو معصوم کھنے اور ان کے لئے "علیہ السلام" کھنے کے مخالف ہیں اور حتی کہ ان کے مشاھد شریفہ کی زیارت اور ان سے طلب شفاعت کو حرام سمجھتے ہیں اور دوسری طرف سے ایسے بھی لوگ ہیں جو غلو اور زیادہ روی کا شکار ھوجاتے ہیں جن کی مثال ھمارے اس مضمون کا موضوع بھی، ہے تو کیا ھمیں غلو سے بچنے کے لئے امیرالمؤمنین اور علی علیہ السلام کے فضائل بیان کرنے سے پرھیز کرنا چاھئے؟ اور اگر کوئی اور کیا آج اگر ھم ان علمداران امت کو امام کھنے کی بنا پر غلو اور انتھاپسندی کے ملزم ٹھہرائے جائیں تو کیا ھمیں ان کی شخصیات اور کارناموں کی تشھیر سے پرھیز کرنا چاھئے؟ کیا ایسا نھیں ہے کہ اگر ھم غلو کے الزام کے خوف سے ائمہ اھل البیت علیھم السلام کے فضائل بیان کرنا ترک کردیں، تو منکرین کی صف میں شمار ھونگے؟ تو کیا ان کے منکرین کا حال غالیوں سے بھتر ھوگا "روز قیامت"، جبکہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
"يَهْلِكُ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَبَاهِتٌ مُفْتَرٍ. (قال الرضي:) وَهذا مثل قوله (عليه السلام): هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَمُبْغِضٌ قَالٍ؛ میری نسبت دو قسم کے لوگ ھلاک ھونگے وہ جو دوستی میں زیادہ روی کرے اور اپنی حد سے بڑھ جاتے ہیں اور وہ جو جھوٹے اور بھتان تراش ہیں۔ (سید رضی [رح] کھتے ہیں کہ یہ امام کے اس قول کی مانند ہے کہ) دو قسم کے لوگ میری نسبت ھلاک اور نیست و نابود ھونگے: وہ جو محبت میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور غلو کرتے ہیں اور وہ جو وہ دشمن جو بیھودہ گوئی کرتے ہیں"۔ (14)
یقینا آج تک اس راقم کو کوئی شخص نظر نھیں آیا جو امام خمینی یا امام خامنہ ای کو امام کے عنوان سے یاد کرے تو اس کا مقصد یہ ھو کہ وہ (معاذاللہ>) امام معصوم علیہ السلام کے ھم پلہ ہیں یا (معاذاللہ>) امام معصوم اور امام زمانہ (عَجَّلَ‌ اللہُ تعالىٰ فَرَجَہُ الشَّرِیف) کے مد مقابل ہیں؛ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ نائبین امام زمانہ ہیں اور عقیدہ یہ اھل بیت کے فرامین کے عین مطابق بھی؛ جبکہ معترضین ائمہ معصومین علیہ السلام سے آگے بڑھ کر یا پیچھے رہ کر مارقین و زاھقین کے زمرے میں شامل ھوجاتے ہیں؛ جو کہ افسوسناک امر ہے اور ھمیں اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہے۔
کم علم ھونا عیب نھیں ہے، لیکن کم علمی کے سامنے اگر صاحبان علم اپنی ذمہ داری پر عمل نہ کریں، یعنی اپنی دانش ظاھر نہ کریں اور کم علموں کو نہ سمجھائیں تو یہ (کم علمی) انتھاپسندی، زیادہ روی اور تشدد و تکفیر پر منتج ھوسکتی ہے۔ علماء اور اھل دانش کی ذمہ داری جھل، نادانی اور زیادہ روی کا ازالہ کرنا ہے نہ کہ اھل حق کو حق چھوڑنے کی نصیحتیں شروع کریں: امام حسین علیہ السلام کے مدینہ سے مکہ روانہ ھوتے اور مکہ سے عراق روانہ ھوتے وقت ایسے بھت سوں کا سامنا کرنا پڑا جن کی ذمہ داری امام کا ساتھ دینا تھی لیکن انھوں نے ساتھ دینے کے بجائے ان کو نصیحت کی کہ عراق نہ جائیں و۔۔۔ اور انھیں یھاں تک بھی ادراک نہ تھا کہ امام کو مشورہ نھیں دیا جاتا بلکہ امام کی اطاعت ھوتی ہے۔
ھدایت چاھتے ہیں اللہ کی، رسول اور آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے صدقے، کہ ھم اپنا اور اپنے مؤمن بھائیوں کا وقت اور سرمایہ کم علمی سے جنم لینے والے اعتراضات پر صرف کرنے کے بجائے اپنی دانش میں اضافہ کریں، دشمن کو پھچان لیں، اس کی چالوں کو پھچان لیں اور سوچ لیں کہ کیا مؤمنین کے درمیان اس جیسی کوئی بھی بحث چھیڑنے میں کھیں کسی دشمن کا ھاتھ تو نھیں ہے! الٰھی آمین۔
بقلم: فرحت حسین مھدوی
حوالہ جات:
1۔ سورہ حشر، آیت 7۔
2۔ سورہ قصص، آیت 5۔
3۔ سورہ حجر، 79۔
4۔ سورہ اسراء، 71۔
5۔ سورہ احقاف، 12۔
6۔ سورہ فرقان، 74۔
7۔ سورہ توبہ، 12۔
8۔ سورہ قصص، 41۔
9۔ سورہ سجدہ، 24۔
10۔ نھج البلاغہ، حکمت 73۔
11۔ مفاتیح الجنان، زیارت جامعہ۔
12۔ سورہ بقرہ، آیت 85۔
13۔ سورہ نساء، 150۔
14۔ نھج البلاغہ، حکمت 459۔

Add comment


Security code
Refresh