www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

762983
پاکستان کے ریٹائرڈ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب کو "پیارے" ھوگئے ہیں۔ گذشتہ روز (21 اپریل) کو انھیں سعودی فرشتہ (طیارہ) لینے کیلئے لاھور پھنچا اور انھیں اھلخانہ سمیت ساتھ لے گیا۔ جنرل راحیل شریف کو دھشتگردوں کیخلاف آپریشن شروع کرنے پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبولیت ملی۔ جن دنوں یہ آپریشن (ضرب عضب) شروع کیا گیا، سعودی عرب نے انھی دنوں ھی شور بھی مچانا شروع کیا کہ جنرل صاحب جلد ریٹائرمنٹ لیں، ھم نے آپ کی خدمات لینی ہیں اور بدلے میں آپ کو بھرپور انداز میں نوازیں گے۔ اس دوران بار بار جنرل راحیل کو سعودی عرب بلایا جاتا رھا، جبکہ حکومت کی جانب سے آپریشن میں "ھتھ ہولا" رکھنے کی روش برقرار رھی۔ سعودی عرب کی جانب سے جنرل راحیل سے بار بار رابطہ اور حکومت کی سرد مھری ثابت کر رھی تھی کہ دال میں کچھ کالا ہے، یعنی آپریشن میں دھشتگردوں کو ریلیف دلانے کیلئے سعودی عرب میں پریشانی کے بادل چھائے ھوئے تھے۔ جنرل راحیل چونکہ خود ایک شھید گھرانے کے چشم و چراغ ہیں، وہ سعودی عرب سے بھی رابطے میں رھے اور ادھر آپریشن بھی جاری رکھا۔ اب اس آپریشن کی باگ ڈور جنرل باجوہ کے ھاتھ میں آئی تو انھوں نے "ردالفساد" کے ذریعے بھت سے فسادیوں کا صفایا کیا ہے، جنرل باجوہ کی پالیسی کے بعد تو حکومت کو بھی مجبوراً فوج کا ساتھ دینا پڑا اور پنجاب میں بھی رینجرز نے دھشتگردوں کے بھت سے ٹھکانے تباہ کئے ہیں حتیٰ جنوبی پنجاب میں بھی دھشتگردوں کو نشانہ بنا کر پنجاب حکومت کا یہ دعویٰ جھوٹا ثابت کیا گیا کہ پنجاب میں دھشتگردوں کے کوئی ٹھکانے نھیں۔
اب راحیل شریف سعودیہ دیس سدھار چکے ہیں اور اس "اسلامی فوجی اتحاد" کی قیادت سنبھالنے گئے ہیں جو سعودی وزیر دفاع اور نائب ولی عھد محمد بن سلمان کے ذھن کی پیداوار ہے، جو انھوں نے دورہ امریکہ سے واپسی کے بعد تشکیل دیا۔ لیکن بھت سے اسلامی ممالک کو نظرانداز کر دینے کے بعد لگ ایسے رھا ہے کہ یہ اتحاد دھشتگردی تو ختم نھیں کر پائے گا بلکہ مشرق وسطٰی کے سیاسی تنازعات میں الجھ کر رہ جائے گا کیونکہ اس اتحاد کے موجودہ سربراہ میجر جنرل احمد عسیری نے ایک امریکی اخبار کو انٹرویو میں کھا تھا کہ ھمارے اس اسلامی فوجی اتحاد کا مقصد صرف عالمی دھشتگرد داعش یا القاعدہ کیساتھ لڑنا نھیں بلکہ اس اتحاد کے رکن ممالک میں باغیوں اور دھشتگردوں کیخلاف بھی کارروائی کریں گے (باغیوں سے مراد یمن کے حوثی مجاھدین ہیں، جو جمھوری جنگ لڑ رھے ہیں) جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایران، عراق اور شام کو شامل نہ کرکے اس اتحاد کو متنازع بنا دیا گیا ہے۔ ایک طرف سعودی عرب کہہ رھا ہے کہ وہ داعش کیخلاف جنگ کرے گا، دوسری جانب داعش جن ممالک کیلئے سر درد ہے یا جھاں موجود ہے (عراق و شام) ان ملکوں کو شامل ھی نھیں کیا گیا۔ اس میں ایک سوال سر اٹھاتا ہے کہ داعش کو عراق اور شام میں سعودی عرب نے امریکہ کی مدد سے خود پیدا ھی اس لئے کیا تھا، تاکہ داعش کی آڑ میں عراق اور شام کی حکومت کیخلاف کارروائی کی جا سکے۔ امریکہ کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس کے طیارے "غلطی" سے اپنے بیس کو بھی نشانہ بنا لیتے ہیں اور ممکن ہے کہ یھی غلطیاں عراق اور شام میں بھی دوھرائی جائیں۔
ایران نے جنرل راحیل شریف کی تعیناتی کے حوالے سے واشگاف الفاظ میں اپنے تحفظات کا اظھار کیا تھا، لیکن پاکستان کی جانب سے ایران کو یقین دھانی کروائی گئی ہے کہ جنرل راحیل ایرانی مفادات کیخلاف کچھ نھیں کریں گے۔ (یہ تو لطیفہ ہے کہ ایک اتحاد بنا ھی ایران کیخلاف ہے اور ھم کھیں وہ اتحاد ایران کیخلاف کچھ نھیں کرے گا) اس اتحاد کی حتمی شرائط اور ڈھانچے کا تاحال کوئی اعلان نھیں کیا گیا۔ ابھی تک یہ اتحاد زبانی کلامی ہے۔ یہ بھی نھیں بتایا گیا کہ رکن ممالک کی شرکت کیسے ھوگی۔ اس اتحاد کو چلائے گا کون، جبکہ اس کا مشترکہ کمانڈ سنٹر کس کی نگرانی میں ھوگا۔ اس کو اسلحہ اور وسائل صرف سعودی عرب دے گا یا تمام رکن ممالک اپنا اپنا حصہ دیں گے اور کیا اس اتحاد میں شامل تمام رکن ممالک میں دھشتگرد ہیں بھی یا نھیں، کیونکہ جنتے 39 ممالک کے نام بتائے گئے ہیں، ان میں اکثریت ایسے مسلمان ملک ہیں، جھاں باغی ہیں اور نہ ھی دھشتگرد، تو پھر وہ ممالک کس حیثیت سے شریک ھو رھے ہیں اور اس شرکت سے انھیں کیا صلہ دیا جائے گا؟ یہ سوالات ابھی تک تشنہ ہیں۔ پاکستانی حکومت اس معاملے میں مکمل طور پر دوھرے معیار کا شکار ہے۔ حکومت نے سینٹ میں یقین دھانی کروائی تھی کہ جنرل راحیل شریف کو این او سی جاری کرنے سے پھلے ایوان کو اعتماد میں لیا جائے گا، لیکن ایوان کو اعتماد میں لینا تو دُور کی بات ہے ایوان کی طرف تو اس کا رخ بھی نھیں ھونے دیا گیا۔ راحیل شریف کو چپکے سے این او سی اُس وقت جاری کیا گیا جب وہ سامان باندھ چکے تھے، لگتا ایسے ہے کہ حکومت نے اس معاملے کو خفیہ رکھا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاھدہ ہے، یہ معاھدہ 1982ء میں طے پایا تھا، جس کے تحت سعودی عرب میں پھلے ھی پاکستان کے 1180 فوجی موجود ہیں، جو فوج کے تربیتی امور اور مشاورت کے شعبوں میں خدمات سرانجام دے رھے ہیں۔ اب پاک فوج کے ترجمان کا کھنا ہے کہ سعودی عرب نے اضافی دستوں کی تعیناتی کیلئے ھمیں باقاعدہ کوئی درخواست نھیں دی۔ (یہ درخواست نواز شریف کو ملی ھو تو؟) ڈی جی آئی ایس پی آر کے بقول اگر یہ اضافے دستے بھجوائے بھی گئے تو وہ سعودی عرب سے باھر تعینات نھیں کئے جائیں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ سعودی عرب نے یمن کے حوثیوں پر حملوں کیلئے پاک فوج کی خدمات مانگی تھی، لیکن حکومت نے اندرونی دباؤ کے تحت اس وقت دستے بھجوانے سے انکار کر دیا تھا اور حکومت کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ھماری پارلیمنٹ کا فیصلہ ہے کہ 2 مسلم ممالک کی لڑائی کے درمیان پاکستان غیر جانبدار رھے گا۔ لیکن وھی غیر جانبدار پاکستان اپنا آرمی چیف بھجوا چکا ہے۔ اب یہ اطلاع بھی ہے کہ پاکستان 5 ھزار فوجیوں پر مشتمل ایک الگ فورس سعودی عرب بھجوائے گا، جسے یمن کی سرحد پر تعینات کیا جائے گا۔ سعودی عرب کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان پانچ ھزار فوجیوں میں تمام فوجی اھل حدیث ھونے چاھیں، شیعہ یا بریلوی فوج کوئی نھیں ھونا چاھیے۔
اس لئے اس منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے اور بھت جلد یہ 5 ھزار فوجی بھی سعودی عرب کو پیارے ھو جائیں گے، جن کے انخلاء سے پاک فوج بھی فرقہ واریت کا شکار ھوسکتی ہے، کیونکہ پیچھے صرف شیعہ اور سنی (بریلوی) رہ جائیں گے اور بقول شخصے پاکستان بھی انھی 2 مکاتب فکر (شیعہ اور سنی بریلوی) نے بنایا تھا اور اب سعودی عرب کی مھربانی سے پاک فوج بھی "پاک" ھو جائے گی اور پاکستان کی حفاظت کیلئے ھمہ وقت تیار و آمادہ رھے گی۔
جھاں تک جنرل راحیل شریف کی بات ہے تو اتنی زیادہ مقبولیت پانے کے بعد راحیل شریف کو ایسی کوئی پیشکش قبول نھیں کرنی چاھیئے تھی، کیونکہ پاکستان میں جنرل راحیل شریف کے اقدامات کو جن دو طبقوں (شیعہ اور سنی بریلوی) نے سراھا تھا، وھی اب راحیل شریف کے سعودی عرب جانے کے اقدام کو ناپسند کر رھے ہیں۔ جن کی "محبت" مقبولیت کی بلندی پر لے جا سکتی ہے، ان کی "نفرت" تنزلی" پر بھی لا سکتی ہے۔
لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ جنرل راحیل شریف جیسا سمجھدار شخص کس مجبوری میں یہ فیصلہ لینے پر تیار ھوا ہے۔ کیونکہ آپریشن ضرب عضب شروع کرنے پر ھر قسم کا دباؤ خاطر میں نہ لانے والا جرنیل ایسے ھی نھیں جھک گیا، کوئی نہ کوئی راز ہے جس کی پردہ داری ہے۔ یہ پُراسراریت بھی بھت جلد کھل جائے گی۔
تحریر: تصور حسین شھزاد

Add comment


Security code
Refresh