اس دن سلیمان بن جعفر جعفری اور امام رضا علیہ السلام کسی کام کے لئے ساتھ ساتھ گئے ھوئے تھے۔
سارا دن کام کرتے کرتے آفتاب غروب ھوگیاتو سلیمان بن جعفر نے گھر واپس لوٹنا چاھا۔علی ابن موسی الرضا (ع)نے ان سے کھا :”اے جعفر !آج کی رات تم میرے ھی یھاںرک جاؤ ۔“جعفر نے حکم امام کی اطاعت کی اور امام کے ساتھ ان کے گھر تشریف لے گئے ۔
گھر پھنچ کر امام نے دیکھا کہ سبھی غلام گلکاری میں مشغول ھیں۔
اسی اثنامیں امام کی نظر ایک اجنبی آدمی پر پڑی جو تمام دوسرے لوگوں کے ساتھ کام میں مصروف تھا۔امام (ع)نے پوچھا:
”یہ کون ھے؟“
غلاموں نے جواب دیتے ھوئے کھا۔”اس آدمی کو ھم لوگوں نے آج مزدوری پر لگایا ھے تاکہ سارا کام جلد ازجلد ختم ھو جائے۔“
”تم لوگوں نے بھت اچھا کیا۔اب یہ تو بتاؤکہ اس شخص کی کیا مزدوری معین کی ھے؟“
”اس کو ھم لوگ کام ختم ھوجانے کے بعداس کی خوشی کے مطابق کچہ دے دیں گے۔“
یہ سن کر امام (ع)کے چھرے پر ناراضگی اور غصہ کے آثار نمودار ھو گئے۔ انھوں نے انتھائی غضبناک انداز میں غلاموں کی طرف دیکھا ۔ایسا معلوم ھورھاتھا کہ وہ تازیانے سے غلاموںکی تادیب کریں گے ۔اتنے میں سلیمان جعفری امام کے سامنے آگئے اور بولے ۔”آپ اس قدر غمگین اور پریشان کیوں ھو گئے؟“
امام نے ارشاد فرمایا:”میں ان لوگوں سے متعددبار کھہ چکا ھوں کہ مزدوری معین کئے بغیر کسی آدمی کوکام پر نہ لائیں ۔پھلے مزدور کی مزدوری معین ھونا چاھئے تب ھی اسے کام پر لگانا مناسب ھواکرتاھے۔ کام کے ختم ھونے پر معین کردہ مزدوری کے علاوہ بھی اگر اسے کچہ دےدیا جائے تو کوئی مضائقہ نھیں ھے ۔اگر معین شدہ مزدوری سے اسے کچہ زیادہ ملے گا تو وہ آپ کا ممنون اور شکر گزار بھی ھوگااور بڑی خوشی کے ساتھ آپ کے گھر سے رخصت ھوگا۔تمھارے اور اس مزدور کے درمیان تعلقات استوار ھوجائیں گے اور آئندہ جب کبھی ضرورت ھوگی وہ تمھارے کام کے لئے فوراً آجائے گا ۔اگر آپ نے معین کردہ مزدوری ھی ادا کرنے پر اکتفا کی تو بھی وہ شخص آپ سے ناراض نھیں ھوگالیکن اگر مزدوری طے کئے بغیر آپ نے کسی شخص کوکام پر لگا دیا ھے تو کام ختم ھونے کے بعد آپ اسے چاھے جتنی زیادہ مزدوری دیدیںپھر بھی وہ یہ خیال نھیں کرے گا کہ آپ نے اس کے ساتھ محبت کا سلوک کیاھے بلکہ وہ یہ سوچے گا کہ اسے مزدوری کچہ کم ملی ھے۔“(۱۔بحارالانوارجلد۱۲ص/۳۱)۔