فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Wednesday, 04 December 2024

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

300012
حقیقت تو یہ ھے کہ تاریخ کی رو سے ولادت امام مھدی (عج) کو ثابت کرنے کے لئے اس سے زیادہ کسی دلیل و ثبوت کی ضرورت نھیں ھے اس لئے کہ تمام مسلمانوں کااتفاق اس بات پر ھے کہ”مھدی(عج)اھل بیت میں سے ھوگا “جوآخری زمانہ میں ظھور کرےگا اور انکے نسب کے متعلق احادیث کی تحقیق سے پتہ چلتا ھے کہ” مھدی “وھی شیعوں کے بارھویں امام حضرت محمد ابن حسن ابن علی ابن محمد ابن علی ابن موسیٰ ابن جعفر بن محمد ابن حسین ابن علی ابن ابی طالب علیھم السلام ھیں جو حسنی الام (یعنی فاطمہ بنت امام حسن(ع) امام باقر (ع)کی مادر گرامی )اور حسینی الاب ھیں۔

گزشتہ حقیقت سے روشن ھو گیا کہ اگر یہ شکوک وشبھات (جس نے ولادت حضرت مھدی (عج) کے مساٴلہ کی تاریخی فضا تھوڑا بہت گردآلود کر دیا )نہ ھونے تو ولادت امام مھدی (عج) کو ثابت کرنے کی بحث غیر طبیعی ھو جاتی ! وہ شبھات جسے حضرت مھدی (ع) کا عمومی اعلان کرنا ،جعفر کذاب کا امام حسن عسکری (ع) کے بھائی ھونے کے باوجود خود اپنا جانشین قرار نہ دیا ،جس کی وجہ سے حکومت وقت نے امام حسن عسکری (ع) کی میراث جعفر کذاب کے حوالے کر دی ۔
غور طلب بات تو یہ ھے کہ : مذکورہ مطالب تو علماء شیعہ اثنا عشری کی روایتوں کے مطابق ھے اور انکے علاوہ کسی نے اس کو ذکر نھیں کیا اور اھل فکر ونظر کے لئے تنھا یہ دلیل قانع کنندہ ھے ؛ اگر چہ جعفر کذاب کے ادعا کا بے بنیاد ھونا انکے لئے واضح نھیں تھا تو کس طرح اس روایت کو پیش کیا در حالیکہ یہ بات ان کے اعتقاد کے رو سے کاملاً منافات رکھتا ھے !
اس مطلب کو کچھ روایات کی وجہ سے پیش کیا جا رھا ھے کہ شیعوں نے ان روایات (جن میں علی (ع)کی خاص منزلت کا انکار ھے )کو نقل کیا ھے اور ان روایات میں ھے کہ حضرت رسول(ص) کی نظر میں حضرت علی (ع) کی کوئی خاص منزلت نھیں ھے اور اس قول کے قائل معاویہ ابن ابی سفیان ھیں اور یہ تو معلوم ھے کہ شیعوں کے نزدیک حضرت علی (ع) کی منزلت ایسی چیز ھے کہ جس میں کسی شک وتردید کی گنجائش نھیں اور دوسری جانب معاویہ کا علی (ع) کی منزلت کا انکار کرنا بھی شیعوں کے نزدیک واضح وروشن ھے اور شیعوں کو ان دو معلوم میں کوئی شک وتردید نھیں ھے ۔
اسی طرح جعفر کذاب کا انکار اور انکے ادعا کے مطابق حکومت وقت کا طریقہٴ کار ،یہ دونوں مسائل شیعوں کے لئے واضح وآشکار ھیں جب کہ ولادت امام مھدی (عج) بھی ان کے لئے بطور کامل واضح اور یقین کے آخری منزل پر ھے اس کے اثبات کے لئے کہ لوگوں کا اقرار اورعینی مشاھدہ کرنے پر دلیلیں اور برھان قائم کریں گے لیکن جو شخص غرب کی رنگینیوں سے متاثر ھو چکا ھو اس سے بعید نھیں ھے کہ وہ تمام قطعی دلیلوں کو بالائے طاق رکھ کر اصلاح وتحقیق کے پس منظر میں اس طرح کے شبھات وابھام تراشی اور حقائق کی تحریفات پر اپنا قیمتی وقت صرف کرے ۔
کسی بھی فرد کی پیدائش کو ثابت کرنے کے لئے سب سے پھلے اس کے باپ کا اقرار اور اسکا اعلان کرنا ،اور گھر کی کنیز کی گواھی ضروری ھوتی ھے جو کہ بچہ کی ولادت کے وقت ماں کی مدد کرتی ھے اگرچہ ان دو کے علاوہ بچے کو کسی نے نہ دیکھا ھو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ سیکڑوں لوگوں نے اسے دیکھا ھے اور خود مورخین نے اس کی ولادت کا اعتراف اور اسی طرح ماھرین علم انساب نے اس کے نسب کی وضاحت بھی کی ھے اور خود اس نے بہت سے امور کا حکم دیا اور اقارب نے اس کے حکم کی اتباع بھی کی اور اس کی تعلیمات، نصائح، ھدایت، خطوط ،دعاؤں ،مشھور اقوال ،روایات کا اس سے نقل ھونا ،اس کے وکلا کا اعتراض ، سفراء کا معین ھونا اور ھر دور اور ھر نسل میں لاکھوں کی تعداد میں اس کے پیروکاروں کا موجود ھونا ،کیا ولادت امام مھدی(عج) کو ثابت کرنے کے لئے منکرین کو اس سےبڑھ کربھی دلائل کی ضرورت ھے؟ یا وہ مشرکین (جو رسول(ص) خدا سے مخاطب ھوئے )کی مانند اپنے زبان حال سے امام مھدی (عج) کو خطاب کر کے کہتے ھیں :
ھم تو تم پر ایمان نھیں لائیں گے ،مگر تم ھمارے لئے زمین سے چشمہ جاری کرو ،یا خود تمھارے خرما وانگور کے باغ ھوں ،ان درختوں کے درمیان نھریں جاری کرو،یا آسمان کے ٹکڑوں کو اپنے گمان کے مطابق ھم پر گرادو ،یا خدا اور فرشتوں کو ھمارے سامنے حاضر کرو،یا تمھارا گھر سونے چاندی کا ھو ،یا آسمان پر چلے جاؤ اور تمھارے اوپر جانے کو توھم نھیں مانیں گے مگر ھمارے لئے ایک کتاب نازل کرا دو جسے ھم پڑھیں ۔تو اے رسول تم ان سے کہہ دو کہ ھمارا پروردگار پاک ومنزہ ھے اور کیا میں بشر اور رسول کے علاوہ کچھ اور ھوں ۔(۱)
ھم لوگ حق سے آگاھی رکھنے والے افراد کی ھدایت کے امید وار تو ھیں لیکن حق سے فرار کرنے والوں کے لئے ایسی امید یں نھیں رکھتے کیوں کہ جو پوری دنیا کو رسشن کرنے والے سورج سے گرمی اور نور کا پیغام نا آگاہ افراد تک پھنچانا، ان لوگوں کے دلوں میں اس نورانی حقیقت پر ایمان کو مضبوط کرنا ھمارا مقصد ھے کہ شاید ان کے اعتقاد میں تھوڑی بہت ایمان کی کمزوری ھو تو اسے دور کیا جا سکے ۔
امام حسن عسکری (ع) کا اپنے فرزند مھدی (عج)کی ولادت کو بیان کرنا
روایت صحیحہ میں محمد بن عطار ،احمد بن اسحاق اور ابو ھاشم جعفری سے یوں نقل ھو ھے کہ : میں نے ابو محمد امام عسکری (ع) سے عرض کیا آپ کی جلالت وھیبت ھمیں آپ سے سوال کرنے سے مانع ھے کیا اجازت ھے کہ ھم آپ سے کوئی سوال کریں ؟
تو آپ نے فرمایا : پوچھو! میں نے عرض کیا ،یابن رسول اللہ ! کیا آپ کا کوئی فرزند ھے ؟تو انھوں نے جواب دیا ھاں ۔ پھر میں نے پوچھا کبھی ایسا ھو کہ آپ نہ رھیں تو ھم کس کی طرف جائیں ؟توامام نے جواب دیا : مدینہ ۔(۲)
دوسری روایت صحیحہ میں علی بن محمد سے ،محمد بن علی بن بلال سے اس طرح نقل ھے کہ امام حسن عسکری (ع) کی شھادت سے دوسال قبل حضرت کی طرف سے مجھے ایک پیغام ملا کہ جس کے ذریعے مجھے اپنے بعد ھونے والے جانشین سے باخبر کیا ،اور دوسری دفعہ امام عسکری(ع) کی شھادت سے تین دن قبل دوسرا پیغام موصول ھوا کہ جس میں خود اپنے جانشین ھونے کی اطلاع دی ۔(۳)
علی بن محمد سے مراد جناب ابن پندار ھیں جو ادیب وفاضل و ثقہ شخص تھے اور ابن بلال بھی اپنی وثاقت اور بزرگی میں بہت مشھور تھے معروف ھے کہ ابولقاسم حسین بن روح جیسے لوگ انکی طرف رجوع کرتے تھے اور تمام ماھرین علم رجال نے اس مطلب کو قبول کیاھے ۔
ولادت حضرت مھدی (عج)کے متعلق خادمہ کی گواھی
حضرت مھدی (عج) کی ولادت کے بعد آپ کی دیکھ بھال کرنے والی بزرگ شخصیت کے حامل علویة حکیمہ خاتون جو امام جواد (محمد تقی (ع) )کی بیٹی ،امام علی نقی (ع) کی خواھر اور امام حسن عسکری (ع) کی عمہ (پھوپھی) ولادت کے وقت آپکی(عج) مادر گرامی حضرت نرجس خاتون کی خدمت میں حاضر تھیں(۴)جنھوں نے امام مھدی(ع) کی ولادت کے بعد اس کے بارے میں خبر دی ھے ۔(۵)البتہ ان کے علاوہ دوسری عورتوں نے بھی ولادت کے وقت بچے کو نھلانے اور دوسرے کاموں میں آپ کی مادر گرامی کی مدد کی ھیں جن میں امام حسن عسکری(ع) کی خادمہ ماریہ ،نسیم(۶)اور ابو علی خیزرانی کی کنیز کہ جسے امام حسن عسکری(ع) کو ھدیہ کیا تھا ۔
(اسی طرح ثقہ راوی محمد ابن یحییٰ نے بھی اس کو بیان کیا ھے )۔(۷)ان کانام قابل ذکر ھے ۔
جیسا کہ معلوم ھے کہ اسلامی معاشرے میں ولادت کی خبر قابلہ (دایہ) کے علاوہ کسی کو اور نھیں معلوم ھوئی اور جو اس مطلب کا انکار کرے تو خود اپنی ولادت کے متعلق کیا کھے گا ؟ !ھاں! امام حسن عسکری (ع) نے امام مھدی (عج) کی ولادت کے بعد سنت نبوی پر عمل کرتے ھوئے اپنے فرزند کا عقیقہ کیا(۸)جس طرح ھر مسلمان رسول خدا کی سنت پر عمل کرتا ھے ۔
اصحاب ائمہ طاھرین (ع)اور جن لوگوں نے امام مھدی (عج)سے ملاقات کی ھے
امام حسن عسکری (ع) اور امام علی النقی (ع) کے کچھ اصحاب جنھوں نے امام حسن عسکری (ع) کی زندگی میں امام مھدی(ع) سے ملاقات کی او ر آپ کی اجازت سے اس ملاقات کی گواھی سی ھے اسی امام حسن عسکری (ع)کی شھادت کے بعد بھی دوسرے گروہ نے امام مھدی (ع) کے ملاقات کی گواھی دی ھے جو غیبت صغریٰ (یعنی ۲۶۰ھ سے۳۲۹تک )کے دوران پیش آئی ۔
جھاں دیکھنے والوں کی بات ھے ان کی تعداد بہت ھے لیکن ھم ان افراد کے ناموں پر اکتفاء کریں گے جنکو مشائخ شیعہ نے ذکر کیا ھے ،جیسے شیخ کلینی (رہ)(م۳۳۹ھ)نے غیبت صغریٰ کی پوری مدت کو درک کیاھے ، مرحوم صدوق(رہ) (م۳۸۱ھ)نے غیبت صغریٰ کے تقریباًبیس سال درک کئے ھیں ، جناب شیخ مفید (رہ)(م۴۱۳)اور شیخ طوسی (رہ)(م۴۶۰ھ)۔ارادہ تویہ ھے کہ ان سے کچھ روایت کو نقل کریں گے توان لوگوں کے اسماء جنھیں امام مھدی (ع) سے ملاقات کا شرف حاصل ھو اھے ان کے اسماء کے ساتھ ساتھ محل روا یت کو بھی معین کریں گے جوچار جلیل القدر مشائخ کی کتب میں بیان ھے ۔
۱)شیخ کلینی(رہ) نے صحیح اسناد سے محمد ابن عبداللہ اور محمدابن یحییٰ سے اور انھوں نے عبداللہ ابن جعفر حمیری سے نقل کیا ھے کہ :میں اور شیخ ابو عمر و (یعنی حضرت کے پھلے نائب خاص عثمان ابن سعید عمروی) احمدابن اسحاق کی خد مت میںموجود تھے انھوں نے مجھے اشارہ کیا کہ میں ابوعمرو (عثمان ابن سعید)سے امام حسن عسکری (ع)کے جانشین کے بارے میں سوال کروں میں نے ان سے کھا :اے ابو عمرو !میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرنا چاھتا ھوںجس میں مردد نھیں ھوں یھاں تک شیخ ابوعمرو کے متعلق امام علی نقی (ع)اورامام حسن عسکری (ع)کی مدح ،تائید وتوثیق کو ذکر کرنے کے بعد شیخ ابو عمروعثمان ابن سعید کے سامنے جناب حمیری کی زبانی انکا سجدے میں جانا اور ان پر ائمہ کے لطف کرم کی وجہ سے انکا رونا ،تو انھوں نے کھا:تمھیں جو سوال کرنا ھے کرو تو میں نے ان سے کھا :کیا تم نے امام حسن عسکری (ع) کے جانشین کو دیکھا ھے ؟تو انھوں نے کھا : ھاں،خدا کی قسم میں نے انکو دیکھا ھے ۔انکی گردن اسی طرح تھی انھوں نے اپنے ھاتھوں سے اشارہ کیا (علامہ مجلسی کی توضیح کے مطابق ۔۔ کا مطلب یہ ھے کہ عمری نے انگشت شھادت اور انگوٹھے کو پھیلا کر حضرت مھدی(ع) کے گردن کی موٹائی کو مشخص کیا ھو)پھر میں نے ان سے کھا :ایک بات رہ گئی ھے حضرت کانام کیا ھے :انھوں نے کھا :انکے نام کے متعلق سوال کرناتم پر حرام ھے اور جان لو کہ یہ بات میں اپنی طرف سے نھیں کہہ رھا ھوں اس لئے کہ میرے لئے کسی چیز کو حلال یاحرام کرنا جایزنھیں ھے ۔بلکہ یہ کلام خود امام کا ھے،چونکہ حاکم وقت معتمد عباسی کو اس طرح بتایا گیا ھے کہ امام حسن عسکری (ع)کی وفات ھو گئی انکے کوئی فرزند نھیں ،انکی میراث تقسیم ھوگئی ،اور جعفر کذاب جس کوئی حق نھیں تھا انھوں نے لیکر خرچ بھی کردیا ،اور انکے گھر والے اور اھل خاندان پریشان ھیں کسی میں اتنی ھمت و جراٴت نھیں کہ ان سے مل سکے یا ان تک کوئی چیز پھنچائے اگر کوئی انکا نام لیگا تو حکومت اس کے پیچھے لگ کر ان کو ڈھونڈنکا لے گی لہذا تم لوگ خداسے ڈرواور ھر گز ایسا کام نہ کرو۔(۹)
اسی طرح شیخ کلینی (رہ)نے صحیح اسناد سے علی بن محمد (فرزند ابن بندار موٴثق فرد ھیں ) نے مھران قلانسی جو کہ موٴثق او ر معتبر ھیں ان سے نقل کرتے ھیں :میں نے عمری سے پوچھا :کیا امام حسن عسکری (ع) کی وفات ھوگئی؟انھوں نے کھا :ھاں وہ اس دار فانی سے رخصت ھوگئے لیکن تمھارے درمیان اپنا جانشین چھوڑ گئے جنکی گردن اس طرح ھے یعنی ھاتھوں سے اشارہ کرکے بتایا۔(۱۰)
۲)شیخ صدوق(رہ) صحیح اسناد سے بزرگان مشائخ ،یعنی محمد ابن حسن نے عبداللہ بن جعفر حمیری سے نقل کیا ھے کہ :میں نے محمد ابن عثمان عمری سے کھا :میں آپ سے حضرت ابراھیم (ع) کے جیسے کچھ پوچھنا چاھتاھوں کہ جب انھوں نے خدائے عز وجل سے سوال کیا ”۔۔۔پرور دگارا تو مجھے بتادے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا ؟ خدا نے جواب دیا:مگر ایمان نھیں رکھتے ؟ حضرت ابراھیم نے کھا :کیوں نھیں، لیکن اطمینان قلب کے لئے(۱۱) لیکن آپ بھی مجھے بتائیں کیا آپ نے صاحب الامر (ع) کو دیکھا ھے: جواب دیا :ھاں اور اپنے پاتھوں سے اشارہ کرکے بتایا حضرت کی گردن اس طرح ھے۔ (۱۲)
شیخ صدوق(رہ) ،ابو جعفر محمد ابن علی اسود سے نقل کرتے ھیں :علی ابن حسین ابن موسیٰ ابن بابویہ نے محمد ابن عثمان عمری (رہ)کی رحلت کے بعد مجھ سے چاھا کہ میں ابوالقاسم روحی (یعنی نائب دوم حسین ابن روح )سے کھوں کہ وہ ھمارے مولا حضرت صاحب الزمان سے دعاکی کی درخواست کریں کہ حضرت خدا سے دعا کریں اور خدا مجھے ایک بیٹا عطا کرے ۔ابو جعفر اسود نے کھا :تو میں نے ابوالقاسم روحی سے کھا تو انھوں نے ابن بابویہ کہ اس درخواست دعاکوامام تک پھنچادیا ،تین دن بعد مجھے اطلاع دی کہ حضرت ابن بابویہ کے حق میں دعا کردیا اور عنقریب ایک بیٹا پیدا ھوگا جس کے ذریعہ خدا دوسروں کو فائدہ پھنچائے گا اور اس کے بعد خدا انھیں دوسری اولا د بھی عطاکریگا ۔۔۔(اس کے بعد خود شیخ صدوق(رہ) اپنی زبان سے یوں فرماتے ھیں:)مصنف کتاب کہتے ھیں :ابو جعفر محمد ابن علی (ع)اسودمجھے اپنے استاد شیخ محمد ابن حسن ابن ولید کے درس میں رفت وآمد کرتے ھوئے دیکھتے تھے کہ میں انکی کتابوں کو پڑھنے اور حفظ کرنے کا بہت شوقین ھوں تو تو مجھ سے فرماتے تھے : تم تو امام زمانہ (عج)کی دعا سے پیدا ھوئے ھواس میں کوئی شک نھیں کہ تم عاشق علم ھو (۱۳)
۳)شیخ الطائفہ جناب طوسی (رہ) علماء شیعہ میں سے محمد ابن محمد نعمان اور حسین ابن عبید اللہ سے اورابو عبد اللہ محمد ابن احمد صفوانی سے یوں نقل کرتے ھیں : شیخ ابوالقاسم (حسین بن روح)نے ابوالحسن علی ابن محمد سمری (چوتھے نائب خاص )سے وصیت کی کہ جن کو اپنا جانشین مقرر کیا اور علی ابن محمد سمری نے بھی آغاز غیبت سے لے کر حسین ابن روح کی زندگی تک نواب خاص کے ذریعہ تمام انجام دئے گئے امور کی ذمہ داری کو قبول کیا اور اسے بخوبی انجام دیا اور جب انکا وقت آخر آیا تو شیعہ انکے پاس جمع ھوئے اورا ٓئندہ ھونے والے وکیل کے بارے میں سوال وجواب کئے لیکن انھوں نے اسکے متعلق کچھ نھیں کیا اور کھا کہ مجھے اس کے متعلق کوئی حکم نھیں ملا ھے کہ کسی خاص شخص کو اپنا جانشین بناؤں ۔(۱۴)
اس سے واضح ھوتا ھے کہ علی ابن محمد سمری کی عظمت وھی تھی جو حسین بن روح ۻ کی (یعنی امام کی وکالت )تھی معمولاً ایسا مرتبہ کہ جو ضرورت کے وقت امام سے ملاقات کی اقتضا کرتی ھے کہ امام کے اقوال ،اوامر ،ارشادات اور انکی وصیت جسے نواب اربعہ پیش کرتے تھے سب متواتر ھیں۔(۱۵)
دوسری بھت سی روایتیں ھیں جو صراحتاًنواب اربعہ میں سے ھر ایک کی اپنے اپنے زمانے میں امام سے ملاقات کی تاکید کرتی ھیں کہ ان میں سے اکثر تو بعض شیعوں کے سامنے واقع ھوئی ھیں جن میں سے کچھ امام سے ملاقات کرنے والوں کے اسماء کی طرف ھم اشارہ کریں گے ۔
وہ ملاقات کرنے والے افراد یہ ھیں : ابراھیم ابن ادریس ابو احمد۔ (۱۶)احمد بن محمد بن مطھر ابو علی (۱۷)(دسویں ،گیارھویں امام (ع) کے صحابی )،اسمٰعیل بن علی نوبختی ابو سھل ، (۱۸) ابو عبداللہ ابن صالح (۱۹)،ابومحمد حسن بن وجناء نصیبی ،(۲۰)ابو ھارون ،(۲۱)(محمد ابن حسن کرخی کے مشائخ )جعفر کذاب(۲۲) (امام زمانہ(ع) کے چچا جنھوں نے دو مرتبہ حضرت سے ملاقات کی )امام محمد تقی (ع) کی بیٹی حکیمہ خاتون ،(۲۳)الزھری ،(۲۴)(یا الزھرانی انکے ساتھ جناب عمری بھی تھے)رشیق صاحب المادرای ،(۲۵)ابراھیم ابن عبدہ نیشابوری(۲۶)ابراھیم ابن محمد تبریزی (۲۷)ابراھیم ابن مہزیار ابو اسحق اھوازی (۲۸)احمد ابن اسحق ابن سعد اشعری (۲۹)،(ایک دفعہ سعد ابن عبداللہ ابن ابی خلف اشعری کے ھمراہ بھی ”شیخ صدوق کے والد اور کلینی کے مشائخ “(۳۰)امام کی ملاقات سے شرفیاب ھوئے ھیں )،احمد بن حسین بن ملک ابو جعفر اُزدی یا اودی(۳۱)،احمد بن عبداللہ ھاشمی (فرزندان عباس میں سے ۳۹ لوگوں کے ھمراہ )(۳۲)احمد بن ھلال ابو جعفر عبرقائی (جو غالی اور ملعون ھو گئے اور انکے ھمراہ دوسرے افراد بھی تھے : علی ابن بلال ، محمد بن معاویہ بن حکیم ،جسن بن ایوب بن نوح ،عثمان بن سعید عمری اور دوسرے۴۰ لوگ،(۳۳) ابوالقاسم الروحی (۳۴)،عبداللہ سوری (۳۵)، عمرو اھوازی (۳۶)،علی ابن ابراھیم بن مہزیار اھوازی ، (۳۷)علی بن محمد شمشاطی ،(۳۸)(جعفر بن ابراھیم یمانی کا بھیجا ھوا) ،غانم ابو سعید ھندی ،(۳۹)کامل بن ابراھیم مدنی ،(۴۰)ابو عمرو عثمان بن سعید عمری ،(۴۱)محمد بن احمد انصاری ابو نعیم زیدی ،(۴۲)(انکے ساتھ ابو علی محمودی،علان کلینی ،ابو ھیثم دیناری ،ابو جعفر حول ھمدانی جن کی تعداد ۳۰ سے زیادہ ھے اور انھیں کے درمیان سید محمد بن قاسم علوی عقیقی بھی تھے (۴۳)، سید موسوی محمد ابن اسماعیل بن امام موسیٰ کاظم (ع) (۴۴)جو اپنے زمانے کے سادات میں سب سے کم عمر تھے ،محمد ابن جعفر ابو عباس حمیری (۴۵)شھر قم کے شیعوں کے رئیس اور سردار ،محمد بن حسن بن عبداللہ تمیمی زیدی معروف بہ ابو سورة ، (۴۶)محمد بن صالح بن علی بن محمد بن قنبر [(۴۷)جنکا شمار امام رضا (ع) کے بزرگ صحابیوں میں ھوتا ھے ،محمد بن عثمان عمری (۴۸)جو امام عسکری (ع) کی اجازت سے ۴۰ افراد کے ھمراہ امام کی خدمت میں شرفیاب ھوئے ان میں سے کچھ لوگ یہ تھے :
معاویہ بن حکیم ،محمد بن ایوب بن نوح ،(۴۹)یعقوب بن منقوش ،(۵۰)یعقوب بن یوسف ضراب غسانی ،(۵۱)یوسف بن احمد جعفری (۵۲)۔
امام کے وکلاء کی گواھی اور ان سے ملاقات کے دوران ھونے والے معجزا ت
شیخ صدوق نے کچھ افراد کے اسماء کا ذکر کیا ھے جو معجزات امام سے باخبر تھے اور آپ (ع) سے ملاقات بھی کی ،وہ افراد چاھے نواب خاص ھوں یا کوئی عام شیعہ قابل توجہ بات تو یہ ھے کہ ملاقات کرنے والے اور خبر دینے والے مختلف شھر اور الگ الگ جگہ کے ھیں جبکہ شیخ صدوق (رہ)نے انکے شھروں کے نام تک ذکر کیا ھے اور اگر تھوڑی سی دقت کریں تویہ بھی معلوم ھو سکتا ھے کہ یہ افراد تعداد کے لحاظ سے تواتر کی حد تک پھنچ گئے ھیں یا خاص طور پر انکی سر زمین اور علاقے کی جغرافیائی فرق اور انکی تعداد اتنی ھے کہ جن کو جھوٹ یا انکی روایتوں کو جعلی کھنا محال ھے ۔
ان میں سے بعض کے اسماء یہ ھیں :
الف ) وکلاء
۱۔بغداد سے ؛ عمری اور انکے بیٹے ،حاجز ،بلالی اور عطار
۲۔کوفہ سے ؛ عاصمی
۳۔اھواز سے ؛ محمد ابن ابراھیم ابن مھزیار۔
۴۔ قم سے احمد ابن اسحق ۔
۵۔ھمدان سے ؛محمد بن صالح
۶۔ری سے ؛ بسامی ، اسدی یعنی محمد ابن ابو عبداللہ کوفی۔
۷۔آذربایجان سے ؛قاسم ابن علاء ۔
۸۔نیشابور سے ؛محمد ابن شاذان ۔
ب)غیر وکلاء
۱۔ بغداد سے ؛ ابوالقاسم بن ابوحلیس ،ابو عبداللہ کندی ،ابو عبداللہ جنیدی ،ھارون قزاز ،نیلی ، ابوالقاسم بن دلیس ،ابو عبداللہ فروخ ،مسرور طباخ غلام ابوالحسن (ع) ،حسن کے دو فرزند احمد او محمد اور اسحق بنی نوبخت کے کاتب -
۲۔ھمدان سے ؛محمد ابن کشمرد ،جعفر بن حمدان اور محمد بن ھارون بن عمران۔
۳۔ دینور سے ؛حسن بن ھارون ،احمد بن اخیّہ اور ابو الحسن ۔
۴۔ اصفھان سے ؛ ابن با شاذالہ۔
۵۔ صمیرہ سے ؛زیدان۔
۶۔ قم سے ؛حسن بن نضر ،علی بن محمد بن اسحق اور انکے والد ،محمدبن محمد اور حسن بن یعقوب ۔
۷۔ ری سے ؛ قاسم بن موسیٰ اور انکے بیٹے ،ابو محمد بن ھارون ،علی بن محمد بن محمد کلینی اور ابو جعفر رقا ء۔
۸۔ قزوین ؛ مرداس اور علی بن احمد۔
۹۔ نیشابو ر سے ؛ محمد بن شعیب بن صالح۔
۱۰۔ یمن سے ؛ فضل بن یزید ،حسن بن فضل بن یزید ،جعفری ،ابن اعجمی ،اور علی بن محمد شمشاطی۔
۱۱۔ مصر سے ابو رجاء اور انکے علاوہ۔
۱۲۔ نصیبین سے ؛ابو محمد حسن بن وجناء نصیبی اور اسی طرح شھر زور ،فارس ،قابس ،مرس کے علاقے کے جن لوگوں نے بھی حضرت کی زیارت کی ان افراد کے ناموں کو ذکر کیا ھے۔(۵۳)
کنیزوں اور غلاموں کی گواھی امام زمانہ (عج)کو دیکھنے کے بارے میں
جو لوگ امام حسن عسکری (ع) کے گھر میں کام وغیرہ کرتے تھے ان لوگوں نے اور بعض کنیزوں نے امام مھدی (عج)سے ملاقات کی ھیں ؛جیسے گھر کا خادم طریف (۵۴)اور ابراھیم بن عبدہ نیشابوری کی خادمہ جو اپنے آقا کے ھمراہ تھی جس نے امام کے نورانی چھرئہ مبارک کی زیارت کا شرف حاصل کیا ،(۵۵) خادم ابوالادیان ،(۵۶)اور خادم ابو غانم جو کہتے ھیں :
خدانے امام حسن عسکری (ع) کو ایک فرزند عطا کیا امام نے جس کا نام” محمد “رکھا اور اس بچے کی ولادت کے تین دن بعد اپنے اصحاب اور چاھنے والوں کو دکھایا اور فرمایا :میرایہ فرزندمیرے بعد تمھارا ولی امر ھوگا ،وہ تم پر ھمارا جانشین ھے یہ وھی ھے جس کے انتظار میں گردن اٹھ جائیںگی اور جب زمین ظلم وستم سے پر ھو جائے گی تو یہ قیام کرے گا پھر زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا (۵۷)
اور اسی طرح اس مساٴلہ میں عقید نامی غلام ،(۵۸)ایک بوڑھی خادمہ (۵۹)ابو علی خیزرانی کی کنیز (جسے اس نے امام حسن عسکری (ع) کو تحفہ میںدیا تھا) (۶۰)نے امام سے ملاقات کی گواھی دی ھے اسکے علاوہ بھی کچھ کنیزوں (بنام نسیم (۶۱)،ماریہ (۶۲)نے امام سے ملاقات کی ۔
اسی طرح مسرور باورچی (۶۳)اورامام حسن عسکری (ع) کے غلام نے بھی امام سے ملاقات کرنے کا اعتراف کیا ھے اور ان سب نے ابو غانم کی طرح اس کی گواھی دی ھے۔
حکومت کا اس مسئلہ سے مقابلہ کرنا خود ولادت امام مھدی (عج)پر دلیل ھے
امام حسن عسکری (ع) کی ولادت ربیع الثانی ۲۳۲ ھ میں ھوئی اور آنحضرت نے تین خلفاء عباسی یعنی معتز (م۲۵۵ھ)،مھتدی (م۲۵۶ھ)،اور معتمد (م۲۷۹ھ ) کا دور دیکھا اور اسی دوران معتمد عباسی اھل بیت(ع) سے شدید قسم کی عداوت رکھتا تھا اور تاریخ طبری جیسی مشھور کتابوں کا مطالعہ کریں تو ۲۵۷،سے ۲۶۰ تک کے (یعنی معتمد کی حکومت کا ابتدائی دور )تمام واقعات سے اس کے بغض و دشمنی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ھے ۔
قابل ذکر بات تو یہ ھے کہ خدانے اسی دنیا میں اسے بد تریں سختیوں میں مبتلا کر کے اس سے اس دشمنی کاانتقام لے لیا یھاں تک کہ اس کی حکومت کی کوئی چیز باقی نہ رھی اور ۳۰۰ دینار کا محتاج ھو گیا حد یہ کہ اسے کھیں سے ۳۰۰ دینا رنہ مل سکے اور آخر میں بہت بری موت اور حال یہ تھا کہ ترکی غلام اس سے بہت بری طرح ناراض ھو ئے اورانھوں نے اس پر غضب ڈھایا ،مورخین کا اتفاق اس پر بھی ھے کہ اس کو ھرن کے چمڑے میں ڈال کر جلا دیا۔
معتمد کی کارناموں میں سے ایک کا رنامہ یہ تھا کہ امام حسن عسکری(ع) کی وفات کے فوراً بعد اپنے کارندوں کو امام (ع) کے گھر بھیجا اور حکم دیا کہ ھر جگہ تلاش کرواور امام مھدی (عج)جھاں کھیں ھوں ڈھونڈھ نکالووہ کارندے گھر میں داخل ھوئے ،پورے گھر کو چھان ڈالا لیکن امام کو نہ پاسکے ،آخر میں امام کے گھر کے نوکروں ،کنیزوں اور خواتین کو گرفتار کر لیا ،انھیں کارندوں میں جعفر کذاب بھی اپنے بھائی امام حسن عسکری (ع) کا مقام حاصل کرنے کی لالچ میں حکومت کی مدد کر رھے تھے ،گویا شیخ مفید کے نقل کے مطابق امام حسن عسکری (ع) کے اھل و عیا ل پر کوئی بلاء و مصیبت ایسی نہ تھی جو ان پر نہ پڑی ھو ۔(۶۴)
یہ سب اس وقت ھوا جب امام (عج)صرف پانچ سال کے تھے ،لیکن معتمد کو معلوم تھا کہ یھی بچہ اھل بیت (ع) میں سے بارھواں امام ھے اور وھی طاغوتوں کے تحت سلطنت کو سر نگوں کرے گا ،اور زمین کو ظلم و جور میں غرق ھونے کے بعد اس سے نجات دے کر اس (زمین )کو عدل و انصاف سے بھر دے گا ،گویا اس کی نظر میں یہ بچہ بچہ نھیں ھے بلکہ امام مھدی کے متعلق اس کا رویہ اسی طرح تھا جس طرح فرعون کا موسیٰ (ع) کلیم اللہ کے (پیدائش کے وقت )ساتھ تھا ،تو اس وقت مادر موسیٰ (ع) نے فرعون کے خوف سے انھیں دریائے نیل کے حوالے کر دیا تھا ،ھاں کبھی کبھی ایک مصیبت دوسری مصیبت سے آسان ھوا کرتی ھے۔
امام مھدی (عج)کے عالمی پیغام کو صرف معتمد نھیں جانتا تھا بلکہ اس سے قبل معتز اور مھدی عباسی بھی اس کی اطلاع رکھتے تھے اور یھی وجہ تھی کہ امام حسن عسکری (ع) کی مستقل کوشش رھی کہ انکے اس فرزند کے ولادت کی خبر نہ پھیلنے پائے جس کے نتیجے میں مخلص شیعہ ھی اس مساٴلہ سے آگاہ ھوئے ۔
امام عسکری (ع) نے متعدد بار اپنے بھت خاص اصحاب کو وجود مھدی موعود (ع) سے باخبر کیا، ساتھ ھی انھیں اس کے مخفی رکھنے کی بھی تاکید کی ،کیوں کہ وقت کے فرعون کو معلوم تھا کہ امام مھدی (ع)آسمان ولایت وامامت کا بارھواں ماہتاب ھے جس پر جابر بن سمرہ کی متواتر حدیث دلالت کر رھی ھے ورنہ اس بچے سے کون سا خطرہ تھا جو ابھی پانچ سال کا بھی نھیں تھا کیا یھی معتمد کی حکومت کے خیمے کو خطرہ میں ڈال دے گا ؟
اگر یہ وھی مھدی موعود (ع) ھے جس کا تاریخ ساز رول اور کارنامہ متواتر احادیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ھے اوراس کا ظالموں کی شازشوں کو قبول نہ کرنے کابھی ذکر ھے تو حکومت وقت نے امام کی شھادت اور جعفر کذاب کے ادعا(امام عسکری (ع) کے بھائی اس بنا پر کہ امام نے اپنا جانشین مقررھی نھیں کیا) پر کیوں عمل نھیں کیا ؟تو کیا حکومت کے لئے یہ ممکن نھیں تھا کہ حکومت وقت امام حسن عسکری (ع) کی میراث کو ان تمام وحشیانہ اور احمقانہ (جو امام مھدی موعود (ع)سے ڈرنے کی خاص دلیل ھے )کاموں کے بغیر جعفر کذاب کو دے دیتی ۔
اس سے پتہ چلتا ھے کہ مساٴلہ عدالت اور لوگوں کے حقوق کی رعایت کی خاطر حکومت کی مشینری کے تیز ھونے کی خاص وجہ امام مھدی (ع) کے گھر کی تلاشی اور خود امام کو ڈھونڈھناھے کیوں کہ وہ لوگ چاہتے تھے کہ باپ کی میراث ناحق طریقے سے صرف جعفر کذاب کو نہ ملے اور مھدی موعود (ع) محمدبن الحسن (عج)بھی اس سے محروم نہ رھیں !!
اس کا جواب یہ ھے کہ اگر فرض کریں کہ اس دعویٰ کو قبول کرلیا جائے پھر بھی حکومت وقت کو کوئی حق نھیں تھا کہ اس کام کو انجام دینے کے لئے اس طرح کا غلط رویہ اختیار کرتی بلکہ بہتر تو یہ تھا کہ جعفر کذاب کے دعویٰ کی تحقیق قاضیوں کے حوالے کر دی جاتی اس لئے کہ سارا جھگڑاتو وراثت کا تھا کہ اسطرح کے مسائل روزانہ پیش آیا کرتے اور فیصلے معمولی طریقے سے طے پاتے تھے جس میں قاضی گواھوں (یعنی امام عسکری(ع) کی ماں ،عورتوں ،اور کنیزوں )کو عدالت میں حاضر کر کے انکی گواھیوں اور چھان بین کے مطابق فیصلہ کر دیتا۔
ایسے امور میں حکومتی کارندوں حتی خود خلافت کا جلد بازی کرنا اور امام عسکری(ع) کے جنازے کے دفن ھونے سے پھلے سب کا قضاوت کی بحث سے خارج ھونا بتلاتا ھے کہ حکومت کی پالیسی کا مقصد امام مھدی (ع)کی ولادت کی اطلاع حاصل کرنا تھی اور انکی تمام تر کوششیں امام کی جستجو اور ان تک رسائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ امام کو ختم کرنا تھی نہ امام کی میراث انکے اصلی وارث کو دینا ،اس لحاظ سے حضرت کے غیبت کے دلائل میں سے ایک دلیل انکے آباء و اجداد کی احادیث کی روشنی میں حضرت کی جان کا خطرہ بتایا گیا ھے۔
ولادت امام مھدی (عج)کے متعلق علماء انساب کا اعتراف کرنا
ایسے موقع پر اسطرح کے مسائل میں ضرورت اس بات کی ھوتی ھے کہ ماھرین اور اھل فن کی طرف رجوع کیا جائے تو ولادت امام مھدی (ع) کے مساٴلہ میں قاعدے کے مطابق دوسروں کے علاوہ علماء انساب کی ضرورت بطریق اولیٰ پڑی ھوگی لہذا ان میں سے بعض اھل فن کا نظریہ ملاحظہ ھو:
۱)علم انساب کے مشھورماھر شخص ابو نصر سھل بن عبداللہ ،داؤد بن سلیمان بخاری ؛ چوتھی ھجری کے عالم جو ۳۴۱ میں بقید حیات اوروہ امام مھدی (ع)کی غیبت صغریٰ کے زمانے میں موجود تھے وہ اس بارے میں کہتے ھیں : علی بن محمد نقی (ع)کے ایک فرزند بنام حسن بن علی عسکری (ع) تھا جو ام ولد نوبیة بنام ”ریحانہ“ سے ۲۳۱ میں پیدا ھوئے اور انکی وفات ۲۶۰ ھ میں ۲۹ سال کی عمر میں شھر سامرہ میں ھوئی ،اور علی نقی (ع)کے ایک اور بیٹا تھا جس کا نام جعفر تھا جسکو شیعہ جعفر کذاب کہتے ھیں وہ اس لئے کہ وہ خود کو امام عسکری (ع) کا وارث جانتے تھے اور خود امام عسکری (ع) کے بیٹے ” حجت قائم (ع)“ کو انکا وارث نھیں مانتے تھے، لیکن ھاں ان ”حجت قائم (ع)“ کے نسب میں کوئی شک نھیں ھے ۔(۶۵)
۲)پانچویں قرن کے مشھور نساب سید عمری جو یہ لکھتے ھیں :
جب ابو محمد (عسکری (ع) )کی وفات ھوئی انکے اصحاب خاص اور معتمدین کو ”نرجس “ سے ایک فرزند کے متولد ھونے کا علم تھا جس کے بارے میں آگے چل کے ھم اس باب کے متعلق روایات ذکر کریں گے ۔مومنین بلکہ تمام لوگوں کا امتحان اسکی غیبت کے ذریعے لیا گیا اور جعفر کذاب نے اپنے بھائی کے منصب اور مال سے لالچ کیا اور انکے صاحب اولاد ھونے کا انکار کر بیٹھے اور بعض ستمگروں نے امام عسکری (ع) کی کنیزوں اور نوکروں کی گرفتاری میں اسکی مدد کی ۔(۶۶)
۳)فخر رازی شافعی (م۶۰۶ ھ) یوں کہتے ھیں :
امام حسن عسکری (ع) کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ،ان دو بیٹیوں میں سے ایک صاحب الزمان اور دوسرے کانام موسیٰ جو آپکی زندگی ھی میں انتقال کر گئے تھے اور دو بیٹیوں میں ایک کا نام فاطمہ اور دوسری کانام ام موسیٰ تھا جو امام زندگی میں رحلت کر گئیں۔ (۶۷)
۴)مروزی ازوقانی (م بعد از ۶۱۶)وہ بھی جعفر کو اپنے بھیجنے کے انکار کرنے کی وجہ سے کذاب کہتے تھے، (۶۸)یہ ولادت امام مھدی (ع)پر بہت بڑی دلیل ھے۔
۵)سید نسابہ ،جمال الدین احمد بن علی حسینی معروف بہ ان عنبہ (م ۸۲۸ھ)وہ یوں کہتے ھیں : علی ھادی جن کا لقب عسکری (ع) ھے وہ سامرا کے محلہ ٴ عسکر میں رہتے تھے انکی ماں ام ولد جو نھایت درجہ کی شریف اور فاضلہ تھیں متوکل نے انکو سامراء بھیجا اور وہ وھاں رہ گئیں اور وھیں رحلت کیں ،علی بن محمد النقی کے دو بیٹے تھے ایک امام عسکری (ع) جو بہت بڑے زاھد عالم شخص تھے اور شیعوں کے نزدیک وھی بارھویں امام مھدی(عج)اور ”قائم منتظر “کے پدر بزرگوار تھے اور خود امام مھدی (ع)’نرجس“نامی ام ولد سے پیدا ھوئے اور امام علی نقی (ع) کا دوسرا بیٹا ابو عبداللہ جعفر ملقب بہ کذاب تھا جو امام حسن عسکری (ع) کی شھادت کے بعد امامت کا دعویٰ کرنے کے سبب اس لقب سے مشھور ھوا۔(۶۹)
دوسرے مقام پر بھی وہ لکھتے ھیں : متوکل عباسی نے ابو محمد حسن عسکری (ع) کو گرفتار کر کے مدینہ سے سامراء تبعید کیا اور اسی جگہ قید میں ڈال دیا ؛ وہ گیارھویں امام اور بارھویں امام مھدی کے والدین ھیں۔(۷۰)
۶)زیدیوں کے نساب ،سید ابوالحسن محمد یمانی صنعائی ؛ یہ گیارھویں صدی کے عالم تھے انھوں نے اولاد امام باقر (ع) کا ایک شجرہ نامہ تیار کیا ،جس میں امام علی النقی (ع)کے باب میں امام علی النقی (ع) کے پانچ بیٹوں کے نام ترتیب سے ذکر کئے :امام عسکری (ع) ،حسین ،موسیٰ ، محمد ،و علی اور امام عسکری (ع) کا نام لینے کے بعد بلا واسطہ امام مھدی (ع) کا نام لیاکہ ”محمدشیعہ امامیہ کے نزدیک منتظر ھیں “(۷۱)
۷)محمد امین سویدی (م۱۲۴۶ھ )کہتے ھیں :
محمد مھدی انکی عمر والد کی شھادت کے وقت ۵سال تھی ،یہ متوسط القامة ،خوبصورت ،بھترین بال،قلمی اور پتلی ناک اور ان کی پیشانی چوڑی اور گشادہ ھے ۔(۷۲)
۸)محمد ویس حیدری سوری کے ھم عصر نساب امام علی النقی (ع)کی اولاد کے متعلق یوں نقل کرتے ھیں:انکے پانچ اولادتھی :محمد ،جعفر ،حسین ،امام حسن عسکری (ع) و عائشہ اور حسن عسکری (ع) کے ایک فرزند محمد مھدی (ع) تھا جو سرداب کو اپنی یادگار کے طور پر چھوڑ گئے ۔
اس کے فوراً بعد امام مھدی (ع) اور امام حسن عسکری (ع)کے عنوان سے کھا :
امام حسن عسکری (ع) ۲۳۱ ھ مدینے میں پیدا ھوئے اور ۲۶۰ ھ سامرا میں آپ کی وفات ھوئی لیکن امام مھدی (ع) کے کسی فرزند اور نسل کا کوئی ذکر نھیں کیا ۔ْ(۷۳)
اس کے بعد اس مطلب کے حاشیہ میں لکھا : وہ (امام مھدی (ع) )شعبان ۲۵۵ ھکو نرجس خاتون سے پیدا ھوئے : ان کا رنگ سفید اور ستارہ کی طرح چمکتی پیشانی ،خوبصورت اور باریک ابرو ،پتلی ناک ، ماہ انور کی طرح چمکتا چھرہ جس کو دیکھنے والا حیرت زدہ ھو جائے ،ان کا قد و قامت لمبائی چوڑائی درخت بان کے مانند ھے ،گویا کہ پیشانی ستارے کی مانند چمکدار اور رخ انور کی داھنی طرف ایک تل ھے جو کچے ندی پر چھوٹے سیاھی کی طرح جڑاھو ۔
ولادت امام مھدی (عج)کے متعلق علماء اھل سنت کا اعتراف
قابل توجہ بات یہ ھے کہ بعض لوگوں نے علماء اھل سنت کے اعترافات کو بیان کیا ھے اور بعض نے تو اپنے بحث کے آخرمیں ان اعترافات سے استقراء کیا ھے (۱۱)یہ اعترافات جو لمبے عرصے تک ایک دوسرے سے متصل تھے اس طرح سے کہ بعد میں اعتراف کرنے والا آسانی سے اپنے پھلے والے معترف کے دور کو درک کیا ھو اور اعترافات کا یھی سلسلہ عصر غیبت صغریٰ سے (۲۶۰ھ سے ۳۲۹ھ ) سے شروع ھوا تو آج تک جاری و ساری ھے ۔
ھم ان میں سے کچھ کو ذکر کریں گے اگر کسی کو اس سے مزید ضرورت ھے تحقیق کے ذریعہ اسی باب کی طرف رجوع کریں ۔(۷۴)
ان میں سے بعض معترفین کے اسماء یہ ھیں :
۱) ابن اثیر جزری عز الدین (م ۶۳۰ھ)وہ ۲۶۰ھ میں ھونے والے واقعے کو اس طرح نقل کرتے ھیں:
اسی سال ابو محمدعلوی عسکری (ع) کی وفات ھوئی وہ شیعوں کے نظریے کے مطابق ان کے گیارھویں امام تھے اور یہ امام اسی محمد(عج)کے والد ھیں جسکے لئے شیعوں کا اعتقاد ھے کہ وھی منتظر موعود ھیں ۔(۷۵)
۲)ابن خلکان (م ۶۳۱ھ )لکھتے ھیں :
ابوالقاسم محمد بن حسن العسکری بن علی ھادی بن محمد جواد علیھم السلام ،شیعوں کے بارھویں امام ھیں جنکا مشھور لقب ”حجت “ھے انکی ولادت روز جمعہ ۱۵ شعبان ۲۵۵ھ کو ھوئی پھر بہت زیادہ سفرکرنے والے مورخ ھیں ازرق فارقی (م ۵۲۷ھ )سے نقل کرتے ھیں جس نے تاریخ میں بہت زیادہ فرق ڈال دیا ھے وہ حضرت حجت کی تاریخ ولادت کے بارے میں کہتے ھیں :”حجت “۹ ربیع الاول ۲۵۸ھ کو پیدا ھوئے اور ۸ شعبان ۲۵۸ ھ کو بھی کھا ھے کہ اس دن انکی ولادت ھوئی ھے اور میری نظر میں یھی قول صحیح ھے ۔
لیکن ابن خلقان کی بات صحیح ھے یعنی حضرت حجت کی ولادت بروز جمعہ ۱۵ شعبان ۲۵۵ھ کو ھوئی اور عام طور سے تمام شیعوں کا یھی اعتقاد ھے جس کے بارے میں انھوں نے صحیح روایت نقل کی ھیں اور علماء متقدمین شیعہ نے بھی اسی کی گواھی دی ھے ۔
ثقةالاسلام شیخ کلینی (رہ) جو عصر غیبت صغریٰ میں موجود تھے انھوں نے اس تاریخ کو مسلم جانا ھے اوراسی کو مخالفین کی روایت پر مقدم کیا ھے اور صاحب الامر (ع)کی ولادت کے باب میں لکھتے ھیں :
امام عصر (عج)۱۵ شعبان ۲۵۵ ھکو پیدا ھوئے ۔(۷۶)
اور شیخ صدوق بھی اپنے استاد محمد بن محمد بن عصام کلینی ،محمد بن یعقوب کلینی ،علی بن بذار سے اسی طرح نقل کرتے ھیں : صاحب الامر ۱۵ شعبان ۲۵۵ھ کو پیدا ھوئے ۔(۷۷)
اور جناب کلینی (رہ) نے اپنی بات کی نسبت علی بن محمد کی طرف اس لئے نھیں دی کہ وہ خود بہت مشھور اور لوگوں کے درمیان قابل اعتماد ھیں ۔
۳)ذھبی (م ۷۴۸ھ )نے اپنی تین کتابوں میں ولادت امام مھدی (ع) کا اعتراف کیا ھے اور ھم نے اسی پر اکتفا کیا یعنی انکے دوسرے آثار کی طرف کوئی مراجعہ نھیں کیا :
الف)اپنی کتاب ”العبر “میں لکھتے ھیں :۲۵۶ھ میں محمد بن حسن بن علی الھادی بن محمد بن الجواد بن علی الرضابن موسیٰ الکاظم بن جعفر الصادق علوی حسینی علیھم السلام کی ولادت ھوئی ،یہ وھی ابوالقاسم ھیں جنھیں رافضین (شیعہ )خلف و حجت کہتے ھیں اور انکے القاب ”مھدی “ ”منتظر “اور ”صاحب الزمان“ھیں اور وھی بارہ اماموں میں سے آخری امام ھیں ۔(۷۸)
ب)تاریخ دول الاسلام میں امام حسن عسکری (ع) کے حالات زندگی میں ذکر کیا جاتا ھے :
”حسن بن علی بن محمد بن علی الرضا بن موسیٰ بن جعفر الصادق (ع) ،ابو محمد ھاشمی حسینی علیھم السلام “شیعوں کے اماموں میں سے ایک ھیں اور شیعہ حضرات انکی عصمت کے قائل ھیں اور ”حسن“کو عسکری (ع) اس وجہ سے کہتے ھیں کہ وہ سامراء میں رہتے تھے اور سامراء کو ”عسکر “کھا جاتا ھے اور وہ شیعوں کے امام ”منتظر “کے والد گرامی ھیں ،انکی شھادت ربیع الاول کی آٹھویں تاریخ کو ۲۹ سال کی عمر میں ھوئی اور انھیں انکے والد بزرگوار کے پھلو میں دفن کیا گیا اور انکے فرزند ”محمد بن حسن (ع) “جنکو امامیہ ”قائم “اور” خلف الحجة “جانتے ھیں انکی ولادت ۲۵۸ ھ میں ھوئی ھے اور دوسرا قول یہ کہ ۲۶۰ ھ میں انکی ولادت ھوئی ۔(۷۹)
ج)کتاب ”سیر اعلام النبلاء “میں نقل کرتے ھیں :
منتظر شریف ابوالقاسم محمد بن حسن عسکری بن علی الھادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسیٰ الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقربن زین العابدین بن علی بن حسین الشھید بن علی بن ابی طالب علیھم السلام، علوی و حسینی تھے جو بارہ اماموں میں آخری امام ھیں ۔(۸۰)]
ولادت امام مھدی (ع)کے متعلق ذھبی کے بقول بحث ھوچکی ھے اور شخص مھدی موعود (ع)کے باب میں اس کی ایک غلط سوچ کہ ”موعود“محمد بن عبد اللہ نام کا ایک شخص ھے کہ جس سے ھمارا کوئی ربط نھیں ھے اس لحاظ سے انھوں نے بھی دوسرں کی طرح انتظار کی گھڑیاں دیکھی ھیں
۴)ابن وردی (م۷۴۹ھ)نے تاریخ ابن الوردی کے تتمہ میں یوں نقل کیا ھے:
محمد بن حسن الخالص کی ولادت ۲۵۵میں ھوئی (۸۱)
۵)احمد بن حجرھیثمی شافعی(م۹۷۴ھ)نے اپنی کتاب” صواعق المحرقہ“کے گیارھویں باب کی تیسری فصل میں یوں لکھتے ھیں:ابو محمد”حسن الخالص“(جنھیں ابن خلکان نے ”عسکری“کھا ھے)کی ولادت ۲۳۲ھ میں ھوئی اور سامرہ میں ان کی وفات ھوئی،انھیں ان کے والد اور چچا کے پھلو میں دفن کیا گیا ،جن کی عمر وفات کے وقت ۲۹سال کی تھی اور یہ بھی کھا جا تا ھے کہ انھیں زھر دیا گیا،اور ان کی رحلت کے وقت صرف ایک فرزند”ابو القاسم محمد الحجة“تھا جس کی عمر اس وقت پانچ سال کی تھی ۔لیکن خدا نے اسی بچے کو اس کمسنی میں علم و حکمت عطا کردی جسے”قائم منتظر“کھا جا تا ھے۔(۸۲)
۶)شیراوی شافعی(م۱۱۷۱ھ)نے ”امام مھدی محمد بن العسکری “کی ولادت ۱۵شعبان ۲۵۵ھ ذکر کیا ھے ۔(۸۳)
۷)مومن بن حسن شبلنجی (م۱۳۰۸ھ)نے امام مھدی کے نام،نسب،کنیت اور القاب ذکر کرنے کے بعد مفصل لکھا ھے کہ :وہ شیعوں کے نظر یہ کے مطابق بارہ اماموں میں سے آخری امام ھیں اس کے بعد(شمارہ۴)تاریخ ابن الوردی کی باتوں کو نقل کیا ھے ۔(۸۴)
۸)خیر الدین زر کلی (م۱۳۹۶ھ)امام مھدی (ع)کے حالات زندگی کے بارے میں لکھتے ھیں:
ابو القاسم محمد بن الحسن العسکری خالص بن علی الھادی علیھم السلام شیعوں کے مطابق بارہ اماموں میں سے آخری امام ھیں ۔۔۔ان کی ولادت سا مرا میں ھوئی اور اپنے والد کی شھادت کے وقت پانچ سال کے تھے۔۔۔ان کی تاریخ ولادت ۱۵شعبان۲۵۵ھ اور تاریخ غیبت ۲۶۵ھ ھے۔(۸۵)
تمام علماء شیعہ اور تاریخ غیبت سے آگاھی رکھنے والوں کا اتفاق ھے کہ غیبت صغریٰ کی ابتدا ۲۶۰ھ ھے تو شاید زر کلی کے لکھنے میں خطا ھو گئی ھو اور انھوں نے تاریخ حروف میں تو لکھا نھیں بلکہ عدد میں تو عدد کے لکنے میں غلطی ھونا ممکن ھے ۔قابل ذکر ھے کہ اس کے بارے میں بہت زیادہ اعترافات پائے جاتے ھیں جسے اس باب میں ذکر کرنے کا موقع نھیں ھے۔
اھل سنت کا اقرار کرنا کہ امام مھدی (ع)امام حسن عسکری (ع) ھی کے بیٹے ھیں مھدویت کے بارے میں اھل سنت کے دوسرے اعترافات کا سامنا ھے کہ جس میں امام مھدی کے آخرالزمان میں ظھور کا وعدہ کیاگیا ھے ،کہ وہ محمد بن حسن العسکری (ع) کے علاوہ کوئی دوسرا نھیں ھے جو ائمہ اھل بیت (ع) میں بارھواں امام ھو تمام امت اسلامی کے لئے محمد بن حسن عسکری (ع) ھی بارھویں امام ھیں نہ تنھاشیعوں کے رھبر اور امام ھیں جیسا کہ بہت سے لوگوں نے افسوس کرتے ھوئے کھا ھے کہ گویا پیغمبر اسلام(ص) نے حدیث ثقلین کا مخاطب صرف شیعوں کو قرار دیا ھے اور صرف انھیں کو کو ثقلین (کتاب و عترت )سے متمسک رھنے کا حکم دیا ھے ؟
بھر حال اب ھم کچھ حق گو مصنفین کے اسماء ذکر کرتے ھیں :
۱۔ محی الدین بن عربی (م ۶۳۸ھ)وہ اپنی کتاب ”الفتوحات المکیہ“کے ۳۶۶ھ کے باب میں عبد الوھاب بن احمد شعرانی کے نقل کی بنا پر کہ انھوں نے اپنی کتاب ”الیواقیت والجواھر “میں اس حقیقت کو بیان کیا ھے ،حمزاوی نے مشارق الانوار اور صبان نے ”اسعاف الراغبین“ میں اس قول کو ”الیواقیت والجواھر “شعرانی سے نقل کیا ھے ،لیکن افسوس ھے کہ دینی میراث کی حفاظت کے دعویٰ کرنے والوں نے وسوسہٴ نفسانی کا شکار ھو کر ابن عربی کے اس اقرار کو انکی کتاب ”الفتوحات المکیہ “ سے حذف کر دیا جبکہ شعرانی کی یہ عبارت انکے مورد نظر باب میں (خود مولف کے تحقیق کے مطابق ) یہ باتیں کسی ایک کتاب میں نظر نھیں آتیں ۔شعرانی لکھتے ھیں :
شیخ محی الدین کی عبارت فتوحات کے باب ۳۳۶ میں اس طرح ھے :
جان لو کہ یقینا اور ضرور بالضرور امام مھدی (عج)قیام کریں گے ،لیکن انکا قیام اس وقت تک واقع نہ ھو گا جب تک کہ زمین ظلم و ستم سے بھر نھیں جائیگی ،پھر امام مھدی (عج)زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور اگر دنیا کا ایک دن باقی رہ جائے گا تو خدا اس دن کو اتنا طولانی بنا دے گا کہ خلیفہٴ خدا آجائے جو خاندان رسول(ص) اور اولاد فاطمہ (س)سے ھوگا ،اسکے جد حسین بن علی بن ابی طالب (ع) اور والد حسن العسکری(ع) بن امام علی النقی علیھم السلام ھیں ۔(۸۶)
۲۔ابوالقاسم محمد بن حسن الخالص بن علی المتوکل بن القانع بن علی بن موسیٰ بن جعفر الصادق بن محمد بن الباقر بن علی زین العابدین بن حسین الزکی بن علی المرتضیٰ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیھم السلام، وھی مھدی ،حجت ،خلف صالح ،اور منتظر ھیں اس پر خدا کی رحمتیں ھوں ۔
پھر کچھ شعر کھے جسکا مطلع یہ ھے :خدا نے اس حجت کی تائید کی ھے ،یہ روشن و حق کی راہ ھے کہ خدا نے اس کو یہ فضیلتیںدی ھیں ۔(۸۷)
۳۔سبط بن جوزی حنبلی (م۶۵۴ھ)فرماتے ھیں :
وہ محمد بن حسن بن علی بن محمدبن علی بن موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب علیھم السلام ھیں جنکی کنیت ”ابو عبداللہ “اور ابوالقاسم ھے اور وھی خلف ،حجت اور صاحب الزمان، قائم، منتظر ،اور ائمہ اطھار میں سے آخری فرد ھیں ۔(۸۸)
۴۔محمد بن یوسف ابو عبداللہ کنجی شافعی (۶۵۸ھ میں قتل ھوئے )اپنی کتاب کے آخری صفحے پر امام حسن عسکری (ع) کے متعلق لکھتے ھیں :
وہ مدینے میں ۲۳۲ھربیع الآخر کے مھینے میں پیدا ھوئے اور ۸ ربیع الاول جمعہ کے دن ۲۶۰ ھ کو انکی شھادت واقع ھوئی وقت انکی عمر ۲۹ سال تھی انھیں سامرہ میں انکے اپنے ھی گھر میں جن میں انکے والد دفن تھے اسی میں سپرد خاک کیا گیا اور انھوں نے اپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنایا ۔
انھوں نے امام مھدی محمد بن حسن العسکری (ع) کے متعلق ایک مستقل کتاب لکھی ھے جس کا نام ”الایمان فی اخبار صاحب الزمان “رکھا ھے جسے کفایة الطالب کے آخر میں چھاپا گیا اور اس کتاب میں بہت زیادہ مطالب اس کے متعلق بیان ھوئے ھیں اور آخر میں یہ بھی ثابت کیا ھے کہ امام مھدی (ع)زندہ بھی ھیں جو اپنی طولانی غیبت کے بعد ظھور کریں گے اور دنیا جو ظلم و جور سے بھری ھوئی ھو گی اسے عدل و انصاف سے بھر دیں گے ۔(۸۹)
۵۔ نورالدین علی بن محمد بن صباغ مالکی (م ۸۵۵ھ)نے اپنی کتاب ”الفصول المھمہ “کی بارھویں فصل کا عنوان ”ابوالقاسم حجت وخلف صالح ،ابو محمد حسن الخالص کا بیٹا اور بارھواں امام “قرار دیا ھے اور اس فصل میں کنجی کے بقول استدلال کیا ھے کہ کتاب الٰھی اور سنت رسول(ص) امام مھدی (ع) کی بقا، حیات اور اب تک ان کے زمانہ غیبت کے باقی رھنے پر دلالت کرتی ھیں اور خود آپکے زندہ رھنے میں کوئی چیز مانع نھیں ھے جس طرح اولیا ء اللہ میں حضرت خضر(ع) ،اور الیاس (ع)اور دشمنان خدا میں کانا دجال اور ابلیس ملعون کے زندہ رھنے میں کوئی رکاوٹ نھیں ھے اور اپنی دلیلوں کو خود کتاب و سنت سے پیش کیا ھے اس کے بعد امام مھدی (ع) کی تاریخ ولادت ،انکی امامت کے دلائل ،انکی غیبت کے متعلق کچھ حدیثیں انکی حکومت کے باقی رھنے کی مدت ،نام ونسب اور آنحضرت سے مربوط دوسرے امور کی مفصل وضاحت کرتے ھوئے تمام امور کو بیان کیا ۔(۹۰)
۶۔ فضل ابن روزبھان (م بعد از ۹۰۹ھ)خود اپنی کتاب ابطال الباطل “میں اھل بیت کے حق میں بہت اچھی بات کہتے ھیں :میں نے کتنے اچھے اشعار اھل بیت (ع) کے لئے نظم کئے ھیں :مصطفی ومرتضیٰ پر سلام جو ،خاتون عالم فاطمہ پر (جو خیر النساء ھیں )ان پر سلام ھو ،حسن مجتبیٰ (ع)پر جو مقام رضا پر فائز ،سلام ھو حسین شھید پر جس کی منزلت کا اندازہ زمین کربلا کو ھے ،سلام ھو حسین کے بیٹے زین العابدین پر، سلام ھو ھادی بر حق باقر العلوم پر، سلام ھو صادق آل محمد پر، سلام ھو تقویٰ و علم کے مظھر موسیٰ کاظم پر ،سلام ھو علی ابن موسیٰ الرضا پر ،سلام ھو تقویٰ کے کامل نمونہ تقی پر ،سلام ھو لوگوں کے ھادی بر حق علی نقی پر ،سلام ھو صدق و صفا کے پیکر امام عسکری (ع) پر ،سلام ھو نور ھدایت قائم منتظر ابوالقاسم (ع)پر جو شب کے اندھیرے میںسورج کی طرح چمکے گا اور وہ اھل زمین کو نجات دلائے گا جسکی تلوار میں اتنی قدرت اور توانائی ھوگی کہ زمین کو اسی طرح عدل وانصاف سے بھر دے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ھو ۔
اسکے آباء واجداد اور اس کے انصار پر اس وقت تک درود وسلام ھوتارھے جب تک آسمان کی بلندی باقی ھے ۔(۹۱)
۷۔ شمس الدین محمد بن طولون حنفی تاریخ دمشق کے لکھنے والے (م۹۵۳ھ)لکھتے ھیں :امام مھدی (ع)کی ولادت روز جمعہ ۱۵ شعبان ۲۵۵ھ میں ھوئی اور جب آپکی عمر صرف ۵سال کی تھی (۹۲)تو آپ کے والد امام حسن عسکری (ع) کی شھادت واقع ھوئی پھر پورے بارہ اماموں کے اسماء بیان کرتے ھوئے کہتے ھیں کہ میں نے ان کے اسماء کو اس طرح اشعار میں نظم کیا ھے :
سلام ھو تجھ پر اے بارہ اماموں کے سردار (اشرف الناس محمد مصطفی کے خاندان سے ھونے کا شرف تجھ ھی کو حاصل ھے )ابوتراب علی (ع) اور حسن ،حسین ،زین العابدین جس سے دشمنی کرنا بہت بڑا عیب ھے ،محمد باقر جس کے علم کا کوئی اندازہ نھیں ،جعفر صادق ،موسیٰ کاظم اور انکے فرزند علی رضا (ع) پر سلام ھو ،محمد تقی پر جسکا دل تقویٰ سے منور ،سلام ھو علی نقی پر جس کی گھر بار اقوال مشھور ،سلام ھو حسن عسکری(ع) اور محمد مھدی پر جس کا ظھور یقینی ھے ۔(۹۳)
۸۔احمد بن یوسف ابوالعباس قرمانی حنفی (م ۱۰۱۹ھ)وہ اپنی کتاب کے گیارھویں فصل میں یوں تحریر کرتے ھیں :
ابوالقاسم محمد حجت اور خلف صالح کی عمر باپ کی شھادت کے وقت ۵ سال سے زیادہ نہ تھی جس طرح خدا وند عالم نے حضرت یحییٰ کو بچپنے ھی میں حکمت عطا کردی تھی اسی طرح اس بچے کو بھی اس کمسنی میں حکمت عطا کی اور اس کا قد میانہ ،چھرہ حسین ،خوبصورت بال ،کھڑی ناک چوڑی پیشانی تمام علماء کا اتفاق اس بات پر ھے کہ ھی بچہ مھدی (ع)ھے جو آخرالزمان میں قیام کرے گا،(۹۴)اور بہت زیادہ روایات موجود ھیں جو اسکے ظھور کو ثابت کر رھی ھیں اور اسی طرح بہت سی احادیث بھی ھیں جو اسکے نورانی ھونے ،اسی کے نور سے دنیا کی ظلمت و تاریکی ختم کرنے (جس طرح شب کی تاریکی کو ختم کر کے صبح نمودار ھوتی ھے )اسکی عدالت کے نور سے کرہ زمین کے روشن ھونے اور چاند کے ھالے سے زیادہ درخشش اور چمکدار ھونے پر دلالت کرتی ھیں ۔(۹۵)
۹۔ سلیمان بن ابراھیم معروف بہ قندوزی حنفی (م ۱۲۷۰ھ)کا شمار اھل سنت کے ان علما میں کیا گیا ھے جنھوں نے امام مھدی (ع) کی ولادت اور ان کے قائم منتظر ھونے کو اچھی طرح بیان کیا ھے اس سے پھلے ان کے استدلال کا تذکرہ ھو چکا ھے لہٰذا صرف انکی اس عبارت کو پیش کرنامقصود ھے جس میں وہ کہتے ھیں :
حدیث یقینی اور روایت قطعی ھے کہ قائم (ع) کی ولادت ۱۵ شعبان ۲۵۵ھ کو شھر سامراء میں ھوئی ۔
اسی مقدار میں علماء اھل سنت کے نظریوں پر اکتفا کرتے ھیں اور قابل توجہ بات یہ ھے کہ :
ولادت امام مھدی (ع) کے معتقدین یا جنھوں نے اس مطلب کو بیان کیا ھے ”مولود موعود یہ وھی مھدی موعود منتظر ھے “انکی تعداد ان اسماء سے کھیں زیادہ ھے جنھیں ھم نے یھاں ذکر نھیں کیا جبکہ ھم اس سے پھلے بھی تمام استقراء اور جستجو کی طرف اشارہ کر چکے ھیں ۔

حوالے جات:
۱۔ اسراء، آیت ۹۰۔۹۳۔
۲۔ الکافی ،ج۱، باب ۷۶، ص ۳۲۸،ح ۲۔
۳۔ الکافی ،ج۱، باب ۷۶، ص ۳۲۸،ح ۱۔
۴۔ کمال الدین ،ج۲ ،باب ۴۲،ص۴۲۴،ح۱۔۲؛الغیبة ،شیخ طوسی (رہ)،ص ۲۳۴،ح ۲۰۴۔
۵۔ الکافی ،ج۱،باب۷۷،ص۳۳۰،ح ۳؛ کمال الدین ،ج۲ ،باب ۴۲،ص۴۳۳،ح۱۴۔
۶۔ کمال الدین ،ج۲ ،باب ۴۲،ص۴۳۰،ح۵؛الغیبة ،شیخ طوسی (رہ)،ص ۲۴۴،ح ۱۱۲۔
۷۔ کمال الدین ،ج۲ ،باب ۴۲،ص۴۳۱،ح۷۔
۸۔ گذشتہ ۔۔۔ح ۶؛ص ۴۳۲ ،ح۱۰۔
۹۔ الکافی ،ج۱،باب۷۷،ص۳۲۹،ح۱ ،شیخ صدوق (رہ) نے بھی اس کو صحیح سند سے اپنے والد اور محمد ابن حسن سے اور انھوں نے عبداللہ ابن جعفر حمیری سے نقل کیا ھے۔ر،ک:اکمال الدین ،ج۲،باب ۶۳،ص۴۴۱،ح۱۴۔
۱۰۔ سورہ ٴ بقرہ آیت ۲۶۰۔
۱۱۔ الکافی ،ج۱،باب۷۶،ص۳۲۹ح۴و نیز باب ۷۷،ص۳۳۱،ح۱۴۔
۱۲۔ اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۳، ص۴۳۵،ح ۳۔
۱۳۔ اکمال الدین ،ج۲ ،باب ۴۵،ص ۵۰۲۔
۱۴۔ الغیبة ،شیخ طوسی (رہ)،ص ۳۹۴،ح ۳۶۳۔
۱۵۔ یہ تمام موارد ۳ جلدوں میں المختار من کلمات الامام المھدی کے عنوان کے تحت شیخ محمد غروی کی محنت سے شائع ھوئی ۔
۱۶۔ الکافی ،ج۱ باب ۷۷ ص ۳۳۱، ح ۸؛ الارشاد، مفید ،ج۲ ، ص ۲۵۳؛الغیبة ،ص ۲۶۸،۲۳۲وص۳۵۷،ح۳۱۹۔
۱۷۔ الکافی ،ج ۶؛ الارشاد مفید ج ۲ ،ص ۲۵۳؛ الغیبة ،ص ۲۶۸،ح ۲۳۱۔
۱۸۔ الغیبة ،ص ۲۵۹،ح ۲۲۶۔
۱۹۔ اکمال الدین ،ج ۲ باب ۴۳،ص ۴۴۵،ح ۱،۹۔
۲۰۔ اکمال الدین ج ۲،باب ۳۸،ص ۳۸۴،ح ۱۔
۲۱۔ اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۳،ص ۴۵۶، ح۲۱۔
۲۲۔ اکمال الدین ،ج۲ ،باب ۴۳، ص۲۴۴،ح۱۸؛ الغیبة ص۲۵۳،ح۲۲۳۔
۲۳۔ الغیبة ،ص۲۵۸،ح ۲۲۶۔
۲۴۔ الغیبة ،ص۳۵۷،ح۳۱۹۔
۲۵۔الکافی ،ج۱،باب ۷۷،ص۳۳۱،ج۵،؛ الارشاد ،ج۲،باب ۷۷،ص ۳۳۱،ح۷،؛الغیبة ،ص ۲۶۹،ح ۲۳۳۔
۲۶۔الغیبة ص ۲۷۲،ح۲۳۷۔
۲۷۔ الکافی ،ج۱،باب ۷۷،ص۳۳۱،ح۷؛ الارشاد ،ج ۲،ص ۳۵۲۔
۲۸۔اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۳،ص ۴۴۳، ح۱۷۔
۲۹۔ اکمال الدین ،ص ۴۳۲،ج۹،وص ۴۳۴،ح۱۔
۳۰۔الکافی ،ج۱،باب ۷۷،ص ۳۳۱ ؛ اکمال الدین ج ۲،،باب۴۳،ص ۴۴۲؛ الارشاد ،ج۲،ص۳۵۳؛الغیبة ص۲۴۸ح ۱۷۔
۳۱۔الکافی، ج۱، باب ۷۷، ح۳؛۔ ج۲،ص۴۲۶ ۔
۳۲۔الغیبة ،ص ۲۷۱،ح ۲۳۶ ۔
۳۳۔الغیبۃ ص ۲۴۸،ح ۲۱۸۔
۳۴۔اکمال الدین ، ج۲، باب،۴۵،ص ۵۰۲،ح۶۱ ؛ الغیبة ،ص ۳۲۰،وص ۳۲۶ح۲۶۹۔
۳۵۔اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۳،ص ۲۴۱،ح۳ ۔
۳۶۔الکافی،ج۱،باب ۷۶، ص۳۲۸،ح۳،وص ۳۳۷۔
۳۷۔اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۵،ص ۴۹۱،ح۱۴۔
۳۸۔ باب ۷۷،ح۱۲؛الارشاد ،ج۲،ص ۳۵۳،؛ الغیبة ،ص۲۳۴،ح۲۰۳۔
۳۹۔ اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۵،ص ۴۹۱،ح۱۴ ۔
۴۰۔ الغیبة ،ص ۲۴۷،ح۲۱۶ ۔
۴۱۔ اکمال الدین ،ج۱،باب ،۷۳،ص ۴۷۰،ح۲۴؛ الغیبة ،ص ۲۵۹،ح۲۲۷ ۔
۴۲۔ اکمال الدین ،ج۲،باب ۷۳،ص ۴۷۰،ح۲۴؛ الغیبة ،ص ۲۶۹،ح۲۲۷ (۱۷۹)۔
۴۳۔الکافی،ج۱،باب۷۶،ص۳۲۹،ح۱؛وص۳۲۹،ح۴،؛وباب۷۷،ص۳۳۱،ح۴؛الارشاد،ج۲،ص۳۵۱؛الغیبةص ۳۵۵،ح۳۱۶۔
۴۴۔ الکافی ،ج۱،باب ۷۷،ص ۳۳۰،ح۲؛ الارشاد ،ج۲،ص ۳۵۱: الغیبة ،ص ۲۵۹،ح۲۲۷۔
۴۵۔ اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۳،ص ۴۷۷،ح ۶کے بعد والی حدیث (۲۱)الغیبة ،ص ۲۶۹،ح۲۳۴اور اس کے بعد والی حدیث ۔
۴۶۔ الغیبة ص ۲۶۳،ح۲۲۸ ۔
۴۷۔اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۳،ص ۴۴۲،ح۱۵یااس فصل میں جعفر کذاب کا امام سے ملاقات اور گفتگو کرنا اور ظاھراًمحمد بن صالح یعنی امام سے ملاقات کی ھے لیکن کافی میں یہ ھے : انھوں نے امام سے ملاقات نھیں کی لیکن امام سے ملاقات کرنے والوں کو دیکھا ھے جو جعفر کذاب ھیں ۔ر۔ک: الکافی ،ج۱،باب۷۷،ص ۳۳۱،ح۹۔
۴۸۔اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۲،ص ۴۳۳،ح۱۳،وباب ۴۳ص ۴۳۵،ح۳۔
۴۹۔اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۳،ص ۴۳۵،ح۲۔
۵۰۔اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۳،ص ۲۷۲،ح۲۳۸۔
۵۱۔الغیبة ،ص ۲۷۳،ح۲۳۸،(۶)۔
۵۲۔الغیبة ،ص ۲۵۷،ح۲۲۵۔
۵۳۔ اکمال الدین ج ۲،باب ۴۳،ص ۴۴۲،ح ۱۶۔
۵۴۔الکافی ،ج۱،باب ۷۷،ص۳۳۲،ح ۱۳؛ الارشاد ،ج ۲،ص ۳۵۴؛اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۳،ص ۴۴۱، ج۱۷؛الغیبة ص۲۴۶، (اس آخری حوالہ میں ظریف نامی خادم کا نام موجود ھے۔
۵۵۔ لکافی ،ج۱،باب ۷۷،ص ۳۳۱،ح ۶؛الارشاد ،ج۲، ص۳۵۲؛الغیبة ص۲۶۸،ح ۲۳۱۔
۵۶۔اکمال الدین ،ج۲، باب،۴۳،ص ۴۷۵،۲۵ ویں حدیث کے بعد ۔
۵۷۔اکمال الدین ،باب ۴۲،ص ۴۳۱،ح۸۔
۵۸۔اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۳،ص ۴۷۴،ح۲۵ ویں حدیث کے بعد؛الغیبة ،ص۲ ۲۷،ح۲۳۷۔
۵۹۔الغیبة ،ص ۲۷۳۔۲۷۶،ح ۲۳۸۔
۶۰۔اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۲،ص ۴۳۱،ح۷۔
۶۱۔اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۳،ص ۴۴۱،ح ۱۱۔
۶۲۔اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۳،ص ۴۴۱،ح ۱۱۔اس واقعہ میں نسیم نامی خادمہ نے ماریہ کے ساتھ امام سے ملاقات کی۔
۶۳۔اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۳،ص ۴۴۲،ح۱۶۔
۶۴۔الارشاد ،ج ۲،ص ۳۳۶۔
۶۵۔سر السلسلة العلویة ،ابو نصر بخاری ،ص ۳۹۔
۶۶۔المجدی فی انساب الطالبین،عمری ،ص ۱۳۰۔
۶۷۔ الشجرة المبارکہ فی انساب الطالبیہ ،فخر رازی ،ص ۷۸۔۷۹۔
۶۸۔الفخری فی انساب الطالبین ،مروزی ،ص ۷ ۔
۶۹۔عمدة الطالب فی انساب الطالبین ،جمال الدین احمد بن عنبہ ،ص۱۹۹۔
۷۰۔ الفصول الفخریہ فی معرفة قبائل العرب ،سویدی ،ص ۳۴۶۔
۷۱۔ روضة الالباب لمعرفة الانساب ،نسابہ زیدی ابوالحسن صنعانی ،ص ۵ ۰ ۱
۷۲۔ سبائک الذھب فی معرفة قبائل العرب ،سویدی،۳۴۶۔
۷۳۔ الدرر البھیہ فی انساب الحیدریہ والاویسیہ ،محمد حیدری سوری،ص ۷۳ ۔
۷۴۔ ر۔ک:الایمان الصحیح ،سید قزوینی ؛الامام المھدی فی نہج البلاغہ ،مھدی فقیہ ایمانی ؛من ھو الامام المھدی ،تجلیل تبریزی ؛الزام الناصب ، علی یزدی حائری ؛الامام المھدی ،علی محمد دخیل ؛دفاع عن الکافی ،ج۱،ص۵۶۸۔۵۹۲ ،علی محمد دخیل کہ جس میں علماء اھل سنت کے ۱۲۸ افراد کے نام ذکر کئے ھیں جنھوں نے ولادت امام مھدی کا اعتراف کیا ھے ۔
۷۵۔الکافی ،ج۱،باب ۱۲۵،ص ۵۱۴۔
۷۶۔اکمال الدین ،ج۲،باب ۴۳،ص ۴۳۰،ج۴۔
۷۷۔العبر فی خیر من عبر ،ذھبی ،ج ۳،ص ۳۱۔
۷۸۔ تاریخ دول الاسلام ،ذھبی،ص ۱۱۳،ش۱۵۹۔
۷۹۔سیر اعلام النبلاء ،ذھبی ، ج ۱۳،ص ۹۔
۸۰۔ مومن ابن حسن شبلنجی شافعی نے نور الابصار کے صفحہ نمبر۱۸۶ پر اس عبارت کو نقل کیا ھے اس لئے کی وہ لوگوں کی نظروں سے چھپ (غائب )گیا اور یہ بھی معلوم نہ ھوا کہ کھاں چلا گیا۔
۸۱۔الصواعق المحرقہچاپ اولص۲۰۷-؛چاپ سوم۳۱۳۔۳۱۴۔
۸۲۔ الاتحاف بحب الاشرافشیراوی ۶۸۔
۸۳۔ نور الابصارشبلنجی۱۸۶۔(۴)الاعلام زرکلی ج۶۸۰۔
۸۴۔کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی (م۶۵۲ھ)تحریر کرتے ھیں :
۸۵۔ الیواقیت والجواھر ،شعرانی ،ج۲ ،ص ۱۴۳۔
۸۶۔ مطالب السئول ،ابن طلحہ شافعی ،ج ۲ ،باب ۱۲،ص۷۹(۔
۸۷۔تذکرة الخواص ،ابن جوزی،ص ۳۶۳۔
۸۸۔البیان فی اخبار صاحب الزمان ،کنجی ،باب ۲۵،ص ۵۲۱۔
۸۹۔ الفصول المھمہ ،ابن صباغ مالکی ،ص ۲۸۷ ۔۲۰۰۔
۹۰۔ دلائل الصدق ،محمد حسن مظفر ،ج ۲،ص ۵۷۴مرحوم مظفر نے ابن روزبھان کی پوری کتاب ابطال الباطل کو اپنی کتاب دلائل الصدق میں نقل کیا ھے۔
۹۱۔ الائمة الاثنا عشر ،ابن طولون حنفی ،ص ۱۱۷۔
۹۲۔الائمة الاثنا عشر ،ابن طولون حنفی،ص ۱۱۸۔
۹۳۔اس قول کو صاحب کتاب انصاف المتعلمین اور دوسرے لوگ جنھوں نے خود تصحیح وتحقیق کے پردے میں چھپا رکھا ھے ان کے مدعیٰ سے قیاس کریں۔
۹۴۔ اخبار الدول وآثار الاول ،فرمانی حنفی ،فصل ۱۱،ص۳۵۳۔
۹۵۔ینابیع المودة قندوزی حنفیج۳باب۷۹ص۱۱۴۔

Add comment


Security code
Refresh