حضرت زھراسلام اللہ علیھا کے اسماء و القاب کے سلسلے میں پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ طاھرین علیھم السلام سے متعدد روایات
نقل ھوئی ہیں۔
منجملہ آپ کے لیے جو کنیت بیان ھوئی ہے وہ "ام ابیھا"(۱) ہے۔یعنی فاطمہ زھرا (س) پیغمبر اکرم (ص) کی ماں ہیں۔
حضرت فاطمہ زھرا (س) کی اس کنیت کے تین معنی ہیں۔ اور تینوں معنی نھایت اھم ہیں۔ اگر ان پر توجہ کی جائے تو اس کے علاوہ کہ آپ کی نسبت ھمارا عقیدہ مزید مستحکم ھو گا آپ کی زندگی کو بھتر انداز میں اپنے لیے اسوہ اور نمونہ عمل قرار دیں سکیں گے۔
۱۔ فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا پیغمبر اکرم(ص) کی تخلیق کی علت غائی
ام ابیھا کے پھلا معنی یہ ہیں کہ حضرت زھرا سلام اللہ علیھا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے علت غائی ہیں معروف و مشھور روایت" لَوْلاکَ لما خَلَقْتُ الأفْلاکَ و لَوْلا عَلیٌ لَمْا خَلَقتُکَ و لَولا فاطِمَةُ لَمْا خَلَقْتُکُما" (۲) کا پھلا حصہ یعنی" لولاک لما خلت الافلاک "سند کے اعتبار سے معتبر ہے اور شیعہ و سنی کتابوں میں متواتر طریقہ سے نقل ھوا ہے (۳) کہ پروردگار عالم نے فرمایا: یا رسول اللہ کائنات کے وجود کی علت غائی آپ ہیں اور آپ نہ ھوتے تو میں کائنات کو خلق نہ کرتا۔
اس روایت کا دوسرا حصہ یعنی عبارت "و لَوْلا عَلیٌ لَمْا خَلَقتُکَ و لَولا فاطِمَةُ لَمْا خَلَقْتُکُما" اگر چہ سند کے لحاظ سے پھلے حصے کے برابر نھیں ہے لیکن پھر بھی متعدد شیعہ و سنی کتابوں میں یہ فقرہ بیان ھوا ہے۔ اگر امیر المومنین علی(ع) نہ ھوتے تو خدا اپنے حبیب کو بھی خلق نہ کرتا یعنی پیغمبر اکرم(ص) کی علت غائی علی ہیں اور اگر فاطمہ نہ ھوتیں تو پیغمبر اور علی دونوں نہ ھوتے۔ اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر فاطمہ نہ ھوتیں تو کائنات نہ ھوتی یعنی فاطمہ زھرا(س) در حقیقت کائنات کی وجہ تخلیق ہیں۔ خداوند عالم نے حضرت زھرا (س) کے صدقے میں کائنات کو خلق کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں پروردگار عالم کے یھاں حضرت زھرا کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ ماسوائے خدا ھر چیز ان کے صدقے میں خلق ھوئی ہے۔
اور شاید اس بات کے معنی بھی یھی ھوں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت زھرا (س) کو ام ابیھا کھا ہے وہ اسی بات کی طرف اشارہ ھو کہ پیغمبر اکرم (ص) یہ بتانا چاھتے ھوں کہ اے فاطمہ تم میری تخلیق اور ھستی کا سبب ھو۔ لھذا اس معنی میں حضرت زھرا پیغمبر اکرم(ص) اور ان کے دین اسلام کی علت غائی ھوں گی۔
بزرگان اور اھل معرفت اس معنی پر تاکید کرتے ہیں اور اسی وجہ سے روایت " لَوْلاکَ لما خَلَقْتُ الأفْلاکَ و لَوْلا عَلیٌ لَمْا خَلَقتُکَ و لَولا فاطِمَةُ لَمْا خَلَقْتُکُما" کے لیے خاص اھمیت کے قائل ہیں۔
۲۔ شخصیت پیغمبر اکرم (ص) حضرت زھرا (س) کی مرھون منت
ام ابیھا کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کی شخصیت حضرت زھرا (س) سے وابستہ ہے۔ جیسا کہ خود پیغمبر اکرم (ص) اپنی ماں حضرت آمنہ کی مرھون منت ہیں کہ انھوں نے جزء العلہ ھونے کے اعتبار سے آپ کو وجود بخشا ہے حضرت زھرا (س) کی والدہ حضرت خدیجہ (س) کا بھی یھی مقام ہے یعنی انھوں نے بھی اپنی تمام تلاش و کوشش کے ذریعے تیرہ سال اسلام کو مکہ میں پروان چڑھایا۔ اگر حضرت خدیجہ(س) کی دولت و ثروت نہ ھوتی تو مکہ کی بنجر زمین میں آندھیوں اور طوفانوں سے بچ کر نھال اسلام کا تنومند ھونا ناممکن ھو جاتا۔ اگر پیغمبر اکرم(ص) شعب ابوطالب میں چالیس افراد کے ساتھ مشکلات کو متحمل کر پائے تو یہ حضرت خدیجہ(س) کی قربانیوں کا نتیجہ تھا۔
حضرت خدیجہ(س) کی پیغمبر اکرم (ص) کی حمایت کے سلسلے میں گفتگو طولانی ہے ھم صرف یھاں پر ایک جملہ میں ان تمام قربانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
حضرت خدیجہ (س) نے پیغمبر اکرم (ص) سے شادی کے بعد پھلی رات ھی اپنے تمام مال و منال کی سندوں کو پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں پیش کردیا اور فرمایا: میں آپ کی خدمتگذار ھوں اور یہ سارا مال آپ کا ہے۔(۴)
شادی کی پھلی رات میں حضرت خدیجہ(س) کی بات صرف ایک تعارف اور تکلف نھیں تھا بلکہ انھوں نے عملا اس چیز کو ثابت کر دیا اور اس طریقہ سے اپنی بات پر سچائی کا ثبوت دیا کہ دنیا سے جاتے وقت اپنے پاس کفن تک بھی نہ تھا۔ اور اپنے شوھر پیغمبر گرامی اسلام کو یہ بات کھتے ھوئے بھی شرما رھی تھیں کہ مجھے کفن دے دینا۔ لھذا انھوں نے اپنی بیٹی جناب زھرا (س) کے ذریعہ پیغمبر اسلام (ص) سے یہ وصیت کرتے ھوئے کہلوایا کہ وہ عبا اور چادر جسے نزول وحی کے وقت آپ اپنے شانوں پر ڈالتے ہیں اسے میرا کفن قرار دیں۔ جناب خدیجہ (س) کی درخواست دو اعتبار سے توجہ کی طالب ہے ایک یہ کہ یہ وحی کی عبا ہے اور متبرک ہے اور دوسرے یہ کہ آپ نے اپنا سارا مال راہ اسلام میں خرچ کر دیا تھا لھذا آپ کے پاس کفن تک کے لیے کچھ نھیں بچا تھا۔
حضرت رسول اسلام (ص) نے بھی وصیت کے مطابق عمل کیا اور اسی عبا کو اپنی بھترین شریک حیات جناب خدیجہ(س) کے لیے کفن قرار دیا۔ جناب خدیجہ کو کفن دیتے وقت جناب جبرئیل (ع) بھی جنت سے کفن لے کر نازل ھو گئے۔ رسول خدا (ص) اپنی عبا اور بھشتی کفن دونوں سے جناب خدیجہ (س) کو کفن دیا اور دفن کر دیا۔(۵)
خود حضرت زھرا (س) نے مدینہ میں دس سال کے عرصہ میں حضرت علی علیہ السلام کی مدد سے پیغمبر اکرم (ص) کی ھمیشہ نصرت کی۔ اگر حضرت زھرا اور حضرت علی علیھما السلام نہ ھوتے تو پیغمبر اکرم(ص) کے لیے مدینہ میں موجود مشکلات کو سر کرنا بھی بھت ناگوار ھو جاتا۔
فدک، میراث حضرت زھراسلام اللہ علیھا
پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ کے دس سالوں میں ۸۴ جنگیں لڑیں۔ اور بالاتفاق شیعہ اور سنی جس شخص نے ان تمام جنگوں میں فتح حاصل کی وہ تنھا ذات حضرت علی علیہ السلام کی ہے۔ اور جس نے ھر حال میں حضرت علی (ع) کی نصرت کی اور انھیں جنگوں کے لیے آمادہ کیا وہ حضرت فاطمہ زھرا (س) کی ذات ہے اور اس کے بعد فدک کا سرمایہ ہے۔
در حقیقت فدک اصل میں حضرت خدیجہ(س) کی جائداد تھی، شعب ابی طالب میں مسلمانوں کے محاصرے کے دوران یھودیوں نے اسے نھایت ارزاں قیمت کے بدلے میں اپنے قبضہ میں کر لیا تھا۔ فتح خیبر کے بعد جب رسول اسلام (ع) نے فدک واپس لیا اور اسے اپنی ملکیت قرار دیا تو یہ آیت نازل ھوئی "وَ آتِ ذَا الْقُرْبى حَقَّهُ..." (۶)
شیعہ و سنی علماء اس بات کے قائل ہیں کہ رسول اسلام (ص) نے فدک کو جو در حقیقت حضرت خدیجہ (س)کا باغ تھا اسے حضرت زھرا (س) کو دے دیا۔ (۷)
حضرت زھرا (س) نے اپنی پوری زندگی اس کے سرمایہ سے استفادہ نھیں کیا بلکہ اس کا سارا سرمایہ آپ بنی ھاشم کے فقرا اور مساکین میں تقسیم کیا کرتی تھیں۔(۸) آپ نے خود نھایت سادہ زندگی گزاری، یھاں تک کہ سورہ ھل اتی کی شکل میں اس کی سند مل گئی۔ آپ کی زندگی بھت سادہ تھی جبکہ آپ فدک کے سرمایے سے اپنی زندگی کو بھتر بھی بنا سکتی تھیں۔ لیکن جب آپ کی والدہ جناب خدیجہ(س) نے اپنا سارا مال و منال راہ اسلام میں خرچ کر دیا تو کیسے آپ فدک کے سرمایہ کو اپنی ذاتی زندگی میں استعمال کر سکتی تھیں۔ لھذا آپ اس بات کی معتقد تھیں کہ فدک کا مال اسلام کی راہ میں خرچ ھونا چاھیے۔ اس بناپر یہ کھا جا سکتا ہے کہ جس طرح مکہ میں تیرہ سال اسلام کو جناب خدیجہ(س) سے اپنے مال سے پروان چڑھایا اسی طرح مدینہ کے دس سال میں حضرت زھرا (س) نے اسے پایہ تکمیل تک پھنچایا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ام ابیھا کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کی شخصیت اور دین اسلام کی شخصیت حضرت زھرا(س) سے وابستہ ہے۔ اگر یہ کھا جائے کہ مکہ میں اسلام حضرت خدیجہ (س) سے وابستہ تھا اور مدینہ میں حضرت زھرا(س) سے تو غلط نھیں ھو گا۔ اگر پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت زھرا (س) کو ام ابیھا کھا ہے تو شاید اس کی ایک وجہ یھی ہے کہ آپ کی شخصیت حضرت زھرا(س) کے وجود پر موقوف ہے۔ دین اسلام اور قرآن کی بقا حضرت زھرا (س) پر موقوف ہے۔
۳۔ حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کا مخصوص احترام
ام ابیھا کے تیسرے معنی حضرت فاطمہ زھرا (س) کا رسول گرامی اسلام (ص) کی جانب سے مخصوص احترام ہے۔ یعنی حضرت زھرا(س) کا احترام کرنا رسول اسلام (ص) اور ائمہ اطھار(ع) پر ضروری ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) حضرت زھرا (س) کے لیے فوق العادہ احترام کے قائل تھے روایات میں ملتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ھر روز حضرت زھرا(س) کے گھر جاتے تھے۔ جس طرح مستحب ہے کہ مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی جائے رسول خدا (ص) جناب زھرا (س) کے گھر دو رکعت نماز ادا کرتے تھے کبھی آپ کے ھاتھ کا بوسہ لیتے تھے اور کبھی پیشانی کا۔ اور فرماتے تھے: میں زھرا (س) سے جنت کی خوشبو سونگھتا ھوں۔ اور ایک خاص ادب کے ساتھ حضرت زھرا (س) کے سامنے بیٹھتے تھے(۹) اگر حضرت زھرا(س) پیغمبر اکرم (ص) کے پاس آتی تھی تو پیغمبر اکرم اپنے پورے وجود کے ساتھ کھڑے ھو جاتے تھے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔ اور ان سے گفتگو کرتے تھے اور اگر پیغمبر اکرم (ع) جناب زھرا (س) کے گھر میں آتے تھے تو زھرا (س) آپ کا ایسے ھی احترام کرتی تھیں۔ (۱۰) میں نے اس جملہ کو کھیں نھیں پڑھا لیکن ایک قابل اعتماد بزرگ عالم دین کی زبان سے سنا ہے: جب پیغمبر اکرم (ص) جناب زھرا(س) کے گھر سے باھر جاتے تھے تو پچھلے پیر باھر نکلتے تھے یعنی جناب زھرا (س)کی طرف پیٹھ نھیں کرتے تھے۔ خلاصہ کلام یہ کہ پیغمبر اکرم (ص) جناب زھرا (س)کی نسبت ایک مخصوص طرح کے احترام کے قائل تھے۔
تسبیح حضرت زھراسلام اللہ علیھا
تسبیح حضرت زھرا (س) کا واقعہ بھی بھت عجیب ہے۔ حضرت زھرا(س) کو گھر کے کاموں اور چار بچوں کی دیکھ بھال میں ھاتھ بٹانے کے لیے ایک خادمہ کی ضرورت تھی لھذا حضرت علی علیہ السلام کی اجازت سے رسول خدا(ص)کے پاس گئیں پیغمبر اکرم (ص) بھی جناب زھرا (س) کو منع نھیں کرنا چاھتے تھے لھذا آپ نے بجائے منع کرنے کے فرمایا: "یا فَاطِمَةُ أُعْطِیکِ مَا هُوَ خَیرٌ لَکِ مِنْ خَادِمٍ وَ مِنَالدُّنْیابِمَا فِیهَا" (۱۱)
اے فاطمہ میں ایسی چیز تمھیں عطا کروں گا جو خادمہ اور دنیا سے زیادہ تمھارے لیے بھتر ہے۔
اس کے بعد فرمایا: نماز کے بعد، چونتیس مرتبہ "اللہ اکبر"، تینتیس مرتبہ "الحمد للہ"، تنیتیس مرتبہ" سبحان اللہ "پڑھو۔ یہ عمل اللہ کے نزدیک دنیا اور مافیھا سے بھتر ہے۔ بعض روایات میں وارد ھوا ہے کہ اگر تسبیح کے بعد "لا الہ الا اللہ "(۱۲) اور "استغفر اللہ" (۱۳) بھی کھا جائے تو بھتر ہے لیکن تسبیح کا جزء نھیں ہے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: تسبیح حضرت زھرا (س) میرے نزدیک، ھزار رکعت نماز سے زیادہ محبوب ہے۔ (۱۴)۔ اس کی اھمیت کی وجہ یہ ہے کہ یہ تسبیح حضرت زھرا (س)سے وابستہ ہے۔ اس ماجرا کے بعد حضرت زھرا (س) واپس گھر امیر المومین کے پاس آئیں اور پورا واقعہ نقل کیا۔ کچھ ھی وقت گزرا تھا کہ رسول خدا (س) جناب فضہ کو خادمہ کے عنوان سے لے کر جناب زھرا (س)کے گھر تشریف لائے۔ اور انھیں جناب زھرا(س) کو ھدیہ دے کر فرمایا: بیٹی یہ عورت بھی آپ کی طرح ہے آرام کو دوست رکھتی ہے اور زیادہ کام کرنے سے تھک جاتی ہے۔ لھذا اس کے ساتھ کاموں کو تقسیم کر لینا۔ ایک دن یہ کام کرے اور ایک دن آپ۔(۱۵)
پیغمبر اکرم (ص) اور امیر المومنین علی (ع) نے کبھی بھی حضرت زھرا (س)کے سامنے "نہ"نھیں کھا۔ اور آپ کے لیے ایک خاص اھمیت کے قائل تھے اور ائمہ معصومین (ع) بھی اسی وجہ سے ایک آپ کی نسبت مخصوص احترام کرتے ہیں۔
حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے حجت ھونے کے معنی
امام حسن عسکری علیہ السلام سے منسوب ایک روایت میں وارد ھوا ہے کہ آپ نے فرمایا: : "نَحنُ حُجَجُ اللَّه عَلَى خَلقِه وَ جَدَّتُنَا فَاطِمَة حُجّة اللَّه عَلَینا"(۱۶) ھم ائمہ لوگوں پر اللہ کی حجتیں ہیں اور ھماری ماں فاطمہ ھمارے اوپر حجت ہیں۔
اس روایت کے اندر عجیب دقیق معنی پوشیدہ ہیں۔ خلاصہ کے طور پر عرض کروں۔ جب رجعت کا زمانہ آئے گا اور اھلبیت علیھم السلام کی عالمی حکومت ھو گی اور لاکھوں سال اھلبیت علیھم السلام روئے زمین پر حکومت کریں گے اس دوران حضرت فاطمہ زھرا (س) کی حجیت نمایاں ھو گی۔ یہ جو امام عسکری علیہ السلام فرما رھے ہیں کہ ھماری ماں زھرا ھمارے اوپر حجت ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں عالم وجود کی ملکہ حضرت زھرا (س) ھوں گی۔ البتہ پیغمبر اکرم (ص)، امیر المومنین (ع) اور دیگر ائمہ(ع) کے زمانے میں بھی جناب زھرا (س) حجت خدا رھی ہیں۔ لیکن امام زمانہ (ع) کے دور میں آپ کی حجیت آپ کے صحیفہ "مصحف فاطمہ"کے ذریعہ خاص طور پر نمایاں ھوتی ہے اور اسی طرح رجعت کے زمانے میں۔
البتہ اس سلسلے میں کہ مصحف فاطمہ (س) کی حقیقت کیا ہے ھماری معلومات بھت کم ہیں۔ ھم صرف اتنا جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد جبرئیل امین جناب فاطمہ زھرا (س) پر نازل ھوتے تھے اور کچھ اسرار و رموز کو انھیں تعلیم کرتے تھے اور امیر المومنین علی علیہ السلام ان کی کتابت کرتے تھے (۱۷) یہ اسرار و رموز مصحف فاطمہ(س) کے نام سے معروف ھو گئے اور ائمہ معصومین (ع) کے علاوہ کسی کو مصحف فاطمہ(س) تک رسائی نھیں ہے اور ھمارے زمانہ میں یہ صحیفہ امام مھدی ارواحنا فداہ کے پاس ہے۔ (۱۸) لیکن یہ کہ اس کی حقیقت کیا ہے اس میں کیا لکھا ھوا ہے جو قرآن میں نھیں ہے سوائے ائمہ کے کسی کو خبر نھیں ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ رجعت اور عالمی اسلامی حکومت کے زمانے میں جو لاکھوں سال بلکہ کروڑوں سال ھو گی اس میں بنیادی قانون مصحف فاطمہ (س) ہو گا لہذا اس اعتبار سے بھی حضرت زہرا ائمہ معصومین (ع) پر حجت ہیں اور کائنات کی ملکہ ہیں اور ام ابیھا ھونے کے ایک معنی یہ بھی ہیں۔
(تحریر آیت اللہ العظمیٰ مظاھری دامت برکاتہ ، ترجمہ جناب جعفری)
حوالہ جات:
۱۔ مقاتل الطالبین، ص 29؛بحارالأنوار، ج 43، ص 19۔
۲۔ الجنّة العاصمه، ص 148 ، مجمع النورین، ص 14۔
۳۔ بحارالانوار، ج 15، ص 28؛ ج16، ص406؛ ینابیع المودة، ج 1، ص 24؛ کشف الخفاء، ج 2، ص 164؛۔
۴۔ الخرائج و الجرائح، ج1، ص 140-141.
۵۔ شجرۀ طوبی، ج 2، ص 234.
۶۔ سورہ اسراء / 26۔
۷۔ بحارالأنوار، ج 21، ص 22؛ الدرّالمنثور، ج 4، ص 177 ۔
۸۔ الکافی، ج 7، صص 48- 49؛ کشف المحجّة، ص 182۔
۹۔ بحارالأنوار، ج 43، ص 25؛ المستدرک علی الصحیحین، ج 3، ص 154۔
۱۰۔ اعلام الوری، ص 150۔
۱۱۔ بحارالأنوار، ج 82، ص 336.
۱۲۔الکافی، ج 3، ص 343.
۱۳۔ ثواب الاعمال، ص 163.
۱۴۔ الکافی، ج 3، ص 343.
۱۵۔الخرائج و الجرائح، ج 2، 530؛ اندیشههای ناب، ص 91.
۱۶۔اطیب البیان، ج 13، ص 225.
۱۷۔الکافی، ج 1، ص458.
۱۸۔ بصائر الدرجات، صص 158-153؛ من لایحضره الفقیه، ج 4، ص 419۔