سنی اصلاحی دنیا کا تیسرا علمبردار شیخ عبدالرحمان کواکبی ہے‘ وہ صفوی نژاد اور شام کا رہنے والا تھا اور شیخ صفی الدین اردبیلی کی نسل میں سے تھا‘ وہ ترکی اور فارسی زبانیں جانتا تھا اور عُبدہ کا براہ راست اور سید جمال کا بالواسطہ شاگرد تھا۔ وہ شام میں ۱۲۷۱ھ میں پیدا ہوا اور زندگی کا زیادہ حصہ اپنے ملک میں ہی گزرا۔
زندگی کے آخری ایام میں وہ مصر گیا اور چند سال گزارنے کے بعد ۱۲۲۱ھ میں ۵۰ سال کی عمر پا کر وہیں فوت ہو گیا۔
کواکبی اسلامی فلاسفر تھا اور وہ استبدادیت کے خلاف اٹھا۔ وہ ان ترک استبدادی حکام کے خلاف برسرپیکار رہا جو شام پر حکومت کر رہے تھے۔
کواکبی نے دو یادگاریں چھوڑی ہیں‘ ایک کتاب ”طبائع الاستبداد“ جس کا فارسی ترجمہ ایران میں آئینی تحریک کے دوران شائع ہوا اور دوسری کتاب ”ام القریٰ“ جس میں اصلاح لانے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔
سید کی طرح کواکبی نے بھی سیاسی بیداری کو بنیادی طور پر اہم اور ضروری سمجھا۔ وہ یہ بھی یقین کرتے تھے کہ سیاسی حکومت چاہے وہ آئینی ہو یا کسی اور شکل میں بذات خود اتنی صلاحیت نہیں رکھتی کہ استبدادیت کے سیلاب کو روک سکے‘ یہ ممکن ہے کہ کسی قسم کی حکومت بھی استبدادی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ حقیقت میں استبداد کو روکنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں میں اجتماعی سیاسی شعور پیدا کیا جائے اور ان کے ضمیر کو جگایا جائے‘ تاکہ وہ حکام پر کڑی نظر رکھ سکیں۔
استبدادیت کے اژدھا کو صرف عوام کے ضمیر کی بیداری ہی دور رکھ سکتی ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم حکومت وقت کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں‘ حکومت ہرگز حکومت نہیں جب تک کہ لوگوں کی شعوری سطح بلند نہ ہو‘ لہٰذا کواکبی سید جمال کے مطابق‘ لیکن عُبدہ کے خلاف اس رائے پر قائم رہے کہ اصلاح کے تمام پروگراموں سے پہلے مسلمانوں کا سیاسی شعور بلند کیا جائے۔ کواکبی دین اور سیاست کی ہم بستگی کا سختی سے پابند تھا اور اس کا اعتقاد تھا کہ اسلام دین سیاست ہے اور اگر ”اسلامی توحید“ کو صحیح طور پر سمجھا جائے اور لوگ کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کے مفاہیم سے کماحقہ آگاہ ہو جائیں تو وہ استبدادیت کے خلاف ناقابل تسخیر دیوار بنا سکتے ہیں۔
دو ممتاز پیشروؤں کی طرح (سید جمال اور عُبدہ) کواکبی بھی اصلی توحیدی نظریے کے سیاسی اور عملی پہلوؤں پر اعتماد کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ افضل الذکر لا الہ الا اللہ ہے اور اس کو اسلام کی بنیاد قرار دیا گیا ہے‘ اس کا مطلب صرف اور صرف یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے اور عبادت کا مطلب خضوع و خشوع ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ ہی کے آگے خضوع و خشوع ہے‘ ہر وہ امر جو اطاعت خدائے بزرگ کے زمرے میں نہیں آتا‘ وہ شرک اور بت پرستی ہے۔
کواکبی اسلامی توحید کو صرف فکری‘ اعتقادی اور نظری جو تھیوری پر اختتام پذیر ہو‘ نہیں سمجھتا تھا بلکہ اس کو عمل اور خارجی مقاصد کی طرف لے جانا چاہتا تھا‘ تاکہ نظام توحیدی کا ٹھوس نظریہ قائم ہو جائے۔
انصاف سے دیکھا جائے تو اسلام کی علمی‘ اجتماعی اور سیاسی وحدت کی تفسیر علامہ مجتہداعظم میرزا محمد حسین نائینی مرحوم سے زیادہ کسی نے نہیں کی‘ انہوں نے اپنی کتاب ”تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ“ میں قرآن اور نہج البلاغہ سے لاجواب استدلال پیش کئے۔ کواکبی جیسے فلاسفر جس کی تلاش میں ہیں‘ مرحوم نائینی نے معتبر اسلامی مدارک سے اس کتاب میں خوب انداز سے پیش کئے‘ لیکن بدقسمتی سے ہمارے وقت کی شورش زدہ ذہنیت نے کتاب کے نشر ہونے پر اپنا ایسا ردعمل دکھایا کہ مرحوم نے مکمل خاموشی اختیار کر لی۔
کواکبی کی رائے میں ہر استبدادی حاکم اپنی کرسی کو بچانے کے لئے ”قدسی“ جبہ پہن لیتا ہے اور دینی علوم میں حصہ دار بننے کا بہانہ صرف اس لئے کرتا ہے کہ وہ مذموم مقاصد حاصل کرے‘ صرف جو چیز لوگوں کو اس بات سے بچا سکتی ہے کہ ظالم حکام ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہ کریں‘ وہ یہ ہے کہ عوام کی دینی اور سیاسی شعور کی سطح بہت ہی بلند ہو۔
کواکبی نے اسلام کے کچھ علماء سلف (اہل سنن میں) پر تنقید کی کہ انہوں نے نظم و ضبط کے نام پر عدل اور آزادی کا گلا گھونٹ دیا‘ یعنی انہوں نے امن و امان کے نام پر آزادی کی رکاوٹ کا سبب بن کر ظالم اور استبدادی حکام کے ہاتھ مضبوط کئے‘ آزادی کو جو کہ انسانیت کے لئے اللہ پاک کا… بہترین تحفہ ہے‘ قتل کیا اور عدل کو اپنے پاؤں تلے روندا۔
آزادی اور نظم و ضبط کے رابطہ میں کواکبی نے آزادی کو مقدم سمجھا اور اس طرح دین اور سیاست یا دین و آزادی میں‘ دین کو مقدم جانا‘ کیونکہ دین ہی صحیح آزادی (جو سیاسی ضمیر کو بیدار کرتی ہے) کو حاصل کرنے کا اہم سبب ہے‘ علم اور آزادی یا علم و سیاست کے موازنہ میں اس نے یقین کیا کہ تمام علوم ہمیں آزادی کی رو میں نہیں بہا لے جاتے اور اجتماعی آگاہی کی سطح پر ان دونوں کو ایک ساتھ نہیں رکھا جا سکتا‘ لہٰذا استبدادی حاکم کچھ علوم پر عبور نہیں رکھتا‘ بلکہ وہ خود ان کے رائج کرنے والا بن جاتا ہے‘ لیکن ان دوسرے علوم سے دہشت زدہ رہتا ہے جو کہ عوام میں اجتماعی اور سیاسی بیداری پیدا کرتے ہیں‘ انہوں نے لوگوں کو آمریت اور ظلم کے خلاف آزادی کی جستجو کے لئے بیدار کیا۔
کواکبی کہتا ہے:
”استبدادی حکام علوم لغت اور زبان پر عبور حاصل کرنے کے اس وقت تک مخالفت نہیں کرتے جب تک یہ سننے اور پڑھنے والوں میں حکمت اور شجاعت پیدا نہیں کرتی‘ وہ جانتے ہیں کہ تاریخ میں حسان کی طرح کم ہی ایسے شاعر ہوتے ہیں جو اپنی سحر بیانی سے لوگوں کے جذبات کو ابھار کر ایک لشکر کی صورت میں دشمن کے مقابلے میں لے جاتے ہیں‘ مسنتقین اور شیلی دوبارہ پیدا نہیں ہوتے‘ اس طرح استبدادی حکام ان دینی علوم کو بھی برداشت نہیں کر سکتے‘ مثلاً آخرت‘ عملی زندگی اور روحانیت وغیرہ۔ جو علوم ان کے لئے خطرناک ہیں وہ یہ ہیں‘ علوم حقیقی زندگی‘ فلسفہ عقلی‘ ملک اور اس کی حکومت کا علم‘ تاریخ اور خطابت کا علم‘ وہ ان سے علوم سے خوف زدہ رہتے ہیں‘ جو جہالت اور بے عملی کے بادلوں کو اڑا لے جائیں اور آفتاب درخشاں ظاہر ہو کر پانے تابانی سے انسانی دماغوں میں حرارت اور روشنی پیدا کر دے۔
﴿سیری در اندیشہ ہائے سیاسی عرب‘ ۱۶۹﴾
شیخ عبدالرحمان کواکبی
- Details
- Written by admin
- Category: مصلحین و دانشمندان
- Hits: 435