دوسرے کئی واقعات کی طرح تحریکیں بھی بحرانوں کا شکار ہوتی رہتی ہیں‘ لیکن یہ قیادت کا فرض ہے کہ وہ تحریک کو بحران سے بچائے۔ اگر بحران آ بھی جائے تو قیادت اعتماد کر کے اپنی تحویل میں تمام ذرائع سے استفادہ حاصل کر کے بحران سے تحریک کو بچانے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ بحران کو سمجھنے میں سستی کرنے یا اس کی اہمیت کا صحیح اندازہ نہ لگا سکنے کی وجہ سے یا تو تحریکیں منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتیں ہیں یا ان کا رخ کسی دوسری طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس تحریک کے کچھ ممکنہ خطرات کا جائزہ لیں‘ کچھ خطرات ہماری نظروں سے اوجھل بھی رہ سکتے ہیں۔
۱) غیر ملکی نظریات کا دخل
باہر کے نظریات دو طرح سے اثیر پذیر ہوتے ہیں‘ ایک دشمن کی طرف سے ہوتا ہے۔ جب ایک معاشرتی تحریک ایسی منزل پر پہنچ جاتی ہے‘ جہاں اس میں پوری قوم کو حرکت میں لانے کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے اور تحریک تیزی سے مقبول ہونے لگتی ہے تو اس وقت تحریک تمام دوسرے نظریات پر چھا جاتی ہے اور دوسرے نظریات کے حامی لوگ اس کی ناکامی کی کوشش شروع کر دیتے ہیں‘ وہ بیرونی نظریات تحریک کے اثر کو کم یا زائل کرنے میں ایک کردار ادا کرتے ہیں۔
اسلام کے پہلے ادوار میں کچھ ایسا ہی ہوا‘ جب اسلام دنیا کے نقشے پر وسیع سے وسیع تر ہونے لگا تو اسلام کے دشمنوں نے اسلام کو مسخ کرنے کے لئے تحریفی جہاد کیا اور اسلام کے لیبل میں اپنے نظریات کو پھیلانے کی کوشش کی‘ جیسے صیہونی تحریکیں۔ انہوں نے جس طریقے سے اسلامی اقدار کو مسخ کرنے کی کوشش کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے‘ لیکن اللہ کے ان صاحب علم حضرات کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے اس کی بروقت تشخیص کر کے اس کا مداوا کیا اور ان کے اثر کو زائل کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان حضرات کی کوششیں آج بھی جاری ہیں۔
اسلام کے خلاف دوسرا طریقہ خود اسلام کے پیروؤں کے ہاتھوں استعمال ہوا‘ بعض دفعہ پیروکار مکتب فکر کو طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے دوسرے متوازی نظریات سے شعوری اور غیر شعوری طور پر متاثر ہو جاتے ہیں اور دوسرے نظریات کو اپنے مکتب کے رنگ میں پیش کرتے ہیں‘ اسی طرح کے حالات اسلام کے اولین ادوار میں پیش آئے‘ مثلاً کچھ لوگوں نے اسلام کی خدمت کے خیال سے یونانی فلسفہ‘ ایرانی رسومات و آداب اور ہندوستانی تصوف کو اسلامی تعلیمات میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ خوش قسمتی سے صاحبان دانش حضرات کی عمیق نظروں نے ان باتوں کو فوراً بھانپ کر ان کا تدارک کیا‘ انہوں نے ان کا تنقیدی جائزہ لے کر درآمد شدہ نظریات کی بیخ کنی کی۔
آج جبکہ ایران میں اسلامی تحریک اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور دوسرے تمام مکتب ہائے فکر پر چھا چکی ہے تو ایسے حالات پیدا کئے جا سکتے ہیں جو اس تحریک کے رخ کو موڑنے یا اس کو ختم کرنے پر منتج ہوں۔ ایک گروہ ایسا ہے جو مادیت پرستی کا واضح رجحان رکھتا ہے‘ لیکن ان کو احساس ہے کہ ان کے نعروں میں اتنی جاذبیت نہیں ہے کہ وہ ایرانی نوجوانوں کو متاثر کر سکیں‘ لہٰذا انہوں نے اپنے نعرہ کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش کی۔ یہ قدرتی امر ہے کہ اسلام جن نوجوان اذہان میں آیا ان میں مادیت کا اثر پہلے سے موجود تھا‘ وہ مادیت کی لپیٹ میں تھے۔ یہاں اسلام سطحی طور پر آیا اور ایسے نوجوانوں کے اذہان کو اسلام سے ہٹایا جا سکتا ہے‘ ایک دوسری صورت جو بہت خطرناک ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ایسے افراد جو بنیادی طور پر اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہوتے اور بیرونی نظریات پر فریفتہ ہوتے ہیں‘ وہ اخلاقیات پر لکھنا اور بولنا شروع کر دیتے ہیں‘ حالانکہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ وہ دراصل بیرونی نظریے کے اخلاقیات کا پرچار کر رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو صرف اخلاقیات تک محدود نہیں رکھتے‘ بلکہ دوسرے علوم مثلاً تاریخ‘ فلسفہ‘ مذہب‘ پیغمبری کا تصور‘ اقتصادیات‘ سیاسیات‘ بین الاقوامیت اور تفسیر وغیرہ کے متعلق بھی بولنا اور لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
بحیثیت ذمہ دار شخص کے اور ان ذمہ داریوں کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر ڈالی ہیں‘ یہ اپنا فرض اولین سمجھتا ہوں کہ میں اسلامی تحریک کے ان بڑے بڑے لیڈروں کو کہ جن کی میرے ذہن میں بہت قدر و منزلت ہے‘ آگاہ کروں کہ وہ بیرونی نظریات پر اسلامی فکر کی مہر ثبت کر کے ارادی یا غیر ارادی طور پر اس کا پرچار کر رہے ہیں اور یہ بات اسلام کی بنیادوں کے لئے بہت ہی خطرناک ہے۔
ہم ذمہ دار اشخاص ہیں اور ہم نے دور جدید زبان میں اسلام کے کئی پہلوؤں پر زیادہ لٹریچر شائع نہیں کیا ہے۔ یہ یقینی بات ہے کہ اگر ہم نے پاک اور صاف پانی زیادہ مقدار میں جمع کیا ہوتا تو لوگ گندے پانی سے اپنے آپ کو سیراب نہ کرتے‘ اس کا حل یہ ہے کہ ہم اسلامی مکتب فکر کے نظریات کو آج کی زبان میں متعارف کرائیں۔ ہمارے تعلیمی مراکز خاص طور پر جاگ چکے ہیں‘ لیکن انہیں ان عظیم تعلیمی فکری ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا چاہئے جو ان کے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں‘ انہیں اپنی مصروفیات کو تیز سے تیز تر کرنا چاہئے‘ وہ صرف فقہ اور بنیادی امور تک اپنے آپ کو محدود نہ رکھیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ دور جدید کے نوجوانوں کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکیں گے۔
۲) انتہائی قدامت پسندی
کسی بھی کام میں انتہا پسندی سے پرہیز اور میانہ روی اختیار کرنے سے کچھ مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے‘ میانہ روی کا راستہ نہایت ہی تنگ اور پُرخطر ہوتا ہے‘ ذرا سی بے احتیاطی اس راستے سے دور لے جانے کی موجب بن سکتی ہے۔ مذہب میں ”صراط مستقیم“ کو ”بال“ سے زیادہ باریک قرار دیا ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس راستے پر ہر قدم سوچ سمجھ کر رکھنا چاہئے۔
یہ ظاہر ہے کہ انسانی سوسائٹی کے سامنے نئے نئے مسائل ہیں اور ان کے حل کے لئے نئے طریقے اپنانے کی ضرورت ہے‘ عصر حاضر کے مسائل اور روز بروز کے پیچیدہ واقعات کا حل کرنا اسلامی تعلیمات کا دفاع کرنے والوں کا فرض ہے‘ اس لئے ایک مجتہد اور مرجع کا وجود ہر دور میں ضروری ہے‘ اس لئے زندہ مجتہد کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے‘ اگر تمام مسائل ایک ہی نوعیت کے ہوں تو پھر زندہ اور فوت شدہ مجتہد کی تقلید میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔
باحیات مجتہد جب دور حاضر کے مسائل پر توجہ نہ دے رہے ہوں تو وہ مردوں یا فوت شدگان کے زمرہ میں آ جاتے ہیں‘ قدامت پسندوں کا مسئلہ یہاں سمجھایا جا سکتا ہے۔
کچھ دوسرے ”عوام زدہ“ ہیں‘ وہ عوام الناس کی حکمرانی سے متاثر ہیں اور ان کا معیار صرف عوام الناس کے مزاج پر منحصر ہوتا ہے۔ عوام الناس عموماً پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں اور مستقبل اندیش نہیں ہوتے‘ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو موجودہ مسائل سے آگاہ ہیں اور سوسائٹی کے مستقبل پر نظر رکھتے ہیں‘ لیکن بدقسمتی سے وہ اسلام پر سختی سے کاربند نہیں ہیں‘ ان کے لئے صرف یہ معیار ہے کہ حالات کا رخ کس طرف ہے اور اس کو ”آزاد اجتہاد“ کا نام دیتے ہیں۔
بجائے اس کے کہ وہ سچ اور جھوٹ کی پہچان اسلام کی کسوٹی پر کریں‘ وہ حالات کے رخ پر بہتے ہیں اور اقتدار اعلیٰ کے موڈ اور قوت کو اسلام کا معیار قرار دیتے ہیں‘ مثلاً ایک سے زیادہ شادی کو عورتوں کے دور غلامی کی نشاندہی قرار دیتے ہیں اور یہی کچھ پردہ کے متعلق کہتے ہیں۔
وہ دلیل دیتے ہیں کہ مزارعیت‘ شراکت اور جاگیرداری‘ جاگیردارانہ نظام کے اثرات ہیں اور اس طرح بہت سے احکام کو وہ زمانہ رفتہ کے باقیات سمجھتے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ اسلام دین‘ عقل اور اجتہاد ہے اور اجتہاد اس کا متقاضی ہے کہ…
یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ وہ معیار جو اصل تسنن کے روشن فکروں مثلاً عُبدہ اور اقبال نے مختلف مسائل کے بارے میں بیان کئے ہیں‘ جیسے عبادات اور محاصلات کے فرق کے بارے اور اجماع‘ اجتہاد اور شوریٰ وغیرہ کی مخصوص تشریحات کی ہیں‘ ان کے تصورات ہمارے لئے کہ ہم شیعہ عقائد کی ترقی پسندانہ اسلامی ثقافت کے ماحول میں پروان چڑھے ہیں‘ کبھی قابل قبول نہیں۔ شیعہ فقہ‘ شیعہ حدیث‘ شیعہ کلام‘ شیعہ فلسفہ‘ شیعہ تفسیر‘ شیعہ فلسفہ اجتماع ایسے سنی علوم کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ واضح ہیں۔
یہ سچ ہو سکتا ہے کہ جغرافیائی اور غیر جغرافیائی بنیادوں پر سُنّی دنیا شیعہ دنیا کی نسبت دور حاضر کی تہذیب اور اس کی مشکلات کے بارے میں زیادہ علم رکھتی ہے اور انہوں نے ان مشکلات کو حل کرنے کے لئے مستعدی سے کوشش بھی کی ہو گی۔ اس کے مقابلے میں شیعوں نے ان مشکلات کے حل کے لئے زیادہ مستعدی نہیں دکھائی‘ لیکن پچھلے چند سالوں میں سنیوں اور شیعوں نے اس میدان میں جو کام کئے ہیں ان کے تقابل سے یہ معلوم ہوتا ہے‘ اہل بیت اطہار۱﷼کے مکتب کی پیروی کی برکت سے شیعوں کے پیش کردہ نظریات زیادہ گہرے اور زیادہ منطقی ہیں۔ ہم کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم عُبدہ‘ اقبال‘ فرید وجدی‘ سید قطب‘ محمد قطب‘ محمد غزالی جیسے حضرات کو اپنا ماڈل بنائیں۔
بہرحال غیر معتدل جدت پسندی کا شکار شیعہ‘ سنّی دونوں ہیں‘ اس طرح کی جدت پسندی کا مقصد یہ ہے کہ اسلام میں سے اسلامی عناصر نکال پھینکے جائیں اور غیر اسلامی عناصر داخل کر دیئے جائیں اور یہ سب اس لئے کیا جاتا ہے کہ اسلام کو نئے زمانے کے سانچے میں ڈھالا جائے اور موجودہ زمانے کی نفسیات کے مطابق بنایا جائے‘ یہ تحریک کے لئے نقصان دہ ہے اور تحریک کے ارباب حل و عقد کا فرض ہے کہ وہ اس کی روک تھام کریں۔
۳) نامکمل چھوڑنا
پچھلے ایک سو سال کی اسلامی بیداری کی تحریکوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ ایک بدقسمتی نظر آئے گی کہ ان تحریکوں کی مذہبی قیادت میں ایک بنیادی کمزوری رہی ہے کہ انہوں نے دشمن پر مکمل کامیابی حاصل کرنے تک کوشش کی‘ لیکن آخر میں آ کر اپنی سرگرمیوں کو روک دیا اور اپنی ریاضت کا پھل دوسروں کے حوالے کر دیا اور غالباً دشمنوں کے ہاتھوں میں! اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی اپنی غصب شدہ زمین حاصل کر لینے کے بعد گھر میں آرام سے بیٹھ جائے اور دوسرے اس کی زمین کو آباد کر کے بیج بوئیں اور فصل کھائیں۔ عراقی انقلاب شیعہ علمائے دین کی قیادت میں ابھرا‘ لیکن شیعہ مکتب فکر نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
ایران کی آئینی تحریک بھی شیعہ علماء کے زیراثر تھی‘ لیکن نامکمل چھوڑ دی گئی اور اس سے صحیح نتائج بھی حاصل نہ کئے جا سکے‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایسا ڈکٹیٹر پیدا ہوا جس نے آئین کی حکمرانی کو صرف نام کی حد تک باقی رکھا‘ صرف یہ نہیں بلکہ لوگوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ ڈکٹیٹرشپ آئینی حکومت سے زیادہ فیض رساں ہے اور آئینی حکومت ایک گناہ ہے۔ یہ بھی بڑے افسوس کی بات ہے کہ تمباکو کی تحریک بھی اس وقت نامکمل چھوڑ دی گئی جب معاہدہ کی منسوخی کا اعلان کیا گیا‘ حالانکہ یہ تحریک لوگوں کو صحیح اسلامی حکومت بنانے کے لئے متحد اور منظم کر سکتی تھی۔
ایران میں موجودہ اسلامی تحریک ایک نظام سے انکار کی منزل پر ہے‘ لوگ متحد چٹان کی طرح استبدادیت اور نوآبادیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہیں‘ انکار کی منزل کے بعد ہمیشہ اثبات اور تعمیر کی منزل آیا کرتی ہے‘ ”لا اللہ کے بعد الا اللہ“ کی منزل ہے‘ کسی تحریک میں انکار و اثبات کی منزل کے بعد اثبات اور تعمیر کی منزل زیادہ کٹھن اور دشوار ہوتی ہے‘ آج مکتب کو اور علماء کو اس بات کا احساس ہونا کہ وہ اس کام کو ادھورا چھوڑیں یا مکمل کریں‘ ان کی ہوشیاری کی نشاندہی کرے گی۔
۴) موقع پرستوں کی رخنہ اندازیاں
کسی تحریک میں شامل موقع پرستوں کی رخنہ اندازیاں اور اثر و رسوخ سے اس تحریک کو بڑا خطرہ لاحق ہوتا ہے‘ یہ صحیح رہنما کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان کے اثرات کو زائل کریں اور ان کی کوششوں کو ناکام کریں۔ کوئی تحریک جب ابتدائی دشوار منازل کو طے کر لیتی ہے تو اس تحریک کے باایثار‘ صاحب ایمان اور مخلص کارکنوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے‘ کیونکہ اس منزل کے پانے کے فوراً بعد موقع پرست ان کے گرد اپنا حلقہ بنا لیتے ہیں‘ دشواریاں اور مشکلات جتنی کم ہوتی جائیں گی‘ اتنے ہی زیادہ موقع پرست تحریک کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کریں گے۔ وہ موقع پرست کوشش کرتے رہتے ہیں کہ سچے اور باایثار انقلابیوں کو بتدریج راستے سے ہٹاتے جائیں‘ یہ عمل اتنا زیادہ ہمہ گیر ہو چکا ہے کہ اب کہا جاتا ہے کہ
”انقلاب خود اپنے بچوں کو جھاتا جاتا ہے۔“
لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ انقلاب خود نہیں ہوتا‘ جو اپنے بچوں کو نگل جاتا ہے‘ بلکہ یہ موقع پرست کی رخنہ اندازی اور ریشہ دوانی سے غفلت برتنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔
زیادہ دور نہ جایئے! یہاں ایران میں وہ کون لوگ تھے جو آئینی انقلاب لائے اور وہ کون تھے جنہوں نے انقلاب کی کامیابی پر اعلیٰ عہدے سنبھالے؟ اور اس کا آخری نتیجہ کیا نکلا؟
قوم پرست رہنما‘ قومی سورما اور آزادی کے تمام متوالے راستے سے ہٹا کر بھلا دیئے گئے اور انہوں نے بھوک و گمنامی کی حالت میں دم توڑ دیا‘ لیکن اس کے مقابلے میں وہ ”سورما“ جو آخری وقت تک انقلابیوں کے خلاف آمریت کے جھنڈے تلے لڑتے رہے‘ وزیراعظم کے عہدے پر پہنچے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آئینی حکومت کے بھیس میں مطلق العنانی وجود میں آئی۔
موقع پرستوں نے اپنے ہتھیار اسلام کے پہلے دور میں بھی استعمال کئے‘ خلیفہ عثمان کے زمانے میں وزارت اور مشاورت کے اہم عہدوں پر وہ لوگ فائز ہو گئے جو اس قابل نہیں تھے اور جو اہل تھے ان کو یا تو ملک بدر کر دیا گیا یا ان کے حلقہ اثر کو محدود کر دیا گیا‘ مثلاً ابوذر غفاریۻ اور عمار یاسرۻ۔
قرآن نے فتح مکہ(سورئہ حدید‘ ۱۰) سے قبل کے انفاق‘ جہاد اور فتح کے بعد کے انفاق اور جہاد کا تذکرہ کر کے درحقیقت جو فتح مکہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد کے مومنوں‘ مجاہدوں اور اہل انفاق کے فرق کو واضح کیا ہے۔ جنہوں نے فتح سے پہلے قربانیاں پیش کیں‘ وہ ان کی طرح نہیں ہیں جنہوں نے فتح کے بعد ایسا کیا۔ پہلے والے دوروں کی نسبت اعلیٰ وصفوں کے مالک ہیں‘ معنی صاف واضح ہیں کہ فتح سے پہلے صرف مصیبت و مشقت کے کڑوے گھونٹ تھے‘ لڑنے والوں کا یقین پختہ تھا اور ان کی قربانیں بے لوث اور سچی تھیں‘ وہ موقع پرستی اور ذاتی مفاد سے کوسوں دور تھے‘ لیکن فتح کے بعد قربانیاں اور کوششیں کسی ذاتی مقصد کے بغیر نہیں تھیں۔
پہلے مجاہدین کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ
”آپ کے ۲۰ نفر کافروں کے ۱۰۰ نفر کے برابر ہیں‘ لیکن اگر ان میں یقین کامل پیدا نہ ہوا ہو‘ اسلامی روح ان کے اندر پوری طرح نہ سمائی ہوئی ہو اور وہ اسلامی تحریک پر پختہ یقین نہ رکھتے ہوں تو اسلام وہاں صرف موقع پرستی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر ان کے ایک ۱۰۰ آدمی دشمن کے ۲۰ آدمیوں کے برابر ہوتے ہیں۔“
مختصراً یہ کہ موقع پرستوں کے خلاف جہاد کرنا تحریک کو صہیح راستے پر چلانے کے لئے اشد ضروری ہے۔
۵) مستقبل کی مبہم و غیر واضح منصوبہ بندی
فرض کریں کہ ہم ایک ایسے بے تکے اور بوسیدہ مکان کو ختم کرنا چاہتے ہیں جس میں ہم انتہائی مشکل حالات میں رہ رہے ہیں اور اس کی جگہ ایسا مکان بنانا چاہتے ہیں جس میں سابقہ مکان کے نقائص موجود نہ ہوں‘ ہمرای راحت و آرام کے ساز و سامان سے پوری طرح لیس ہو۔ اس صورت میں دو چیزیں ہمارے دماغ میں آئیں گی‘ ایک منفی احساس موجودہ بوسیدہ مکان کی برائیوں کے بارے میں اور مثبت احساس نئے مکان کے اوصاف کے بارے میں‘ جس کو ہم جلد سے جلد بنانا چاہتے ہیں۔ منفی احساس کے ضمن میں ہم پر آشکارا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے‘ ظاہراً اس بات کی تشریح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم اس فرسودہ مکان کو کیوں گرانا چاہتے ہیں‘ لیکن اس مثبت احساس کے حوالے سے اگر نئے مکان کے بارے ہمیں مفصلاً بتا دیا جائے کہ اس میں کیا کیا سہولتیں ہوں گی تو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی کہ ہم اس کو قبول کر لینے کے اعلان میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ کریں‘ لیکن جبکہ ایک صورت میں کہ نئے مکان کا کوئی پلان ہمارے سامنے نہ رکھا جائے اور صرف یہ کہا جائے کہ اس بوسیدہ مکان کو گرانے کے بعد ایک عالی شان مکان تعمیر کیا جائے گا‘ تو یہ ہمارے تجسس کو بڑھائے گا اور ساتھ ہی تشویش کا عنصر بھی نمایاں ہو گا۔
یہ ایک مثال سے سمجھایا جا سکتا ہے کہ فرض کریں‘ انجینئروں کے دو گروپ تعمیرات کے دو مختلف پلان دیتے ہیں‘ ایک گروپ نے نہایت محتاط طریقے سے پلان بنایا اور اس کی تمام تفصیلات اور اندرونی ڈھانچہ کی وضاحت کی ہے اور اس کے مقابل میں دوسرے گروپ نے جو تعمیرات میں کافی مہارت رکھنے کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد رکھتا ہے‘ اپنے پلان کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا ہے‘ صرف زبانی طور پر یقین دلایا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی بلڈنگ اعلیٰ درجہ کی ہو گی‘ تو یہ ممکن ہے کہ اس گروپ کی مبہم و غیر واضہ اعلان کی وجہ سے ہم دوسرے گروپ کی طرف مائل ہو جائیں۔
ہمارے مذہبی علماء انجینئروں کے اس گروپ جیسے ہیں جن کو لوگوں کا اعتماد تو حاصل ہے لیکن انہوں نے مستقبل کے کسی واضح پلان کے بارے میں عوام کو آگاہ نہیں کیا اور نہ ہی ایسا پلان پیش کیا ہے جس کو منظور کرایا جا سکے‘ جب کہ دوسری جماعتوں کے پاس منصوبے اور نقشے موجود ہیں جو واضح ہیں اور بخوبی معلوم ہے کہ حکومت‘ قانون‘ آزادی‘ سرمایہ‘ ملکیت‘ عدالت اور اخلاقیات کے لحاظ سے وہ کس طرح کے معاشرے کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اس تجربے سے ثابت ہے کہ مستقبل کا واضح لائحہ عمل کا نہ ہونا انسان کے لئے کافی نقصان دہ ہے‘ کسی تحریک کے لئے بڑا ضروری ہے کہ اس کا مستقبل کے پلان کے متعلق ان کے لیڈروں کے درمیان مکمل رضامندی اور اتفاق ہو‘ تاکہ ممکنہ نقصانات سے بچا جا سکے۔ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ثقافت کے خام مال کے لحاظ سے ہم کسی کے محتاج نہیں ہیں اور ہمیں کسی اور سرچشمے کی ضرورت نہیں‘ صرف جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اپنے مقصد کے لئے ثقافتی مال کو باہر نکال کر صاف کیا جائے اور اس کو کارآمد بنایا جائے‘ اس کے لئے ہوشیاری‘ محنت اور وقت کے صحیح استعمال کی ضرورت ہے۔
یہ چیز باعث اطمینان ہے کہ ہوشیاری اور بیداری کا ہمارے حوزہ ہائے علمیہ میں آغاز ہو چکا ہے اور امید کرتا ہوں کہ اس میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا اور ہماری آرزو جلد پوری ہو جائے گی۔
اللھم حقق رجائنا و لا تخیب آمالنا
۶) چھٹا اندیشہ جو الٰہی تحریک کیلئے خطرناک بن سکتا ہے وہ اس کے امور کے متعلق ہے
یہ افکار کی سمت میں تغیر اور ارادوں میں تبدیلی ہے‘ الٰہی تحریک اللہ کے لئے چلائی جاتی ہے اور اس کو اللہ کے لئے چلتے رہنا چاہئے۔ آخری کامیابی تک اس میں اللہ کے سوا کسی قسم کا خیال تحریک میں داخل نہیں ہونا چاہئے‘ تبدیلی کا ارادہ تک نہیں کرنا چاہئے‘ اگر ان میں ذرا بھی کمزوری ہو گی تو اندیشے اور خطرات اس کے راستے میں آ جائیں گے اور اس کو تباہ کر دیں گے جو تحریک کا آغاز کرتا ہے وہ خوشنودی اللہ کے علاوہ اور کچھ سوچ بھی نہیں سکتا‘ وہ اللہ کی ذات مقدس پر مکمل توکل رکھتا ہے اور ذہنی طور پر خود کو ہر وقت اللہ کے حضور میں حاضر سمجھتا ہے۔ قرآن میں شعیب۱﷼نبی کی زبانی ارشاد ہوتا ہے:
ان ارید الا الاصلاح ما استطعت وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت و الیہ انیب
”مسلمانوں کا ایک گروہ جنگ لڑنے کے بعد مدینہ واپس لوٹا تو رسول خدا نے ان سے فرمایا:
مرحبا بقوم قضوا الجہاد الاصغر و بقی علیہم الجہاد الاکبر
”آفرین ہے ان لوگوں پر جنہوں نے جہاد اصغر تو مکمل کر لیا‘ لیکن جہاد اکبر ابھی باقی ہے۔“
وہ بولے:
یا رسول اللہ وما الجہاد اکبر
”جہاد اکبر کیا ہے؟“
فرمایا:
”خواہش نفس کے خلاف جہاد۔“
انکار کی منزل پر جب ساری سرگرمیاں بیرونی دشمنوں سے برسرپیکار رہنے میں صرف ہو رہی ہوتی ہیں‘ خیال اور نیت کو پاک و آلائش سے الجھنا قدرے آسان ہوتا ہے لیکن جب تحریک عروج پر پہنچ جائے اور تعمیر کی مثبت منزل آ جائے اور جب موقع پرستوں کو کافی مواقع میسر ہوں تو اس منزل پر اتحاد و یگانگت اور خلوص کو قائم رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
سورئہ مائدہ تو قرآن کی ان آخری سورتوں میں سے ایک ہے جو رسول اکرم۱کی زندگی کے آخری دو تین مہینوں میں اتری۔ اس وقت مشرکین کی پوری طرح سرکوبی ہو چکی تھی اور ان کی طرف سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں تھا‘ ایسے وقت غدیر خم کے مقام پر امامت کی اہمیت کے متعلق آگاہ کیا گیا۔ اللہ کے حکم سے علی علیہ السلام کی امامت اور خلافت کا اعلان کیا گیا اور مسلمانوں کے لئے اس خطرے کا خدائی اعلان ہوا:
”اب تک تم اپنے دشمنوں سے ڈرتے تھے کہ وہ تم کو تباہ و برباد کر دیں گے‘ اب یہ پریشانی دور ہو چکی ہے‘ اب پریشانی خدا کی طرف سے ہے‘ اب تم اپنے دشمنوں اور کافروں سے نہ ڈرو‘ بلکہ مجھ سے ڈرو‘ کیونکہ میں تمہاری گھات میں ہوں۔“
الیوم یئس الذین کروا من دینکم فلاتخشوھم واحشون
یعنی کیا؟ مطلب صرف یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کو صرف اس بات سے خطرہ ہونا چاہئے کہ وہ اللہ کے راستے سے ہٹ نہ جائیں اور خدا کو بھلا نہ دیں اور سنت کو بدل نہ دیں‘ یہ ناگزیر الٰہی قانون ہے کہ جو قوم خدا کے بتائے ہوئے راستوں سے بھٹک جائے تو خدا ان کی حالت کو بدل دیتا ہے۔
ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما با نفسھم(رعد‘ ۱۶)
”خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی‘ جب تک وہ خود اپنی سوچ اور عمل سے اپنے آپ کو نہیں بدلتے۔“
تحریک کا بحران
- Details
- Written by admin
- Category: مصلحین و دانشمندان
- Hits: 282