اصلاح کا مطلب ہے ”نظم و باقاعدگی پیدا کرنا“ اور اس کا الٹ فساد ہے۔ اصلاح اور فساد کا ایک متضاد جوڑا بناتی ہیں جن کا ذکر قرآن اور دیگر الہامی کتابوں میں اکثر آیا ہے۔ متضاد زوج جو کہ اعتقادی اور اجتماعی اصطلاحوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں ان کو اگر آمنے سامنے رکھا جائے تو مطالب کے سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے‘ مثلاً ہم یہ متضاد زوج سنتے ہیں‘ توحید و شرک‘ ایمان و کفر‘ ہدایت و ضلالت‘ عدل و ظلم‘ خیر و شر‘ اطاعت و معصیت‘ شکر و کفران‘ اتحاد و اختلاف‘ غیبت اور شہادت‘ علمیت و بے علمی‘ تقویٰ و فسق‘ تکبر و انکسار وغیرہ۔
کچھ متضاد اصطلاحیں ایک دوسرے کے معنی کی وضاحت کر کے مثبت اور منفی پہلو کا اظہار کرتی ہیں‘ اصلاح اور فساد اسی قسم کی اصطلاحیں ہیں‘ قرآن میں اصلاح کا بعض دفعہ دو افراد کے رابطہ میں (اصلاح ذات‘ البین) استعمال ہوا ہے بعض دفعہ خاندانی ماحول کے متعلق اور بعض دفعہ وسیع تر معاشرتی ماحول کے متعلق جو کہ اس وقت میرے پیش نظر ہے اور اس کا قرآن کی کئی سورتوں میں ذکر ہے(سورئہ بقر ۱۱‘ ۲۲۰‘ سورہ اعراف ۵۶‘ ۱۷۰‘ ہود ۸۸‘ ۱۱ اور قصص ۱۹)۔ اس کے بعد جب میں اس مضمون میں لفظ اصلاح استعمال کروں گا تو میرا مقصد معاشرے کی سطح پر اصلاح ہو گا یعنی اصلاح معاشرہ ہو گا۔
قرآن نے پیغمبروں کو مصلح قرار دیا ہے جیسے کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا:
إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ﴿سورہ ھود ،آیت ۸۸﴾
”میں اپنی استطاعت کے آخری امکان تک صرف اصلاح کرنا چاہتا ہوں‘ میری کامیابی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے‘ میں صرف اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔“
اس کے برعکس قرآن منافق مصلحتوں کی سختی سے سرزنش کرتا ہے‘ قرآن میں وارد ہے کہ
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ۔ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ﴿سورہ بقرہ ،آیت ١١۔١۲﴾
”اگر ان کو بتایا جائے کہ زمین پر فساد نہ پھیلاؤ‘ تو وہ کہتے ہیں کہ وہ تو صرف اصلاح کر رہے ہیں‘ ہرگز ایسا نہیں! وہ تو زمین پر فساد پھیلا رہے ہیں اور خود اس کو محسوس نہیں کرتے۔“
بلاشک اصلاح اسلام کی روح ہے‘ ہر مسلمان بحاٴثیت مسلمان اصلاح کا طالب ہے اور وہ لاشعوری طور پر اصلاح کا طرفدار ہے‘ قرآن میں اصلاح کی چاہت پیغمبری کا جزو ہے اور اس کی اہمیت ”امربالمعروف و نہی عن المنکر“ جیسی ہے جو کہ اسلام کی اجتماعی تعلیمات کا ایک رکن ہے۔ ہر امربالمعروف و نہی عن المنکر اجتماعی اطلاح کے زمرے میں نہیں آتا‘ لیکن اجتماعی اصلاح ان تمام امور پر محیط ہے جو کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے زمرے میں آتے ہیں‘ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ہر وہ مسلمان جو کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے بارے میں محتاط ہوتا ہے‘ وہ اجتماعی اصلاح کے بارے بھی کافی حساس ہوتا ہے۔
یہ امر قابل صد ستائش اور باعث مسرت ہے کہ دور جدید میں اجتماعی اصلاح کے بارے لوگوں میں احساس پیدا ہو رہا ہے‘ لیکن اس رجحان میں کچھ افراط و بے اعتدالی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ تمام خدمات جو اجتماعی اصلاح کے علاوہ پیش کی گئی‘ ان کی اہمیت کو گھٹا دیا گیا‘ ہر خدمت کو اجتماعی اصلاح کے زمرے میں پرکھا جاتا ہے اور انسان کی اہمیت کا اندازہ ان امور سے لگایا جاتا ہے جو کہ وہ اجتماعی اصلاح کے لئے سرانجام دیتا ہے‘ یہ انداز فکر صحیح نہیں ہے‘ اجتماعی اصلاح یقینا سوسائٹی کی ایک خدمت ہے‘ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر خدمت اجتماعی اصلاح ہو‘ تپ دق اور سرطان کے علاج کی ایجاد خدمت تو ہے لیکن اصلاح نہیں ہے۔ وہ ڈاکٹر جو صبح سے لے کر شام تک بیماروں کا علاج کرتا ہے اس نے اجتماعی خدمت تو کی ہے لیکن اجتماعی اصلاح نہیں کی‘ کیونکہ اجتماعی اصلاح کے سلسلے میں معاشرہ کو ایک مخصوص سمت کی طرف موڑنا ایک ڈاکٹر کے بس میں نہیں ہے‘ لیکن ان کی اس خدمت کو کہ وہ اجتماعی اصلاح کے زمرے میں نہیں آتی‘ کوئی اہمیت نہ دینا بھی قطعاً صحیح نہیں ہے۔
شیخ مرتضیٰ انصاری اور صدرالمتالحین کی خدمات عظیم تر ہیں‘ لیکن ان کے کام کو اصلاح اور ان کو مصلح کا درجہ نہیں دیا گیا‘ مثلاً تفسیر مجمع البیان جو کہ نو سال پہلے لکھی گئی اور اس سے ہزاروں انسانوں نے استفادہ کیا‘ بے شک ایک کدمت ہے‘ لیکن اصلاح اجتماع کے زمرے میں نہیں آتی‘ یہ ایک ایسی خدمت ہے جو کہ ایک عالم نے عالم تنہائی میں سرانجام دی۔ کئی ایسے مواقع ہیں کہ کچھ اشخاص نے اپنی ذاتی نیک اور مثالی زندگیوں میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں‘ لیکن انہوں نے معاشرے کی اصلاحی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا‘ لہٰذا نیک لوگ ایک مصلح کی طرح سوسائٹی کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں‘ کیونکہ وہ مصلح نہ کہلوانے کے باوجود خدمت کرتے ہیں۔
مندرجہ ذیل جملے میں نے نہج البلاغہ سے ماخوذ کئے ہیں‘ حضرت علی علیہ السلام نے اپنی حیثیت اجتماعی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر ایک مصلح کی صورت میں پہنچوائی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام:
”اے خدایا! تو خوب جانتا ہے کہ ہم نے کیا کیا! میرا مقصد طاقت کا اظہار اور ذاتی مفاد کا حصول نہیں تھا بلکہ تمہارے ان امور کا احیاء تھا جو آپ کی طرف لے جانی والی شاہراہ کے سنگ میل ہیں‘ اس سے تمہارے شہروں میں دیرپا اور نمایاں اصلاح کرنا مقصود تھا تاکہ رسوا اور کچلی ہوئی انسانیت کو تحفظ مل سکے اور تمہارے ان احکامات کو جن کی پرورش نہیں کی گئی شدت کے ساتھ نافذ کرنا تھا۔“
امام حسین علیہ السلام نے بھی دور معاویہ میں دورانِ حج ایک بڑے اجتماع میں جو اہم صحابہ پر مشتمل تھا‘ اپنے والد کے درجہ بالا دیئے ہوئے کلمات دہرائے اور اپنا کردار بحیثیت مصلح آشکارا کیا۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کے نام وصیت نامہ میں ایک مصلح کی حیثیت سے اپنے اصلاحی کاموں کی تشریح کی‘ ان میں فرمایا:
أَنِّی لَمْ أَخْرُجْ أَشِراً وَ لَا بَطِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِی أُمَّةِ جَدِّی ص أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أَسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّی وَ أَبِي عَلِيِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ
”میرا انقلاب ذاتی مفاد کے لئے فساد و ظلم کرنا نہیں‘ بلکہ میں نے جد امجد۱کی امت کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہے‘ میرا ارادہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی پہچان کرانا اور میرا مقصد اپنے والد اور دادا کی سیرت پر چلنا ہے۔“
اصلاح
- Details
- Written by admin
- Category: مصلحین و دانشمندان
- Hits: 306