فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Wednesday, 04 December 2024

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

اگر کوئی شخص ، ان سبھی شرائط اور خصائص کے ساتھ جو رھبری کے لئے بیان کی گئی ھیں ” ولی فقیہ “ کے طور پر منتخب ھو جا ئے ، تو وہ کتنی مدت تک اس منصب پر باقی رھے گا ؟

وہ کن امور میں رھبری اور ولایت کا حق رکھتا ھے ؟ اسکے اختیارات محدود ھیں یا لا محدود ؟ وہ ھر قسم کے امور میں اختیارات رکھتا ھے یا بعض امور میں ؟

یہ وہ بحث ھے جسے ” ولایت مطلقہ “ کے نام سے یاد کیا جاتا ھے ۔ ولایت کے مطلق ھونے کا مطلب یہ ھے کہ ولایت اور رھبری ، وقت ، مدت اور اختیارات کی نظر سے معین حد نھیں رکھتی ھے ، اسکی حد انھیں ضروری صفات اور خصائص کو رکھناھے جو بیان کی جا چکی ھیں ۔ جس وقت تک وہ ان صفات کا حامل رھے گا ۔ولایت اور رھبری کا حامل بھی رھے گا ۔ جب بھی وہ ان صفات سے جدا ھو جائے گا ، خود بخود ولایت سے دور ھو جائے گا اور اسکو معزول(Depose) کرنے یا ھٹانے کی بھی ضرورت نھیں ھو گی ۔

ولایت فقیہ پارلیمنٹ  کی منبر شب ، پریسیڈنٹ شپ یا دوسرے عھدوں  کی طرح نھیں ھے ، جنکی مدت معین ھوتی ھے ، حقیقت یہ ھے کہ ” ولایت فقیہ “ خدا ، رسول اور امام کی جانب سے قرار دی گئی ھے اور وہ بھی صلاحیت اور شرائط کی بنیاد پر ، اس لئے جب تک فقیہ ان شرائط کو رکھتا ھو گا  اس کو معزول کرنے ،ھٹانے یا اسکے زمانہ کو محدود کرنے کی کوئی دلیل یا سبب نھیں ھے ۔ مثلا نماز جماعت میں پیشنماز کے لئے ، عادل ھونے کی شرط ھے ، یعنی اگر کوئی عدالت  رکھتا ھے تو وہ امام جماعت کے فرائض کو انجام دے سکتا ھے یہ ایک دینی اور الٰھی حق ھے ۔ امام جماعت کے پیشنماز ھونے کی صلاحیت اسی وقت ختم ھو گی جب اسکی عدالت ختم ھو جائے ۔ اگر کوئی شخص امام جماعت ھونے کے شرائط کو رکھتا ھو ، تو ھمارے پاس اسکو خاص زمانہ تک محدود کرنے کے لئے کوئی دلیل  نھیں ھے۔ ھم ایک بار پھر ڈاکٹر کی مثال کی طرف رجوع کرتے ھیں کہ صرف وھی شخص معالجہ اور ڈاکٹری کا حق رکھتا ھے جس کی طب کے میدان میں علمی صلاحیت ثابت ھو چکی ھو ۔ جو شخص بھی اس صلاحیت کو رکھتا ھے ، تو جب تک وہ زندہ ھے مریضوں کا علاج کر سکتا ھے مگر جس شخص کے علم اور عقل کی صلاحیت ختم ھو جائے وہ علاج کرنے کا حق نھیں رکھتا ھے  لیکن جس کے لئے کوئی مشکل یا عذر پیش ھی نہ آیا ھو ، تو اسے معالجہ کرنے سے منع نھیں کیا جا سکتا ۔ یہ وہ حق ھے ،جو اسکی علمی صلاحیت سے متعلق ھے ۔

ولایت فقیہ “ کے لئے بھی شرائط ھیں ۔ علم اور تقویٰ کی شرط کے ساتھ ساتھ علمی ، سیاسی اور رھبری کے لئے قدرت اور صلاحیت رکھنے کی بھی شرط ھے ۔ جب ایک فقیہ اور رھبر ان شرائط پر پورا اترتا ھے ، تو جب تک وہ زندہ ھے ،رھبر رھے گا ۔ لوگوں نے اسکو منتخب نھیں کیا ھے بلکہ خود اسکی صلاحیتیں اور لیا قتیں سبب بنی ھیں کہ وہ منتخب ھو اور رھبری کے فرض کو انجام دے رہا ہے ۔" مجلس خبرگان " کی بحث میں بھی یہ بات واضح ھو چکی ھے کہ اس کو نسل کا خاص رول (Role) ایک فقیہ کے اندر بیان شدہ صفات اور شرائط کی شناخت کرنا ھے ۔ اس لئے ” ولی فقیہ “ اور رھبر ، خود اپنی صفات اور صلاحیتوں کی بنا پر منتخب ھوتا ھے جو اسکے اندر موجود ھیں اور جب تک وہ ان صفات اور صلاحیتوں کا مالک ھے کوئی دلیل وجود نھیں رکھتی کہ اسکی ولایت اور رھبری کو محدود کردیا جائے ۔

اختیارات کی جہت  سے بھی اسکی کوئی حد معین نھیں ھے  کیونکہ وہ سماج کا رھبر اور پیشوا ھے ۔ اس لئے ھر جگہ  ھر قسم کا اختیار ، جو سماج کی ھدایت اور رھبری کے لئے ضروری ھے ، وہ رکھتا ھے اور یہ چیز رھبری کے لئے ضروری بھی ھے ۔ کیا یہ ھو سکتا ھے کہ کسی کو رھبر تو بنا دیا جائے مگر کھا جائے کہ سماج کے  فلاں مسئلہ ، فلاں موضوع اور فلاں جگہ وہ دخالت اور رھبری کا حق نھیں رکھتا ھے ۔  ذمہ داری ھمیشہ اختیارات کے ساتھ ھوتی ھے ۔ ذمہ داری کا دائرہ  جتنا وسیع ھو گا ، ضروری اور فطری ھے کہ اختیارات کا دائرہ بھی اتنا ھی وسیع ھو ۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی اسکول کا مینیجر ھے  تو وہ اس اسکول سے متعلق جتنے بھی امور ھوں گے ان میں اختیارات رکھتا ھے جو شخص سماج کا رھبر ھو تو واضح ھے کہ اسکے اختیارات کی حدیں بھی بھت وسیع ھوں گی ۔ وہ ملک کی مصلحت کے پیش نظر دفاع  یا صلح کا اعلان بھی کر سکتا ھے یا ان تمام امور اور کاموں کو انجام دے سکتا ھے جو تمام مسلمانوں کے لئے فائدہ مند ھوں ۔

یہ بحث اسی ” ولایت مطلقہ فقیہ “ سے تعلق رکھتی ھے جس کا ھم اعتقاد رکھتے ھیں ۔

امام خمینی (رہ ) فرماتے ھیں

آج کل اسلام کے فقھا لوگوں پر حجت ھیں ۔جس طرح رسول خدا  (ص)خداوند متعال کی حجت تھے ۔ سارے امور ان کے ذمہ تھے اور اگر کوئی بھی مخالفت کرتا تھا تو اسکے خلاف قدم اٹھایا جاتا تھا ۔ فقھا امام (ع) کی جانب سے لوگوں پر حجت ھیں ۔ مسلمانوں کے تمام امور کی ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ھے ۔ حکومتی امور ، مسلمانوں کے امور کو انجام دینے ،لوگوں کے مال کو لینے اور خرچ کرنے وغیرہ میں ، جو کوئی بھی ولی فقیہ کی مخالفت کرے گا ، خدا وند متعال اس سے سوال کرے گا “۔ (1

یہ واضح ھو چکا ھے کہ یہ ذمہ داری بھت حساس اور اھم ھے ۔ اس بڑی اور اھم ذمہ داری کے لئے اس شخص کی ضرورت ھے جو مختلف پھلوؤں سے ضروری صلاحیتوں کا مالک ھو  تاکہ اسلامی سماج کو پوری عزت اور شان کے ساتھ اسکے بلند مقاصد تک پھونچا سکے ۔ ” ولایت فقیہ “ لوگوں کے ذریعہ بنائے گئے دین شناس ، شجاع ، پیشوا اور رھبر کی حکومت ھے ۔ ” ولایت فقیہ “ کسی طرح کی ڈکٹیٹر شپ نھیں ھے بلکہ یہ تو ڈکٹیٹر شپ کو سماج سے ختم کرتی ھے ۔ ساتھ ھی سماج کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھاتی ھے اور اسکے آگے بڑھنے کی سمت کو بھی خد ا ، اسلام ، آزادی وغیرہ کی طرف لے جاتی ھے نیز مسلمانوں کی عزت بھی بڑھاتی ھے ۔

جب لوگ ” ولایت فقیہ “کے محور پر جمع ھو جائیں گے تو اسلامی امت بھی بے نظیر اور طاقت ور ھو جائے گی ۔ ” ولایت فقیہ “ سماج کو کنٹرول کرنے کا رول ادا کرتی ھے جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے خطرہ کے وقت ایک ایسے بر یک کی طرح ھے جو اسے کسی بھی بڑے پھندے اور خطرناک کھائی میں گرنے سے روکتی ھے ۔ اگر اسلامی امت  کنٹرول ، اور اپنی بنیادوں کی حفاظت کے لئے ایسا پیشوا نہ رکھتی ھو ، تو صحیح سمت میں اور ھمیشہ آگے بڑھتے رھنے کی کوئی ضمانت نھیں ھے ۔ اس قدم اور اسکے صحیح ھونے کے بارے میں فیصلہ اور حکم دینے والی ضامن شئی ولایت فقیہ ھی ھے ۔

حوالہ

۱۔ولایت فقیہ ص ۱۰۶۔

Add comment


Security code
Refresh