حدیث غدیر کی خصوصی کیفیت اور اس سے متعلق خاص حالات شرائط ھر محقق اور مفکر کو اس کی سند پر بحث کرنے سے بے نیاز بنا دیتے ھیں۔
اس کا صحیح ھونا نا قابل انکار ھے اور اس کی ضرورت ھی نھیں کہ اس کی صحت کے لئے استدلال و گواھی پیش کی جائے۔ اور کیوں ایسا نہ ھو جب کہ اس کے اھم رجال اور راوی بخاری و مسلم کی نظر میں مورد وثوق و اعتماد ھوں۔ اکثر مؤلفین نے اپنی حدیث، تاریخ، تفسیر اور کلام کی کتابوں میں اسے درج کیا ھے، حتی بعض مصنفین نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ھیں۔ لهذا کوئی بھی ضدی شخص اس حدیث کے تواتر سے انکار نھیں کرسکتا۔ کیا یہ ممکن ھے کہ واقعہ غدیر جیسی مسلم اور ثابت حقیقت سے انکار کیا جائے۔ کیا یہ ممکن ھے روز روشن میں آفتاب سے انکار کیا جائے؟! حقیقت میں اس بحث سے ھمارا مقصد یہ ثابت کرنا ھے کہ مخالفت و موافق دونوں نے عمومی طور سے اس کی سند کے صحیح ھونے کی تائید کی ھے کہ اگر کوئی اس کا منکر ھوجائے تو گویا سیدھے راستے اور مسلم حقیقت سے بھٹک گیا ھے۔
اب ھم امت اسلامیہ کے چند بزرگ و نامور شخصیتوں کا ذیل میں ذکر کرتے ھیں جنھوں نے حدیث غدیر کی سند کے صحیح ھونے کی صراحت فرمائی ھے:
۱۔ حافظ ابو عیسی ترمذی (وفات ۲۷۹ ھجری)
اپنی صحیح کی ج۲، ۲۹۸ پر حدیث کو غدیر کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ھیں:
"ھذا حدیث حسن صحیح" یہ حدیث حسن اور صحیح ھے"
۲۔ حافظ ابو جعفر طحاوی (وفات ۳۲۱ ھجری) نے "مشکل الآثار" کے ج۲، ص۳۰۸ پر حدیث غدیر کو صحیح حدیث کے طور پر درج کیا ھے اور کھا ھے کہ حدیث غدیر میں کسی قسم کا کھوٹ نھیں ھے"
۳۔ ابو عبد اللہ محاملی بغدادی (وفات ۳۳۰ ھجری) نےاپنی "امالی" میں حدیث غدیر کو صحیح حدیث کے طور پر درج کیا ھے۔
۴۔ ابو محمد عاصمی نے:
کتاب "زین الفتٰی" میں لکھا ھے کہ پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا:
"من کنت مولاہ فعلی مولاہ"
اس حدیث کو امت اسلامیہ نے قبول کیا ھے اور یہ حدیث قواعد و اصول کے مطابق ھے"
۵۔ ابو عبد اللہ حاکم (وفات ۴۰۵ ھجری) نے:
"مستدرک" میں چند طریقوں سے حدیث غدیر کو ذکر کیا ھے اور اس کے صحیح ھونے کی تائید کی ھے"۔
۶۔ حافظ ابن عبد البر قرطبی (وفات ۴۶۳ ھجری) نے:
"استیعاب" کے ج۲ صفحہ ۳۷۳ پر حدیث مواخات (برادری) حدیث "رایت" و "غدیر" کو بیان کرنے کے بعد لکھتا ھے:
"یہ احادیث ثابت اور صحیح ھیں"
۷۔ ابن مغازلی شافعی (وفات ۴۸۳ ھجری) نے:
اپنی "مناقب" میں اپنےا ستاد ابوالقاسم فضل بن محمد اصفھانی سے نقل کیا ھے کہ: حدیث غدیر صحیح ھے اور تقریباً ۱۰۰ افراد نے من جملہ عشرۂ مبشرہ نے اس کی روایت کی ھے اور یہ حدیث ثابت ھے۔ میں اس میں کسی قسم کا ضعف نھیں پاتا ھوں اور یہ ایسی فضیلت ھے کہ اس میں علی علیہ السلام کا کوئی شریک نھیں ھے"
۸۔ ابو حامد غزالی (وفات ۵۱۵ ھجری) نے:
"سرالعالمین" کے صفحہ ۹ پر اپنی حجت کو واضح کرتے ھوئے لکھا ھے کہ: "جب غدیر کے دن پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا: "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" تو عمر نے بخ بخ تمام لوگوں نے اس حدیث کے متن پر اتفاق کیا ھے"
۹۔ حافظ ابن جوزی حنبلی (وفات ۵۹۷ ھجری) نے:
"مناقب" میں لکھا ھے: سیرت اور تاریخ کے علماء واقعہ غدیر پر اتفاق نظر رکھتے ھیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حج سے واپسی پر ۱۸ ذی الحجۃ کو اس واقعہ کے دن ایک لاکھ بیس ھزار اصحاب و اعراب نے جو آنحضرت(ص) کے ھمراہ تھے، نے آنحضرت(ص) سے اس حدیث کو سنا اور شاعروں نے اس واقعہ کے بارے میں بہت سے اشعار کھے ھیں"۔
۱۰۔ ابو المظفر سبط ابن جوزی حنفی (وفات ۶۵۴ ھجری) نے:
"تذکرہ" ص۱۸ پر حدیث غدیر کی ابتداء و انتھا اور علی علیہ السلام کو عمر کی مبارک بادی کو چند طریقوں سے ذکر کرنے کے بعد لکھا ھے: ان تمام روایات کو احمد بن حنبل نے "فضائل" میں اضافے کے ساتھ روایت کیا ھے۔
اس کے بعد لکھا ھے: عمر کے قول کے بارے میں جو روایت ھوئی ھے کہ انھوں نے کھا:
"اصبحت مولای و مولا کل مؤمن و مؤمنۃ" صحیح ھے۔ علمائے تاریخ کا اس بات پر اتفاق ھے کہ واقعۂ غدیر، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حجۃ الوداع سے واپسی پر ۱۸ ذی الحجہ کو واقع ھوا ھے۔
آنحضرت(ص) کے ھمراہ اس وقت ایک لاکھ بیس ھزار صحابی تھے۔ آنحضرت(ص) نے پوری وضاحت کے ساتھ صاف الفاظ میں فرمایا ھے: "من کنت مولاہ فعلی مولاہ……"
۱۱۔ ابن ابی الحدید معتزلی (وفات ۶۵۵ ھجری) نے"شرح نھج البلاغہ" کی جلد۲ صفحہ ۴۴۹ پر حدیث غدیر اور مبارک باد کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی مشھور فضیلت کے طور پر بیان کیا ھے"۔
اس کے علاوہ صفحہ ۱۴۸ پر لکھا ھے: شوریٰ کے دن امیر المؤمنین علیہ السلام کا استدلال و استشھاد جو حدیث غدیر پر مشتمل ھے فائدہ بخش ھے۔
۱۲۔ حافظ ابو عبد اللہ گنجی شافعی (وفات ۶۵۸ ھجری) نے"کفایۃ الطالب" میں حدیث غدیر کو احمد سے روایت کرنے کے بعد لکھا ھے "احمد نے مسند میں اسی طرح روایت کی ھے اور تمھارے لئے ایک راوی کی روایت کافی ھے جب کہ احمد جیسے امام نے اس حدیث کے کئی طرق جمع کئے ھیں"۔ حافظ گنجی شافعی نے اس حدیث کو جامع ترمذی کے طرق سے روایت کرنے کے بعد لکھا ھے: دار قطنی نے حدیث غدیر کے طرق کو ایک جلد میں جمع کیا ھے اور حافظ ابن عقدہ کوفی نے ایک مستقل کتاب اس سلسلے میں مرتب کی ھے۔
اھل سیرت اور تاریخ نے واقعۂ غدیر کی روایت کی ھے اور محدث شامی نے اپنی کتاب میں حدیث غدیر کو مختلف طرق سے اصحاب و تابعین سے ذکر کیا ھے اور مشائخ و اساتید نے مجھے اس کی اطلاع دی ھے۔
حافظ گنجی نے ص۱۷ پر اس حدیث کو اسناد کے ساتھ محاملی سے روایت کرتے ھوئے آخر میں لکھا ھے: "یہ حدیث مشھور و حسن ھے اور اس کے راوی ثقہ ھیں اور یہ اسناد ایک دوسرے کی معاونت کرتے ھیں اور اسے حجت اور نقل کو صحیح قرار دیتے ھیں"
۱۳۔ ابو المکارم علاء الدین سمنانی (وفات ۷۳۶ ھجری) :نے"عروة الوثقی" میں لکھا ھے "…اور حجۃ الوداع کے بعد غدیر خم میں بھت سے مھاجرین اور انصار کے سامنے آنحضرت نے جب کہ علی علیہ السلام کے کندھے کو ھاتھ سے پکڑے ھوئے تھے فرمایا: "من کنت مولاہ فعلی مولاہ……" یہ ایک ایسی حدیث ھے جس کے صحیح ھونے پر سب کو اتفاق ھے۔ پس علی علیہ السلام سید اولیاء ھوئے اور ان کا قلب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب پر قرار پایا"
۱۴۔ شمس الدین ذھبی شافعی (وفات ۷۴۸ ھجری)
اس نے حدیث غدیر پر مستقل ایک کتاب لکھی ھے اور المستدرک کے خلاصہ میں ان کے مختلف طرق ذکر کئے ھیں ان میں سے کئی ایک طرق کو صحیح جانا ھے اور صدر حدیث کو متواتر بتایا ھے۔
۱۵۔ ابن کثیر شافعی دمشقی (وفات ۷۷۴ ھجری) :نےاپنی تاریخ کی جلد ۵۔ ص۲۰۹ پر حدیث غدیر کے صحیح ھونے اور اس کی سند اچھی اور درست ھونے کو بعض افراد جیسے ذھبی۔ احمد۔ و ترمذی وغیرہ سے نقل کیا ھے۔
۱۶۔ حافظ نور الدین ھیثمی (وفات ۸۰۷ ھجری) :نے"مجمع الزوائد ج۹ ص۱۰۴ و ۱۰۹ میں "حدیث رکبان" کو احمد و طبرانی سے نقل کرنے کے بعد لکھا ھے: احمد کی سند کے رجال ثقہ ھیں اور حدیث "احتجاج و استشھاد" کو احمد ابی طفیل سے روایت کرتے ھوئے لکھا ھے۔ "اس کے رجال صحیح ھیں بجز فطر، کہ وہ بھی ثقہ ھے"
۱۷۔ شمس الدین جزری شافعی (وفات ۸۳۳ ھجری)
انھوں نے حدیث غدیر کو اسی (۸۰) طرق سے ذکر کیا ھے اور اس سلسلے میں "اسنی المطالب" کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ھے۔ حدیث غدیر کو پیغمبر سے ارسال مسلّم کی حیثیت سے جانا ھے اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے استدلال کو صحیح اور حسن طریقے سے ذکر کیا ھے اور اسی طرح اصل نقل کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی علیہ السلام سے متواتر ذکر کیا ھے۔
۱۸۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (وفات ۸۵۲ ھجری) نے"تھذیب التھذیب" میں چند جگہ من جملہ ج۷ ص۲۳۷ پر کئی طریقوں سے اس کو ذکر کیا ھے اور حدیث: من کنت مولاہ فعلی مولاہ" کو ترمذی اور نسائی نے نقل کیا ھے اور حقیقتاً یہ حدیث فراوان طرق و اسناد کی حامل ھے حتی ابن عقدة نے ان طرق کو ایک مستقل کتاب میں جمع کیا ھے اور اس کے بہت سے اسناد صحیح اور حسن ھیں اور ھم نے احمد سے روایت کی ھے کہ اس نے کھا: جو چیزیں علی علیہ السلام کے فضائل میں ھم تک پہونچی ھیں نہ کسی اور صحابی کے بارے میں وارد ھوئی ھیں اور نہ ھم تک پہنچی ھیں۔
۱۹۔ ابو الخیر شیرازی شافعی نے"ابطال باطل" میں لکھا ھے؛ اور یہ جو روایت ھوئی ھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن جب آپ(ص) علی(ع) کا ھاتھ پکڑے ھوئے تھے فرمایا الست اولی … ثابت اور صحیح احادیث میں سے ھے"
۲۰۔ حافظ جلال الدین سیوطی (وفات ۹۱۱ ھجری) نے:
لکھا ھے: "حدیث غدیر متواتر ھے۔ اور بهت سے متاخرین نے یہ چیز ان سے نقل کی ھے"
۲۱۔ حافظ ابو العباس شھاب الدین قسطلانی (وفات ۹۲۳ ھجری) نے"المواھب اللدنیۃ" ج۷، ص۱۳ پر لکھا ھے: اور نسائی کی حدیث "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" پس شافعی نے کھا ھے کہ ولایت سے مراد اسلام ھے جیسے قول خدائے تعالیٰ (ذلک بان اللہ مولی الذین آمنوا وان الکافرین لا مولی لھم)
اور قول عمر: "اصبحت مولی کل مؤمن" یعنی آپ ھر مؤمن کے مولا ھوئے۔
اس حدیث کے طرق یقیناً زیادہ ھیں اور ابن عقدہ نے انھیں الگ سے ایک کتاب میں اکٹھا کیا ھے اور اس کے بهت سے اسناد صحیح و حسن ھیں"
۲۲۔ ابن حجر ھیثمی مکی (وفات ۹۷۴ ھجری) نے"الصواعق المحرقہ کے "صفحہ ۲۵ پر شیعوں کے استدلال کو رد کرتے ھوئے لکھا ھے: "یہ حدیث صحیح ھے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نھیں ھے اور ایک جماعت نے جیسے ترمذی، نسائی اور احمد نے اس کی روایت کی ھے اور اس حدیث کے طرق یقیناً بھت ھیں……"
احمد کی روایت میں آیا ھے کہ تیس اصحاب نے اس کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ھے اور جب حضرت علی علیہ السلام کی خلافت جھگڑے کا باعث بنی تو انھوں نے علی علیہ السلام کے حق میں گواھی دی۔ اس حدیث کے بہت سے طرق صحیح و حسن ھیں۔ اگر کوئی اس کے صحیح ھونے پر معترض ھو تو اس کا کوئی اعتبار نھیں ھے…"
۲۳۔ جمال الدین حسینی شیرازی (وفات ۱۰۰۰ ھجری) نے:
کتاب "اربعین" میں حدیث غدیر اور واقعہ غدیر کے سلسلے میں اور نزول آیۂ "سأل سائل" کے ذکر کے بعد لکھا ھے: "اصل حدیث غدیر (نہ قصۂ حارث) امیر المؤمنین اور خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متواتر ھے۔ صحابیوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کی روایت کی ھے"۔
۲۴۔ ابو المحاسن صلاح الدین حنفی (وفات …… ھجری) نے"المعتصر من المختصر" ص۴۱۳ پر واقعہ رحبۂ کوفہ کو علی علیہ السلام سے نقل کرتے ھوئے اس کے ضمن میں حدیث غدیر کو صحیح حدیث تعبیر کیا ھے۔
۲۵۔ شیخ قاری حنفی (وفات ۱۰۱۴ ھجری) نے"مرقاة شرح المشکاة" ج۵ ص۵۴۸ میں چند گوناگون طریقوں سے حدیث غدیر کو نقل کرنے کے بعد لکھا ھے: حدیث غدیر ایک صحیح حدیث ھے کسی قسم کا شبہ اس میں نھیں نے بلکہ بعض حفاظ نے اسے متواتر بتایا ھے۔
۲۶۔ زین الدین منادی شافعی (وفات ۱۰۳۱ ھجری) نے"فیض القدیر"ج۶ ص۲۱۸ میں لکھا ھے: "ابن حجر نے حدیث غدیر کے بارے میں لکھا ھے کہ: اس حدیث کے بہت سے طرق ھیں جنھیں ابن عقدة نے ایک مستقل کتاب میں اکٹھا کیا ھے ان میں سے بعض صحیح اور بعض حسن ھیں……"
۲۷۔ نور الدین حلبی شافعی (وفات ۱۰۴۴ ھجری) نے"سیرۂ حلبیہ" ج۳/ ص۳۰۲ میں اسی ابن حجر کی بات کو نقل کیا ھے کہ حدیث غدیر کے بهت سے طرق ھیں اور ان کی ایک بڑی تعداد صحیح اور حسن ھے اور اگر کسی کو ان کے صحیح ھونے پر اعتراض ھو تو اس کا کوئی اعتبار نھیں ھے۔
۲۸۔ با کثیر مکی، شافعی ۱۰۴۷ ھجری) نے"وسیلۃ المآل فی مناقب الآل" میں حدیث غدیر چند اصحاب سے نقل کرنے کے بعد لکھتا ھے: "اس حدیث کو بزّاز نے صحیح رجال سے فطر ابن خلیفہ سے روایت کیا ھے اور خود فطر ثقہ ھیں… حدیث غدیر خم ایک صحیح حدیث ھے اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نھیں ھے اور ایک بڑی جماعت سے روایت ھوئی ھے جیسا کہ ظاھر ھے اس کے بعد انھوں نے ابن حجر کے اسی نظریہ کو نقل کیا ھے کہ اس حدیث کے بهت طرق ھیں اور ان کی ایک بڑی تعداد صحیح و حسن ھیں…"
۲۹۔ دھلوی بخاری (وفات ۱۰۵۲ ھجری) نے"شرح مشکوة" میں لکھا ھے: " یہ حدیث بلا شبہہ صحیح ھے اور ترمذی، نسائی اور احمد جیسوں نے اس کی روایت کی ھے"
۳۰۔ شیخانی قادری مدنی نے"الصراط السوی" میں لکھا ھے: "اور اُن احادیث صحیح میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وارد ھوئی ھیں، علی علیہ السلام کے بارے میں قول رسول اللہ: "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" ھے ۔ ترمذی، نسائی اور امام احمد وغیرہ نے اس کی روایت کی ھے اور بهت سی احادیث صحیح کو بخاری و مسلم نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ھے۔!!"
۳۱۔ سید محمد بر نجی شافعی (وفات ۱۱۳۰ ھجری) نے"النواقص" میں لکھا ھے: حدیث غدیر کا یہ حصہ "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" صحیح احادیث میں سے ھے یہ بهت طرق سے روایت ھوئی ھے۔
۳۲۔ ضیاء الدین مقبلی (وفات ۱۱۰۸ ھجری) نےکتاب "الابحاث المسّددة" میں حدیث غدیر کو حدیث متواترہ کے طور پر ذکر کیا ھے کہ وقوع کے علم کا سبب ھے۔
۳۳۔ شیخ محمد صدر العالم نےکتاب "معارج العُلی فی مناقب المرتضٰی" میں لکھا ھے: "جان لو کہ حدیث "مولاة" سیوطی کے ھاں متواتر ھے، جیسے کہ "قطف الأذھار" میں اسے ذکر کیا ھے اور میں چاھتا ھوں اس کے طرق کو بیان کروں تا کہ اس کا تواتر واضح ھوجائے"۔ اس کے بعد انھوں نے دسیوں علماء و محدثین سے اسے نقل کیا ھے۔
۳۴۔ ابن حمزہ حرّانی دمشقی (وفات ۱۱۲۰ ھجری) نےحدیث غدیر کو کتاب "البیان و التعریف،ج۲، ص۱۳۶ و ۲۳۰ میں ترمذی، نسائی، طبرانی حاکم اور ضیاء مقدسی سے نقل کیا ھے اس کے بعد لکھا ھے: "سیوطی نے کھا ھے کہ حدیث غدیر صحیح ھے۔"
۳۵۔ ابو عبد اللہ زرقانی مالکی (وفات ۱۱۲۲ ھجری) نےکتاب "شرح المواھب"، ج۷، ص۱۳ میں حدیث غدیر کے اسناد کو صحیح جانا ھے اور اس کی روایت کو احمد سے نقل کیا ھے اور انھوں نے لکھا ھے کہ تیس اصحاب نے اس حدیث کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ھے۔"
۳۶۔ شھاب الدین شافعی (بارھویں صدی ھجری کا ایک شاعر جس نے غدیر پر شعر کهے ھیں) نے کتاب "ذخیرة الاعمال" میں لکھا ھے کہ:
حدیث غدیر صحیح ھے اور اس میں کسی قسم کا شک نھیں ھے۔ ترمذی، نسائی و احمدی نے اس کو بیان کیا ھے اور اس کے بہت سے طرق ھیں۔"
۳۷۔ میرزا محمد بد خشی نے"نزل الأبرار"، ص۲۱ میں لکھا ھے: "حدیث غدیر ایک صحیح اور مشھور حدیث ھے اور کسی نے اس کے صحیح ھونے میں شک نھیں کیا ھے مگر یہ کہ کوئی متعصب و ضدی ھو، ایسے افراد کا کوئی اعتبار ھی نھیں ھے۔ بے شک اس حدیث کے بھت سے طرق ھیں، ابن عقدة نے ایک مستقل کتاب میں ان کو اکٹھا کیا ھے اور ذھبی نے اس کے بھت سے طرق کو واضح الفاظ میں صحیح ذکر کیا ھے اور صحابیوں کی ایک بڑی جماعت نے اس حدیث کی روایت کی ھے۔"
۳۸۔ مفتی شم عمادی حنفی (وفات ۱۱۷۱ ھجری) نےکتاب "الصلوة الفاخرة" ص۴۹ میں حدیث غدیر کو احادیث متواترہ کے طور پر پیش کیا ھے۔
۳۹۔ ابو عرفان صبّان شافعی (وفات ۱۲۰۶ ھجری) نے:
"اسعاف الراغیین" میں روایت غدیر نقل کرنے کے بعد لکھا ھے: "اسے اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے تیس افراد نے نقل کیا ھے اور اس کے بھت سے طرق صحیح یا حسن ھیں،"
۴۰۔ سید محمد آلوسی بغدادی (وفات ۱۲۷۰ ھجری) نے"روح المعانی"، ج۲، ص۲۴۹ میں لکھا ھے: ھاں یہ پهلے ثابت ھوچکا ھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المؤمنین علیہ السلام کے حق میں غدیر خم میں فرمایا: "من کنت مولاہ فعّلی مولاہ…" اور ج۲، ص۳۵۰ میں ذھبی سے اس حدیث کے صحیح ھونے کو نقل کیا ھے اور پھر ذھبی سے ھی نقل کیا ھے کہ اس نے کھا حدیث: "من کنت مولاہ…" مواتر ھے کہ بے شک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ھے اور "الّلھم وال من والاہ" کے اسناد قوی ھیں۔"
۴۱۔ شیخ محمد حوت بیروتی شافعی (وفات ۱۲۷۶ ھجری):
وہ کھتے ھیں: "حدیث: "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" کو ابو داؤد کے علاوہ اصحاب سنن اور احمد نے اس کی روایت کی ھے اور اسے صحیح جانا ھے۔"
۴۲۔ مولوی ولی اللہ نے"مرآة المؤمنین" میں حدیث غدیر کو چند طرق سے ذکر کرنے کے بعد لکھا ھے: "یہ حدیث صحیح ھے اور اس کے بھت سے طرق ھیں اور اگر کسی نے اس میں شک کیا ھے تو وہ اس کی خطا ھے کیونکہ علماء کی ایک بڑی تعداد جس میں ترمذی و نسائی نے اس کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ھے اور صحابیوں کی ایک جماعت نے اس کی روایت کی ھے اور علی علیہ السلام کے حق میں اس کی گواھی دی ھے۔"
۴۳۔ شھاب الدین خضری (ھمارے ھم عصر) نےکتاب "تشنیف الأذان"، ص۷۷ میں لکھا ھے: "اور حدیث "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" کا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ھونا متواتر ھے اور تقریبا ۶۰ افراد نے اس کی روایت کی ھے اگر ان سب کے اسناد لکھنے بیٹھیں تو طولانی ھوگا… لیکن اگر جو کوئی اس کے اسناد و طرق سے آگاھی حاصل کرنا چاھے، تو وہ ھماری کتاب جو "متواتر" کے موضوع پر ھے، کا مطالعہ فرمائے۔
نتیجہ
جو کچھ بیان ھوا اس سے یہ نتیجہ اخذ ھوتا ھے کہ اھل سنت و الجماعت کے علماء، ماھرین فن اور نامور شخصیات نے حدیث غدیر کو متواتر، صحیح اور ثابت کے طور پر ذکر کیا ھے۔ اب ھم چند ایک گذشتہ عبارتوں پر ایک بار پھر نگاہ ڈالتے ھیں تاکہ ان پر مزید غور کریں:
"رواہ بمأتی و خمسین طریقا۔"
"حدیثاً یبلغ ھذا المبلغ من الثبوت و الیقین و التواتر"
"نسب منکرہ الی الجھل"۔
"ان لم یکن معلوماً فما فی الدین معلوم"۔
"تلقّتہ الأمۃ بالقبول و ھو موافق بالاصول"۔
"اجمع الجمھور علی متنہ"۔
اتّفق علیہ جمھور اھل السنۃ"۔
"حدیث صحیح مشھور ولم یتکلم فی صحۃ الّا متعصب جاحد لا اعتبار بقولہ"۔
"انّہ حدیث متفق علی صحتہ"۔
"و انّ صدرہ متواتر یتیقّن انّ رسول اللہ قالہ"
"انہ حدیث صحیح قد اخطأ من تکلّم فی صحتّہ"۔
"انہ حدیث مشھور کثیر الطرف جداً"۔
"نعم ثبت عندنا انہ قالہ فی حق علی"۔
"حدیث صحیح لامریۃ فیہ"۔
"انہ متواتر عن النبی(ص) و متواتر عن امیر المؤمنین ایضا"۔
"رواہ الجمّ الغفیر"۔
"ولا عبرة بمن حاول تضعیفہ ممن لا اطّلاع لہ فی ھذا العلم"
"انہ متواتر لا یلتفت الی من قدح فی صحتہ"۔
"حدیث صحیح ثابت لا اعرف لہ علّۃ و غیر ذلک"۔